Abu Bakr Siddique

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph


Rate this post

حضرت ابوبکر صدیقؓ  Abu Bakr Siddiqueکے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے

حصہ سوم                                                                                                     تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

منکرینِ زکوٰۃ کا نقطہ نظر

Abu Bakr Siddique-حضرت اسامہؓ کا لشکر روانہ ہونے کے بعد منکرینِ زکوٰۃ زور پکڑ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس وقت مدینہ کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ مسلمانوں کو زکوٰۃ نہ دینے پر اپنی بات منا لی جائے۔

زکوٰۃ نہ دینے والوں میں عبس، ذیبان، بنوکنانہ، غطفان اور فرازہ کے قبائل شامل تھے۔ منکرینِ زکوٰۃ کو یقین تھا کہ ریاستِ مدینہ ایک طرف خارجی محاذ پر روم اور ایران جیسی طاقتور سلطنتوں سے جنگ میں مصروف ہے، دوسری طرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کی شورش عروج پر ہے، داخلی محاذ پر بھی بہت سے لوگ حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique کی خلافت کو نہیں مان رہے، اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کی خبر نے بھی مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے، ایسی صورت میں مسلمان کبھی بھی منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف لشکر کشی کی ہمت نہیں کریں گے۔

مومنین کا نقطہ نظر

منکرینِ زکوٰۃ کا معاملہ نازک اور اہم تھا۔ اس لحاظ سے غلط فیصلہ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے تقسیم کر سکتا تھا۔ معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ  Abu Bakr Siddiqueنے اکابر صحابہؓ کو مشورہ کے لئے بلایا۔ بہت سے صحابہ کرامؓ نے یہ مشورہ دیا کہ منکرینِ زکوٰۃ سے اس موڑ پر جنگ کرنا ہمیں مزید کمزور کر دے گا۔ منکرینِ زکوٰۃ سے نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کو ساتھ ملا کر دشمنانِ اسلام کے خلاف اکٹھا محاذ قائم کرنا چاہیے۔ اس طرح خارجی محاذ پر زیادہ کامیابیاں ملیں گی۔

Abu Bakr Siddique-حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب سب کی رائے سنی تو آپؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’جو لوگ نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت میں فرق رکھتے ہیں ان سے میں جنگ کروں گا۔‘‘

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ میں لکھتے ہیں:
جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلافت کے اختیارات سنبھال چکے تو کئی مالدار مسلمانوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے ہاتھ روک لیا تھا۔ مسلمانوں کا یہ مسئلہ اس قدر زیادہ اہمیت حاصل کر گیا تھا کہ اس کی گھمبیرتا اور اس کی سنگینی کو دیکھ کر حضرت عمرؓ جیسے معتمد کو بھی یہ کہنا پڑا ــ’’اے ابوبکرؓ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جانا چاہیے، انہیں اور انداز میں لیجئے۔‘‘

اس پر حضرت ابوبکرؓ نے ایک طرح کی وضاحت کے ساتھ حضرت عمرؓ سے فرمایا ’’اے عمرؓ! تم تو اسلام میں بہت سخت ہو لیکن اب تم اس قدر کمزور کیوں ہو گئے ہو؟ اللہ کا وعدہ پورا ہو چکا ہے اور منشائے ایزدی تکمیل پا چکی ہے۔ اب تم اسے تبدیل نہیں کر سکتے اور ہاں مجھے محض ایک رسی کے برابر بھی زکوٰۃ کے حصول کے لئے جنگ کرنا پڑی تو بخدا اس کے لئے تیار ہوں۔‘‘

مشورہ قبول نہ کرنے کی وجوہ

۱۔ اگر فرضیت کا پہلو ہو تو نماز کے ساتھ زکوٰۃ بھی فرض ہے۔
۲۔ قرآن میں جہاں نماز کا حکم دیا گیا ہے وہاں زیادہ تر مقامات پر  زکوٰۃ کا حکم بھی آیاہے۔
۳۔ ایک ایسا ہی واقعہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پیش آ چکا تھا کہ جب طائف کا قبیلہ بنو ثقیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس اسلام قبول کرنے آیا اور نماز کی فرضیت سے معافی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انکار کر دیا۔
۴۔ اگر منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف جنگ نہ کی جاتی تو آنے والے وقت میں بہت سے نو مسلم بھی پیسہ بچانے کیلئے اس سے انکار کر دیتے۔
۵۔ منکرینِ زکوٰۃ کو چھوٹ دینا دین بدل دینے کے مترادف تھا۔
۶۔ اگر ایک فریضہ سے چھوٹ دے دی جاتی تو آئندہ اِسی بات کو بنیاد بنا کر جس کسی کوبھی جو فریضہ مشکل لگتا وہ اسے چھوڑنے کے درپے ہو جاتا۔
۷۔ اگر اس معاملے میں رعایت برتی جاتی تو جھوٹے مدعیانِ نبوت پروپیگنڈا کر تے کہ اگر سچا دین ہوتا تو تبدیل نہ ہوتا۔ اسطرح مزید  نومسلموں کو گمراہ کر دیتے۔ 

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیا۔ جب حضرت عمر فاروقؓ نے ان کا جوش و جذبہ دیکھا تو فرمایا ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ نے منکرینِ زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے متعلق حضرت ابوبکرؓ کے سامنے حقیقت واضح کر دی ہے اور صحیح بات وہی ہے جو ابوبکرؓ نے کہی۔‘‘

منکرینِ زکوٰۃ کو پتہ چل گیا کہ ان کی بات نہیں مانی جا رہی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ حضرت اسامہؓ کا لشکر واپس آ جائے، مدینہ پر ابھی حملہ کر دینا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حملے سے پہلے ہی ہماری طاقت کو دیکھتے ہوئے ہمیں رعایت دے دیں۔ منکرین اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اگر انہوں نے انتظار کیا اور دیکھا کہ مسلمان کیا کرتے ہیں تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جائے گی۔ اسلئے سمجھداری اسی میں ہے کہ لشکر کی واپسی سے پہلے ہی مسلمانوں پر لشکر کشی کر دی جائے۔ 

یہ تمام قبائل مدینہ کے گرد ایک منزل کے فاصلے پر خیمہ زن ہو گئے۔  انہوں نے حملہ کرنے سے قبل مدینہ میں اپنا وفد بھیجا جو حضرت ابوبکرصدیقؓ سے ملا۔ ان سے دوبارہ رعایت پربات کی لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ کا وہی جواب تھا جو انہوں نے اکابر صحابہ کرامؓ کے سامنے کہا تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ  Abu Bakr Siddique نے جواب دیا:
’’اگر انہوں نے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘ 

اس جواب سے وفد کو مایوسی ہوئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہماری طاقت اور اسلحہ دیکھ کر اہلِ مدینہ مان جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ان مشکل حالات میں حق پر ڈٹے رہے۔ وفد اس دوران بڑی گہری نظر سے مدینہ کی عسکری طاقت کا معائنہ کرتا رہا۔ ان کو یقین ہو گیا کہ اہلِ مدینہ ان سے جنگ نہیں کر سکتے۔ وفد کے واپس جانے کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ نے مدینہ کے سب مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور خطاب فرمایا ’’اب تک تو ان کا خیال تھا کہ ہم ان کی بات مان جائیں گے لیکن اب ان کو یقین ہے کہ ان کی بات نہیں مانی جائے گی اس لئے ان کی طرف سے حملے کے لئے تیار رہو۔ ‘‘

اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو ایک ایک دستہ دے کر مدینہ کے ان ناکوں پر کھڑا کر دیا جہاں جہاں سے بھی حملہ متوقع تھا۔ 

وفد کے جانے کے تیسرے روز حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique  کو اطلاع موصول ہوئی کہ دشمن حملے کی تیاری کر چکاہے اور کل حملہ ہوگا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے مدینہ میں موجود مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور رات کی تاریکی میں حملے کے لئے نکل پڑے۔ دشمن کو اس حالت میں جا پکڑا کہ دشمن سو رہا تھا۔ دشمن نے گھبرا کر واپس بھاگنا شروع کر دیا۔ بھاگتے بھاگتے منکرین اس جگہ پہنچ گئے جہاں ان کی کمک موجود تھی۔ اس مقام پر کافی دیر جنگ ہوتی رہی۔ منکرین نے مسلمانوں کے ہاتھیوں پر کمندیں پھینکنا شروع کر دیں۔ مسلمانوں کے اونٹ گھبرا کر مدینہ کی طرف دوڑنے لگے۔ اس طرح یہ جنگ فیصلہ کے بغیر ختم ہوئی اور مسلمان مدینہ آگئے۔

منکرین کا خیال تھا کہ اب تو مسلمانوں کی طاقت مزید کمزور ہو چکی ہے اس لئے اب ان پر پوری طاقت سے حملہ کریں گے۔ اگلی رات حضرت ابوبکر صدیقؓ اور باقی صحابہ بالکل نہ سوئے بلکہ جنگ کی تیاری کرتے رہے۔ رات کے آخری پہر مدینہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلمانوں کو لے کر حملے کے لئے نکلے۔ دشمن ایک مرتبہ پھردنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا تھا۔ مسلمانوں نے منکرین کو عبرت ناک شکست دی۔ مسلمانوں نے کافی دور تک منکرین کا تعاقب کیا اور پھر واپس آ گئے۔ 

جنگ ابرق

منکرینِ زکوٰۃ ابرق کے مقام پر جمع تھے۔ ابرق کے مالک بنی ذیبان کے قبیلے والے تھے جو منکرینِ زکوٰۃ میں پیش پیش تھے۔ حضرت اسامہؓ کا لشکر کامیاب و کامران واپس لوٹا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اب بھی منکرین کے جو بچے کچے اثرات تھے، ان کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ شکست کے بعد منکرین اپنے علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے۔ ان کے لئے جینا مشکل کر دیا۔ 

 حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique نے مدینہ کی حفاظت کے لیے لشکرِاسامہ کو چھوڑا اور باقی مسلمانوں کو لے کر ابرق کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں بھی آپؓ نے منکرین کو عبرتناک شکست دی۔ بنو ذیبان کو وہاں سے بے دخل کر دیا اور حاصل ہونے والی زمین مسلمانوں میں تقسیم فرما دی۔ 

استاذعمر ابوالنصر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
سیدّنا ابوبکر صدیقؓ نے بنو بکر، غطفان، عبس اور ذیبان وغیرہ منکرینِ زکوٰۃ اور مرتدین کو شکست دے کر جلا وطن کر دیا تو وہ براخہ جا کر طلحہ بن خویلد اسدی سے مل گئے تھے۔ سیدّنا ابوبکر صدیقؓ نے یہ اعلان بھی فرمایا تھا کہ یہ بستیاں چونکہ اللہ نے مالِ غنیمت کے طور پر ہمیں عطا کی ہیں اس لئے ان کو مفرور باشندوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے ابرق اور ربذہ کے آس پاس کی زمینیں اور چراگاہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں اور مدینہ واپس لوٹ آئے۔ (سیرت سیدّنا صدیق اکبرؓ)

 اس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی فہم و فراست اور عزم و ہمت سے منکرینِ زکوٰۃ کے فتنے کو زمین بوس کر دیا۔ محمد حسین ہیکل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کے متعلق فرماتے ہیں ’’نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہم جس مقام پر کھڑے تھے وہ نہایت خطرناک مقام تھا۔ اللہ اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہم ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتے۔ ہم مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ زکوٰۃ کے اونٹ وصول کرنے کے لئے ہمیں جنگ نہیں کرنی چاہیے لیکن ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰۃ سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ نے حضرت ابوبکرؓ کو توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی جس کی وجہ سے مسلمان ان حالات سے نکلنے کے قابل ہو گئے۔‘‘ (جاری ہے)

’’سیدّنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں

 
 

43 تبصرے “حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph

    1. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
      حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔❤

  1. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
    حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔❤

  2. بہت عظیم کاوشیں کی گئی حضرت ابو بکر صدیق رض کے دور میں

  3. ماشااللہ بہترین آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ❤❤❤

  4. حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی فہم و فراست اور عزم و ہمت سے منکرینِ زکوٰۃ کے فتنے کو زمین بوس کر دیا۔

  5. ان فتنوں کا خاتمہ آسان کام نہ تھا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکمت کی بدولت سب ممکن ہوا

  6. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
    حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔❤

اپنا تبصرہ بھیجیں