قلب ِسلیم | Qalb e Saleem


Rate this post

قلبِ سلیم 

تحریر: مسزعظمیٰ شکیل سروری قادری (اوکاڑا)

قلب کے لفظی معانی تحریر کیے جائیں تو اس سے مراد ہے دل، لیکن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قلب کے تین حروف ہیں ق، ل، ب۔ حرف ’ق‘ سے مراد قربِ الٰہی، حرف ’ل‘ سے مراد لقائے الٰہی اور حرف ’ب‘ سے مراد بقا باللہ۔ جو شخص ان صفات سے متصف ہے وہ صاحبِ قلب ہے ورنہ وہ اہلِ کلب ہے۔ (قربِ دیدار)

اسی طرح لفظ ’سلیم‘ کے چار حروف ہیں ’س‘ سے سلامتی والا، ’ل‘ سے لازوال ، ’ی‘ سے یقینِ کامل اور ’م‘  سے مرنے سے پہلے مر جانا۔ قلبِ سلیم ایسے قلب کو کہا جاتا ہے جو تحقیق و پہچان کی راہ پر گامزن ہو اور شوقِ دیدارِ الٰہی رکھتا ہو۔ اگر کوئی اپنے قلب سے نفس کے تمام ناسور قتل کرنے کی ٹھان لے اور خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے توفیق پا کر معرفت و دیدارِ الٰہی تک پہنچ جائے تو ایسے قوی و مضبوط روحانی قلب کو قلبِ سلیم کہا جائے گا۔ وہ قلب سلامتی والا قلب کہلانے کے لائق ہوتا ہے جس میں نورِ الٰہی بھر چکا ہو۔ جب کوئی اپنے مالک کی رضا میں راضی رہنے لگے، ہر بات پر، ہر فیصلے پر، ہر رنج و غم پر، ہر عنایت پر اور ہر رحمت پر یکساں سی کیفیت رکھنے لگے تو یقینا وہ شخص خدا تعالیٰ کی جانب سے سلامتی والا قلب حاصل کر چکا ہوتا ہے، جو حق کو تسلیم کرکے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے۔ یہی ان لوگوں کا راستہ ہے جن کو اللہ اپنے انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ قلبِ سلیم ایسا قلب ہے جب وہ اپنے اللہ سے ملاقات کرتا ہے تو ماسویٰ اللہ اس قلب میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ قرآنِ حکیم میں قلبِ سلیم کو قیامت کے دن نجات پانے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنْوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (سورۃ الشعرا۔ 88-89)
ترجمہ: جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد۔ مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے قلب کے ساتھ حاضر ہوگا۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں ’’جس کی نیت صادق ہو وہ قلبِ سلیم کا مالک ہوتا ہے کیونکہ قلب کا شرک و شک سے پاک ہونا تمام چیزوں میں نیت کو خالص بناتا ہے۔‘‘

انسانی جسم کے ہر عضو کا ایک خاص عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ صحیح کام سر انجام دے تو وہ عضو صحت مند کہلائے گا ورنہ وہ عضو بیمار کہلائے گا۔ جسم میں موجود قلبِ جسمانی کا کام ہے خون کو پورے وجود میں گردش دینا جبکہ قلبِ روحانی (قلبِ سلیم) کے کچھ اپنے امور درج  ہیں جو ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں:
1۔ وہ قلب جو اللہ کی معرفت حاصل کرے۔
2۔ وہ قلب جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق کرتا ہو۔
3۔ وہ قلب جو اللہ کے دیدار کے لیے ہر دم بے چین و بیقرار رہتا ہو۔
4۔وہ قلب جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائمی حضوری کی طلب رکھتا ہو۔

جب ہماری تمام تر کامیابیوں کا انحصار اسی قلب کی صفائی اور پاکیزگی پر رکھ دیا گیا ہے تو اسے سنوارنے کے لئے کیا کیا جائے کہ یہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کئے جانے کے قابل بن جائے؟

تصفیۂ قلب کا مرحلہ آسان نہیں۔ قلب سے قلبِ سلیم حاصل کرنے تک کا یہ سفر نہایت کٹھن ہے۔ اسی لئے تو اس کام کو جہادِ اکبر کا نام دیا گیا ہے۔ بقول اقبالؒ

یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

قلبِ سلیم کی اولین شرط ہے کہ اس میں نورِ الٰہی پایا جائے جو کہ بغیر ذکر و تصور اسم اللہ ذات ممکن نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (سورۃ البقرہ۔257)
ترجمہ: (اسم) اللہ مومنوں کا ایسا دوست ہے جو انہیں ظلمت سے نکال کر نور میں لے آتا ہے۔

فرمان سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہے:
اسمِ اللہ کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نورِ ایمان پیدا کرتا ہے۔

طالبانِ مولیٰ کے قلب کو ظلمت سے نکال کر اس میں نورِ الٰہی بھر دینا مرشد کامل اکمل کے وسیلہ سے ممکن ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مرشد کامل کی نگاہِ کیمیا کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ زنگ آلود قلوب کے لیے صیقل کا کام کرتی ہے اور قلوب سے دنیا اور حبِ دنیا کی ظلمت کو دور کر کے اس میں معرفتِ الٰہی کا نور بھر دیتی ہے۔ 

یعنی مرشد کامل طالب کے قلب کو اپنی نگاہِ کامل کی بدولت تمام تر ظلمتوں سے پاک کر دیتا ہے اور اسکے نفس کو امارہ سے لوامہ، لوامہ سے ملہمہ اور ملہمہ سے مطمئنہ (قلب کا ہر حال میں مطمئن رہنا) بنا دیتا ہے اور استقامت کے ساتھ کامیابی عطا کرتا ہے کیونکہ بندے اور اللہ کے درمیان حجاب صرف نفس کا ہے جب نفس ہی مطمئن ہو کر درمیان سے ہٹ جائے گا اور بندہ کے تابع ہو جاے گا تو بندہ اللہ کا قرب پا لے گا۔ ہاں مگر جو کوئی اس گمان میں رہا کہ وہ بغیر مرشد کے اس راہ پر چلا اور کامیاب ہوا تو وہ مولانا جلال الدین رومیؒ کے اس فرمان پر تفکر کرے ’’جو کوئی بغیر مرشد کے راستہ پر چلا وہ شیطانوں کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو گیا۔‘‘ مرشد کامل کی نگاہ بدبخت کو نیک بخت بناتی ہے اور اسکے ظالم وجود کو نوری وجود میں تبدیل کر دیتی ہے جسکی بنا پر طالب روشن ضمیر ہو کر اپنے نفس پر حکمران ہو جاتا ہے اور ہر دم اسکی مخالفت کر کے اپنے قلب کو زندہ کرتا اور مشاہدہ بین اہلِ معرفت اور صاحبِ یقین بن جاتا ہے۔

  حدیث مبارکہ میں بیان ہے :
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کوفنا سے پہچانا بے شک اس نے اپنے  ربّ کو بقا سے پہچانا۔
مرشد زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہوتا ہے یعنی قلب کو زندہ کرتا ہے اور نفس کو مارتا ہے۔

اس خنجر تسلیم سے یہ جان حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے

اوپر درج کیے گئے امورِ قلب ِسلیم کو اگر جامع لفظ میں بیان کیا جائے تو لفظ فقر اسکی مکمل تشریح کے لیے کافی ہے۔ جسکو بھی فقر نصیب ہوا قلب ِسلیم کی بنا پر نصیب ہوا۔ یہ فلسفہ بہت سیدھا سا ہے مگر جب طالب ِ مولیٰ اس پر تفکر کرتا ہے تو کئی رازوں سے آشنا ہو جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ جس نقطے سے چلا تھا وہی اسکی منزل ہے یعنی اس کی ابتدا بھی نورِ الٰہی ہے اور انتہا بھی نورِ الٰہی میں فنا ہو کر بقا پا لینا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ
ترجمہ: ابتدا کی طرف لوٹ جانا ہی انتہا ہے۔

مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
اے بھائی! احد اور احمد سے تعلق پیدا کر اور جسم کے ابو جہل سے چھٹکارہ حاصل کر۔
اس فرمان میں حضرت اویس قرنیؓ کی طرف اشارہ ہے جو ظاہری طور پر آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب نہ ہوتے ہوئے بھی باطنی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہچان کر عشق کی کتاب بن گئے اور ابوجہل ظاہری طور پر قریب ہوتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ پہچان سکا ۔

علاماتِ قلبِ سلیم

1۔ اللہ کی یاد اور شوقِ دیدارِ الٰہی کا غلبہ
2۔ اللہ کے احکامات کی پیروی
3۔ عدم اطاعت پر اظہارِ تاسف
4۔ دنیا سے بے نیازی و بے رغبتی
اللہ کی یاد اور شوقِ دیدارِ الٰہی کا غلبہ

قلب ِسلیم کی پہلی علامت یہ ہے کہ ہر دم اللہ کی یاد میں مشغول رہے۔ اللہ کا ذکر دو طریقوں سے کیا جاتا ہے ایک ظاہری زبان کے ذریعے دوسرا خفیہ یعنی ذکر ِپاس انفاس۔ انسان کو ہر دم اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے اگرچہ ظاہری طور پر مخلوقِ خدا کے ساتھ مخاطب ہو لیکن اس کا دل اللہ کی یاد سے غفلت نہ برتے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ کا فرمان مبارک ہے:

جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔‘‘

اللہ کے احکامات کی پیروی

قلبِ سلیم کی دوسری علامت ہے احکاماتِ الٰہی کی پیروی کرنا۔ بندے کا کام ہے بندگی۔ طالب کو چاہیے کہ اللہ کے احکامات کی خلوصِ نیت کے ساتھ بغیر چوں چرا کیے تعمیل کرے اور نتائج کی پرواہ نہ کرے بلکہ اپنے مالک کی رضا اور خوشنودی کے لئے جس وقت جو احکام پیش ِنظر ہوں ان پر عمل پیرا رہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جنہیں اللہ تعالی نے انعامات سے نوازا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، یہ کیسے ہی اچھے ساتھی ہیں۔ (سورۃ النسا۔69)

عدم اطاعت پر اظہارِ تاسف

قلبِ سلیم کی تیسری علامت یہ ہے کہ اگر بندے سے کوئی نیک عمل ترک ہو جائے تو اس کا قلب خوفِ خدا کے سبب بارگاہِ الٰہی میں معافی طلب کرتا رہے اور اس احساسِ شرمندگی میں مبتلا ہو مگر اس احساسِ شرمندگی کے پیچھے نیت ثواب یا عذاب نہ ہو بلکہ صرف اور صرف دیدارِ الٰہی سے محروم رہ جانے کا خوف ہو۔
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اپنے ربّ کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔ (سورۃ الفجر۔27-30)

دنیا سے بے نیازی و بے رغبتی

قلبِ سلیم کی چوتھی علامت ہے دنیا سے بے نیازی و بے رغبتی۔ یہ حالت پانا سب سے کٹھن ہے کیونکہ انسان اللہ کو اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر پہچان نہیں پاتا جب کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کی پہچان ہے۔حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مولیٰ کا طالب علم کی طلب کرتا ہے لیکن دنیا کا طالب بے حیا ہوتا ہے۔ اہل ِحیا اور بے حیا کی ہم نشینی کس طرح مناسب ہو سکتی ہے۔ (امیر الکونین)
انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں ایسے رہے جیسے کشتی پانی میں کہ اگر پانی کشتی میں آیا تو کشتی ڈوب جائے گی مگر وہی کشتی اگرپانی پر سفر کرتی رہے تو منزل پا لے گی۔ اسی طرح اگر انسان دنیا میں رہے مگر دنیا کو دل میں نہ آنے دے تو اسے لقائے الٰہی حاصل ہو جائے گا۔ 
  فرمان سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہے:
 جسے اللہ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔
قلبِ سلیم کا حصول ما سویٰ صحبت ِصالحہ کے ممکن نہیں۔ صحبتِ صالحہ اللہ والوں کی صحبت کو کہا جاتا ہے جو راہِ سلوک کے تمام نشیب و فراز سے واقف ہوچکے ہوتے ہیں۔ صحبت کو سمجھنے کے لئے یہاں ایک مثال سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہر لمحہ عطار کی دکان میں بیٹھا رہے تو عطار اسے کچھ نہ کچھ کستوری دے گا، اگر نہ بھی دے تو خوشبو کے حلے تو میسر ہو ہی جائیں گے، ناکام نہیں لوٹے گا۔ برے لوگوں کی صحبت لوہار کی دکان کی طرح ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے پاس بیٹھے گا تو عین ممکن ہے کہ اس کے کپڑے جل جائیں، اگر کپڑے نہ بھی جلیں تو اس کی حرارت اور تپش ضرور پہنچے گی۔ اللہ ہمیں بری صحبت سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
صراطِ مستقیم پر ہماری رہنمائی فرما۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ ہی گمراہوں کا۔ (سورۃ الفاتحہ)
ان آیاتِ قرآنی پر غور کیا جائے تو انسان جان لے گا کہ اسے اللہ سے ان لوگوں کی رفاقت اور صحبت طلب کرنی چاہیے جن پر اللہ کا انعام ہوا کیونکہ اللہ عزوجل اپنے نیک بندوں سے حیا فرماتا ہے اور ان کی وجہ سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اللہ گنہگاروں پر بھی کرم فرما دیتا ہے اور بندے کی بخشش ماسویٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کے ممکن نہیں۔
قابل ِغور بات یہ ہے کہ اگر انسان اس عالم ِناسوت (دنیا) میں کوئی چیز خریدنے جاتا ہے تو سب سے پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ اس چیز کی گارنٹی کیا ہے اور جواب پر مطمئن ہوجائے تو چیز خرید لیتا ہے جبکہ یہ بات اس کا دل بھی جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک وقت آنے پر اس چیز نے ختم ہو جانا ہے۔ اس عالم ِلاھوت کے متعلق قرآن کے ذریعے کبھی حدیث کے ذریعے تو کبھی فقرا کاملین کے ذریعے اللہ خود گارنٹی دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ ان لوگوں کی معیت میں رہا کریں جو رات دن اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں دیدارِ الٰہی کی خاطر ملتجی رہتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر آپ کی آنکھیں زینت ِدنیا کی تلاش میں نہ پھرا کریں اور اس کا کہا نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے وہ تو خواہشات کا غلام ہے اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔ (سورۃ الکہف۔28)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
اگر فقرا نہ ہوتے تو دنیا ہلاک ہوجاتی اور اہل ِدنیا زحمتوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے۔
مرشد کامل اکمل کی بیعت کے بغیر کوئی بھی شخص تلقین، تصدیق اور یقین کے مراتب حاصل نہیں کرسکتا خواہ دن رات عبادات کرتا رہے لیکن باطن میں قلب ِسلیم سے محروم رہے گا۔ ظاہری علم سے ظاہری تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ مرشد کامل کے دست ِاقدس پر بیعت اور تلقین سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ باطن میں معرفت ِ الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے چنانچہ تلقین کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شروع ہو کر فقرا کاملین کے ذریعے قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر زمانہ میں ایک فقیر ِکامل موجود ہوتا ہے جو مخلوقِ خدا کو معرفت و دیدارِ الٰہی کی راہ دکھاتا ہے اور اس پر استقامت میں مدد فراہم کرتا ہے۔
 موجودہ دور کے فقیر ِکامل بانی و سرپرست ِاعلیٰ تحریک دعوتِ فقر  سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخ ِکامل ہیں جو ہر خاص و عام میں اپنی نگاہِ کامل سے فقر و معرفت ِالٰہی کے فیض کو عام فرما رہے ہیں۔ جو بھی آپ مدظلہ الاقدس کے دست ِاقدس پر بیعت ہوتا ہے وہ ظاہر و باطن میں اپنے حقیقی مقصد و مقام کو پا لیتا ہے۔ یاد رہے طالب کو اس کی طلب کے عین مطابق حاصل ہوتا ہے لہٰذا جو شخص خلوصِ نیت کے ساتھ اس بارگاہ میں طلب ِمولیٰ لے کر آتا ہے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسے نعمت ِعشق کے ذریعے دیدارِ الٰہی اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے نوازتے ہیں۔ اے اہل ِشعور! یہ یقین کی راہ ہے یہاں یقین کو ساتھ لے کر آ اور عقل کو اس بارگاہ سے کوسوں میل دور چھوڑ آ تاکہ تو حق کو پا سکے۔

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

حاصل تحریر

الغرض قلبِ سلیم وہ قلب ہے جو مرشد کامل کی نگاہ سے نورِ الٰہی پالیتا ہے اور جب اس کے دل میں نور سما چکا ہوتا ہے اس کا ظاہر بھی نور بننے لگتا ہے کیونکہ برتن سے وہی چیز باہر آتی ہے جو برتن میں ہو۔ جو بھی راہِ حق کی تلاش میں نکلا اسے حق ضرور ملا ہے کیونکہ جب انسان اللہ کی تلاش میں نکلے تو یہ لازمی بات ہے کہ اللہ بھی اسے تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ انسان کو جان لینا چاہیے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے وسیلہ کی ضرورت ہے اور جو کوئی بغیر مرشد کامل اکمل کے وسیلہ کے معرفت و قربِ الٰہی کا سوچے وہ کامیابی نہیں پا سکتا۔

چھڑا دیتی ہے فکر غیر سے تاثیر میخانہ
ملی ہے عرش کی زنجیر سے زنجیر میخانہ

 فرمان سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہے:
اللہ کے بندو! تم حکمت کے گھر میں ہو لہٰذا وسیلہ کی ضرورت ہے۔ تو اپنے معبود سے ایسا طبیب مرشد طلب کرو جو تمہارے دلوں کی بھی بیماریوں کا علاج کرے اور تم ایسا معالج طلب کرو جو تمہیں دوا دے۔ ایسا رہنما تلاش کرو جو تمہاری رہنمائی کرے اور تمہارے ہاتھ کو پکڑ لے تو تم اللہ کے مقرب اور مؤدب بندوں اور اس کے قرب  کے دربانوں اور اس کے دروازے کے نگہبان مرشد کامل اکمل کی نزدیکی حاصل کرو۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

 

37 تبصرے “قلب ِسلیم | Qalb e Saleem

  1. طالبانِ مولیٰ کے قلب کو ظلمت سے نکال کر اس میں نورِ الٰہی بھر دینا مرشد کامل اکمل کے وسیلہ سے ممکن ہے۔

    1. جس دن (قیامت کےدن) نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد – مگر وہی شخص کامیاب ہو گا جو قلب سلیم لے کر آئے گا(سورۃ الشعراء)

  2. در نجیب پے آکے خودی کا رازداں ہو جا
    سلیم قلب حاصل کر حیات جاوداں ہو جا

    بہت اعلئ مضمون

    1. قلبِ سلیم وہ قلب ہے جو مرشد کامل کی نگاہ سے نورِ الٰہی پالیتا ہے❤️

  3. قلبِ سلیم وہ قلب ہے جو مرشد کامل کی نگاہ سے نورِ الٰہی پالیتا ہے اور جب اس کے دل میں نور سما چکا ہوتا ہے اس کا ظاہر بھی نور بننے لگتا ہے

  4. جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کوفنا سے پہچانا بے شک اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔

    1. انسان کو جان لینا چاہیے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے وسیلہ کی ضرورت ہے اور جو کوئی بغیر مرشد کامل اکمل کے وسیلہ کے معرفت و قربِ الٰہی کا سوچے وہ کامیابی نہیں پا سکتا۔

  5. قلبِ سلیم وہ قلب ہے جو مرشد کامل کی نگاہ سے نورِ الٰہی پالیتا ہے❤️

  6. یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنْوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (سورۃ الشعرا۔ 88-89)
    ترجمہ: جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد۔ مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے قلب کے ساتھ حاضر ہوگا۔

  7. امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں ’’جس کی نیت صادق ہو وہ قلبِ سلیم کا مالک ہوتا ہے کیونکہ قلب کا شرک و شک سے پاک ہونا تمام چیزوں میں نیت کو خالص بناتا ہے۔‘‘

  8. فرمان سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہے:
    اسمِ اللہ کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نورِ ایمان پیدا کرتا ہے۔

  9. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    مرشد کامل کی نگاہِ کیمیا کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ زنگ آلود قلوب کے لیے صیقل کا کام کرتی ہے اور قلوب سے دنیا اور حبِ دنیا کی ظلمت کو دور کر کے اس میں معرفتِ الٰہی کا نور بھر دیتی ہے۔

  10. قلبِ سلیم وہ قلب ہے جو مرشد کامل کی نگاہ سے نورِ الٰہی پالیتا ہے اور جب اس کے دل میں نور سما چکا ہوتا ہے اس کا ظاہر بھی نور بننے لگتا ہے

  11. قلبِ سلیم کی اولین شرط ہے کہ اس میں نورِ الٰہی پایا جائے جو کہ بغیر ذکر و تصور اسم اللہ ذات ممکن نہیں۔
    ذکر و تصور بھی وہ جو مرشد کامل اکمل سے حاصل کیا ہو

  12. اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

  13. بے شک قلب کا سکون ذکر اللہ (اسم اللہ ذات) میں ہے۔

  14. قلب ِسلیم کی پہلی علامت یہ ہے کہ ہر دم اللہ کی یاد میں مشغول رہے۔

  15. جب انسان اللہ کی تلاش میں نکلے تو یہ لازمی بات ہے کہ اللہ بھی اسے تلاش کر رہا ہوتا ہے۔

  16. بے شک قلبِ سلیم صرف مرشد کامل اکمل کی نگاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

  17. بہت خوب۔ بیشک قلب سلیم حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے لیکن اس کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت چاہئے جو طالب کا تزکیہ نفس کرا کے اس کو اللہ پاک کے دیدار اور قرب کے لائق بنائے

  18. اللہ سے دعا گو ہیں کہ ہم بھی قلب سلیم لے کے حاضر ہونے والوں میں شامل ہوں آمین

  19. کوئی بغیر مرشد کامل اکمل کے وسیلہ کے معرفت و قربِ الٰہی کا سوچے وہ کامیابی نہیں پا سکتا۔

    بے شک!

  20. بے شک اللہ کے ہاں کامیابی کے لیے قلب سلیم شرط ہے

    1. بے شک اللہ کے ہاں قلبِ سلیم ہی کامیابی کی شرط ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں