Sayyida Zaynab bint Ali

ظلم کے خلاف کھڑی عظیم عورت سیدّہ زینب ؓ بنتِ علیؓ Sayyida Zaynab bint Ali


Rate this post

ظلم کے خلاف کھڑی عظیم عورت  سیدّہ زینبؓ بنتِ علیؓ

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور

Sayyida Zaynab bint Aliسیدّہ زینبؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدّۃ النساء سلطان الفقر اوّل حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی بڑی بیٹی اور محبوبِ خدا باعثِ تخلیقِ کائنات خاتم النبیین جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نواسی ہیں۔ مستند روایات کے مطابق آپؓ جمادی الاول ۵ھ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ ان دنوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے۔ تین دن بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ منورہ واپسی فرمائی توحسبِ معمول خاتونِ جنتؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ جب بچی کو گود میں لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیدّۃ النساءؓ  نے رونے کی وجہ پوچھی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میری اس بچی کو عنقریب ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹیں گے۔‘‘ پھر آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دہن مبارک میں کھجور چبائی اور لعابِ دہن بچی کے منہ میں ڈالا اور فرمایا ’’یہ شبیہِ خدیجہؓ ہے۔ ‘‘ اور آپؓ کا اسمِ گرامی ’’زینب‘‘ رکھا۔

 القاب و کنیت

یوں تو تاریخی کتابوں میں آپؓ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:
نائبۃ الزہراؓ، شریکۃ الحسینؓ، راضیہ بالقدر و القضا، شجاعہ، فصیحہ، بلیغہ، زاہدہ، فاضلہ، خاتونِ کربلا، ناموس الکبریٰ، عابدہ اور قرۃالعین المرتضیٰؓ ہیں۔ سیدّہ پاکؓ کی کنیت اُم الحسن اور اُمِ کلثوم ہے ان کے علاوہ واقعہ کربلا کے بعد آپؓ کی کنیت اُم المصائب مشہور ہو گئی۔

 حیاتِ طیبہ

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کی پرورش خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدّۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی صحبت و تربیت میں ہوئی۔ انہیں آپؓ سے خصوصی محبت تھی اور آپؓ کی پرورش و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ 

ایک دن عہدِطفلی میں سیدّہ زینبؓ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہی تھیں کہ بے خیالی میں سر سے اوڑھنی اُتر گئی۔ سیدّۃ النساءؓ  نے دیکھا تو ان کے سر پر اوڑھنی ڈالی اور فرمایا ’’بیٹی اللہ کا کلام ننگے سر نہیں پڑھتے۔‘‘ 

ایک دن سیدّنا حضرت امام حسینؓ اور سیدّہ زینبؓ میں معصومانہ لڑائی ہو گئی۔ سیدّۃ النساءؓ نے انہیں قرآنِ مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا ’’بچو! لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ دونوں بچے خوف سے کانپ اٹھے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی نہ لڑیں گے، سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ بہت خوش ہوئیں اور انہیں سینے سے لگالیا۔

سرورِ کونینؐ، حیدرِ کرارؓ اور سیدّۃ النساءؓ کے زیرِسایہ تربیت کے باعث سیدّہ پاکؓ عشقِ الٰہی میں سرشار، نہایت عبادت گزار اور تہجد گزار تھیں۔ آپؓ کو قرآن کی تلاوت و تفسیر پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپؓ خواتین کو درسِ قرآن دینے میں مصروف رہتیں۔ ایک مرتبہ کا ذکرہے کہ چند خواتین کے سامنے آپؓ ’سورۃکٰھٰیٰعٓصٓ‘ کی تفسیر بیان فرما رہی تھیں۔ حضرت علیؓ تشریف لائے اور غور سے آپؓ کا بیان سنتے رہے۔ بیان ختم ہونے کے بعد سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے نہایت مسرور لہجہ میں فرمایا ’’جانِ پدر! میں نے تمہارا بیان سنا اور مجھے خوشی ہوئی کہ تم کلامِ الٰہی کی تفسیر اتنے عمدہ طریقے سے بیان کر سکتی ہو۔‘‘ 

قرآنِ مجید کے درس و تدریس کے علاوہ سیدّہ زینبؓ فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات اور تہجد کا بھی باقاعدگی سے اہتمام فرمایا کرتی تھیں۔ اپنی بہن کی اسی خصوصیت کے پیشِ نظر امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں رخصت ہونے سے قبل اپنی بہن سے فرمایا ’’اے میری بہن! اپنے پچھلے پہر کے نوافل میں مجھے فراموش نہ کرنا۔‘‘ (زینبؓ بنت زہراؓ) 

حضرت امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں ’’میری پھوپھی جان نے سفر کی کافی صعوبتیں برداشت کیں لیکن پھر بھی انہوں نے نوافل نہیں چھوڑے۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوا کہ آپؓ نے ساری ساری رات نوافل ادا کیے اور ایک پل کے لیے بھی پلک نہیں جھپکی۔ ‘‘ (زینبؓ بنت زہراؓ) 

کتاب ’بلاغات النساء‘ میں آپؓ کا ارشاد مبارک یوں درج ہے ’’جو شخص اس بات کا متمنیّ ہے کہ وہ حشر میں کسی کا بھی محتاج نہ ہوتواُسے چاہیے کہ وہ پروردگار کی حمد و ثنا کیا کرے ۔ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہسِمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حِمِدَہ سنتے ہیں لیکن ان کلمات کے معانی و مطالب پر غور نہیں کرتے، انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور چونکہ وہ اس کے قریب ہے اس لئے اس سے شرم کریں۔‘‘ (زینبؓ بنت زہراؓ)

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ پاکؓ جب سنِ بلوغت کو پہنچیں تو سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے بھتیجے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے بیٹے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کے ساتھ آپ کا نکاح پڑھا دیا۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بڑے پاکیزہ اخلاق کے حامل اور جوانانِ قریش میں سیرت و صورت کے لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ آپؓ کا ذریعۂ معاش تجارت تھا اور مالی حالات کافی مستحکم تھے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کی خوش خلقی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کسی کی دل شکنی نہیں فرماتے تھے اور یہ عادت آپؓ میں بچپن ہی سے تھی اس لیے انؓ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ـ ’’اس کا خلق میرا خلق ہے۔‘‘

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کی خانگی زندگی نہایت خوشگوار تھی۔ آپؓ کے اعلیٰ ظرف، سادگی اور اخلاقِ حسنہ کا یہ عالم تھا کہ گھر میں لونڈیاں ہونے کے باوجود اپنے شوہر کی بے حد خدمت گزار تھیں اور زیادہ تر گھر کے کام کاج خود ادا فرماتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ’’زینبؓ بہترین گھر والی ہے۔‘‘ 

گھر میں اس قدر خوشحالی اور مال و دولت نے سیدّہ زینبؓ کے مزاج و طبیعت میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہ کی، آپؓ بدستور صبرو قناعت، رحمدلی، زہد و تقویٰ اور جفاکشی کا پیکر بنی رہیں۔ آپؓ دنیا کی حقیقت کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں ’’دنیا کی زندگی اس سایہ دار درخت کی سی ہے جس کے نیچے کچھ دیر مسافر سستا لیتے ہیں۔‘‘

سیدّہ زینبؓ کو اللہ پاک نے پانچ نیک سیرت وخوب صورت بچوں سے نوازاجن کے اسمائے گرامی سیدّناعلیؓ، سیدّناعونؓ، سیدّنا محمدؓ، سیدّنا عباسؓ اور سیدّہ اُمِ کلثومؓ تھے۔ ان میں سے دو شہزادوں سیدّنا عونؓ ا ور سیدّنا محمدؓ نے میدانِ کربلا میں اپنی جان کے نذرانے پیش فرمائے۔ 

37ھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہدِخلافت میں سیدّہ زینبؓ اپنے شوہر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئیں۔یہاں بھی شہزادیٔ زہراؓ نے خواتین کو درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا ۔یوں کوفہ کی بہت سی خواتین آپؓ سے مستفید ہوئیں۔

40ھ یں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد آپؓ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں۔49ھ میں جب سیدّنا امام حسنؓ کی شہادت ہوئی اس وقت آپؓ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ مدینہ منورہ میں ہی قیام پذیر تھیں۔ ابھی شفیق والد اور عزیز بھائی کی شہادت کا صدمہ کم بھی نہ ہوا تھا کہ 60ھ میں اپنے پیارے اور محبوب بھائی اور مرشد سیدّنا حضرت امام حسینؓ سے جدائی کا وقت قریب آگیا۔ میرے مرشد پاک عزت مآب آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
قربِ الٰہی اس وقت تک حاصل نہیں ہو تاجب تک انسان اپنا گھر بار راہِ خدا میں قربان نہیں کر دیتااور تکالیف و مصائب میں مرشد کے ساتھ وفا میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔ (سلطان العاشقین)

پیکرِ جرأت و شجاعت کو جب اپنے امام و پیارے بھائی سیدّنا حضرت امام حسینؓ کی اپنے جانثاروں کے ہمراہ کوفہ جانے کی خبر ملی تو عشقِ مرشد میں سرشار، وفا و محبت کی پیکرسیدّہ زینبؓ اپنے شوہر کی اجازت سے اپنے دونوں فرزندوں (سیدّنا عونؓ اور سیدّنا محمدؓ) کے ہمراہ اپنے امام کے قافلے میں نہ صرف شامل ہوئیں بلکہ اِنؓ پیکرِ وفا نے حق تعالیٰ کی رضا میں اپنے فرزندانِ ارجمند کی جانوں کے نذرانے بھی نہایت ہمت و استقلال سے پیش فرمائے۔ 

آدمیت کو ناز ہے جس پر
وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو بھی سیدّنا امام حسینؓ سے شدید محبت و عقیدت تھی۔ تاہم روایت میں آتا ہے کہ وہ اس زمانہ میں تقریباً نابینا ہو چکے تھے اس لیے سفرکی صعوبتیں برداشت کرنے یا جنگ میں شرکت کے قابل نہ تھے۔ 

روایت ہے کہ حضرت عبداللہؓ کا ایک غلام تھا۔جب اس نے اپنے آقازادوں کی شہادت کی خبر سنی تو اس نے کہا’غم کا پہاڑ (حضرت) امام حسینؓ کی وجہ سے ٹوٹا۔‘ حضرت عبداللہؓ نے جب یہ الفاظ سنے تو سخت ناراض ہوئے اور آپؓ نے اس غلام کوخوب زد و کوب کرنے کے بعد فرمایاـ ’’اے نابکار! میرے بھائی حسینؓ کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں بھی آپؓ کے ہمراہ ہوتا تو انؓ کی خاطر جان دے دیتا۔ اگر میرے بیٹوں نے انؓ کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا ہے تو میرے لیے سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے،انہوں نے اپنے ماموں کا ساتھ دیااور اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ‘‘ سبحان اللہ!

سیدّہ زینبؓ کی اپنے مرشد و بھائی  امام عالی مقامؓ سے محبت و عقیدت

یوں توسیدّہ زینبؓ اپنے تمام بہن بھائیوں سے محبت و انس فرماتی تھیں لیکن آپؓ کو سیدّنا امام حسینؓ سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ یہی محبت و الفت میدانِ کربلا تک ہر مقام و منزل پر نظر آتی رہی ۔ امام عالی مقامؓ بھی اپنی بہن سے نہایت محبت و شفقت سے پیش آتے، اپنے تمام معاملات میں بہن سے مشاورت فرماتے حتیٰ کہ امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں بھی متعدد مواقع پر سیدّہ زینبؓ سے مشاورت فرمائی۔ متعدد روایات میں درج ہے:

  بچپن میں بھی سیدّہ پاکؓ کا امام عالی مقامؓ سے محبت و الفت کا یہ عالم تھا کہ اگر آپؓ کو تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے بے مثال اور اعلیٰ مقام کے حامل شفیق بھائی کے چہرہ مبارک کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپؓ پرافسردگی کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔ 

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کی امام عالی مقامؓ سے محبت کا یہ حال تھا کہ اپنی مادر گرامی کی گود میں رہتیں تو روتیں اور بے چین ہوتی تھیں اور جیسے ہی آپؓ کو امام عالی مقامؓ گود میں لے لیتے خاموش ہو جاتیں اور مسلسل بھائی کے چہرۂ انور کو دیکھتی رہتی تھیں۔

سیدّہ پاکؓ کو اپنے مرشد و بھائی سے اس قدر شدید عشق تھا کہ اس کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے ’’آپؓ کی امام حسینؓ سے محبت و الفت کی یہ کیفیت تھی کہ جب آپؓ نماز کاقصد فرماتیں تو پہلے روئے اقدس کعبۂ مقصودِ قبلہ اہلِ حاجات حضرت سیدّالشہدا کو دیکھ لیا کرتی تھیں۔‘‘ (مظلومۂ زینبؓ)

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کی اپنے مرشد و بھائی سے محبت و الفت کو اس مختصر تحریر میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ حقیقت میں سیدّہ زینبؓ کی اپنے شفیق بھائی سے محبت و انسیت اس قدر درجۂ کمال کو پہنچ چکی تھی کہ یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ عشقِ مرشد ہی تھا جس کے سبب آپؓ نے نہ صرف میدانِ کربلا میں اپنے عزیزمرشد و بھائی امام عالی مقام کی کامل اتباع فرمائی اور تمام مصائب کو صبر سے برداشت کیا بلکہ رضائے مرشد پر اپنے بیٹوں کے پاکیزہ نفوس کا فدیہ بھی پیش کیا۔ اس کے علاوہ غم و مصائب میں نڈھال ہونے کے باوجود کربلا سے کوفہ و شام تک کے پرُ درد سفر میں بھی آپؓ نہایت جرأت مندی اور دلیری سے اپنے مرشد و بھائی کے پیغام کو عام فرماتی رہیں۔ اسی لیے آپؓ کو ’شریکۃ الحسینؓ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

حدیثِ کربلا کی روح، ثانی بتولؓ ہے
بقائے دینِ مصطفیؐ شریکۃ الحسینؓ ہے

 

 سیدّہ زینبؓ کا ظلم کے خلاف اعلانِ حق

واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے والی ہستی سیدّہ زینبؓ کی ہے۔ آپؓ کی جرأت و شجاعت، دلیری اور بے باکی کی بدولت ہی مظلوم قافلہ تمام مصائب کو برداشت کرتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا۔ سیدّہ زینبؓ ہی وہ باکمال ہستی ہیں جنہوں نے بعد از شہادتِ حسینؓ ظلم کے خلاف حق کے علم کو بلند رکھا۔ پھر چاہے وہ کوفہ کی گلیاں ہوں، ابنِ زیاد ملعون کا دربار یا یزید ملعون کا محل۔۔۔ ہر مقام پر حیدرِ کرارؓ کی شہزادی نے نہایت جرأت اوربے باکی سے عبرت انگیزخطبات فرمائے۔

فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

روایات میں ہے کہ جب میدانِ کربلا سے خواتین کا مظلوم قافلہ کوفہ میں داخل ہوا تو ہزاروں کی تعداد میں کوفی جمع ہو گئے، انہیں دیکھ کر سیدّہ زینبؓ بے اختیار ہو گئیں اور فرمایا ’’لوگو! اپنی نظریں نیچی رکھویہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی بیٹیاں اور اولادہے۔‘‘ اس کے بعد آپؓ نے اہلِ کوفہ کے سامنے عبرت انگیز خطبہ دیا ’’اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: اے کوفیو! اے مکارو! اے عہد شکنو! اپنی زبان سے پھر جانے والو، خدا کرے تمہاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں۔ تمہاری مثال ان عورتوں کی سی ہے جو خود ہی سوت کاتتی اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ تم نے خود ہی میرے بھائی سے رشتہ بیعت جوڑا اور پھر خود ہی توڑ ڈالا۔ تمہارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے۔ تمہاری فطرت میں جھوٹ، دغا اور منافقت ہے۔ خوشامد، شیخی خوری اور عہد شکنی تمہارے خمیر میں ہے۔ تم نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ بہت بُرا ہے۔ تم نے خیرالبشرؐ کے فرزند کو جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، قتل کیا ہے۔ خدا کا قہر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ آہ کوفہ والو! تم نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو منہ بگاڑ دینے والا اور مصیبت میں مبتلا کرنے والا ہے۔ یاد رکھو! تمہارا ربّ نافرمانوں کی تاک میں رہتا ہے، اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ اس خطبہ کو سن کر کوفیوں کو اس قدر ندامت ہوئی کہ ان میں سے اکثر کی روتے روتے گھگھی بندھ گئی۔

دوسرے دن کوفہ کے گورنر ابنِ زیاد ملعون نے اپنی فتح اور رعب و جلال کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنے دربار کو سجایا اور اس نیت سے اسیرانِ اہلِ بیتؓ کو بلوایا کہ وہ اس کی تعظیم کریںگے لیکن حالات اس ملعون کی سوچ کے برعکس ہوئے۔ اسیرانِ اہلِ بیتؓ میں سے کسی نے اس کی تعظیم نہ کی بلکہ تمام اسیرانِ اہلِ بیتؓ سیدّہ زینبؓ کی زیرِ نگرانی بغیر اجازت لیے دربار کے ایک گوشہ میں خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ جب ابنِ زیاد ملعون نے سیدّہ زینبؓ کا وقار اور حیدری رعب و جلال دیکھا تو اپنی خفت چھپانے کے لیے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ اس کی لونڈی نے کہا ’زینبؓ بنتِ علیؓ ہیں۔‘ اس پر اس ملعون نے باآوازِ بلند کہا’ ’خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے دعوؤں کو جھٹلایا۔‘‘ تب سیدّہ زینبؓ نے نہایت بے باکی سے جواب دیا ’’خدا کا شکر ہے جس نے اپنے رسول محمدؐ کے ذریعے ہمیں عزت بخشی۔ انشا اللہ فاسق رسوا ہوں گے اور جھٹلائے جائیں گے۔‘‘ ابنِ زیاد نے کہا ’’تم نے دیکھا کہ تمہارے بھائی اور ساتھیوں کا کیا حشر ہوا؟‘‘ سیدّہ زینبؓ نے حیدری جلال سے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں درجۂ شہادت پر فائز کیا۔ عنقریب وہ اور تم داورِ محشر کے سامنے جمع ہوںگے اس وقت تمہیں پتا چل جائے گا کہ کس کا کیا حشر ہوتا ہے۔‘‘ ابنِ زیاد ملعون جھلاّ کر بولا ’’بنی ہاشم کے سب سے سرکش آدمی کے قتل سے میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔‘‘ 

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کو اس ملعون کی اس بات پر بڑا رنج ہوا۔ اُنہوں نے بے اختیار فرمایا ’’خدا کی قسم! تونے ہمارے گھر والوں کو نکالا، ہمارے ادھیڑوں کو قتل کیا، ہماری شاخوں کو کاٹا، ہماری جڑوں کو اکھاڑا، اگر اسی سے تمہارا دل ٹھنڈا ہونا تھا تو ہو گیا۔‘‘ اس کے بعد جب ابنِ زیاد ملعون سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو اس کی نظر سیدّنا زین العابدین ؓ پر پڑی۔ اس نے انہیں بھی شہید کرنے کا ارادہ کیا تو سیدّہ زینبؓ نے سیدّنا امام زین العابدینؓ کو ابنِ زیاد کے ناپاک ارادوں سے بچایا۔ آپؓ نے فرمایا ’’اے ابنِ زیاد! کیا تو ابھی تک ہمارے خون سے سیر نہیں ہوا۔ کیا اس نقاہت اور بیماری کے مارے ہوئے بچے کو بھی مارو گے۔ اگر اسے قتل کرنا ہے تو اس کے ساتھ مجھے بھی مار ڈال۔‘‘ پھر سیدّہ زینبؓ نے اپنے معصوم بھتیجے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔    

کچھ دیر تک ابنِ زیاد خاموش رہا پھر کہا’’لڑکے کو عورتوں کے ساتھ رہنے دو۔‘‘ چند دنوں کے بعد فوج کے پہرے میں اسیرانِ اہلِ بیتؓ اور شہدا کے سروں کو یزید کے پاس دمشق روانہ کر دیا گیا۔ جب سیدّنا امام حسینؓ کے سرِاقدس کو یزید ملعون کے دربار میں پیش کیا گیا تو خواتین اہلِ بیتؓ رونے لگیں، دل تو پہلے ہی عزیزوں کی جدائی سے نڈھال تھا، آپؓ بے اختیار پرُسوز آواز میں مخاطب ہوئیں ’’اے حسینؓ، اے محمد مصطفیؐ کے دل بند، اے دوشِ پیمبرؐ کے سوار، اے فاطمۃ الزہراؓ کے لختِ جگر، اے جنت کے نوجوانوں کے سردار۔‘‘ 

یزید نے پوچھا ’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ حسینؓ کی چھوٹی بہن زینبؓ ہیں۔ اس پر سیدّہ زینبؓ سے مخاطب ہو کر اس ملعون نے کہا ’’میری عمر کی قسم، حسینؓ کے نانا میرے دادا سے بہتر تھے، حسینؓ کی ماں میری ماں سے بہتر تھیں۔ رہا حسینؓ کا باپ اور میرا باپ تو سب کو معلوم ہے کہ خدا نے کس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔‘‘

 اس کے جواب میں سیدّہ زینبؓ نے اس قدر بے باکی، جرأت و دلیری سے یزید ملعون اور اہلِ دربار کے سامنے ایسی دردناک و عبرت ناک تقریر فرمائی جس کی تاریخ میں مثال نہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایاـ:

’’اے یزید! گردشِ افلاک اور ہجومِ آفات نے مجھے تجھ سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا۔ یاد رکھ اللہ ربّ العزت ہم کو زیادہ عرصہ تک اس حال میں نہ رکھے گا۔ ہمارے مقاصد کو ضائع نہ کرے گا۔ تو نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، اپنے آپ کو پہنچایا ہے۔ آہ! تیرے آدمیوں نے دوشِ رسولؐ کے سوار اور اس کے بھائیوں، فرزندوں اور رفقا کو نہایت بے دردی سے ذبح کر دیا۔ انہو ں نے پردہ نشینانِ اہلِ بیتؓ کی بے حرمتی کی۔ اے کاش تو اس وقت شہیدانِ کربلا کو دیکھ سکتا تو اپنی ساری دولت و حشمت کے بدلے اُن کے پہلو میں کھڑا ہونا پسند کرتا۔ ہم عنقریب اپنے ناناؐ کی خدمت میں حاضر ہو کران مصائب کو بیان کریں گے جو تیرے بے درد ہاتھوں سے ہمیں پہنچے ہیں اور یہ اس جگہ ہو گا جہاں اولادِ رسولؐ اور اس کے ساتھی جمع ہوں گے۔ ان کے چہروں کا خون اور جسموں کی خاک صاف کی جائے گی۔ وہاں ظالموں سے بدلہ لیا جائے گا۔ حسینؓ اور ان کے ساتھی مرے نہیں بلکہ اپنے خالق کے پاس زندہ ہیں اور وہی ان کے لیے کافی ہے۔ وہ عادلِ حقیقی (اللہ)، نبیؐ کی اولاد اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے والوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ وہی ہماری امید گاہ ہے اور اسی سے ہم فریاد کرتے ہیں۔

اے یزید! تو اپنی پوری لڑائی لڑ لے، سارا مکر و فریب کر لے، اپنی پوری دوڑ لگا لے، پوری کوشش صرف کرلے اور تو ساری طاقت ہماری دشمنی میں جھونک دے (تو یہ بات جان لے کہ) خدا کی قسم! تو ہمارے ذکر کو نہیں مٹا سکے گا۔‘‘  

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ کا خطبہ سن کر یزید ملعون اور اس کے درباری سکتے میں آگئے۔ دربار میں اہلِ بیتؓ کے حق اور یزید کی ناانصافی کے متعلق سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ یزید نے جب حالات کی نزاکت کو دیکھا تو اسے یہ خوف محسوس ہونے لگا کہ لوگ اہلِ بیتؓ کی حمایت میں اٹھ کھڑے نہ ہوں تو اس خوف سے اسیرانِ کربلا کو اپنے حرم سرا میں ٹھہرایا اور چند دن بعد حضرت نعمان بن بشیر انصاریؓ کی زیرِحفاظت قافلۂ اہلِ بیتؓ کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔ 

یزیدیت کے واسطے ہے موت، بنتِ فاطمہؓ
حسینیت کا آسرا شریکۃ الحسینؓ ہیں

 

سیدّہ زینبؓ کا وصال

Sayyida Zaynab bint Ali-شہزادی سیدّہ زینبؓ کے وصال کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں:
 ایک روایت ہے کہ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آپؓ کچھ عرصہ حیات رہیں اور پھر 62ھ یں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی اور اپنے محبوب بھائی سے جنت میں جا ملیں۔ 

ایک اور روایت کے مطابق واقعہ کربلا کے بعدآپ کا دل درد و الم میں ہی مبتلارہتا۔ حضرت عبداللہؓ بن جعفرؓ آپ کو شام لے گئے۔ آپؓ وہاں پہنچنے کے بعد بیمار ہوئیں اور وہیں وفات پائی۔ 

اس کے علاوہ ایک دوسری روایت کے مطابق درج ہے کہ سیدّہ زینبؓ مدینہ منورہ میں شہیدانِ کربلا پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور مصائب کو نہایت دردناک لہجہ میں کمال فصاحت و بلاغت سے بیان فرمایا کرتی تھیں جس سے لوگوں کے دلوں میں اہلِ بیتؓ سے محبت و عقیدت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوا۔ جب یزید ملعون کو مدینہ کے ان حالات کی خبر پہنچی تو اس نے عاملِ مدینہ کو حکم بھیجا کہ وہ (سیدّہ) زینبؓ کو مدینہ سے کسی اور شہر بھیج دے۔ اس پر پہلے تو سیدّہ زینبؓ نے انکار فرمایا پھر بعض ہمدردوں کے کہنے پر آپؓ چند قرابت دار خواتین کے ہمراہ مصر تشریف لے گئیں، وہاں کے والی حضرت مسلمہؓ بن مخلد انصاری نے خاندانِ رسولؐ کی نہایت عزت و تکریم کی اور اپنے دارالاقامہ میں ٹھہرایا۔ 62ھ میں آپ نے وہیں وفات پائی۔ (واللہ ا علم بالصواب)

 سیدّہ زینبؓ کا کردار  مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ

Sayyida Zaynab bint Ali-سیدّہ زینبؓ وہ عظیم خاتون ہیں جن کی جرأت، شجاعت، صبر و استقلال اور فصاحت و بلاغت میں کوئی ثانی نہیں ۔ شہزادی زینبؓ کی حیاتِ طیبہ کا ہر ہر پہلو مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؓ چاہے بحیثیت بیٹی ہوں، بہن ہوں، بیوی ہوں ،ماں ہوں یا طالبِ مولیٰ، آپؓ کی ذات ہر مقام پر نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ بیٹی ہیں تو مولا علی کرم اللہ وجہہ کو ناز ہے، بہن ہیں توسیدّنا حسنین کریمینؓ  کی غمگسار اور مشاور ہیں، ماں ہیں تو سیدّنا عونؓ اور سیدّنا محمدؓ کی اعلیٰ تربیت فرمانے والی ہیں، جن معصوموں نے ننھی سی عمر میں ہی میدانِ کربلا میں رضائے الٰہی کو مقدم جانا اور شہادت کا مرتبہ پایا۔ الغرض سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ کی ان شہزادی نے ہر کردار کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ آپ ؓ کا کردار طالبانِ مولیٰ خواتین کو یہ بھی پیغام دیتا ہے کہ حق کے راستے میں چلتے ہوئے چاہے جتنی بھی مشکلات آئیں، حالات جیسا بھی رخ اختیار کر لیں صادق طالبِ مولیٰ کو ہمیشہ اپنی سوچ مثبت رکھنی چاہیے۔ اسی پر توکل کرتے ہوئے جرأت، شجاعت اور دلیری سے باطل قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور یہ کہ مصائب و الم جس قدر شدید ہوں، رضائے مرشد کی خاطرنہ تو وفا میں کمی ہو اور نہ ہی قربانی کے وقت کوئی لغزش دکھائی جائے اور پیغامِ مرشد جو کہ حق ہوتا ہے، اسے پھیلانے میں آخری دم تک پوری قوت لگائی جائے۔ Sayyida Zaynab bint Ali

نشان و عظمت وفا، شریکۃ الحسینؓ ہے
جہاں میں عالی مرتبہ شریکۃ الحسینؓ ہے

استفادہ کتب:
زینبؓ بنتِ زہراؓ از مولانا محمد وارث کامل
نبیؐ کی نواسی از اکبر رضوی
٭٭٭٭٭

’’سیدّہ زینب بنتِ علیؓ‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒ پر کلک کریں  

 

41 تبصرے “ظلم کے خلاف کھڑی عظیم عورت سیدّہ زینب ؓ بنتِ علیؓ Sayyida Zaynab bint Ali

  1. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  2. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  3. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  4. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  5. نشان و عظمت وفا، شریکۃ الحسینؓ ہے
    جہاں میں عالی مرتبہ شریکۃ الحسینؓ ہے

  6. ایک دن سیدّنا حضرت امام حسینؓ اور سیدّہ زینبؓ میں معصومانہ لڑائی ہو گئی۔ سیدّۃ النساءؓ نے انہیں قرآنِ مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا ’’بچو! لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ دونوں بچے خوف سے کانپ اٹھے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی نہ لڑیں گے، سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ بہت خوش ہوئیں اور انہیں سینے سے لگالیا۔

  7. ایک دن سیدّنا حضرت امام حسینؓ اور سیدّہ زینبؓ میں معصومانہ لڑائی ہو گئی۔ سیدّۃ النساءؓ نے انہیں قرآنِ مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا ’’بچو! لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ دونوں بچے خوف سے کانپ اٹھے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی نہ لڑیں گے، سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ بہت خوش ہوئیں اور انہیں سینے سے لگالیا۔

  8. Lakho karoro arbo Had o Be Had Darood o Salam Saiyda Zainab r a or Aseeran e karbobala par Imam Hassan Hussain a s par or un k ashab par or ahle Bayat r a par

  9. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  10. آپؓ دنیا کی حقیقت کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں ’’دنیا کی زندگی اس سایہ دار درخت کی سی ہے جس کے نیچے کچھ دیر مسافر سستا لیتے ہیں۔‘‘

  11. یزیدیت کے واسطے ہے موت، بنتِ فاطمہؓ
    حسینیت کا آسرا شریکۃ الحسینؓ ہیں

    1. ایک دن سیدّنا حضرت امام حسینؓ اور سیدّہ زینبؓ میں معصومانہ لڑائی ہو گئی۔ سیدّۃ النساءؓ نے انہیں قرآنِ مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا ’’بچو! لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ دونوں بچے خوف سے کانپ اٹھے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی نہ لڑیں گے، سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ بہت خوش ہوئیں اور انہیں سینے سے لگالیا۔

  12. سرورِ کونینؐ، حیدرِ کرارؓ اور سیدّۃ النساءؓ کے زیرِسایہ تربیت کے باعث سیدّہ پاکؓ عشقِ الٰہی میں سرشار، نہایت عبادت گزار اور تہجد گزار تھیں۔

  13. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  14. واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے والی ہستی سیدّہ زینبؓ کی ہے۔

  15. سیدہ زینب رضی اللہ عنہا پر بہت جامع تحریر ہے. شکریہ

  16. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  17. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  18. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  19. نشان و عظمت وفا، شریکۃ الحسینؓ ہے
    جہاں میں عالی مرتبہ شریکۃ الحسینؓ ہے

  20. بہت بہترین انداز میں سیدہ زینب کی زندگی بیان کیا گیا

  21. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

  22. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  23. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  24. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ❤❤❤❤🌹🌹🌹🌹

  25. فرمایا امانت سے خبردار ہو زینبؓ
    ہم جاتے ہیں تم قافلہ سالار ہو زینبؓ
    ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؓ
    شبیرؓ کا سر کٹتے ہی شبیرؓ تھی زینبؓ

  26. آدمیت کو ناز ہے جس پر
    وہ تقدّس مآب ہے زینبؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں