کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


5/5 - (1 vote)

کلید التوحید (کلاں)   Kaleed ul Tauheed Kalan

قسط نمبر19                                                                                                   مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جان لو کہ بعض بزرگ بارہ سالوں پر محیط ایک روزے اور چالیس سال کی ریاضت سے اس قابل ہو گئے کہ لوحِ محفوظ کو اپنے مطالعہ میں لے آئے اور عرشِ اکبر تک پہنچ گئے بلکہ عرش سے اوپر ہزاروں مقامات تک جا پہنچے اور غوث و قطب بن کر طالب مرید بنا لیے۔ عز و جاہ، نام و ناموس اور دنیا کی نعمتیں حاصل کر لیں۔ کشف و کرامات اور جنات و مؤکلات کو اپنے تصرف میں لے آئے اور ان مراتب کو معرفتِ توحیدِ الٰہی سمجھ بیٹھے۔ بعض بزرگ ذکرِ قلب کی کثرت سے لوحِ ضمیر کے اوراق کے مطالعہ میں غرق ہو گئے اور اس استغراق اور الہام کو ہی مطلق معرفتِ توحید سمجھ بیٹھے۔ بعض ذکرِ روح کے ذریعے دماغ میں ہونے والی جنبش، تجلیہ روح اور نور کے مشاہدہ کو توحید و معرفتِ الٰہی سمجھتے رہے۔ یہ سب مراتب مخلوق اور درجات ہیں اور مراتبِ درجات اہلِ تقلید سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ فقرِ محمدی سے دور اور توحید و معرفتِ الٰہی سے دور تر ہیں۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ابتدا کو کسی نے نہ دیکھا اور نہ کوئی اس کی انتہا تک پہنچا۔ پس معرفت کیا ہے اور توحید کسے کہتے ہیں اور مشاہدۂ قربِ حضوری کسے کہا جاتا ہے؟ اے عزیز سن! معرفتِ الٰہی، توحید، قرب، مشاہدۂ حضوری کا سلک سلوک یہ ہے کہ طالبِ مولیٰ تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے تو اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیب کے ہر حرف سے تجلۂ نور پیدا ہوتا ہے وہ تجلۂ نور صاحبِ تصور کو لامکان میں ہونے والی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جاتا ہے کیونکہ لامکان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مدِ نظر رہتا ہے جہاں وحدت کے سمندر میں طرح طرح کی موجیں وحدہٗ وحدہٗ وحدہٗ کا نعرہ لگاتیں ہیں اور جو کوئی نورِ توحید کے اس سمندر کے کنارے پر پہنچ جائے اور اسے دیکھ لے وہ عارف باللہ ہو جاتا ہے۔ جس کسی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دستِ مبارک سے گردن پکڑ کر وحدت کے اس سمندر میں ڈال دیں وہ اس سمندر میں غوطہ لگا کر غواصِ توحید ہو جاتا ہے اور فقر فنا فی اللہ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے جس سے بعض غوطہ خور سالک مجذوب ہو جاتے ہیں اور بعض مجذوب سالک اہلِ توحید ذات ہو جاتے ہیں۔ اہلِ درجات مراتبِ ذات سے محجوب رہتے ہیں۔ جو لامکان میں نورِ توحید کے سمندر تک پہنچ جائے تو اس کو کسی شے سے تشبیہ نہیں دے سکتا۔ آوازِ لامکان غیر مخلوق ہے اور لامکان کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ اسے لامکان اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں نہ نجاستِ دنیا کی بوُ ہوتی ہے اور نہ ناپسندیدہ خواہشاتِ نفسانی۔ اس مقام پر بندگی کا دائمی استغراق ہے۔ شیطان کا لامکان میں پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ لامکان کو دیکھنا ظاہری جہان کو دیکھنے جیسا نہیں ہے بلکہ لامکان کو عین العیان دیکھنے کے لیے باطنی آنکھوں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وہماتِ نفسانی، خطراتِ شیطانی اور وسوسۂ دنیا کی پریشانی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ فقیر عارف باللہ جسے خالصتاً اللہ کے ساتھ وصال حاصل ہو‘ وہ جس طرف بھی دیکھتا ہے نورِ ذات کو ہی پاتا ہے۔ چھ سمتوں کے تمام مراتب سے گزر کر وہ اللہ کی ذات میں مستغرق ہوتا ہے۔ (نور سے مل کر) نور ہو جانا فقرِ محمود کا کام ہے اور دنیا کے مراتبِ عز و جاہ حاصل کرنا مردود لوگوں کا کام ہے۔  

 بیت:

مراتب را بگذار تا مردی شوی
غرق فی التوحید شد حاضر نبیؐ

ترجمہ: مراتب کی خواہش کو ترک کر دو پھر تم اصل مرد بن جاؤ گے اور غرق فی التوحید ہو کر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کر لو گے۔

یہ فقر توحید کی طرف لے جاتا ہے جو کہ تصور اسمِ اللہ  ذات سے حاصل ہوتی ہے۔ اجمالاً تصور اسمِ اللہ ذات دو قسم کا ہے۔ ایک تصورِ نور جو کہ مراقبہ میں کیا جاتا ہے اور مراقبہ میں حقیقتِ معشوق معلوم ہوتی ہے۔ دوم تصور جو مشاہدہ عطا کرتا ہے جس مشاہدہ میں قرب و معرفت اور دیدارِ نور حاصل ہوتا ہے۔ عاشق کے لیے تصور کی راہ عاشقی، معشوقی، محبوبی اور مطلوبی کی راہ ہے جسے صرف قادری طالب ہی جانتے اور اختیار کرتے ہیں۔ اس راہ کی ابتدا میں تصور اسمِ اللہ  ذات سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے جب طالب لامکان میں توحید اور نورِ ذات تک پہنچتا ہے۔ اس معرفت کا مقام زمان و مکان سے بالاتر ہے کیونکہ نورِ ذات لامکان ہے۔ جو یہ کہے کہ معرفتِ الٰہی اور توحید زمان و مکان میں ہے وہ باطن سے بے خبر اور حیوان کی مثل پریشان ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ    (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُسی طرف اللہ کا چہرہ ہے۔

لامکان میں تو جس طرف بھی دیکھے گا نورِ توحید ہی دکھائی دے گا۔ یہ مراتب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفاقت اور شریعت اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔ لامکان (تک پہنچنے) کی یہ راہ تحقیق شدہ ہے جو اس میں شک کرے وہ زندیق ہے۔ خالص طالب (اس راہ پر چل کر) روزِ اوّل ہی عارف ہو جاتا ہے اور طالب فقیر روزِ اوّل مرتبہ فقر پر پہنچ جاتا ہے اور توحید کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے اور دنیا کو ترک کر کے نفس و شیطان سے فارغ ہو جاتا ہے۔ یہ ولی اللہ مومن و مسلمان کے مراتب ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ   (سورۃ البقرہ۔257) 
ترجمہ: اللہ مومنین کا دوست ہے جو انہیں ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
جو ان مراتب پر پہنچ جاتا ہے وہ خوف و غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اولیا اللہ لایحتاج اور صاحبِ وصال و لازوال ہوتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ بیت:

ہر کہ اینجا می رسد شد اولیا
دائما باشد حضوری مصطفیؐ

ترجمہ: جو اس مرتبہ پر پہنچ جائے وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے اور ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں رہتا ہے۔

مطلب یہ کہ عارف باللہ ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے اور اگر تمام عارفین کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو بھی وہ سب فقر کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ غوث، قطب اور عارف کی کیا مجال کہ فقیر کے سامنے دم ماریں۔ اہلِ ذات اہلِ طبقات پر غالب ہوتے ہیں۔ غوث، قطب اور عارف اہل ِ درجات ہیں۔ غوث، قطب اور عارف تین قسم کے ہیں ۔ اوّل دہقانی جو کہ نفسانی ہوتے ہیں، دوم روحانی، سوم اہلِ فقر جو صاحبِ اسرارِ قدرتِ سبحانی ہیں۔ بیت:

چہار بودم سہ شدم اکنوں دوئم
و ز دوئی بگذشتم و یکتا شدم

ترجمہ: پہلے میں چار تھا پھر تین ہوا اور پھر دو۔ اور جب دوئی سے بھی نکل گیا تو یکتا باخدا ہو گیا۔

جوابِ مصنف:

و ز چہار و پنج می گذشتم انتہا
و ز دوئی بگذشتم حاضر مصطفیؐ

ترجمہ: جب میں چار (عناصر) اور پانچ (حواس) سے نکلا تو انتہا تک پہنچ گیا اور جب دوئی سے نکل گیا تو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری پا لی۔ 

پانچ سے مراد حواسِ خمسہ ہیں جو اوصافِ ذمیمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور چار سے مراد وہ چار پرندے ہیں جن سے نفس کو قوت ملتی ہے اور چار عناصر یہ ہیں مٹی، ہوا، پانی اور آگ۔ اور چار پرندوں سے مراد شہوت کا مرغ، خواہشاتِ نفسانی کا کبوتر، زینت کا مور اور حرص کا کوا ہیں۔ جو ان چاروں پرندوں کو ذبح کر دیتا ہے وہ معرفتِ مولیٰ کے لائق ہو جاتا ہے اور حجاب سے باہر نکل آتا ہے اور اس پر راہِ معرفت کھل جاتی ہے۔ حجابِ عام تین طرح کے ہیں نفس، دنیا اور شیطان۔ حجابِ خاص بھی تین طرح کے ہیں طاعت کی تمنا، ثواب کی تمنا اور درجات کی تمنا۔ مصنف فرماتا ہے کہ جس پر معرفتِ وحدانیتِ ذات منکشف ہو جائے وہ حجاباتِ خاص و عام سے آزاد ہو جاتا ہے ورنہ ہر مراد حجاب ہے۔ بیت:

ہر کہ دارد از مرادات فراغ
نامرادی ہرگز نہ دہد بر روئی داغ

ترجمہ: جو خواہشات سے آزادی حاصل کر لے تو نامرادی اس کے چہرے پر داغ ہرگز نہیں دیتی۔

جان لو کہ مصنف کہتا ہے کہ آدمی کا وجود غار کی مثل ہے اور اس غار میں نفس سانپ کی مثل مستقل ڈیرہ لگائے ہوئے ہے۔ اگر کوئی نفس کے اس سانپ کو مارنے کے لیے رات دن غار کے سامنے ہی ڈنڈے مارتا رہے تو (اندر بیٹھے) نفسِ امارہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ پس ظاہری اعمال اور بندگی سے نفس کو ذرا رنج نہیں پہنچتا جب تک غار کے اندر موجود نفسِ امارہ کو کوئی تصور اسمِ اللہ ذات کی آگ سے جلا کر نیست و نابود نہ کر دے۔ پس یہی باطنی عبادت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
رَجَعْنَا مِنْ جِہَادِ الْاَصْغَرِ اِلٰی جِہَادِ الْاَکْبَرِ 
ترجمہ: ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹتے ہیں۔
زندہ قلب عارف کی نشانی یہ ہے کہ جو بھی معاملاتِ دنیا ہیں سب سے ہاتھ جھاڑ لیتا ہے اور اگر کوئی کام کرتا بھی ہے تو محض مخلوقِ خدا کے لیے نہ کہ خواہشاتِ نفسانی کے لیے۔ عارف کی دو نشانیاں ہیں کہ زبان کو فضول گوئی سے بند رکھتا ہے اور اللہ کے اسرار میں مشغول رہتا ہے۔ بیت:

مرادِ زیں جہان بگذر بیابی معرفت حق را
فنا فی ذات عارف شد نہ یارائی چنین کس را

ترجمہ: تو اس جہان کی ہر خواہشات کو ترک کر دے تب تو معرفتِ حق کو پائے گا اور فنا فی اللہ ہو جا کہ اس جیسا کوئی مددگار نہیں۔

مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ کافروں کی طرح خود ہی اپنے بتوں کو بنا کر ان کی پرستش کرتے ہیں اور اہلِ بدعت و اہلِ سرود کو مرشد کا خطاب دے کر ان کی پیروی کرتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔ (سورۃ الاعراف۔191)
ترجمہ: کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کسی کو پیدا نہیں کر سکتے اور وہ (خود) پیدا کیے گئے ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا طَاعَۃَ لِلْمَخْلُوْقِ فِیْ مَعْصِیَّۃِ الْخَالِقِ 
ترجمہ: خالق کی نافرمانی سے مخلوق کی طاعت نہ کرو۔
خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا کَدَرَ 
ترجمہ: صاف (صحیح) کو اختیار کرو اور ناپاک (غلط) کو ترک کر دو۔

ذکر کو اہلِ ذکر سے طلب کر اور طلب کرنے والوں کا مرتبہ خاص ہوتا ہے کہ اگر مرشد کامل سے دستِ بیعت ہو کر تلقین حاصل کی جائے تو اس سے حق الیقین کے ساتھ مرتبۂ معرفت حاصل ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
طَلْبُ الْخَیْرِ طَلْبُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ الْخَیْرِ ذِکْرُ اللّٰہِ 
ترجمہ: بہترین طلب اللہ کی طلب ہے اور بہترین ذکر اللہ کا ذکر ہے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ (سورۃ النحل۔43)
ترجمہ: پس اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں علم نہیں۔
بیت:

ذکر ذاکر را برد وحدت حضور
در وجودِ ذاکراں شد خاص نور

ترجمہ: ذکر ذاکر کو وحدت اور حضوری میں لے جاتا ہے کیونکہ ذاکروں کے وجود میں خاص نور ہوتا ہے۔

جان لو کہ تمام رحمت و نعمت، لذت، لطف و کرم، شفقت اور خزائنِ الٰہی انسان کے وجود میں موجود ہیں۔ تمام علوم و حکمت، تمام ذکر و فکر، تمام ذوق و شوق اور اللہ کے فیض و فضل کے مشاہدات، نورِ ذات و صفات کی تجلیات، تمام طبقات و مقامات، نورِ ایمان و تصدیق، راستی، لازوال وصال، قربِ حضور، وحدانیت سب انسان کے اندر موجود ہیں۔ تو نہیں جانتا کہ انسان کا وجود طلسمات کی مثل ہے اور یہ جتنی بھی چیزیں شمار کی گئی ہیں تمام خزانۂ دل میں موجود ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ یہ سب دل میں طلسمات کی مثل ہیں اور اس طلسمات کو دو طرح سے توڑا جا سکتا ہے کہ تب ہی دل میں موجود یہ لعل و جواہر کے خزانے ہاتھ میں آتے ہیں۔ صرف مرشد کامل ہی اس طلسم کو توڑنے والا ہوتا ہے جو کلید کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے اسے کھولتا ہے اور طالب کے وجود کے اندر موجود تمام خزانے اس کو دکھاتا ہے یا پھر وہ وجود کے طلسمات میں موجود شیر و سانپ کی مثل نفس کو تصور اسمِ اللہ ذات کی آگ سے جلا دیتا ہے۔ 

ابیات:

عارفا! نفس چوں طلسمی دان
کو نہادہ بروئے گنج بود

ترجمہ: اے عارف! نفس کو اس طلسم کی مانند سمجھ جسے (وجود کے) ان پوشیدہ خزانوں پر رکھا گیا ہے۔

خونِ دل آب کن ز آتش جہد
زاں کہ دریافت او برنج بود

ترجمہ: جدوجہد کی آگ سے خونِ دل کو پانی بنا لے کہ اس رنج سے ہی خزانے حاصل ہوتے ہیں۔

طالب کے وجود سے تمام طرح کے اللہ کے خزانے نکلتے ہیں یا یہ کہ وجود کے طلسمات سے قرآن کی آیات اسمِ اعظم کے ساتھ پڑھنے کی بدولت وجود سے اللہ کے خزانے حاصل ہوتے ہیں۔ غیبی خزائنِ الٰہی کے اس سلک سلوک کا تعلق وعظ و نصیحت سے نہیں بلکہ یہ اللہ کی عطا اور اس کا فیض و فضل ہے۔ تاہم یہ تب تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک چشمِ دل روشن نہ ہو اور اس سے مشاہدۂ نور حضور میں استغراق، معرفتِ  اِلَّا اللّٰہُ  اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ رازِ رحمتِ الٰہی ہے‘ نصیب نہ ہو۔ جسے اسمِ اللہ ذات سے وحدانیت حاصل ہو جائے تو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اور ماہ سے ماہی تک اور عرش سے تحت الثریٰ تک کل و جز سب اس کے حکم کے ماتحت ہو جاتے ہیں اور وہ طبقات کی طیر سیر کرتا ہے اور اللہ کے حکم سے ہر خاص و عام، بادشاہ و امرا اور ان کے ماتحت دنیا اور اہلِ دنیا سب حلقہ بگوش غلام کی مثل اس کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔ اسی لیے مرشداپنے طالب کو اس طریقِ تحقیق اور توفیقِ الٰہی سے ان مراتب تک پہنچاتا ہے کہ وہ ظاہری طور پر مشرق تا مغرب ربع مسکون کی سات مملکتوں اور سات براعظموں پر غالب آ جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے یہ خدمات اس صاحبِ تصرف فقیر کے ذمہ ہیں جو صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات ہوتا ہے اور ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف رہتا ہے جہاں وہ حقیقت پر مبنی درخواستیں پیش کرتا رہتا ہے۔ ایسا فقیر باادب اور پرُحیا ہوتا ہے جو دائمی طور پر حضورِ حق میں رہتا ہے اور اپنے نفس کے لیے دنیا سے ایک پیسہ بھی جائز نہیں سمجھتا۔ قوی قوت کی بدولت وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں دائمی طور پر حاضر رہتا ہے۔ وہ صاحبِ اختیار ہوتا ہے جو شریعت میں ہوشیار اور بدعت سے استغفار کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ باتاثیر علمِ تفسیر کا حامل اور نفس پر حکمران ہوتا ہے۔ یہ فنا فی اللہ فقیر کے مراتب ہیں جو صاحبِ ترک و توکل، صاحبِ تجرید و تفرید اور محرمِ اسرارِ توحیدِ ربانی ہوتا ہے۔ اسی فقر کو فقرِ اختیاری کہتے ہیں جو فقرِ اضطراری و خواری سے بیزار ہوتا ہے۔ بیت:

ہم عارفم ہم کاملم روشن ضمیر
بہترم از بادشاہ اہل سریر

ترجمہ: میں عارف بھی ہوں اور کامل و روشن ضمیر بھی اس لیے تخت و تاج کے مالک بادشاہ سے بہت بہتر ہوں۔

جیسا کہ مردِ حقانی حضرت خاقانیؒ نے فرمایا:

پس از سی سال ایں معنی محقق شد بخاقانیؒ
کہ یک دم باخدا بودن بہ از ملک سلیمانیؑ

ترجمہ: پس تیس سال کی ریاضت سے خاقانیؒ پر یہ راز کھلا کہ ایک دم میں اللہ سے واصل ہونا ملکِ سلیمانیؑ سے بہتر ہے۔
اس کے جواب میں فقیر باھوؒ کہتا ہے:

بہ بحری غرق فی اللہ شو کہ باخود خود نمی مانی
دمی نامحرم است آنجا بوحدت رازِ ربانی

ترجمہ: وحدت کے سمندر میں اس طرح غرق ہو کہ تیرے اندر تو بھی باقی نہ رہے۔ جس مقامِ وحدت پر رازِ ربانی ہوں اس مقام پر دم بھی نامحرم ہے۔

(جاری ہے)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں