رحمت ِ الٰہی Rehmat-e-Elahi


4.1/5 - (30 votes)

رحمتِ الٰہی  (Rehmat-e-Elahi)

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ لاہور

رحمت عام طور پر مہربانی کو کہتے ہیں لیکن اس کا اصل معنی بھلائی اور احسان کے لئے کسی کی طرف دل کا جھکنا اور نرم ہونا ہے۔
رحمت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معانی رحم، نرم دلی، مہربانی، کرم، شفقت اور عنایت کے ہیں۔ اس کی نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تواللہ تعالیٰ کی طرف سے دین و دنیا میں ہر قسم کی بخشش و سلامتی، درود و سلام مراد لیا جاتا ہے۔
 اِسی طرح اگرخاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہو تو مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لقب ہے جو تمام جہانوں کے لیے پیامِ رحمت بن کر آئے۔
آئمہ لغت اور علما و محققین نے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے:
رحمت دل کی ایسی رقت اور نرمی کو کہتے ہیں جو مرحوم (جس پر رحم کیا جائے) پر احسان کا تقاضا کرے۔ (امام راغب اصفہانی،المفردات: 347)
قاضی بیضاوی اسی معنی کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
رحمت درحقیقت اس کیفیت کا نام ہے جو دل پر رقت اور نرمی کی صورت میں پیدا ہوتی ہے اور کسی مستحق کی طرف بھلائی اور احسان کے ساتھ پیش آنے کا تقاضا کرتی ہے۔
رحمت دو اجزا ’’دل کی نرمی و رقت اور دوسرے فضل و احسان‘‘ پر مشتمل ہے۔ رقتِ قلب اور احسان دونوں تبھی ممکن ہیں جب کوئی فرد پریشان اور خستہ حال ہو، اس کی پریشانی اور خستہ حالی دیکھی نہ جا سکے اور دیکھنے والے کے دل میں ایسی نرمی، رقت اور ہمدردی پیدا ہو جائے جو اس پر احسان کرنے اور پریشانی دور کرنے کا سبب بن جائے۔اس قلبی کیفیت کو رحمت کہا جاتا ہے۔ 

رحمتِ الٰہی کا تصور

نظامِ قدرت کا ایک ایک گوشہ رحمتِ الٰہی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ عالمِ ہستی میں ظہور پذیر ہونے والا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جو رحمتِ الٰہی پر دلالت نہ کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خالقِ کائنات نے اپنی ذات کی نسبت واضح طور پر لزومِ رحمت کا حکم صادر فرمایا:
اس نے اپنی ذات پر رحمت لازم فرما لی ہے۔(سورۃ الانعام۔ 12)
 ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
 آپ (ان سے شفقتاً) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو تمہارے ربّ نے اپنی ذات کے (ذمہ کرم) پر رحمت نازل لازم کر لی ہے۔ (سورۃ الانعام۔54)

رحمتِ الٰہی کی صورتیں

۱۔حسی رحمت
۲۔معنوی رحمت

حسی رحمت:

اس سے مراد حیاتِ انسانی کے وہ اصاف و احوال ہیں جو ظاہراً ہر ایک کو رحمت معلوم ہوتے ہیں ان کی افادیت میں کسی کو شک نہیں، ہر وجود بلا امتیاز ربّ العالمین کی ان عنایتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ظاہری انعامات و احسانات ہیں جن کا کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انسانی تخلیق میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عالمِ آب و گل میں وجود عطا کر کے اس دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے کس قدر جسمانی نعمتوں سے بہرہ وَر فرمایا ہے۔ اس نے انسان کو سب سے پہلے متوازن اور متناسب اعضا پر مشتمل ایک ایسا خوبصورت وجود بخشا جسے تمام حسی مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک ہم نے انسان کو اچھی صورت پر بنایا۔ (سورۃ التین۔ 4)

معنوی رحمت:

راحتیں رحمتِ الٰہی کی حسی صورتیں ہیں مگر زندگی کی تکلیفیں اس کی رحمت کی معنوی صورتیں قرار دی گئی ہیں۔ اس کے کارخانۂ حیات میں کوئی شے زحمت نہیں۔ تکلیف کے بغیر نعمت کی لذت، لذت نہیں رہتی۔ تکلیفیں نہ ہوں تو نعمت اور راحت انسانی زندگی کے لیے کسی بھی خصوصی لطف کا باعث نہ رہیں۔ یہ تکلیفیں ہی ہیں جو حیاتِ انسانی کو لذت آشنا کرتی ہیں۔
ہر تکلیف اس وجہ سے معنوی رحمت ہے کہ وہ رحمت و عنایت اور فضل و احسان کا باعث بنتی ہے کیونکہ رحمت کا نزول ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کسی کا تکلیف میں مبتلا ہونا رحمت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس لیے تکلیف رحمت کے منافی نہیں بلکہ رحمت کا سبب قرار پاتی ہے۔ بسا اوقات تکلیف کے ظاہری عوامل کو دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نجانے کس وجہ سے زحمت میں مبتلا ہوا ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی یہی حالت استحقاقِ رحمت کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ رحمت کی صفت سے متصف اور ارحم الرّاحمین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت میں غالب ترین عنصر رحمت کا ہے۔ (اسلام دینِ امن و رحمت ہے)

سورۃ الفاتحہ میں رحمت کا اظہار

اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اپنے ذاتی اسم اللہ کے تعارف کے لیے ربّ العالمین کا انتخاب فرمایا اور ربّ العالمین کے تعارف کے لیے الرحمن الرحیم کو منتخب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ربّ العالمین کے لفظ سے تعارف کروا کر عالمِ انس و جن تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ اس کی ربوبیت ایک نسل،قبیلے، علاقے اور کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ وہ تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کا ربّ ہے۔ اس کی ربوبیت آفاقی ہے۔ یہ اسلام کے دینِ رحمت ہونے کا ایسا عالمگیر پیغام ہے جو نہ صرف انسانیت کے لیے بلکہ تمام مخلوقات اور ساری کائنات کے لیے ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی دوسرے کو شریک ٹھہراتا ہے، اس کی بندگی کرتاہے، اللہ کی توحید کا انکار کرتا ہے۔۔۔ اس کے باوجود رحمتِ الٰہی بندے کو چشمِ فیض سے محروم نہیں کرتی۔ کوئی اسے مسجد میں پکارتا ہے تو کوئی مندر میں۔ وہ رحیم تو بلا امتیاز ہر ایک کی پرورش کرتا ہے کیونکہ اس کی ربوبیت کا مدار کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے پر نہیں بلکہ اس کی رحمت کائنات کی ہر چیز کے لیے عام ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں جو اسلوب اپنی ربوبیت ِعامہ کے لیے بیان فرمایا وہی اسلوب اپنے آخری نبی کی رحمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔(سورۃالانبیا۔107)

گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت بھی عالمین کے لیے عام رکھی ہے اور اپنے محبوبؐ کی رحمت بھی عالمین کے لیے عام رکھی ہے۔ اللہ نے اپنی شانِ ربوبیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کی آفاقیت و عالمگیریت کا جو تعارف کرایاہے اس کا مقصد بنی نوع انسان کو یہ پیغام دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا نور انسان کے قلب و باطن، شعور، عقیدہ وعمل، اخلاق و کردار میں سرایت کر جائے تو پھر اس کی ربوبیت کی مظہریت کا نقشہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کا نقشہ انسان کی شخصیت کو بدل ڈالتاہے۔ لہٰذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ تمام تر طبقاتی وفاداریوں سے نکل کر ساری دنیا کے لیے فیض رسانی کا مرکز بن جائے۔ اس کی رحمت سب کے لیے ایسے عام ہو جائے جیسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا چشمہ ساری کائنات کے لیے ہے۔
اللہ ربّ العزت نے سورۃ فاتحہ میں جب الرحمن الرحیم کے عنوان سے اپنی صفات کو بیان فرمانا چاہا تو اس سے قبل الحمدللہ کے ذریعے اپنی شانِ الوہیت کو بیان فرمایااورربّ العالمین کے ذریعے اپنی شان ربوبیت کا اظہار فرمایا۔ ان دونوں شانوں کا اظہار فرما کر الرحمن الرحیم کے ذریعے اپنی صفاتِ رحمت کو بیان فرمایا اوریوں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت و ربوبیت اور رحمت کے درمیان ایک ربط قائم کرتے ہوئے کہا کہ میری الوہیت کو میری شانِ ربوبیت سمجھو اور اگر میری شانِ ربوبیت کو سمجھنا ہے تو اسے میری صفات الرحمن الرحیم کے آئینۂ رحمت سے سمجھو۔ اللہ وہ ذات ہے جو رحمن اور رحیم ہے۔
 سورۃ فاتحہ میں صفات و انعامات، سزا اور انتقام کا تذکرہ بھی آیا ہے لیکن اللہ پاک نے اپنی صفت ِرحمت کو ابتدا میں بیان فرما کر باقی صفات کو مؤخر رکھا۔ اللہ پاک نے اپنی مالکیت، معبودیت، مدد، اعانت، ہدایت، انعام فرمانے، گمراہی چاہنے والوں کی گمراہی  بڑھانے اور غضب کی مظہر صفات کے ذکر پر اپنی رحمت کو مقدم رکھا کہ وہ ربّ ایسی رحمت والا ہے کہ جس کی رحمت سے بڑھ کر کسی رحمت کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ ذات ایسی رحمت والی ہے جو اوّل تا آخر سراسر رحمت ہے۔ (اسلام دین امن و رحمت ہے)

رحمتِ خاصہ گناہ گاروں کے لیے

اللہ پاک کی رحمت کا دائرہ کار ہر خاص و عام کے لیے محیط ہے، وہ ہر شخص کے حسبِ حال اس پر اپنے رحم و کرم کی بارش برساتا ہے مگر جو لوگ بتقاضائے بشر یت گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر نادم ہو کر اس کی جانب لوٹ آتے ہیں تو ان کا یہ عمل اللہ پاک کو بہت پسند ہے اور یہ لوگ اس کی رحمت ِ خاصہ کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور تمہارے بدلے میں ایک ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتا۔ (صحیح مسلم6965)

ابوبکر الوراق کہتے ہیں:
گناہ گاروں کا خشوع و خضوع اطاعت گزاروں کے وقار و تمکنت سے افضل ہے۔(ابو عبد الرحمن السلمی، طبقات الصوفیہ)
رحمتِ الٰہی کو جو لطف گناہ گاروں کے توبہ کرنے پر انہیں معاف کرنے میں آتا ہے وہ عبادت گزاروں کے سجدوں میں نہیں آتاکیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے عبد الکریم بن معقل کے واسطے سے سیدّنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اپنے گناہ پر نادم ہونا ہی توبہ ہے۔(الخوارزمی، جامع المسانید۔  للامام ابی حنیفہ۔98:1)( اسلام دینِ امن و رحمت ہے)

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے.

اللہ ربّ العزت نے اپنی رحمت کو کائنات کی ہر شے پر وسیع کر رکھا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو اپنے غضب و جلال پر بھی وسیع کر دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنے پاس عرش پر رکھی ہوئی کتاب میں لکھ لیا، اس نے اپنی ذات کے لیے لازم کر لیا ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب رہے گی۔ (مسلم6971)
 ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
 جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش کے اوپر لکھ دیا:بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ (مسند احمد 10015)
 اسی کے متعلق قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔ (سورۃ الاعراف۔ 156)

اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ نام ’’الرحمن‘‘

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک اپنے اسما کا تعارف کراتے ہوئے فرماتا ہے:
فرما دیجیے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو سب اچھے نام اسی کے ہیں۔(سورۃ بنی اسرائیل۔110)
آسمانوں اور زمین میں جو بھی مخلوق آباد ہے (خواہ فرشتے ہیں یا جن و انس) وہ رحمن کے حضور محض بندہ کے طور پر حاضر ہونے والے ہیں۔ (سورۃ مریم۔93)
بے شک تمہارا ربّ رحمن ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔ (سورۃطہٰ۔90)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ (منکرینِ حق) کہتے ہیں کہ رحمن کیا  ہے؟ کیا ہم اسی کو سجدہ کرنے لگ جائیں جس کا آپ ہمیں حکم دے دیں اور اس (حکم) نے انہیں نفرت میں اور بڑھا دیا۔ (سورۃ الفرقان۔ 60)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے لفظ رحمن کا انتخاب کیوں فرمایا ہے؟ اس نے خالق، باری تعالیٰ، قادر، علیم، خبیر، حیّ، قیوم، معبود یا دیگر اسما ئے صفات میں کسی ایک کو کیوں نہیں چنا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بتانا چاہتا ہے کہ ذاتی نام اللہ کے علاوہ اگرکوئی صفاتی نام میرے نام کے قائم مقام ہو سکتاہے تو ’رحمن‘ سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اسے چنا جائے۔ گویا انسانیت کو بتا دیا کہ رحمن میری فراوانیٔ رحمت کی شان کا حامل وہ اسم ہے جو ساری صفات پر غالب ہے اور میری رحمت اور میری ذات کے قریب ہے۔ میں نے اپنے لطف و کرم سے رحمت کرنے کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے اس لیے میں نے اس صفتِ رحمن کو اپنی تمام صفات پر مقدم رکھا ہے۔

صفتِ رحمت، صفتِ علیم پر مقدم ہے

اللہ پاک کی ذات مبارکہ کی تمام صفات پر صفتِ رحمت کے غلبہ کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنی صفتِ علیم پر بھی صفتِ رحمت کو مقدم رکھا۔
 سورۃ المو من میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: 
 اے ہمارے ربّ ! تو اپنی رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔(سورۃالمومن۔7)
 یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی دو صفات رحمت اور علیم کو اکٹھا بیان فرمایا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں بھی رحمت کو علم سے مقدم رکھا گیا ہے جس میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ ہمارا ربّ وہ ہے جس کا علم اور رحمت ہر شے پر وسیع ہے بلکہ ترتیب یہ بنائی کہ اے ہمارے ربّ تو اپنی رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جیسے وسیع اور محیط ہے ویسے اس ربّ العزت نے اپنی رحمت کے بیان کو بھی الرحمن اور رحیم کی شکل میں بہت وسیع کر کے بیان فرمایا ہے۔

صفتِ رحمت کو اپنے اوپر واجب ٹھہرانا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 آپ (ان سے سوال) فرمائیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے؟( پھر یہ بھی ) فرما دیں کہ اللہ ہی کا ہے اس نے اپنی ذات کے ذمہ کرم پر رحمت لازم فرما لی ہے۔(سورۃ الانعام۔12)
 اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں ہر مخلوق جس پر رحمت کو نازل کرنا اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے اس رحمت کو بھی بیان فرمایا ہے۔ وہ یہ کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اگر نادانی اور جہالت کے سبب گناہ کر بیٹھے تو پھر بھی اس کے لیے معافی اور توبہ کا راستہ کھلا ہے بشرطیکہ گناہ کرنے والا شخص نادم ہو کر توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لے۔ اللہ تعالی نے مغفرت اور رحمت کو یکجا کر کے گنہگار انسانوں کو بتا دیا ہے کہ تم اس کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا کیونکہ اس کا خزانۂ رحمت اور خزانۂ مغفرت دونوں ہی بہت وسیع ہیں۔

رحمتِ الٰہی کے سبب مواخذہ اور عذاب میں تاخیر

رحمتِ الٰہی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات و افعال میں سے غالب تر مظاہرہ اس کی صفتِ بخشش و مغفرت اور اس کی صفتِ رحمت کا ہے وہ اسی لیے گناہوں اور لغزشوں پر اپنے نافرمان بندوں کی فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنی رحمت کے سبب توبہ اور اصلاح کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے تاکہ وہ اپنی حرکات پر نادم و شرمندہ ہو کر صحیح معنوں میں توبہ کرنے والے بن جائیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اگر وہ ان کے کیے پر ان کا مواخذہ فرماتا تو ان پر یقینا جلد عذاب بھیجتا۔ (سورۃالکہف۔58)

انبیا کی بعثت ،رحمتِ الٰہی کا مظہرِ اُتمّ ہے

مختلف ادوار میں انبیا کی بعثت بھی اللہ پاک کی رحمت کے مظاہر میں سے ہے۔ اللہ ربّ العزت کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی قوم یا کسی بستی والوں کی طرف نبی یا رسول مبعوث کیے بغیر ان کی بداعمالیوں پر انہیں سزا نہیں دیتا۔ اس کا فرمان ہے:
اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم اس قوم میں کسی رسول کو بھیج لیں۔ (سورۃبنی اسرائیل ۔15)
 چنانچہ کسی بھی قوم یا بستی میں اللہ تعالیٰ پہلے اپنے نبی اور رسول کو بھیجتا جو انہی میں پیدا ہوتا، پرورش پاتا اور جوان ہوتا۔ ان کے ساتھ ایک موانست کی فضا میں زندگی گزارتا پھر انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا اور اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور اپنے ربّ کے معجزات دکھاتا۔
اللہ تعالیٰ کی یہ شان اور شیوہ ہی نہیں کہ وہ کسی کو اتمامِ حجت کے بغیر عذاب میں مبتلا کر دے بلکہ وہ پہلے اپنے رسولوں کو بھیج کر ہر طرح سے اتمامِ حجت فرماتااور اس کے بعد جب قوم کو نصیحت کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تو وہ قوم بالآخر عذاب کا سامنا کر کے اپنے کیے کی سزا پاتی۔ پس انبیا کرام کی بعثت اور لوگوں کی ہدایت کے لیے ان کا بھیجا جانا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اعلیٰ مظہر ہے۔

قرآنِ مجید عظیم منبعِ رحمت

اللہ پاک کی وسیع اور عظیم رحمت کا ایک مظہر قرآنِ مجید ہے۔ اُمّ الکتاب کو بھی اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی مختلف صفات اور خواص بیان کیے مگر سب سے زیادہ ہدایت اور رحمت ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
اور بے شک یہ (قرآن) ہدایت اور مومنوں کے لیے رحمت ہے۔ (سورۃ النمل۔77)

 ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
 یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں جو نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (سورۃ لقمان۔ 3-2)
گویا قرآنِ مجید رحمت بھی ہے، منبع رحمت بھی ہے اور باعثِ رحمت بھی ہے۔

قرآنِ مجید رحمت اور بیانِ رحمت

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمت کے وسیع اور کثیر ہونے کو بھی قرآنِ مجید میں نہایت کثرت کے ساتھ بیان فرمایا۔ اپنی ذات مقدسہ کے لیے اپنی صفت رحمت کا بیان اس نے قرآنِ مجید میں اس طرح کیا ہے کہ وہ تمام اسما جو اس کی رحمت کے معنی پر دلالت کرتے ہیں انہیں کثرت سے استعمال فرمایا ہے۔

اللہ ربّ العزت کی انتہائے رحمت پر دلالت کرنے والی صفات الرحمن اور الرحیم کے بیان کی تفصیل درج ذیل ہے:
قرآنِ مجید میں الرحمن اور الرحیم کا ایک ساتھ بیان  113  مقامات پر آیا ہے۔
صرف ’’الرحمن‘‘ کا بیان  57 مقامات پر
صرف ’’الرحیم‘‘ کا بیان  95 مقامات پر
علاوہ ازیں قرآنِ مجید میں ایسے سینکڑوں مقامات ہیں جہاں مختلف انداز میں رحمت کا موضوع ہی بیان ہوا ہے۔( اسلام دینِ امن و رحمت ہے)

اللہ تعالیٰ کی رحمت پر خوشیاں منانے کا حکم

سورۃ یونس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدیؐ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ (سورۃ یونس58)

اللہ ربّ العزت نے اپنے فضل اور رحمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اسے ذکر کے اعتبار سے خاص اور عمل کے اعتبار سے اتنا عام کر دیا کہ اس پر خوشیاں منانے کاحکم عطا فرمایا ہے۔اللہ ربّ العزت کی رحمت اتنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہر نعمت کے ملنے کی بنیاد اور اساس اللہ پاک کی رحمت ہی ہے۔ اللہ ربّ العزت کے جتنے بھی انعامات ہیں یہ خود بھی اللہ کی رحمت ہیں اور ان کی بنیاد بھی اللہ کی رحمت ہے۔

دنیاوی تعلقات شفقت رحمتِ الٰہی کا حصہ

اللہ ربّ العزت کی رحمت کے100 حصوں میں سے صرف ایک حصّہ اس نے دنیا میں اتارا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو(100) حصے بنائے جن میں سے اس نے ننانوے) 99 (حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر اتار دیا۔ ساری مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہ اسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا بھی اپنے بچے کے اوپر سے اپنے پاؤں اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے۔ یہ اس رحم کا کرنا بھی رحمت کے اسی ایک حصہ کے باعث ہے۔(بخاری6000، مسلم 6972)

 دیکھا جائے تو اللہ ربّ العزت کی ذات وصفات حصے بننے سے مبرّا اور پاک ہے اس نے فقط ہمیں سمجھانے کے لیے فرمایا تاکہ تم فہم، شعور اور ظرف کے مطابق یوں سمجھو کہ جیسے میں نے اپنی رحمت کے سو حصے کیے ہیں اور ان میں سے میری رحمت کے ایک حصے کا حال گویا یہ ہے کہ ابتدا سے انتہائے کائنات تک سب کچھ میری رحمت کا فقط ایک حصہ ہے۔

الغرض ہمارا ربّ انسانوں پر انتہائی درجے کا مہربان،بے پایاں شفقت و بے حد بخشش فرمانے والا اور لامحدود نعمتیں اور سہولتیں عطا کرنے والا پروردگار ہے مگر اس کے باوجود انسان اللہ کی نعمت سے مایوس اور اس کی رحمت سے دور بھاگتاہے اور اتنے کریم ربّ کی دعوت پر لبیک نہیں کہتا۔ یہ ربّ العزت کا کرم ہے اس نے انسان کو بد صورت یا جانوروں جیسی صورت والا بنا کر بھیجا نہ ہی ایک آنکھ ایک کان یا ایک ہاتھ والا بنایا بلکہ نہایت متناسب، متوازن اور حسین بنایا۔ الغرض پیدائش سے لے کر وفات اورپھر وفات کے بعد سے قیامت تک ربّ رحمن کے ہم پربے بہا انعامات اور احسانات ہیں جو وہ ہر گھڑی انسانوں پر کرتا ہے مگر انسان پھر بھی اپنے ربِّ کریم کی طرف متوجہ نہ ہو تو اس سے بڑھ کر کفرانِ نعمت بھلا اور کیا ہوگا؟؟؟

آئیے ! اپنے ربّ رحیم کی رحمتوں کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی خانقاہ کا رُخ کریں جہاں رحمتِ الٰہی  صحبتِ مرشد کی صورت ہر خاص و عام، بچے بوڑھے، مرد خواتین پر بلا تفریق برستی نظر آتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید و عقیدتمند پر اپنی نگاہِ کرم فرماتے ہیں تاکہ ہر طالب ، طالبِ مولیٰ بن جائے اور اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرکے دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکے۔ 

استفادہ کتب:
صفتِ رحمت کا شانِ امتیاز:  ڈاکٹر طاہرالقادری
اسلام دین امن و رحمت ہے:  ڈاکٹر طاہر القادری

 

24 تبصرے “رحمت ِ الٰہی Rehmat-e-Elahi

  1. اللہ پاک ہمیں اپنی رحمت کے صدقہ سے ہم پر اپنا خاص فضل فرماۓ آمین

  2. قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
    میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔ (سورۃ الاعراف۔ 156)

  3. اللہ پاک کی وسیع اور عظیم رحمت کا ایک مظہر قرآنِ مجید ہے۔ اُمّ الکتاب کو بھی اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی مختلف صفات اور خواص بیان کیے مگر سب سے زیادہ ہدایت اور رحمت ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

  4. حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنے پاس عرش پر رکھی ہوئی کتاب میں لکھ لیا، اس نے اپنی ذات کے لیے لازم کر لیا ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب رہے گی۔ (مسلم6971)

  5. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

  6. آئیے ! اپنے ربّ رحیم کی رحمتوں کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی خانقاہ کا رُخ کریں جہاں رحمتِ الٰہی صحبتِ مرشد کی صورت ہر خاص و عام، بچے بوڑھے، مرد خواتین پر بلا تفریق برستی نظر آتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید و عقیدتمند پر اپنی نگاہِ کرم فرماتے ہیں تاکہ ہر طالب ، طالبِ مولیٰ بن جائے اور اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرکے دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکے۔

  7. بے شک ہم نے انسان کو اچھی صورت پر بنایا۔ (سورۃ التین۔

  8. رحمت درحقیقت اس کیفیت کا نام ہے جو دل پر رقت اور نرمی کی صورت میں پیدا ہوتی ہے اور کسی مستحق کی طرف بھلائی اور احسان کے ساتھ پیش آنے کا تقاضا کرتی ہے

  9. تکلیف کے بغیر نعمت کی لذت، لذت نہیں رہتی۔ تکلیفیں نہ ہوں تو نعمت اور راحت انسانی زندگی کے لیے کسی بھی خصوصی لطف کا باعث نہ رہیں۔

  10. حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش کے اوپر لکھ دیا:بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ (مسند احمد 10015)

  11. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید و عقیدتمند پر اپنی نگاہِ کرم فرماتے ہیں تاکہ ہر طالب ، طالبِ مولیٰ بن جائے اور اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرکے دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکے۔

  12. اللہ تعالیٰ رحمت کی صفت سے متصف اور ارحم الرّاحمین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت میں غالب ترین عنصر رحمت کا ہے

  13. حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
     جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش کے اوپر لکھ دیا:بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ (مسند احمد 10015)

  14. امام ابو حنیفہؒ نے عبد الکریم بن معقل کے واسطے سے سیدّنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    اپنے گناہ پر نادم ہونا ہی توبہ ہے۔(الخوارزمی، جامع المسانید۔ للامام ابی حنیفہ۔98:1)( اسلام دینِ امن و رحمت ہے)

  15. ہمارا ربّ انسانوں پر انتہائی درجے کا مہربان،بے پایاں شفقت و بے حد بخشش فرمانے والا اور لامحدود نعمتیں اور سہولتیں عطا کرنے والا پروردگار ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں