اقبالؒ ۔ حقیقت کے مفسر Iqbal – Haqeeqat Kay Muaffsir


4.4/5 - (29 votes)

اقبالؒ ۔ حقیقت کے مفسر ( Iqbal – Haqeeqat Kay Muaffsir)

تحریر: مسز عنبرین مغیث سروری قادری

جنوبی ایشیا کو بجا طور پر روئے کائنات پر اولیا کرام اور صوفی شعرا کے لیے زرخیز ترین خطہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ افغانستان، ایران اور عرب کے صوفیا و شعرا کا پایہ بھی دین و ادب میں بے حد بلند ہے لیکن جنوبی ایشیا کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ یہاں کے صوفیا کی الہامی شاعری طریقت و حقیقت کے تقریباً تمام موضوعات پر اللہ کا پیغام عوام الناس تک پہنچاتی ہے۔ ان صوفیا نے عربی، فارسی، پنجابی اور اُردو زبان میں انتہائی اعلیٰ ادبی ذوق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے قلم کو حقیقت کا ترجمان بنایا۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ، بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ، بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ، میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ، وارث شاہ رحمتہ اللہ علیہ صوفی شعرا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ چونکہ ان شعرا کا کلام الہام پر مبنی اور ان کے قلب پر منجانب حق تعالیٰ وارد ہوتا ہے اس لیے ان کے کلام میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف پیرائے اور اندازِ بیان کے باوجود موضوعات اور خیالات میں یکسانیت اس بات کی دلیل ہے کہ ان صوفیا کے کلام کا منبع و ماخذ واحد ذاتِ حق تعالیٰ ہے۔ طالب ہر دور میں ان سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ جب بھی حقیقت و معرفت کی طلب میں اس الہامی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں ہر بار ایک نئے معنی و مطلب کو ان اشعار سے اخذ کرتے ہیں۔ کئی سو سالہ پرانے اس کلام میں سالک انہی احوال و کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو آج اس پر وارد ہو رہی ہیں اور اس کا دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ حق کا کلام ہے۔ 

برصغیر کے صوفی شعرا کی فہرست میں ایک منفرد نام علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جن کا کلام حیران کن عوامل کا حامل ہے۔ اقبال کے کلام سے حقیقت کے ہر مبلغ کا پیغام اور روح جھلکتی ہے خواہ وہ حافظؒ ہوں یا رومیؒ، علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ ہوں یا سید عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ہوں یا شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ۔

اللہ کے قرب سے سرفراز ان ہستیوں کے روحانی مقامات و درجاتِ ولایت سے قطع نظر اگر صرف ان کے کلام کو دنیا میں حاصل ہونے والی پذیرائی پر نظر کی جائے تو اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو بلاشبہ مسلم دنیا کا سب سے ہردلعزیز اور منفرد مقام کا حامل صوفی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کے ادب نے اقبالؒ کے کلام کو سراہا اور اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔ اقبالؒ کے کلام کا حیرت انگیز معجزاتی پہلو یہ ہے کہ اس کا اطلاق دین و دنیا کے جس شعبے پر بھی قاری کرنا چاہے یہ ہر طرح سے اس کی رہنمائی کرتا ہے وہ تصوف ہو یا طریقت، سیاست ہو یا ثقافت، قومیت ہو یا صنعت، روحانیت ہو یا معاشرت غرضیکہ فصاحت و بلاغت اور موضوعاتی وسعت کے اعتبار سے اقبال کا کلام بے مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ادبی ذوق رکھنے والے اپنے اپنے شعبے کے حوالے سے اقبالؒ کے حیرت انگیز معجزاتی کلام سے استفادہ کر رہے ہیں۔

 

اپنے کلام میں اقبالؒ جابجا اپنے قاری کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ ان کی شاعری ان کی ادبی یا علمی صلاحیتوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے قلبِ باصفا پر نازل کردہ ہے اور وہ رموزِ دین و اسرارِ جہان سے توفیق و قربِ الٰہی کی بدولت سرفراز ہوئے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

میری نوائے پریشان کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم رازِ درونِ مے خانہ
حق رموز ملک و دیں برمن کشود
نقش غیر از پردہ چشمم ربود

ترجمہ و مفہوم: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دنیا اور دین کے بھید کھولے (رموز منکشف کیے) ہیں۔ میری آنکھ کے پردے سے غیر صورت مٹادی (غیر اللہ کا پردہ ہٹا دیا)۔ یعنی اسرارِ جہاں بانی کے ساتھ ساتھ مجھے دین کی اصل فہم بھی عطا کی گئی ہے۔

اے ترا حق داد جان ناشکیب
تو ز سر ملک و دین داری نصیب

مفہوم: اے وہ شخص (اقبال) کہ تجھے اللہ نے ایک جانِ بے قرار عطا کی ہے اور تجھے ملک و دین کے بھید سے باخبر کیا ہے۔

ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہاں دارم

مفہوم:میں تقدیر کا ساز ہوں اور میرے اندر سینکڑوں نغمے پوشیدہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جن رازوں سے بذریعہ الہام آپؒ کو باخبر کیا آپؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے اسے دنیا تک پہنچا یا:

جز نالہ نمی دانم، گویند غزل خوانم
ایں چیست کہ چوں شبنم بر سینہ من ریزی

مفہوم: میں تو نالہ و فریاد کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں غزل کہہ رہا ہوں تو پھر یہ کیا چیز ہے جو توُ شبنم کی طرح میرے سینے پر گرا رہا ہے۔ یعنی لوگ مجھے شاعر سمجھ رہے ہیں حالانکہ میں تو وہی کہہ رہا ہوں جو اللہ میرے سینے پر الہام کے ذریعے شبنم کی طرح نازل کر رہا ہے۔

ازاں معنی کہ چوں شبنم بجان من فرو ریزی
جہانے تازہ پیدا کردہ ام عرض فغانے را

مفہوم: ان معانی (اسرار و رموز) سے کہ جو شبنم کی طرح تو نے میری جان پر نازل کیے ہیں، میں نے اپنی آہ و زاری کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا جہان پیدا کر لیا ہے۔ یعنی تیرے الہام کردہ پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے شاعری کا ایک نیا جہان پیدا کر لیا ہے۔

بے نیازانہ ز شوریدہ نوایم مگذر
مرغ لاھوتم و از دوست پیامے دارم

مفہوم: میری مجذوبانہ پکار کو ان سنی کر کے مت گزر۔ میں لاھوت کا پرندہ ہوں اور دوست کا پیغام لایا ہوں۔ یعنی میرے کلام کو صرف کسی عام شاعر کی شاعری سمجھ کر اس سے بے توجہی نہ برت بلکہ اس پر غور کر اور اس میں چھپے ہوئے معنی کو سمجھ کیونکہ یہ اللہ کا پیغام ہے جو اس نے میرے سفرِ معرفت کے دوران مقامِ لاھوت پر میری روح پر اتارا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے پیغام سے مراد قرآنِ کریم کا حقیقی فہم ہے۔ قرآن علم و حکمت کا خزانہ ہے اور اسرار و معانی کا ایک جہان اس میں پوشیدہ ہے جس کے اصل مطلب اور بصیرت تک رسائی صرف اللہ کے خاص الخاص بندوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

صد جہان تازہ در آیات اوست
عصر ہا پیچیدہ در آنات اوست

ترجمہ:اس (قرآن) کی آیات میں سینکڑوں نئے جہان موجود ہیں۔ اس کے ایک زمانے میں بہت سے ادوار چھپے ہوئے ہیں یعنی قرآن کی آیات میں معانی و مطالب کے بہت سے جہان پوشیدہ ہیں۔

یک جہانش عصر حاضر را بس است
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است

مفہوم: قرآن کی آیات میں چھپے ہوئے جہانوں میں سے دورِ حاضر کے لیے صرف ایک ہی جہان کافی ہے۔ اگر تیرے سینے میں حقیقت تک رسائی حاصل کرنے والا دل موجود ہے تو توُ اسرار کے اس جہان کو حاصل کر لے یعنی قرآن کا حقیقی فہم حاصل کر لے۔ 

مثلِ حق پنہاں و ہم پیداست ایں
زندہ و پایندہ و گویاست ایں

مفہوم: حق تعالیٰ کی طرح یہ (قرآن) ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی یعنی قرآن کا ایک ظاہری وجود ہے اور ایک باطنی و حقیقی وجود۔ یہ زندہ، ہمیشہ رہنے والا اور بولنے والا یعنی اپنا پیغام اپنے قاری تک خود پہنچانے والا ہے۔ اقبالؒ کا یہ شعر قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے:
جس شخص کی رسائی قرآن کی حقیقت تک ہو جاتی ہے وہ نورِ بصیرت کا حامل اور حکمت کے بیش بہا خزانوں کا مالک ہو جاتا ہے۔وہ دین اور دنیا کے ظاہر و باطن کو سمجھنے لگتا ہے اور فہم و فراست میں عام لوگوں سے کہیں بڑھ جاتا ہے۔

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

مفہوم: جب یہ (قرآن) روح میں سما جاتا ہے تو جان (روح) کچھ اور ہی ہو جاتی ہے۔ جب جان کچھ اور ہو جاتی ہے تو دنیا کچھ اور ہو جاتی ہے۔ یعنی جب روح کو قرآن کا ادراک حاصل ہوتا ہے تو انسان کی نظر میں ہر شے کی حقیقت تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ ظاہر سے نظر ہٹا کر ہر شے کی حقیقت کا مشاہدہ کرنے والا بن جاتا ہے۔

دین و دنیا کے ہر معاملے میں رہنمائی کرنے والی اور گتھی کو سلجھانے والی پرُحکمت کتاب کی اصل فہم کے نزول کا مقام مومن کا پاکیزہ و باصفا قلب اور ضمیر ہے۔

ز رازیؒ معنی قرآن چہ پرسی
ضمیر ما بہ آیاتش دلیل است

ترجمہ: تو قرآن کے معنی رازی سے کیا پوچھتا ہے۔ خود ہمارا دل اور ضمیر اس کی آیتوں پر دلیل ہے۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازیؒ نہ صاحبِ کشاف

اقبالؒ اللہ کے ان خاص الخاص چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں جن کے قلب و باطن پر قرآن کی حقیقت کا نزول ہوتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

گہر دریائے قرآن سفتہ ام
شرح رمزِ صبغۃ اللہ گفتہ ام

مفہوم: میں نے قرآنِ پاک کے سمندر سے موتی نکال کر اپنے کلام میں پرویا ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے رنگ کے راز کی تفسیر بیان کی ہے۔ یعنی میں نے قرآن کے باطنی و حقیقی چھپے ہوئے معنی اپنے کلام میں بیان کیے ہیں۔

دارم اندر سینہ نور لا اِلہٰ
در شراب من سرور لا اِلہٰ

مفہوم: میں اپنے سینے میں لا اِلہٰ کا نور رکھتا ہوں۔ میری شراب یعنی افکار میں لا اِلہٰ کا کیف و سرور ہے۔ یعنی جس طرح تمام قرآن لا اِلہٰ کی تفسیر ہے اسی طرح میرا کلام بھی حقیقتِ الٰہی کا بیان ہے جس کے لیے رہنمائی مجھے اللہ کے نور سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم کلامِ اقبالؒ میں آیات و احادیث کی ایک منفرد اور پرُحکمت تفسیر پاتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری حکیم الامتؒ کی حکمت اور دانائی پر عش عش کر اٹھتا ہے اور ان کے اس دعویٰ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انہیں اللہ کے نور سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ آیتِ کریم
اِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورۃالحجر۔9)
ترجمہ: خود ہم نے یہ ذکر (قرآنِ کریم) اتارا ہے اور بلاشبہ ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،اس آیت کی تفسیر آپؒ اس انوکھے انداز میں کرتے ہیں:

اُمتِ مسلم ز آیاتِ خدا ست
اصلش   از   ہنگامہ قالوا بلٰی  ست
از اجل ایں قوم بے پرواستے
استوار     از     نحن نزلنا     ستے
ذکر قائم از قیام ذاکر است
از دوام او دوام ذاکر است
تا   خدا  اَنْ یُّطْفِئُوْا  فرمودہ    است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است

ترجمہ و تشریح: اُمتِ مسلمہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اس لیے یہ کبھی نہیں ختم ہو سکتی۔ اس کا وجود اس وقت سے ہے جب ابتدائے آفرینش میں کائنات کی روحوں نے اللہ تعالیٰ سے بلیٰ  (ہاں! تو ہمارا رب ہے) کا وعدہ کیا تھا۔ ملتِ اسلامیہ موت سے بالکل بے پرواہ ہے، اسے موت آہی نہیں سکتی کیونکہ خدا نے اِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ  کی بشارت کے ذریعے سے ہماری پائیداری اور استواری کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ یہ ذکر ہم نے اُتارا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ اس ذکر کی حفاظت ملتِ اسلامیہ کے سپرد ہے۔ جب تک ذکر باقی ہے ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ یہ ملتِ مسلمہ کی پائیداری اور استواری کی دلیل ہے۔ ’’ذکر‘‘ (قرآن) اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب تک ذاکر موجود ہو۔ جب ذکر کے دوام کا وعدہ ہو چکا تو یہ مان لینے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی کہ ذاکر کے دوام کا بھی وعدہ ہو چکا۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر کہا ہے ’’اللہ دینِ حق کی روشنی مکمل کیے بغیر رہنے والا نہیں‘ اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ہماری ملت کا چراغ بجھنے سے محفوظ ہے۔
اسی طرح اقبال رحمتہ اللہ علیہ سورۃ اخلاص جو وحدتِ باری تعالیٰ پر دلیل ہے، کا اطلاق اُمتِ مسلمہ خاص طور پر مومنین کی وحدت پر کرتے ہیں۔ سورۃ اخلاص کی آیات کی تفسیر آپؒ ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں اس طور سے کرتے ہیں:
قُلْ  ھُوَ اللّٰہُ  اَحَدْ
(کہو کہ اللہ ایک ہے)

اس آیت کی تفسیر آپؒ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ  کی روحِ مبارکہ کے توسط اور حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں ترجمہ: ’’ایک رات میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو خواب میں دیکھا اور آپ کے راستے کی خاک سے پھول چنے۔ میں نے عرض کیا کہ جس طرح آپؓ نے ہماری بنیاد درست کر دی تھی (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اٹھنے والے تمام فتنوں کو جڑ سے ختم کر دیا تھا) اسی طرح ہماری بیماری (اُمت ِ مسلمہ کا زوال و انتشار) کے لیے جس نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے، کوئی علاج تجویز فرما دیجیے۔ 

گفت تا کے در ہوس گردی اسیر
آب و تاب از سورۃ اخلاص گیر
اینکہ در صد سینہ پیچد یک نفس
سرے از اسرارِ توحید است و بس
رنگ او برکن مثال او شوی
در جہاں عکس جمال او شوی
آنکہ نام تو مسلمان کردہ است
از دوئی سوئے یکی آوردہ است

مفہوم:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’تو کب تک حرص و ہوس کا قیدی بنا رہے گا۔ سورۃ اخلاص سے چمک اور تابش حاصل کرو۔ غور کرو یہ جو سینکڑوں سینوں میں ایک ہی سانس چل رہا ہے یہ بھی توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ تم بھی اسی (اللہ) کا رنگ پیدا کرو تو اسی جیسے بن جاؤ گے اور دنیا میں اسی کے جمال کا عکس بن جاؤ گے جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے (یعنی جس طرح اللہ ’احد‘ ہے‘ اگر اُمتِ مسلمہ بھی توحید کی حقیقت جان کر واحد بن جائے تو دنیا میں حقیقتاً اللہ کی نائب اور اسی کی شان کی حامل ہو جائے گی) اللہ ہی تجھے کثرت سے وحدت کی طرف لایا ہے اور تیرا نام مسلمان یعنی ’سلامتی والا‘ یا سلامت رہنے والا‘ رکھا (قرآن میں ہے ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (سورۃ حج۔78)یعنی مسلمانوں کا یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے)۔ 

یک شود توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن

مفہوم:تم ایک ہو جاؤ توحید کی حقیقت عملی اعتبار سے دنیا کے سامنے پیش کر دو۔ کلمہ توحید میں جو مفہوم چھپا ہوا ہے اسے عمل کے ذریعے سے وجود میں لے آؤ۔

اَللّٰہُ  الصَّمَدُ 
(اللہ بے نیاز ہے)

گر   بہ اَللّٰہُ  الصَّمَدُ      دل     بستہ ئی
از حد اسباب بیرون جستہ ئی
بندۂ حق بندۂ اسباب نیست
زندگانی گردش دو لاب نیست
مسلم استی بے نیاز از غیر شو
اہل عالم را سراپا خیر شو
پیش منعم شکوہ گردوں مکن
دست خویش از آستین بیرون مکن
چوں علیؓ در ساز بانان شعیر
گردن مرحب شکن خیر بگیر

مفہوم:اگر تو نے خدائے بے نیاز سے دل وابستہ کرلیا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ تو اسباب کے دائرے سے نکل گیا ہے۔ اس لیے کہ خدا کا بندہ اسباب کا بندہ نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے زندگی رہٹ کا چکر نہیں (اسباب کے پیچھے پیچھے دوڑنا نہیں ہے)۔ اگر تو مسلمان ہے تو خدا کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جا۔ پھر تو دنیا کے لیے خیر و برکت کا سرچشمہ بن جائے گا۔ دولت مند کے پاس جا کر گردشِ روزگار کے شکوے نہ کر اور اس طرح اپنے لیے سوال کا دروازہ نہ کھول بلکہ ہاتھ آستین سے باہر ہی نہ نکال (کسی سے کچھ نہ مانگ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح جوَ کی روٹی کو اپنا شعار بنا لے۔ مرحب جیسے زور آور سردار (نفس) کی گردن توڑ دے اور خیبر جیسے مستحکم مقام (اپنے قلب اور نفس) پر قبضہ کر لے۔

سبحۂ اقلل من الدنیا شمار
از تعش حرا شوی سرمایہ دار

مفہوم: اس شعر میں اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے اس قول کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اقلل من الدنیا تعش حرا  یعنی دنیاوی ضرورتیں کم کردے اور آزادانہ زندگی بسر کر۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا یہ قول کتنا اچھا ہے۔ تو بھی دنیاوی ضرورتوں کو کم کر دے۔ اس قول کو اپنا شعار بنا لے اور ضرورتوں سے بے نیاز ہو کر آزادانہ زندگی بسر کر۔

بے نیازی نازہا دارد بسے
ناز او اندازہا دارد بسے
بے نیازی رنگ حق پوشیدن است
رنگ غیر از پیرہن شوئیدن است

مفہوم:بے نیازی میں بھی بڑے ناز ہیں اور ان ناز و ادا کے بے شمار انداز ہیں۔ بے نیازی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان حق کا رنگ اختیار کرلے اور غیر حق کے پیراہن کا رنگ دھو ڈالے یعنی اللہ کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جائے ۔

لَمْ  یَلِدْ وَلَمْ  یُوْلَدْ 

(نہ وہ کسی سے پیدا ہوا نہ کوئی اس سے پیدا ہوا)

فارغ از باب و ام و اعمام باش
ہمچو سلمانؓ زادہ اسلام باش
نکتۂ اے ہمدم فرزانہ بین
شہد را در خانہ ہائے لانہ بین
قطرہ از لالہ حمراستے
قطرہ از نرگس شہلاستے
ایں نمی گوید کہ من از عبہرم
آں نمی گوید من از نیلوفرم

مفہوم:اے مومن! تو باپ، ماں اور چچاؤں کے رشتے سے آزاد ہو جا، حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ کی طرح اپنا رشتہ اسلام سے جوڑ لے اور اسلام کا فرزند بن جا۔ جیسا کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ سے جب اُن کا نسب پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا: سلمان بن اسلام۔ اے عقلمند دوست! میں تجھے ایک نکتہ بتاتا ہوں توُ شہد کی مکھیوں کی چھتے کے خانوں میں موجود شہد پر نظر ڈال۔ مکھیاں مختلف پھولوں کا رس چوس چوس کر شہد بناتی ہیں۔ کوئی قطرہ لالہ کے سرخ پھول سے لیا جاتا ہے، کوئی نرگسِ شہلا سے، لیکن کبھی سنا ہے کہ کسی قطرے نے کہا ہو ’’میری اصل نرگس ہے‘‘ اور دوسرے نے کہا ہو ’’میں نیلوفر کے رس سے بنا ہوں‘‘ (گویا شہد مختلف قسم کے پھولوں سے تیار ہوا مگر چھتے میں پہنچا تو ایک جنس ہو گیا اسی طرح جب مومن مقامِ وحدت پر پہنچتا ہے تو پرانے رشتوں سے آزاد ہو کر وحدت کی ایک ہی لڑی میں پرویا جاتا ہے)۔

اس مقامِ وحدت تک رسائی کے لیے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  ناگزیر ہے۔ جب صحابہ کرامؓ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  میں ڈوب گئے تھے تو ان کے لیے ان کے پرانے رشتوں ناتوں کی کوئی اہمیت نہ رہ گئی تھی۔ ان کا ہر رشتہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے جڑ گیا تھا۔ رشتوں کی بیڑیوں سے آزاد ہو کر ہی انہوں نے دینِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کا حق ادا کیا۔
اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس ضمن میں فرماتے ہیں:

عشق او سرمایہ جمعیت است
ہمچوں خون اندر عروق ملت است
عشق در جان و نسب در پیکر است
رشتہ عشق از نسب محکم تر است
عشق ورزی از نسب باید گذشت
ہم ز ایران و عرب باید گذشت

مفہوم:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہمارے لیے یکجا رہنے کا سامان ہے۔ یہ عشق خون کی طرح ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ عشق جان میں اتر جاتا ہے اور نسب صرف جسم تک محدود رہتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عشق کا رشتہ نسب کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے۔ اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  سے لو لگائی ہے تو نسب سے بے تعلق ہو جا بلکہ ایران و عرب سے بھی رشتہ توڑ لے۔ یعنی تمام مسلم اُمت ہر تعلق سے آزاد ہو کر ایک وحدت بن جائے۔

اُمت او مثل او نورِ حق است
ہستی ما از وجودش مشتق است
نورِ حق را کس نجوید زاد و بود
خلعت حق را چہ حاجت تار و پود
ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است
بے  خبر  از  لم یلد و لم  یولد      است

مفہوم:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی اُمت بھی اُن کی طرح اللہ کا نور ہے۔ ہماری ہستی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور سے ہی وجود میں آئی۔ اللہ کے نور کی اصل حقیقت کون ڈھونڈ سکتا ہے؟ جس لباس کا تعلق نورِ حق سے ہو اسے تانے بانے کی کیا ضرورت ہے۔ (یعنی جس قوم کی اصل حقیقت لطیف نورِ حق ہو اور وہ اسی نور سے منسلک ہو اسے ظاہری رشتے ناتوں کی کیا ضرورت ہے۔) جس شخص کے پاؤں ملک اور باپ دادا کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں یقین کر لینا چاہیے کہ وہ  لم یلد و لم  یولد     کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہے۔ یعنی سورۃ اخلاص کی اس آیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ مسلمان نہ تو کسی جغرافیائی حد اور مملکت کا پابند ہے اور نہ ہی رنگ و نسب کا‘ جو مسلمان ان رشتوں میں جکڑا رہے گا وہ  لم یلد و لم  یولد     پر سچے ایمان کا مستحق نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔

وَلَمْ  یَکُنْ  لَّہٗ  کُفُوًا اَحَدٌ (اور نہ ہی کوئی اس کے برابر ہے)

رشتہ   با   لم یکن     باید     قوی
تا تو در اقوام بے ہمتا شوی
آنکہ ذاتش واحد است و لاشریک
بندہ اش ہم در نسازد باشریک
مومن بالائے ہر بالا ترے
غیرت او بر نتابد ہمسرے
خرقہ  لا  تحزنوا  اندر    برش
انتم  الاعلون   تا جے بر سرش

مفہوم:اے مسلمان! تجھے خدا کی اس صفت سے رشتہ مستحکم کر لینا چاہیے جو  لم یکن لہ کفوًا احد  میں بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس کے برابر کوئی نہیں۔ یہ رشتہ مستحکم ہو جائے گا تو توُ دنیا کی قوموں میں بے مثال بن جائے گا۔ وہ پاک ذات ہے جو اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس کا بندہ بھی کوئی شریک گوارا نہیں کر سکتا۔ مومن ہر بلند تر سے بلند ہے۔ اس کی غیرت کسی ہمسر کو برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ لاتحزنوا  کا خرقہ پہنے ہوتا ہے یعنی اسے کسی چیز کا غم نہیں ہوتا اور انتم الاعلون  یعنی ’’تم ہی سب سے سربلند ہو گے۔‘‘ کا تاج اس کے سر پر ہوتا ہے۔ (اشارہ سورۃ آل عمران کی اس آیت کی طرف ہے)
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔139)
ترجمہ: اور نہ ہمت ہارو، نہ غمگین ہو، تم ہی سب سے سربلند ہو، بشرطیکہ تم سچے مومن ہو۔

می کشد بارِ دو عالم دوش او
بحر و بر پروردہ آغوش او
بر غوتندر مدام افگندہ گوش
برق اگر ریزد ہمی گیرد بدوش
پیش باطل تیغ و پیش حق سپر
امر و نہی او عیار خیر و شر
در گرہ صد شعلہ دارد اخگرش
زندگی گیرد کمال از جوہرش
در فضائے ایں جہان ہائے و ہو
نغمہ پیدا نیست جز تکبیر او
عفو و عدل و بذل و احسانش عظیم
ہم بقہر اندر مزاج او کریم

مفہوم: (مومن کا کوئی ہمسر نہیں کیونکہ) وہ دونوں جہانوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا لیتا ہے۔ خشکی اور تری دونوں اس کی آغوش میں پلتی ہیں۔ بجلی کی کڑک کے شور پر اس کے کان لگے رہتے ہیں۔ اگر برق گرتی ہے تو اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیتا ہے۔ باطل سے سامنا ہو جائے تو مومن تلوار بن جاتا ہے۔ حق کی حفاظت کا موقع آجائے تو وہ ڈھال کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی کے امر و نہی، نیک و بد کی کسوٹی ہیں یعنی مومن جس چیز کا حکم دے وہ نیکی اور جس سے روکے‘ وہ بدی ہے۔ اس کے انگارے کی گرہ میں سینکڑوں شعلے ہیں اور زندگی کو اسی کے جوہر سے درجہ کمال حاصل ہوتا ہے۔ ہائے و ہو کے اس جہان کی فضا میں مومن کی تکبیر کے سوا کوئی نغمہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ عفو و درگزر، عدل و انصاف اور سخاوت و احسان میں اس کا درجہ بہت اونچا ہے۔ غصے کی حالت میں بھی اس کے مزاج پر لطف و کرم ہی غالب رہتا ہے۔

سورۃ اخلاص کی اس تفسیر کے ذریعے اقبالؒ مسلم اُمت کو اتحاد کا سبق دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مسلمان سے مومن کے مقام تک رسائی کے مراحل سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔ ایک مسلمان جب دنیا کی ہر شے سے بے نیازی اختیار کر کے، ہر رشتے سے تعلق توڑ کر ہر غیر ماسویٰ اللہ سے فارغ ہو جاتا ہے تو وہ دوئی اور کثرت سے نکل کر مقامِ وحدتِ حق تعالیٰ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر وہ تمام مخلوق سے بلند تر مقام حاصل کر لیتا ہے‘ جہاں کوئی اس کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا کیونکہ وہ مکمل طور پر صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو چکا ہوتا ہے اور ’’مومن‘‘ کہلانے کے لائق بن جاتا ہے۔ سورۃ اخلاص کی اس تفسیر کے ذریعے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مسلمانوں کو مومن کے درجے تک رسائی کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلم امت کو اقبالؒ کے کلام سے ان کی خواہش کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


20 تبصرے “اقبالؒ ۔ حقیقت کے مفسر Iqbal – Haqeeqat Kay Muaffsir

  1. دل موہ لینے والا مضمون ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں قرآن پاک اورسورة اخلاص کی تفصیل کو بہت خوبصورت انداز میں لکھا گیا ہے

  2. اللہ تعالیٰ مسلم امت کو اقبالؒ کے کلام سے ان کی خواہش کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  3. برصغیر کے صوفی شعرا کی فہرست میں ایک منفرد نام علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جن کا کلام حیران کن عوامل کا حامل ہے۔

  4. ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
    گرہ کشا ہے نہ رازیؒ نہ صاحبِ کشاف

  5. اللہ تعالیٰ مسلم امت کو اقبالؒ کے کلام سے ان کی خواہش کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  6. اپنے کلام میں اقبالؒ جابجا اپنے قاری کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ ان کی شاعری ان کی ادبی یا علمی صلاحیتوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے قلبِ باصفا پر نازل کردہ ہے اور وہ رموزِ دین و اسرارِ جہان سے توفیق و قربِ الٰہی کی بدولت سرفراز ہوئے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

  7. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس دولتِ فقر کے وارث اور اُمتِ محمدیؐ میں اس عظیم نعمت کو تقسیم کرنے والے غنی و سخی ہیں۔ کوئی بھی طالبِ فقر آپ مدظلہ الاقدس کے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔

  8. Iqbal ra indeed the true philosopher poet and his interpretation of surah ikhlas is incredible

  9. اللہ تعالیٰ مسلم امت کو اقبالؒ کے کلام سے ان کی خواہش کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے

  10. ہم کلامِ اقبالؒ میں آیات و احادیث کی ایک منفرد اور پرُحکمت تفسیر پاتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری حکیم الامتؒ کی حکمت اور دانائی پر عش عش کر اٹھتا ہے اور ان کے اس دعویٰ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انہیں اللہ کے نور سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے

  11. اللہ تعالیٰ مسلم امت کو اقبالؒ کے کلام سے ان کی خواہش کے مطابق استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  12. جز نالہ نمی دانم، گویند غزل خوانم
    ایں چیست کہ چوں شبنم بر سینہ من ریزی

اپنا تبصرہ بھیجیں