رہبانیت اور تصوف Rehbaniyat or Tasawwuf


2.8/5 - (10 votes)

رہبانیت اور تصوف-Rehbaniyat or Tasawwuf

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور

ثُمَّ  قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً وَّرَھْبَانِیَّۃً نِابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ اِلاَّابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَاحَقَّ رِعَایَتِھَاج فَاٰ تَیْنَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْھُمْ اَجْرَھُمْ ج وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ  (سورۃ الحدید۔ 27)
ترجمہ: پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوشِ قدم پر(دوسرے) رسولوں کو بھیجااور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابنِ مریم(علیہما السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اورہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحم پیدا کر دیا۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی)کی بدعت تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ،اسے ہم نے ان پرفرض نہ کیا تھا ،مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت)محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے (شروع کی تھی)پھر اسکی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اسکی ویسی نگہداشت نہ کر سکے(یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)،سو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے )تھے، ان کا اجر وثواب عطا کر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ (جو اس کے تارک ہو گئے اور بدل گئے)بہت نافرمان ہیں ۔    

اس آیت میں لفظ’’وَّرَھْبَانِیَّۃً ‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا تلفظ رَہبانیت بھی کیا جا سکتا ہے اور رُہبانیت بھی۔ اس کا مادہ رہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں۔رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوفزدگی اور رُہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوفزدگان۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر( قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف) تارک الدنیا بن جانا اور دنیاوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہائے عزلت میں جا بیٹھنا۔(اسلام اور رہبانیت)

مسیحی رہبانیت

رہبانیت کی اصل یا اس کی جڑیں مسیحیت میں پیوست ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رہبانیت کے جراثیم عیسائیت میں شروع سے موجود تھے۔ وہ ترک و تجرید اور درویشانہ زندگی کوشادی شدہ اور کاروباری زندگی سے زیادہ مقدم اور افضل سمجھتے تھے۔ کلیسا میں مذہبی خدمات سر انجام دینے والوں کے لیے یہ بات ناپسندیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں۔ اسی چیزنے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے فتنے کی شکل اختیار کر لی تھی اور رہبانیت ایک فتنہ اور ناسور کی طرح اطراف میں پھیلنا شروع ہو گئی۔ عیسائی برادری میں  رہبانیت کے زیادہ مقبول ہونے کی سب سے بڑی وجہ قدیم  مشرک سوسائٹی میں بد کرداری، شہوانیت، اخلاقی پستی، دنیا پرستی کا حد سے زیادہ تجاوز کرنا تھا۔ اس بڑھتی ہوئی بد کرداری کا توڑ نکالنے کے لیے عیسائی کلیسا نے اعتدال کی راہ اپنانے کے بجائے شدت اور انتہا پسندی کو ترجیح دی اور ایک ایسے طرزِ زندگی کو خود پر مسلط کر لیا  جس میں دنیاوی رشتے ناطے ، شادی ، بیوی بچے ، کاروبار حتیٰ کہ کھانا پینا الغرض ضروریاتِ زندگی کے دروازے خود پر تنگ کر لیے۔ مسیحی رہبانیت میں جن مشہورعقائد یا طرز کو اپنا یا جاتا تھا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
  اپنے جسم کو اذیت دینا
گندے رہنا ، صفائی اورپانی سے پرہیز 
شادی حرام 
رشتہ داروں سے قطع تعلقی
انسانی فطرت سے جنگ
فرقہ پرستی

انتہا پسندی اور شدت پسندی کے باعث مسیحی برادری میں کئی فرقے اور گروہ جنم لینے لگے۔یہ تمام فرقے دوسرے فرقوں سے سخت اختلاف اور نفرت انگیز جذبات رکھتے تھے۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں 80-90 فرقے پیدا ہو چکے تھے۔عیسائی پادریوں کے تذکروں میں سے چند کے حالات کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اسکندریہ کا سینٹ مکاریوس ہر وقت اپنے جسم پر 80 پونڈ کا بوجھ اٹھائے رکھتا تھا۔ 6مہینہ تک وہ ایک دلدل میں سوتارہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں۔ 
سینٹ سابیوس صرف ایسی مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبودار ہو جاتی تھی۔ 
ایک کانونٹ کی 130راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے اور غسل کا تو نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔
        سینٹ نائٹس (St. Nitus)دو بچوں کاباپ تھا۔جب اس پر راہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی مگر وہ اس سے الگ ہو گیا۔
سینٹ جیروم (St. Jerome)کے نزدیک ’’ عفت کی کلہاڑی سے ازدواجی تعلق کی لکڑی کوکاٹ پھینکناسالک کا اولین کام ہے۔‘‘ 

مسیحی رہبانیت کا سب سے زیادہ درد ناک باب یہ تھا کہ اس نے ماں باپ، بھائی بہن کی محبت حتی کہ ماں کے لیے بیٹے اور باپ کے لیے اس کی اولاد تک کے رشتے کو ختم کر دیا تھا۔مسیحی پادریوں کے نزدیک دل میں خونی رشتوں کے لیے محبت بھرے جذبات رکھنا گناہ کاکام تھا۔ سینٹ جیروم اس کے متعلق کہتاہے ’’اگرچہ تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹے ، اگرچہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے ، اگرچہ تیرا باپ تجھے روکنے کے لیے تیرے آگے لیٹ جائے ، پھر بھی تو سب کچھ چھوڑ کر اور باپ کے جسم کو روند کر ایک آنسو بہائے بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دوڑجا۔ اس معاملہ میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے۔‘‘ 

سینٹ سیمیون اسٹائلائٹس (St. Simeon Stylites) ستائیس سال اپنے ماں باپ کو چھوڑکر غائب رہا۔ باپ جدائی کے صدمہ سے مر گیااور ماں کو جب اس کی خبر ملی اور اس سے ملنے گئی تو اس نے ملنے سے صاف انکار کر دیا۔ تین دن اور تین رات وہ کانونٹ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہیں لیٹ کر اس نے جان دے دی۔ (اسلام اور رہبانیت)

جو مذہب انسانی فطرت سے جنگ کرتا ہے فطرت بھی اُس سے انتقام لیے بغیر نہیں رہتی ۔ عیسائی مذہب اس کی کھلی داستان ہے اور یہی داستان آٹھویں صدی سے گیارہوں صدی عیسوی تک کی مذہبی تاریخ کا بدنما ترین داغ ہے۔ 

تصوف میں ترکِ دنیاسے کیا مراد ہے؟

Tasawwuf. تصوف میں ترکِ دنیا کا لفظ استعمال کیا جاتاہے اور اکثر لوگ اس اصطلاح کو رہبانیت کے زمرے میں رکھ کرراہِ تصوف کی غلط تصویر عوام الناس تک پہنچاتے ہیں اور اس راستے سے باغی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں فرماتے ہیں:
ترکِ دنیا کی اصطلاح کو منکرین اور ناقدینِ تصوفTasawwuf نے خوب اچھالا ہے اور اسے رہبانیت یا غیر اسلامی قرار دے کر رَدّ کر دیا گیا ہے۔ دراصل صوفیا کرام کے فلسفہ کے مطابق اس اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ صوفیا کرام کے فلسفہ کے مطابق ترکِ دنیا سے مراد اصل میں ترکِ ہوسِ دنیا ہے یعنی دنیا سے باطنی لاتعلقی کا نام ترکِ دنیا ہے۔(شمس الفقرا)

ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
جس قدر آدمی دنیا سے بیزار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق اُسی قدر مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر بار ، بیوی بچے چھو ڑ کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت نہ ہو۔ دنیا میں رہے مگر دنیا کا نہ بنے ۔ یہ ہے کمالِ درویشی، دریا کے اندر رَہ کر دامن تر نہ ہونے دینا بڑی بہادری ہے ۔ اگر کوئی دریا کے نزدیک بھی نہ جائے اور کہتا پھرے کہ میرا دامن تر نہیں ہوا تو یہ کون سی بڑی بات ہے ۔ صوفیا کے نزدیک ترکِ دنیا سے ایسا ہی ترکِ دنیا مراد ہے۔ یہ ترک روحانی ہوتا ہے نہ کہ جسمانی ۔ کمال یہ ہے کہ جسمانی طورپر مخلوق میں رہے اور روحانی(باطنی)طور پر اس سے بیزار ہو۔ (کشف المحجوب) 

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق فرماتے ہیں :
دنیا میں اس طرح رَہ جس طرح کشتی پانی میں رہتی ہے۔ کشتی کو اپنا باطن سمجھ اور پانی کو دنیا۔ جب تک کشتی میں پانی داخل نہیں ہوتا کشتی غرق نہیں ہوتی اور جب پانی کشتی میں داخل ہو جاتاہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ بس تو کشتی کی مثل ہے اور پانی دنیا کی مثل۔ اپنے باطن کو دنیا اور اس کی محبت سے محفوظ رکھ۔

اگر تیرے پاس مال و دولت ہے لیکن تیرے دل میں اس کی محبت نہیں ہے اور تو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دھڑک خرچ کرتا ہے تو یہ دنیا نہیں ہے ۔ البتہ جب تو اسبابِ دنیا کو اپنی مجبوری بنا لے گا تو تیرے لیے سب اسباب دنیا بن جائیں گے ۔ پس تو دنیا میں رہتے ہوئے اس سے دامن بچا کر ایسے نکل جا جیسے مرغابی پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی میں غرق نہیں ہوتی اور دنیا سے اپنا نصیب اس طرح حاصل کر جیسے بگلا پانی کے کنارے پر رہ کر اس کے اندر سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور خود کو پانی میں غرق نہیں کرتا ۔ تُو کاروبارِ دنیا کر مگر اللہ کے لیے ، دنیا کا رزق کھا مگر اللہ کے لیے ، دنیا میں چل پھر مگر اللہ کے لیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم جہان بھر سے علیحدگی اختیار کر لو البتہ جو کام بھی کرو اس میں یادِ خدا ہو، قلب اللہ کی طرف متوجہ ہو اور ہاتھ دنیا کے کام کی طرف ۔(سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)

رہبانیت سے مراد دنیا کو ترک کر کے جنگلوں، بیابانوں یاخلوت کا رخ کر لینا ہے جبکہ اسلام ہی وہ دین ہے جسے مکمل ضابطۂ حیات کہا  گیاہے کیونکہ دین فقط اس نظام کو کہا جاتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہو اور وہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کی ضروریات کو پورا کر ے جس میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی کا سامان موجود ہو۔ اسلام اپنے تمام پیروکاروں کو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا درس دیتا ہے اس لیے دینِ اسلام میں رہبانیت جیسی بدعت کا تصور کرنا بھی ناگزیر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ دین کی تبلیغ واشاعت کا کام سر انجام دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بہترین زندگی گزارنے کا درس دیا چاہے اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی یا ازدواجی زندگی سے ۔ 

دنیا اسباب کی دنیا ہے اگر اس اسباب کی دنیا سے کٹ کر جنگلوں کا رخ کر لیا جائے تو یہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے مخالف ہو گا۔ اصل ترکِ دنیا سے مراد اپنے تمام دنیاوی فرائض کو سر انجام دیتے ہوئے اللہ کی یاد کو دل میں روشن رکھنا ہے۔ یہی ترکِ دنیا تصوف کا باطن اور مغز ہے ۔ ترکِ دنیا کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل تماشا کے اور کچھ نہیں ہے۔ بے شک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش وہ اس کو سمجھ جائیں۔ (سورۃ العنکبوت۔64)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دنیا کی محبت کو ایمان کے لیے بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے ۔ آپ ؐ کا ارشادِ گرامی ہے: 
 دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔(ابنِ ماجہ 4112)

 اسلام میں خانقاہی نظام کی حقیقت اور اہمیت

 تربیت کے حصول کے لیے خانقاہ میں مقیم ہونا عیسائی رہبانیت اور اسلام دونوں میں قدرِ مشترک ہے لیکن دونوں کی بنیادایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ سب سے بڑا اختلاف دونوں میں یہ ہے کہ عیسائی رہبانیت میں جو شخص خانقاہ میں مقیم ہوتا ہے وہ دنیاوی معاملات، رشتہ دار اور کاروبار سب سے کنارہ کشی اختیار کر تا ہے۔ جبکہ صوفیا کرام کے زیرِ نگرانی جو خانقاہی نظام تشکیل پاتا ہے اس میں طالب کو دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا درس نہیں دیا جاتا بلکہ دل سے دنیا نکالنے کا سبق دیا جاتا ہے اور یہ تمام معاملات مرشد کامل اکمل کی زیرِنگرانی باطن میں نگاہِ مرشد کے طفیل طے پاتے ہیں۔ مرشد کی قربت، لطف و کرم اور علمِ لدنیّ کے ذریعہ طالب ہوسِ دنیا اور خواہشاتِ نفسانی سے خلاصی پا لیتا ہے۔اولیا کرام کی محفل اور ان کی خانقاہ میں کسی قسم کی بدعت ، رہبانیت اور غیر شرعی عمل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ خانقاہ کی اہمیت و افادیت قرآن کی رُو سے ثابت ہے۔ خانقاہ کی بنیاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اصحابِ صفہ کو صفہَّ کے چبوترے پر اکٹھا کر کے رکھی تھی۔سورۃ الکہف کی آیت نمبر 28 میں اللہ تعالیٰ اصحابِ صفہ کے متعلق فرماتا ہے:
اور آپؐ ان لوگوں کے ساتھ رہا کریں جو رات دن اپنے ربّ کی بارگاہ میں دیدارِ الٰہی کی التجا کرتے ہیں۔ 

شہاب الدین سہروردیؒ کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’عوارف المعارف‘‘ میں خانقاہ کے متعلق درج ہے :
ان صحابہ کرام کو دینِ اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اس تربیت گاہ یعنی خانقاہِ اوّل ’’صفہ‘‘ سے تربیت حاصل کی اور اصحابِ صفہ کے نام سے موسوم ہوئے۔ صحابہ کرامؓ کے لیے یہی وہ پہلی درس گاہ تھی جہاں ان کے قلوب میں ایمان داخل کیا گیا اور پھر اسلام پوری دنیا میں پھیلا۔ اصحابِ صفہ کی شان اتنی بلندہے کہ قرآن پاک میں ان کا ذکر ملتاہے اور پھر آقا ؐنے بھی اہلِ صفہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’اے اصحابِ صفہ !تمہیں بشارت ہو کہ تم میں سے جو کوئی ان خوبیوں پر قائم رہے گا جس پر تم لوگ قائم ہو اور اس حالت پر خوش رہے گا تو وہ یقیناََ قیامت کے دن میرا رفیق ہو گا۔‘‘ (عوارف المعارف )

 خانقاہ ہی ایسی جگہ ہے جہاں ایک جیسی فکر اور نظریہ رکھنے والے طالبانِ مولیٰ کسی بھی لمحہ ذکرِالٰہی سے غافل نہیں ہوتے، دن رات وہاں رہتے ہیں ، دینِ حق کے فروغ کے لیے مرشد کی عطا کی گئی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں اور ضروریاتِ زندگی سے استفادہ کرتے ہیں۔ خانقاہ میں مقیم ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ طالب اپنے ماں باپ ،بہن بھائی سے منہ موڑ لیتا ہے یا ان کے فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ بلکہ خانقاہ میں دین کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی سکھائے جاتے ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپؐ کی اس مبارک سنت کی پیروی میں ہر دور میں اولیا اللہ نے طالبانِ مولیٰ کی باطنی تربیت کے لیے خانقاہیں قائم کیں۔ دورِ حاضر میں ایسے خانقاہی نظام کی اعلیٰ اور عمدہ مثال سلسلہ سروری قادری کے امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے قائم فرمائی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی خانقاہ عین شریعتِ محمدیؐ کے مطابق ہے جہاں دین کی اصل روح اجاگر کر کے طالب کے ظاہر و باطن کی تربیت کی جاتی ہے ۔ مرشد کی زیرِ نگرانی طالب نفسِ امارہ سے نفسِ مطمنۂ کا روحانی سفرطے کرتا ہے ۔آپ مدظلہ الاقدس کی نورانی صحبت سے ظاہر و باطن دونوں منورہو جاتے ہیں ۔ 

خانقاہ کا پتہ: مسجدِ زہراؓ وخانقاہ سلطان العاشقین،گاؤں رنگیل پور شریف براستہ سندر اڈہ ملتان روڈ لاہور۔ 

اسلام کی رہبانیت

اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا رہبانیۃ فی الاسلام
ترجمہ: اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ اسلام میں رہبانیت کے بجائے جہادکو ترجیح دی گئی ہے۔
 سیدنا ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے وصیت کریں۔ میں نے کہا: تو نے جو سوال مجھ سے کیا ہے ، میں نے تجھ سے پہلے یہی سوال رسولؐ سے کیا تھا (اور آپؐ نے فرمایاتھا ) میں تجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ یہ ہر چیز کی بنیاد ہے ، جہاد کو لازم پکڑ کہ وہ اسلام کی رہبانیت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآنِ مجید کی تلاوت کا اہتمام کیا کر، کیونکہ وہ آسمان میں تیرے لیے باعثِ رحمت اور زمین میں تیرے لیے باعثِ تذکرہ ہے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ :8982)

مذکورہ بالاا حادیث مبارکہ سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ اسلام میں رہبانیت سے مراد جہا د فی سبیل اللہ ہے اور سب سے افضل جہاد ’جہاد بالنفس ‘ہے یعنی اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کرنا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے خانقاہ میں مرشد کامل کی صحبت میں بیٹھنا اور تربیت کے مراحل کو طے کرنا طالبِ مولیٰ کے لیے جائز ہوا کیونکہ خانقاہ کا اصل مقصد ہی طالب کے نفس کی تربیت کرنا ہے۔ 

راہِ فقر اور گوشہ نشینی 

رہبانیت یا اکثر سلاسل میں دیکھا گیا ہے کہ سالک مشکل ریاضتوں،چلہ کشی یا گوشہ نشینی کی راہ اپنا لیتے ہیں جبکہ راہِ فقر میں یہ عمل سخت نا پسند کیے جاتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیف  ’’قربِ دیدار‘‘میں فرماتے ہیں :

باھوؒ کاملاں را نیست مشکل راز راہ
طالبان را میرساند یک نگاہ

ترجمہ: اے باھوؒ !کامل مرشد کے لیے رازِ الٰہی کی راہ بالکل مشکل نہیں، وہ طالب کو ایک ہی نگاہ میں سے اس راہ کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں ۔
جان لے کہ فقیرِ کامل ولی اللہ عارف باللہ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات عین بعین (اللہ کو)دیکھتا ہے۔ اسے چلہ کشی اور حجرے میں خلوت نشینی جیسے اعمال اختیار کرنے سے شرم آتی ہے کیونکہ چلہ کشی ریاکارانہ عمل ہے جس سے نفس مضبوط ہوتا ہے اور خلوت نشینی میں خطراتِ شیطانی کا خلل ہوتا ہے۔ منتہی کامل کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس طرح کی کسی بھی چیز میں مشغول ہو کیونکہ وہ تو دنیا ، نفس اور شیطان لعین پر غالب ہوتا ہے۔ (قربِ دیدار)

آپؒ اپنی تصنیفِ مبارکہ’’ نور الہدیٰ کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں :
طریقت اور سلوک کی ہر راہ کی پیشوا ریاضت ہے لیکن کامل قادری راہ میں روزِ اول ہی دیدار و حضوریٔ انوار اور قربِ الٰہی کا شرف ہے‘‘۔ ( نور الہدیٰ کلاں) 

اختتام میں سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا یہ خوبصورت قول درج کیا جا رہا ہے:
اے اللہ کے بندے! تو اولیا اللہ کی صحبت اختیار کر کیونکہ ان کی یہ شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو اس کو زندگی عطا کر دیتے ہیں ۔ اگرچہ وہ شخص جس کی طرف نگاہ پڑی ہے یہودی یا نصرانی یا مجوسی ہی کیوں نہ ہو۔(الفتح الربانی۔ملفوظاتِ غوثیہ)

آئیے! دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل کی روحانی صحبت اختیارکرکے اپنے نفس کا تزکیہ کرکے قرب و معرفتِ الٰہی اورمجلسِ محمدیؐ جیسے اعلیٰ ترین باطنی مقامات حاصل کریں اور دین و دنیا کی کامیابیاں سمیٹیں۔

 استفادہ کتب:
نور الہدیٰ کلاں:  حضرت سخی سلطان باھوؒ
قربِ دیدار :   ایضاً
شمس الفقرا:  سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
خانقاہ سلسلہ سروری قادری:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
 عوارف المعارف :  شیخ شہاب الدین سہروردیؒ
کشف المحجوب : حضرت داتا علی ہجویریؒ
رہبانیت ۔تعریف، اسباب،تاریخ، واقعات :  مولاناابو الاعلیٰ مودودی 

’’رہبانیت اور تصوف‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

 Rehbaniyat or Tasawwuf

 
 

29 تبصرے “رہبانیت اور تصوف Rehbaniyat or Tasawwuf

  1. صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    لا رہبانیۃ فی الاسلام
    ترجمہ: اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔

  2. اسلام میں رہبانیت سے مراد جہا د فی سبیل اللہ ہے اور سب سے افضل جہاد ’جہاد بالنفس ‘ہے یعنی اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کرنا۔

  3. فقر و تصوف سے بھرپور ❤

  4. مرشد کی قربت، لطف و کرم اور علمِ لدنیّ کے ذریعہ طالب ہوسِ دنیا اور خواہشاتِ نفسانی سے خلاصی پا لیتا ہے..۔

  5. سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق فرماتے ہیں :
    دنیا میں اس طرح رَہ جس طرح کشتی پانی میں رہتی ہے۔ کشتی کو اپنا باطن سمجھ اور پانی کو دنیا۔ جب تک کشتی میں پانی داخل نہیں ہوتا کشتی غرق نہیں ہوتی اور جب پانی کشتی میں داخل ہو جاتاہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ بس تو کشتی کی مثل ہے اور پانی دنیا کی مثل۔ اپنے باطن کو دنیا اور اس کی محبت سے محفوظ رکھ۔

  6. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دنیا کی محبت کو ایمان کے لیے بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے ۔ آپ ؐ کا ارشادِ گرامی ہے:
    دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔(ابنِ ماجہ 4112)

  7. سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق فرماتے ہیں :
    دنیا میں اس طرح رَہ جس طرح کشتی پانی میں رہتی ہے۔ کشتی کو اپنا باطن سمجھ اور پانی کو دنیا۔ جب تک کشتی میں پانی داخل نہیں ہوتا کشتی غرق نہیں ہوتی اور جب پانی کشتی میں داخل ہو جاتاہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ بس تو کشتی کی مثل ہے اور پانی دنیا کی مثل۔ اپنے باطن کو دنیا اور اس کی محبت سے محفوظ رکھ۔

  8. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دنیا کی محبت کو ایمان کے لیے بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے ۔

  9. دینِ اسلام میں رہبانیت جیسی بدعت کا تصور کرنا بھی ناگزیر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ دین کی تبلیغ واشاعت کا کام سر انجام دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بہترین زندگی گزارنے کا درس دیا چاہے اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی یا ازدواجی زندگی سے ۔

  10. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    لا رہبانیۃ فی الاسلام
    ترجمہ: اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔

  11. ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
    جس قدر آدمی دنیا سے بیزار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق اُسی قدر مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر بار ، بیوی بچے چھو ڑ کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت نہ ہو۔ دنیا میں رہے مگر دنیا کا نہ بنے ۔ یہ ہے کمالِ درویشی، دریا کے اندر رَہ کر دامن تر نہ ہونے دینا بڑی بہادری ہے

  12. بہت اچھا آرٹیکل ہے رہبانیت اور تصوف کا فرق بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

  13. سبحان اللہ ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے 💯❤❤❤

  14. سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ترکِ ہوسِ دنیا کے متعلق فرماتے ہیں :
    دنیا میں اس طرح رَہ جس طرح کشتی پانی میں رہتی ہے۔ کشتی کو اپنا باطن سمجھ اور پانی کو دنیا۔ جب تک کشتی میں پانی داخل نہیں ہوتا کشتی غرق نہیں ہوتی اور جب پانی کشتی میں داخل ہو جاتاہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ بس تو کشتی کی مثل ہے اور پانی دنیا کی مثل۔ اپنے باطن کو دنیا اور اس کی محبت سے محفوظ رکھ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں