حسنِ اخلاق | Hussan e Akhlaq


2.6/5 - (5 votes)

حسنِ اخلاق 

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری (رائیونڈ)

انسان جسمانی لحاظ سے تو پوشیدہ ہے مگر اپنے اخلاق سے ظاہر ہے۔ اخلاق خُلق سے ہے جس کے معنی پختہ عادت کے ہیں۔ جب افعال کسی فکر و تردد کے بغیر نفس سے سرزد ہونے لگیں تو اس کیفیت کو خلق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اصطلاحاً اخلاق سے مراد وہ اوصاف ہیں جو کسی کی فطرت و طبیعت کا اس طرح لازمی جزو بن جائیں کہ زیادہ غور و فکر کے بغیر روز مرہ زندگی میں ان کا ظہور ہوتا ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نزدیک خلق انسان کی اس کیفیت کا نام ہے جو اس کی طبیعت کے مختلف اوصاف و کمالات کو جدوجہد کر کے اپنی طرف راجع کر لے۔ خلق دو طرح کے ہوتے ہیں:
(1)حسنِ اخلاق
 (2) بد اخلاق

حسنِ اخلاق یہ ہے کہ اپنے مزاج کو اللہ کی رضا کے لیے بد اخلاق نہ ہونے دیں۔ اصل میں انسان کی خوبصورتی اس کا اچھا اخلاق ہے۔ ظاہری خوبصورتی کی کمی کو اچھے اخلاق سے پورا کیا جاسکتا ہے لیکن اخلاق کی کمی کو خوبصورتی سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:
دنیا کے سبھی میدان میں ہارجیت ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی۔
بعض لوگ ظاہری عبادات پر تو بہت زور دیتے ہیں مگر اخلاق نہیں سنوارتے حالانکہ اچھا اخلاق دین کی روح ہے جیسا کہ حضرت مجاہدؓ نے خُلق کی تفسیر میں فرمایا:
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام میں اعلیٰ دینداری تھی اور دین اچھے کاموں اور اخلاقِ حسنہ کا مجموعہ ہے۔
انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں بلکہ اچھا اخلاق اور اس کا ایمان ہے اور یہ مکمل طور پر اللہ کی عنایت اور اس کی رحمت ہے جیسے کہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
اللہ کے پاس اخلاق کا خزانہ جمع ہے۔ جب وہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے یہ عنایت فرماتا ہے۔ (جامع ترمذی)
اللہ تعالیٰ کے ایک سوسے زیادہ اخلاق ہیں جس نے کسی ایک اخلاق پر عمل کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
انسان اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے ان لوگوں کا مرتبہ پا لیتا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ (ابو داؤد)
حضرت ابو درداؓ سے روایت ہے کہ ( بروز قیامت) مومن کے اعمال میں سے جو چیز میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہو گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہیں اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ بداخلاق شخص پر ناراض ہوگا۔ (سنن ترمذی)

جب اللہ عزّوجل نے ایمان کو پیدا کیا تو اس نے کہا اے اللہ! مجھے طاقت بخش۔ تو اللہ عزوجل نے ا سے حسنِ خلق سے طاقت بخشی۔ جب اللہ عزوجل نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے کہا اے اللہ! مجھے طاقت بخش تو اللہ عزوجل نے اسے بخل اور سوئے اخلاق (برے اخلاق) سے طاقت بخشی۔ (رواہ الطبرانی159-18)
پیارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کو خوش اخلاقی کی دعوت اور تعلیم دی ہے جیسے کہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ آقاؐنے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن مجھے تم میں وہی محبوب ہوگا اور میری مجلس کے قریب وہ ہوگا جس کے اخلاق بہترین ہوں گے۔ (بخاری و مسلم)
شیخ ابو سعید القرشیؒ فرماتے ہیں:
عظیم خدا کی ذات ہے اور اس کے اخلاق میں سخاوت و کرم، درگزر و معافی اورا حسان کے اوصاف شامل ہیں ۔
اچھااخلاق ایسی خوشبو کی مانند ہے جو میلوں دور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے اخلاق کو پھول جیسا بنانا چاہیے تاکہ آپ کی صحبت میں رہنے والا آپ کے اچھے اخلاق کی خوشبو حاصل کر لے۔ اخلاقِ حسنہ کے بہت سے پہلو ہیں اس لیے مومن اپنے ہر کام میں حسنِ اخلاق کو مدِ نظر رکھتا ہے ۔

حسنِ کلام

سب سے پہلے ہماری گفتگو سے اخلاق کا اظہار ہوتا ہے۔ گفتگو میں بے احتیاطی رشتوں کو کچل دیتی ہے کیونکہ الفاظ ہمارا عکس ہوتے ہیں اس لیے ہمیشہ اچھی بات کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربّانی ہے:
اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔53)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بہتر بات کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ جو لوگ بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں کئی بار ان کے الفاظ سے دوسروں کی دل شکنی ہوجاتی ہے ا س لیے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ بے لگام الفاظ بے لگام جانورکی طرح ہوتے ہیں۔ اچھی بات کرنا اور فضول گوئی سے بچنا مومن کی نشانی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (سورۃ المومنون۔3)
ترجمہ: اور وہ کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔
فضول گوئی کا انسان کے کردار پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:
اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اسکا تالا ہے۔ جب تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا لوہے کی۔ 

بعض لوگ صرف زبان سے میٹھا بولتے ہیں لیکن دل میں بغض رکھتے ہیں۔ یہ حسنِ کلام نہیں بلکہ منافقت ہے۔ زبان کے ساتھ دل میں بھی محبت ہونی چاہیے۔ ہماری سوچ اچھی ہونی چاہیے کیونکہ دنیا کے سبھی لوگ خوبصورت ہیں، بد صورتی تو روّیوں اور سوچ میں ہوتی ہے اس لیے سوچ اچھی ہونی چاہیے۔ نظر کا علاج ممکن ہے لیکن نظریے کا علاج نہیں۔ جو شخص اپنے دوستوں، ہم پیشہ لوگوں، رفقا اور رشتہ داروں کے لیے زبان سے محبت ظاہر کرے مگر دل میں ان کے لیے عداوت، بغض اور کینہ چھپا رکھا ہوایسے لوگوں کے متعلق حضرت فضیل بن عیاضؒ نے فرمایا:
اللہ اس پر لعنت بھیجتا ہے، اس کو بہرہ گونگا، اندھا کر دیتا ہے، اس کی دل کی آنکھیں بند کر دیتا ہے اور بصیرت چھین لیتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اے میرے فرزند! اگر تم سے ہو سکے تو صبح و شام ایسی زندگی بسر کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے خلاف میل نہ ہو، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا یہی میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا در حقیقت اس نے مجھے زندہ کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (بخاری و مسلم)
جن کے دل بغض اور کینہ سے بھرے ہوتے ہیں انہیں اپنے سوا ہر کسی میں عیب نظر آتا ہے۔ وہ غور و فکر جیسی نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جس طرح آنکھ دنیا کی ہر چیز دیکھتی ہے مگر جب اس کے اندر کچھ چلا جائے تو اسے دیکھ نہیں پاتی بالکل اس طرح انسان دوسروں کے عیب تو دیکھتا ہے لیکن اسے اپنے عیب نظر نہیں آتے۔ 

آئینہ جب اٹھایا کرو
پہلے دیکھا کرو پھر دکھایا کرو 

( واصف علی واصف)

اگر ہم غور کریں کہ ایسی کونسی چیز ہے جس کی کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی مگر اس سے ہر چیز کو خرید ا جاسکتا؟ تو وہ نرم مزاجی اور خوش خلقی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(سورۃ البقرہ۔83)
ترجمہ: اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کرو۔
نرم مزاجی آپس میں محبت پیدا کرتی ہے اورسخت کلامی دوریاں پیدا کرتی ہے۔ اصل میں نرم مزاجی ہی اچھا اخلاق ہے اس کے بر عکس سخت کلامی سے دوسرے کا دل ٹوٹتا ہے۔ ہر عبادت کی قضا ہے مگر انسانی دل توڑنے کی کوئی قضا نہیں۔ کسی مسلمان کا دل خوش کرنا جِن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
جسے نرم خوئی عطا کی گئی ہو سمجھ لو اسے بھلائی مل گئی اور جسے نرم خوئی سے کوئی حصہ نہ ملے وہ بھلائی سے محروم ہو گیا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
بدترین انسان وہ ہے جس کو لوگ اس کی فحش کلامی کے ڈر سے چھوڑ دیں ۔
حضرت فضلؓ نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا کہ فلاں خاتون دن کو روزہ رکھتی ہے ،رات کو نماز ادا کرتی ہے لیکن اس کا اخلاق اچھا نہیں، وہ پڑوسیوں کو ایذا پہنچاتی ہے۔ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس کی کوئی نیکی قبول نہیں، وہ دوزخی ہے۔ (رواہ بیہقی فی شعب الایمان:8033)
دوسرو ں کو برا کہنے اور تکلیف دینے سے بہتر ہے خود کو صحیح کیا جائے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں:
خود کو اخلاقی طور پر سنوارنے میں اتنا وقت ضرورصرف کرو کہ تمہیں دوسروں پر تنقید کرنے کی فرصت نہ ملے۔

 کسی کی نظر میں اچھے تھے کسی کی نظر میں برے تھے
حقیقت میں جو جیسا تھا ہم اس کی نظر میں ویسے تھے

معاف کرنا:

معاف کرنا حسنِ اخلاق میں شامل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ معاف کرنا رحم کرنے کے مترادف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ’’لوگوں پر رحم کروتم پر بھی رحم کیا جائے گا، لوگوں کو معاف کرو تمہیں بھی معاف کیا جائے گا۔‘‘
الرسالۃ غوثیہ میں اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا کہ:
اے غوث الاعظمؓ! اگر تم مخلوق پر شفقت کرو تو تمہارے لیے طوبیٰ ہے اور پھر تیرے لیے طوبیٰ ہے اگر تو میری مخلوق کو معاف کرے۔
طوبیٰ سے مراد ہر طرح کی خوشحالی اور عیش و عشرت ہے۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ کے اعلیٰ ترین مقامِ ولایت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں طوبیٰ کی بشارت اس شرط پر دے رہا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق سے درگزر کریں اور ان کے ساتھ شفقت کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے کس قدر محبت کرتا ہے۔ کوئی جتنی مرضی عبادت کرے، اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے اگر وہ اللہ کی مخلوق کو اذیت دے گا تو اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہاں ’مخلوق ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی مسلمان ہویا کافر، نیک ہو یا گنہگار، انسان ہویا جانور سب پر شفقت کرے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اخلاقی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر ان کو مخلوق کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا انتقام نہیں لیتے بلکہ تحمل سے اسے بخوشی برداشت کرتے ہیں اور معاف فرماتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ رہتا ہو اور ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہو ان لوگوں سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ میل جول نہ رکھتے ہوں۔ (سنن ابی داؤد)
مزید فرمایا کہ تم میں سے کوئی ابو ضمضمؓ جیسا نہیں ہو سکتا؟ صحابہؓ نے عرض کی آقاؐ! ابو ضمضمؓ کیا کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ روزانہ صبح کے وقت بارگاہِ خداوندی میں عرض کرتے تھے ’’اے خدا! میں نے آج اپنی آبرو اس پر قربان کر دی جو مجھ پر ظلم کرے، جو مجھے مارے میں اسے نہیں ماروں گا، جو مجھے گالی دے میں اسے گالی نہیں دوں گا اور مجھ پر ظلم کرے میں اس پر ظلم نہیں کروں گا۔‘‘
لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کو سنوار کر کردار کوبہتر بنانا چاہیے۔ بقول شاعر:

حسنِ کردار سے نور مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

 

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اخلاقِ حسنہ

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی شان بیان فرمائی ہے۔ کبھی حسن و جمال تو کبھی خوبصورت انداز کا ذکر فرمایا ہے۔ جب آپکی عادات اور روّیے کا ذکر آیا تو اللہ نے فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم (سورۃ القلم۔3)
ترجمہ: اور یقینا آپ کا اخلاق عظیم الشان ہے۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت نرم مزاج اور ہر کسی سے محبت کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تمام تعلیمات میں ہمیں باہمی محبت کا سبق ملتا ہے۔ آپ نے ہر اس کام سے روکا ہے جو باہمی محبت میں بگاڑ پیدا کرے اور آپس میں نفرت پیدا کرے۔

بے بناوٹ ادا پر ہزاروں درود
بے تکلف ملاحت پر لاکھوں سلام 

یہ عظیم اخلاقیات ہی سرورِ کائناتؐ کو تمام عالم سے ممتاز کرتی ہیں اور بلند مراتب پر فائز کیے ہوئے ہیں۔ صحاحِ ستّہ میں مرقوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوشیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ شرم و حیا آپکا امتیازی وصف تھا۔ یہ ادا اس طرح ظاہرہوتی کہ آپ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ بدزبانی نہ کی۔ بازار میں تشریف لے جاتے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ تبسم کے سوا لب مبارک خندہ قہقہہ سے بہت کم آشنا ہوتے تھے۔

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ’’میں اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی عادات میں قناعت کا وصف سب سے زیادہ نمایاں تھا جس کا اظہار ہر موقعہ پر نظر آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جب بھی کہیں سے مال یا کھانے کی صورت میں کوئی تحفہ آتا تو آپ جب تک اسے بانٹ نہ لیتے گھر نہ جاتے۔ الغرض آپ کی قناعت کے بہت واقعات ملتے ہیں۔

قناعت ہی وہ دولت ہے جو ہر گز کم نہیں ہوتی
مگر چشم ہوس اس راز کی محرم نہیں ہوتی 

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر نماز کی ابتدا میں یہ دعا کرتے:
اے اللہ مجھے اچھے اخلاق مرحمت فرما، تو ہی توفیق بخشنے والا ہے۔ بداخلاق کو مجھ سے دور رکھنا کہ اس کو تو ہی دور رکھ سکتا ہے۔ (نسائی 129-2)
فقر میں اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اچھے اخلاق کے لیے کسی کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جو عادتوں کو سنوارے۔ آج کے اس پر فتن دور میں میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ کے اوصاف اخلاقِ نبویؐ کا عین نمونہ و عکس ہیں اور اس حقیقت کے غماز ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس مکمل طور پر قدمِ محمدؐ پر ہیں۔ راست بازی، تحمل و بردباری، عاجزی وانکساری، صبر و استقامت، ایفائے عہد، شرم و حیا، فہم و فراست، اعلیٰ ظرفی، بلند حوصلگی اور قوتِ برداشت آپ مدظلہ الاقدس کے نمایاں اوصاف ہیں۔

نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے 

عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اس دور کے مجدد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر اپنے نفوس کا تزکیہ کروائیں اور اپنے ظاہرو باطن کو اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین

استفادہ کتب:
الرّسالۃالغوثیہ۔سید نا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ
سلطان العاشقین۔ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
مکاشفۃ القلوب ۔ امام غزالیؒ
عوارف المعارف۔ ابو حفص حضرت شہاب الدین عمر سہر وردیؒ
حسنِ اخلاق۔  ڈاکٹر طاہر القادری  

 
 

29 تبصرے “حسنِ اخلاق | Hussan e Akhlaq

  1. حسنِ کردار سے نور مجسم ہوجا
    کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

    1. حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:
      دنیا کے سبھی میدان میں ہارجیت ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی۔

  2. حسنِ کردار سے نور مجسم ہوجا
    کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

  3. خود کو اخلاقی طور پر سنوارنے میں اتنا وقت ضرورصرف کرنا چاہئیے کہ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے کی فرصت نہ مل سکے۔

  4. بہترین ارٹیکل ہے ۔❤️❤️❤️
    کسی کی نظر میں اچھے تھے کسی کی نظر میں برے تھے
    حقیقت میں جو جیسا تھا ہم اس کی نظر میں ویسے تھے

  5. Aajkal is tarha ke articles bohat zarori hain kyounki log insaniyat bhoolte ja rahen hai! Allah mujhe kamil akhlaaq ki toufeeq ata farmaye!

  6. جسے نرم خوئی عطا کی گئی ہو سمجھ لو اسے بھلائی مل گئی اور جسے نرم خوئی سے کوئی حصہ نہ ملے وہ بھلائی سے محروم ہو گیا۔ (بخاری و مسلم)

  7. عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اس دور کے مجدد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر اپنے نفوس کا تزکیہ کروائیں اور اپنے ظاہرو باطن کو اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

  8. مومن اپنے ہر کام میں حسنِ اخلاق کو مدِ نظر رکھتا ہے ۔

    1. اخلاق کو سنوار کر کردار کوبہتر بنانا چاہیے۔

      1. حسنِ کردار سے نور مجسم ہوجا
        کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

  9. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین

  10. بہترین مضمون
    آئینہ جب اٹھایا کرو
    پہلے دیکھا کرو پھر دکھایا کرو
    ( واصف علی واصف)

  11. آئینہ جب اٹھایا کرو
    پہلے دیکھا کرو پھر دکھایا کرو

  12. آئینہ جب اٹھایا کرو
    پہلے دیکھا کرو پھر دکھایا کرو
    👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻

  13. انسان اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے ان لوگوں کا مرتبہ پا لیتا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ (ابو داؤد)

اپنا تبصرہ بھیجیں