alif | الف


Rate this post

مرشد کامل اکمل کی اہمیت

سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشی رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے ستائیسویں شیخِ کامل ہیں۔ آپ کی جائے ولادت چوٹی ضلع ڈیرہ غازی خاں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّمحمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے اور اپنے مرشد کے وصال تک وہیں مقیم رہے۔ سیدّمحمد عبداللہ شاہؒ سے امانتِ الٰہیہ کی منتقلی کے بعد مڈشریف تشریف لے گئے اور وہیں پر وصال فرمایا۔ آپؒ کا وصال 10صفر 1328ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ (ضلع جھنگ) سے مشرق کی جانب 13 کلومیٹر کے فاصلے پر مڈ شریف میں ہے۔ آپؒ کی تعلیمات میں سے ایک واقعہ پیش کیا جا رہا ہے ملاحظہ فرمائیں:

ایک دفعہ پیر محمد عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مرشد کامل اکمل کی اہمیت پر گفتگو فرماتے ہوئے پہلے ایک واقعہ سنایاکہ ایک قاضی رات کو خچر پر سوار ہو کر کسی دوست سے ملنے کے لیے جارہا تھا کہ راستے میں جنگل سے ایک ڈاکو نکل آیا۔ اس نے کہا ’’قاضی صاحب نجوم کا علم جانتے ہو؟‘‘ قاضی نے کہا ’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام   نے منع فرمایا ہے کہ علمِ نجوم پر اعتبار نہ کرو۔ ڈاکو نے کہا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے یہ بھی تو فرمایا ہے اَلرَّفِیْقُ ثُمَّ الطَّرِیْقُ یعنی پہلے رفیق بناؤ پھر سفر کرو۔ تمہارا کوئی رفیق ہے؟ تم تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے فرمان کے خلاف چل رہے ہو، ایک حدیث پر عمل کر لیا ہے اور دوسری کو چھوڑ دیا ہے۔ میں علمِ نجوم جانتا ہوں، میں نے حساب کیا ہے کہ میرا ستارہ تجھ پر غالب ہے۔ خچر سے اترو اور تمام کپڑے بھی اتار کر مجھے دے دو۔‘‘ قاضی خچر سے اتر آیا اور خچر ڈاکو کو دے دیا اور کپڑے بھی دے دیئے، صرف ایک چادر رہ گئی۔ ڈاکو نے کہا کہ چادر بھی اتار دو۔ قاضی نے کہا ’’میں نے نماز ادا کرنی ہے۔‘‘ ڈاکو نے کہا ’’مسئلہ مجھے بھی معلوم ہے تو پھر کیا دیر ہے جلدی سے چادر اتار دو۔ اگر دیر کی تو تلوار میرے پاس ہے۔‘‘ قاضی نے چادر اتار دی اور چھپ چھپا کر کسی کے کھیت میں پہنچا اور کسی سے چادر لے کر رات کو بمشکل گھر پہنچا۔ علی الصبح جس وقت قاضی کچہری میں گیا تو اس وقت وہی ڈاکو اسی قاضی کے کپڑے پہن کر اور اسی خچر پر سوار ہو کر کچہری میں آگیا اور قاضی کے پاس آکر بغیر سلام کیے بیٹھ گیا۔ قاضی نے کہا ’’تم نے سلام کیوں نہیں کیا؟‘‘ ڈاکو نے جواب دیا ’’سلام دو قسم کا ہے۔ ایک سلام شریعت کا دوسرا تعظیم اور خوف کا۔ شریعت کا میں قائل نہیں کیونکہ میں ڈاکو ہوں اور تعظیم اپنے سے بڑے کی کی جاتی ہے، میں تم کو اپنے سے بڑا نہیں مانتا اور نہ مجھے تم سے کوئی خوف ہے۔ میں تمہیں کیوں سلام کرتا۔‘‘ قاضی نے پوچھا ’’تو اب توُ کیا کہنے آیا ہے؟‘‘ ڈاکو نے کہا ’’میرے پاس کوئی مکان نہیں ہے۔ تم اپنا مکان مجھے دے دو تاکہ میں زندگی کے دن آرام سے گزار سکوں یا اتنی رقم دے دو کہ میں نیا مکان تیار کرا سکوں۔‘‘ بالآخر قاضی نے نقد روپے دے کر ڈاکو کو رخصت کیا۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعدپیر محمد عبد الغفور شاہ  رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا ’’یہ مثال ڈاکو شیطان کی ہے جو تمام اعمال چھین کر لے جاتا ہے اور انسان کو ننگا کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ شیطان تمام ظاہری علم پڑھا ہوا ہے اور کوئی ایسا علم نہیں جو شیطان نہ جانتا ہو۔ اگر کوئی رفیق پیرِ کامل تیرے ساتھ نہ ہوگا تو تمام اعمالِ صالحہ شیطان تجھ سے چھین لے گا۔ اس لیے پیرِ کامل کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ضروری ہے۔ جو شخص نابیناہو اس کا فرض ہے کہ آنکھوں والے کا ہاتھ پکڑ لے اور فرمان کی تعمیل کرے، تب ہی نابینا منزلِ مقصود پر پہنچ سکتا ہے۔‘‘


اپنا تبصرہ بھیجیں