الف (Alif)
اقبالؒ۔۔۔۔عارف باللہ
در حقیقت اقبالؒ عارف تھے اور راہِ فقر پر چل کر فقر کی انتہا تک پہنچے ۔عارف اس شخص کو کہتے ہیں جو اسم سے مسمیّٰ کو پاتاہے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر عبادت کرتا ہے اورعارف کی شان یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر آن محبوب کے دیدار میں منہمک رہتا ہے۔ عارف ہر عالم کا علم رکھتا ہے، عارف وہ ہے جو انوارِ الٰہی میں غرق ہو کر اسرارِ الٰہی کے موتی نکال لائے اور پھر اُن کو اللہ کی مخلوق میں تقسیم کرے ،عارف عاشق ہے اور عاشق عارف ہے ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے راہِ فقر کے سفر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ اور انتہا مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہے۔ اس سلسلہ میں روایات ہیں کہ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ قادری میں بیعت تھے، پروفیسر طاہر فاروقی نے سیرتِ اقبال میں تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
عرصہ تک اس امر کا کسی کو علم نہ تھا کہ علامہ کسی سلسلہ تصوف سے وابستہ بھی تھے یا نہیں، عام طور پر خیال کیا گیا تھا کہ مرحوم ایسی کوئی نسبت نہیں رکھتے تھے لیکن سب سے پہلے اس راز کی عقدہ کشائی امیر ِ ملت پیر جماعت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے 1935ٗٗء میں فرمائی تھی۔ حضرت نے ارشاد کیا! اقبال نے راز داری کے طور پر مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم سے بیعت ہوں۔حضرت فرماتے ہیں:
اقبال کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت سالک درویش آیاکرتے تھے وہ انہیں سے بیعت تھے، ان کا سلسلہ قادریہ تھا۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو اصل روحانی فیض مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی روحِ مبارک سے ملا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے آپ کو ’’مریدِ رومیؒ ‘‘ ’’مریدِ ہندی‘‘ اور مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کو ’’پیر ِ رومیؒ‘‘ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں لیکن یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ (604تا 672ھ) علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے بہت پہلے کا ہے تو پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اُن سے فیض کیسے حاصل ہوا؟ محققین اس سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی مثنوی سے بہت متاثر ہوئے اور یہی اثر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری میں نظر آتا ہے لیکن راہِ فقر سے واقف عارفین یہ جانتے ہیں کہ فیض اس طرح نہیں مل جایا کرتا اور عارف کی کتب کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ عارف کی بات سمجھنے کے لیے خود عارف ہونا ضروری ہے۔ پھر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے اتنا فیض کیسے ملا؟ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ ایک عارفِ کامل تھے اور مثنوی مولانا رومؒ کے بارے میں مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مثنوی مولویؒ معنوی
ہست قرآن در زبانِ پہلوی
یعنی رومیؒ کی مثنوی معنوی فارسی میں قرآن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب اقبالؒ مثنوی معنوی میں گم ہو گئے اور اُسے ایک طالبِ مولیٰ کی طرح مضبوطی سے تھام لیا تو مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی روح نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو فیض سے نواز دیا کیونکہ عارف کی کتاب یا کتب کو اگر عشق و ادب سے پڑھا جائے تو عارف قاری کو فیض سے نواز دیتا ہے یا اس کی رہنمائی مرشد کامل کی طرف کر دی جاتی ہے۔ اقبالؒ کے ساتھ بھی یہی ہوا اور یہ بات آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری سے ظاہر ہے کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا رومؒ کو بڑے ادب سے اپنا مرشد کہا ہے۔