دین اور مذہب میں فرق | Deen or Mazhab Mein Farq


3.2/5 - (19 votes)

دین اور مذہب میں فرق

 Deen or Mazhab Mein Farq

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری ۔ لاہور

عام طور پر دین (Deen)  اور مذہب کے ایک ہی معانی لئے جاتے ہیں لیکن ان کے حقیقی معانی یکسر مختلف ہیں۔ دین (Deen)  کیا ہے؟ اور مذہب کسے کہتے ہیں؟

دین

لغت میں دین(Deen)  کے معانی عقیدہ، پرہیزگاری، جزا، بدلہ، عبادت اور مسلک کے ہیں۔
اصطلاحی معانی میں دین(Deen)  سے مراد ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایک مکمل نظامِ اطاعت ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات اور ہر شعبۂ زندگی کے معاملات کے لیے کامل رہنمائی موجود ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’دین (Deen) خیر اور شر کی جزا کا نام ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس دین(Deen)  کے متعلق فرماتے ہیں:
دین(Deen)  وہ ہے جو زندگی کے انفرادی، اجتماعی، ریاستی یا معاشرتی ہر طرح کے تعلقات اور معاملات کا احاطہ کرے۔
دین (Deen)  کے معانی ہیں جوہر ِانسان (روح) کی شناخت اور اس کی تکمیل، یعنی مرتبۂ انسان کی پہچان اور اس کے حصول کا نام دین (Deen)  ہے۔ (سلطان العاشقین)

ایک مذہبی سکالر دین کی تعریف یوں کرتے ہیں:
دین (Deen)  چھ عوامل عقائد، عبادات، معاشرتی رسومات، معاشی نظام، اقتصادی نظام اور سیاسی نظام کے مجموعہ کا نام ہے۔
پس ثابت ہوا دین ایک جامع اور مستند حقیقت ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ حقیقی نظام ہے جو اُس نے اپنے انبیا کے ذریعے مخلوقِ خدا کے لیے بھیجا۔ دین ہی وہ حقیقی نظام ہے جو انفرادی و اجتماعی ہر حالت میں کامل و مکمل ہے اور انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات اور نظامِ اطاعت مرتب کرتا ہے۔

مذہب

مذہب اپنی جزوی حالت اور عقائد و اعمال میں اختلاف کی وجہ سے اپنی کوئی ٹھوس اور جامع حالت نہیں رکھتا۔
پروفیسر لیاقت علی عظیم ’مذاہب کا تقابلی مطالعہ‘ میں مذہب کے متعلق لکھتے ہیں:مذہب ایسا راستہ ہے جس پر چلا جائے۔ A path to walk on it
پروفیسر وائٹ ہیڈ (Alfred North Whitehead) مذہب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مذہب ارادے کامعاملہ ہے۔ اسے عملی استدال کے ساتھ سمجھا اور شناخت کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ مخصوص اعمال کرنے چاہئیں یا مخصوص رویے اختیار کرنے چاہئیں۔ (فلسفۂ مذاہب)
امولیہ رنجن مہاپتر (Amolia Ranjan Mahaptr) مذہب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: موزوں عمل کے ذریعے زندگی گزارنے کا فن مذہب ہے۔ (فلسفۂ مذاہب)
میتھو آرنلڈ (Metthew Arnold) مذہب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مذاہب جذبات سے مزین اخلاقیات کے سوا کچھ نہیں۔  (فلسفۂ مذاہب)
پس مذہب مکمل ضابطۂ حیات نہیں ہے بلکہ یہ صرف دین (Deen)  کا ایک جز ہے۔

دین (Deen)  اور مذہب میں فرق

دین (Deen)  اور مذہب کے فرق کو درج ذیل نکات سے واضح کرتے ہیں:
دین(Deen)  ہر طرح کے شرک سے پاک اللہ جل جلالہٗ کی وحدانیت کا نظام ہے۔ یعنی دین شرک سے پاک خالص توحید ہے جبکہ مذہب میں عقیدۂ توحید کے ساتھ شرک کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ جیسے کہ عیسائیت میں تثلیت، ہندومت میں تریمورتی۔
دین(Deen)  میں تمام انبیا اور رسولوں پر ایمان لانا لازمی ہے جبکہ مذہب کے عقیدت مند بعض انبیا کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کر دیتے ہیں جیسے کہ ہندو مت، بدھ مت اور افریقن ٹریڈیشنل مذہب Religion  African Traditional وغیرہ۔
دین(Deen)  میں عقائد کو بڑی اہمیت حاصل ہے جبکہ مذہب میں عقائد کو جزوی طور پر غیر اسلامی طریقوں سے مانا جاتا ہے۔
دین(Deen)  چونکہ مکمل ضابطۂ نظام ہے جس میں تمام تر اخلاقی و معاشرتی نظامِ زندگی منظم ہیں،یہ ہر فردِ واحد کی مکمل رہنمائی کرتا ہے  اس کے برعکس مذہب میں ایسا کوئی جامع تصور نہیں ہوتا۔ مذہب درست امتیازات سے محروم ہوتا ہے۔
دین ِکامل میں عملی و حقیقی زندگی میں رہنمائی بذریعہ انبیا وحیِ الٰہی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ مذاہب چونکہ خود ساختہ طور پر وجود میں آتے ہیں اس لیے ان کے اندر عملی زندگی میں رہنمائی عقلِ عام سے حاصل ہوتی ہے۔
دین(Deen)  تو خدائی نظام ہے جو کہ حضرت آدم ؑ سے لیکر نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) تک بلاتفریق و امتیاز قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کی تعلیمات میں دین(Deen)  کی وجہ سے کبھی اختلاف نہیں ہوا  جبکہ مذہب میں تفریق و امتیاز کا نظریہ پایا جاتا ہے۔
دین(Deen)  چونکہ الہامی ہوتا ہے اور اس کے داعی اللہ پاک کے چنے ہوئے سچے اور مخلص انبیا ہیں اس لیے تاقیامت اس میں کوئی ردّ و بدل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ مذاہب الہامی نہیں ہوتے، اس لیے مذاہب کے داعی اپنی مرضی اور مفادات کے متعلق اس میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔
دین(Deen)  میں تمام انسانوں کو برابری کا حق حاصل ہے سوائے متقین یعنی اہلِ تقویٰ کے۔ کیونکہ اہلِ تقویٰ قربِ الٰہی کے باعث سب سے افضل ہیں۔ ان میں انبیا، شہدا، صدیقین اور صالحین شامل ہیں۔ جبکہ مذاہب میں ذات پات، رنگ و نسل وغیرہ کی وجہ سے سب انسان برابر اور محترم نہیں ہیں جیسے کہ ہندو مذہب میں برہمن، شتری، ویش اور شودر وغیرہ۔

ادیان کی اقسام

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور میں انبیا مبعوث فرمائے جو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے تھے۔ ہر قوم کے لیے ایک نبی ہوتا جو اس قوم کا اما م ہوتاتھا۔ جب اللہ پاک نے خاتم النبیین جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کو مخلوق کے لیے رہنما بنا کر بھیجا تو آپؐ کی بعثت کسی ایک خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام قوموں کے لیے ہے۔ اللہ پاک نے دین ِاسلام میں ہی تمام گزشتہ الہامی کتابوں اور صحیفوں کو شامل کر کے ایک مکمل دین (Deen)  مخلوق کے لیے پسند فرما لیا ہے۔
لیکن ابھی بھی موجودہ دور میں تین دین (Deen)  موجود ہیں:
اسلام
 عیسائیت
یہودیت

اللہ پاک واحد، یکتا، بے مثل اور بے مثال ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی تعلیمات میں یکتائی نہ پائی جائے؟ بے شک ہر دین (Deen)  میں ایک ہی حکم نافذ ہواہے لیکن بدقسمتی سے دین کے محافظوں نے دین کی اصل صور ت ہی تبدیل کر دی اور یوں عیسائیت اور یہودیت بھی موجود رہ گئی۔ 

مستند اور کامل دین صرف اسلام

بیشک موجودہ دور کا ہر انسان یہ حقیقت جانتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنا آخری الہامی فرمان (قرآنِ مجید) اپنے پیارے نبی نورِ ھوُ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے نہ صرف مخلوق تک پہنچا یا بلکہ اس الہامی و جامع ضابطۂ حیات کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔  (سورۃالحجر۔9)
علامہ عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی (متوفی 668ھ) لکھتے ہیں:
ابوالحسن علی بن حلف نے اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن الکثم سے روایت کیا کہ مامون الرشید حکمران اپنے دور میں علمی مجالس منعقد کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کی مجلس میں نہایت عمدہ لباس زیبِ تن کئے ایک یہودی آیا، اُس نے نہایت عمدہ گفتگو کی۔ جب مجلس سے فارغ ہوئے تو مامون الرشید نے اُس سے دریافت کیا تم اسرائیلی ہو؟ اُس نے کہا: ہاں، پھر مامون رشید نے کہا: تم مسلمان ہو جاؤ، میں تمہیں بہت سا انعام و اکرام دوں گا۔ اُس یہودی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’’یہ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا دین (Deen)  ہے۔‘‘

پھر ایک سال بعد وہی شخص مامون الرشید کی مجلس میں بحیثیت مسلمان آیا۔ مجلس ختم ہونے کے بعد مامون الرشید نے مسلمان ہونے کا سبب پوچھا تو اُس نے جواب دیا ’’جب میں تمہاری مجلس سے لوٹا تو میں نے سوچا کہ میں ان مذاہب کا امتحان لوں، اسی ضمن میں مَیں نے پہلے تورات میں تحریف کا قصد کیا اس کے تین نسخے لکھے اور اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے یہودیوں کے معبد میں گیا۔ انہوں نے یہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے انجیل میں تحریف کا قصد کیا اور اس کے بھی تین نسخے اپنی طرف سے کمی بیشی کرکے عیسائیوں کے گرجا میں گیا تو انہوں نے بھی وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآنِ مجید میں تحریف کا قصد کیا، میں نے اس کے تین نسخے لکھے، ان میں بھی کمی بیشی کر دی اور ان کو فروخت کرنے کے لیے اسلامی کتب خانہ میں گیا۔ انہوں نے یہ نسخے پڑھے، ان پر تحقیق کی اور جب میری کمی و زیادتی سے مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دیئے اور ان کو نہیں خریدا۔ اس لیے میں نے جان لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تغیر نہیں کیا جا سکتا۔ پس یہی میرے اسلام لانے کا سبب ہے۔‘‘

یحییٰ بن الکثم نے کہا یہ خبر سچی ہے اور قرآنِ مجید میں اس کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل کی حفاظت ان کے علما کے سپرد کر دی اور فرمایا:
’’ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور تھا۔ اس کے مطابق انبیا جو (اللہ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اللہ والے (یعنی ان کے اولیا) اور علما (بھی اس کے مطابق فیصلے کرتے رہے) اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ (سورۃ المائدہ۔44)

اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ یہود اور نصاریٰ کو تورات اور انجیل کا محافظ بنا دیا گیا تھا اور قرآنِ مجید کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن، جز 10ص 7۔6، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415ھ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) نے فرمایا ’’جس نے ہمارے دین (Deen)  میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ ردّ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری 2697)
ہر دور میں صرف ایک ہی دین ِ حقیقی ہوتا ہے اور باقی محض مذاہب ہوتے ہیں۔ اسلام دین ہے جو کہ زندگی کے تمام تر پہلوؤ ں کا احاطہ کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
 بے شک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ (سورۃ آلِ عمران۔19)
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین (Deen)  قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 85)

 حقیقت دینِ اسلام

امام الوقت صاحبِ مسمیّ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) دینِ اسلام کی حقیقت کو نہایت خوبصور ت الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
دین ِاسلام کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا عشق، اخلاص، وفاداری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کی کامل ظاہری و باطنی اتباع ہے۔ جبکہ آج کل تمام تر توجہ صرف ظاہری اتباع پر دی جاتی ہے۔ اگر اصلی دین صرف ظاہری اتباع پر مبنی ہوتا تو اکابر صحابہؓ کے اسلام قبول کرتے ہی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ فرض کر دیئے جاتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام عملی ارکانِ دین (Deen)  کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ اس سے پہلے تمام صحابہؓ کے لیے دین صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) سے وفا اور عشق ہی تھا۔ اُن کی نماز اور درود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کا دیدار تھا، ان کا روزہ مشرکینِ مکہ کی طرف سے دی گئی تکالیف پر صبر تھا۔ (سلطان العاشقین) 

اسلام کے ظاہری اعمال سے مراد تمام عبادات، عقائد اور شریعت کی پابندی ہے۔ جبکہ اسلام کے باطنی اعمال سے مراد تمام عبادات کی ادائیگی کا مقصد مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری، قرب و دیدارِ الٰہی حاصل کرنا اور شریعت سے معرفتِ الٰہی کا سفر طے کرنا ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ (Syedna Ghous-ul-Azam Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani) فرماتے ہیں:
جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔ (سرّالاسرار)

حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sultan Bahoo)فرماتے ہیں:
پس یہ بات حق ہے کہ وصالِ الٰہی صرف ظاہری اعمال سے ممکن نہیں، چنانچہ ایک بزرگ کا فرمان ہے کہ نماز، تلاوتِ قرآن اور زکوٰۃ ادا کرنا نیک اعمال ہیں لیکن طالب ِمولیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ظاہری اعمال سے آگے لقائے الٰہی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ (سلطان الوھم)

اسلام کے باطنی اعمال کے متعلق یوں کہا جا سکتا ہے کہ دائرہ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کے لیے تصدیق بالقلب سے توحید کا اقرار کرنا پڑتا ہے یعنی ظاہری طور پر تو زبان کلمہ پڑھ رہی ہو اور باطنی کیفیت یہ ہو کہ معبودِ برحق صرف اللہ ہی ہے، وہ اپنی ذات و کمالات میں واحد اور احد ہے، بادشاہی، اختیار اور طاقت صرف اُسی کی ہے۔ تصدیق بالقلب سے ہی قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام عبادات اور تمام معاشرتی و انتظامی امور کااوّلین مقصداللہ پاک کی واحدانیت کے ساتھ ساتھ اس کا قرب و دیدار ہی ہونا چاہیے۔ دین ِ اسلام کی اسی حقیقت کو فقر کہتے ہیں اور اسی فقرکو آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس پر فخر بھی فرمایا۔ 

مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں:
جس نے حالت ِایمان میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا وہ صحابی ہے اور جس نے کسی صحابی سے تعلیم و تلقین حاصل کی وہ تابعی ہے ، اور جس نے کسی تابعی سے تعلیم و تلقین حاصل کی اور تبع تابعی ہے۔ یہ تینوں گروہ نجات یافتہ ہیں اس لیے کہ صورت (لقائے الٰہی) کا دین تبع تابعین تک عام رہا۔ پھر صورت کا دین سلاسلِ طریقت کی صورت میں علیحدہ ہو گیا اور سیرت (ظاہری اعمال) کا دین علیحدہ ہو گیا۔ فقر والے صورت کے دین پر چلتے ہیں اور علمائے ظاہر سیرت کے دین (Deen)  پر۔ فقر ہی اصل دین ہے۔ سیرت کا دین کتابوں میں ہے اور صورت کا دین فقراکاملین کے پاس ہے جن کے وسیلے سے طالبانِ مولیٰ مجلسِ محمدیؐ میں حاضر ہو کر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے رُخ مبارک کا دیدار کرتے ہیں اور فنا فی اللہ کے مقام تک پہنچتے ہیں۔ (سلطان العاشقین)

راہِ فقرکا طالب تصدیق بالقلب سے اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں رضائے الٰہی کو ہی مقدم رکھتے ہوئے دینِ اسلام کی مکمل ظاہری و باطنی اتباع کرتاہے۔ فقر کی بدولت سالک (طالبِ مولیٰ) کا اللہ کی واحدانیت پر یقین پختہ ہوجاتا ہے جس سے اسے اخلاص، وفاداری، عاجزی، احکامِ شریعت کی پابندی، یقین بالقلب اور توکل الی اللہ کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کی حیاتِ طیبہ میں فقر کواوّلین مقام حاصل رہا ہے۔ اسی فقر کو اہلِ بیتؓ نے اپنایااور سیدّنا امام حسینؓ نے میدانِ کربلا میں ایک لازوال اور بے مثال تاریخ کو اپنے مبارک اور پاکیزہ خون سے رقم فرما کر دین ِ حق کو بقا عطا فرمائی۔
دین ِاسلام کی حقیقت فقرہی صحابہ کرامؓ سے تبع تابعین تک پہنچی اور اب فقرائے کاملین کا بھی یہی طریق ہے۔

فقرائے کاملین اور دینِ اسلام

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور اس سے بہتر کس کا دین ہو سکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا اور وہ دینِ ابراہیم ؑ کی پیروی کرتا رہا جو یکسو اور راست رو تھے اور اللہ نے ابراہیمؑ کو اپنا مخلص دوست بنایا۔ (سورۃ النسا۔125)
اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ (سورۃ النسا۔69) 

اب دین (Deen)  کی حلاوت تو فقرائے کاملین کی صحبت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ حدیث ِ نبویؐ ہے:
حضرت اسما بنتِ یزیدؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کو فرماتے سنا ہے ’’کیا میں تمہیں بتاؤں تم میں سے بہتر کون ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یارسول اللہ! ضرور بتایئے۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کراللہ یاد آجائے۔‘‘ (ابن ِ ماجہ)  

بیشک فقرائے کاملین ہی دین کے سفیر اور دین کو حیاتِ نو بخشنے والے ہیں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس  (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)فرماتے ہیں:
تاریخِ اسلام میں تمام اسلامی تحریکوں میں سلاسلِ طریقت کی تحریک سب سے زیادہ مضبوط ، معتبر ،دیرپا اور کامیاب رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق باطن سے یعنی ذاتِ حق کے قرب و معرفت سے ہے۔ جو سیدھا دِل کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے۔ اسلام کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ اسلام کا ظاہری حصہ شریعت ہے اور باطنی حصہ طریقت ہے، جو حقیقت اور معرفت تک رسائی کا حصہ ہے۔ (سلطان العاشقین)

سلاسل طریقت میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت سلسلہ سروری قادری کو حاصل ہے۔ تمام سروری قادری مشائخِ عظام نے اپنے اپنے دور میں دینِ اسلام کو عروج عطا فرمایا جیسے کہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ  (Syedna Ghous-ul-Azam Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani) نے دین کے فروغ کے لیے مواعظ کا سلسلہ شروع فرمایا نتیجتاً ہزاروں، لاکھوں متلاشیانِ حق کو معرفتِ حق کی نعمت حاصل ہوئی۔ 

اسی روحانی سلسلہ کے عظیم المرتبت فقیرِ کامل سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sultan Bahoo)نے علمِ معرفت پر 140 لازوال کتب تصنیف فرمائیں۔ یہ کتب اب بھی ادب، صدق اور اخلاص سے مطالعہ کرنے والے کے باطن کو معرفتِ الٰہی کے نور سے سیراب کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ آپؒ مخلوقِ خدا کی بھلائی اور انہیں معرفتِ الٰہی کی انتہائی منزل تک پہنچانے کے لیے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں سفر فرما کر فیضِ فقر تقسیم فرماتے رہے۔

یہ سلسلہ کڑی در کڑی جب سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ تک پہنچا تو آپؒ نے فیض ِفقر کے دریا بہا دئیے جس سے ہر خاص و عام سیراب ہوتے رہے۔آپؒ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ہی بحکم و اجازتِ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام امانتِ فقر مخلوقِ خدا کی رہنمائی کے لیے اپنے محرمِ راز، حقیقی عاشق اور روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کو سونپ دی اور فرمایا ’’اب اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ 

جدید دور کے ساتھ ساتھ فروغ دین کے ذرائع بھی جدید ہوتے گئے۔ جو حقیقی روحانی وارث ہوتا ہے وہی دین کو ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلی حالت پر قائم رکھتا ہے۔ اس کا مقصد مخلوقِ خدا کی بھلائی ہوتا ہے کیونکہ یہی انبیا کا طریق رہا ہے۔ یہی فقرائے کاملین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقش ِ قدم پر فائز خلیفہ ہوتے ہیں جو دین کو بقا عطا کرتے ہیں۔ دورِ حاضر میں انہیں مرشد کامل اکمل و مکمل اور فقیر ِ کامل کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کے ورثہ فقر کی امانت جن کے سپرد فرمائی وہ عظیم المرتبت ہستی فقر کے سلطان، شانِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخ ِکامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس  (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)نے دین ِاسلام کی حقیقی روح فقر کو مخلوقِ خدا کے لیے نہایت آسان فرما دیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے فقر و تصوف پر 24 بے مثال کتب تصنیف فرمائیں۔ فقر و تصوف کی تاریخ میں پہلی بار ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات اور تصورِ اسمِ محمدؐ کو مخلوقِ خدا پر عام کرنے کا سہرا بھی آپ مدظلہ الاقدس کے کامل تصرف کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جدید دور کے تما م تر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے فقر کی تاریخ میں انقلاب برپا فرما دیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نورانی صحبت میں ذکر و تصور اسم ِ اللہ ذات اور اسم ِ محمدؐ سے فیض یاب ہونے والے طالبانِ مولیٰ نہ صرف دین (Deen)  کی ظاہری و باطنی کامل اتباع کرتے ہیں بلکہ اس کامل اتباع کی بدولت مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری اور معرفتِ الٰہی کی نعمت سے اپنے باطن کو سیراب کرتے ہیں اور یہی اصل کامیابی ہے۔ 

 ہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ وہ اپنے حقیقی دین (Deen)  جو کہ شریعت سے معرفت ِ الٰہی (مقامِ فنا فی اللہ) تک کا سفر ہے، کی منازل کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کی بارگاہِ رحمت و کرم میں حاضر ہو کر طے کریں۔ یہی نجات کا راستہ ہے۔

استفادہ کتب:
سلطان العاشقین؛ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
فلسفۂ مذاہب؛ مصنف امولیہ رنجن مہاپتر مترجم یاسر جواد
مذاہب کا تقابلی مطالعہ    


27 تبصرے “دین اور مذہب میں فرق | Deen or Mazhab Mein Farq

  1. دین ِاسلام کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا عشق، اخلاص، وفاداری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل ظاہری و باطنی اتباع ہے۔

    1. سلطان العاشقین لجپال سائیں مرشد میرا

    2. ہر دور میں صرف ایک ہی دین ِ حقیقی ہوتا ہے اور باقی محض مذاہب ہوتے ہیں۔ اسلام دین ہے جو کہ زندگی کے تمام تر پہلوؤ ں کا احاطہ کرتا ہے۔❤️

  2. جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین (Deen) قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 85)

  3. جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین (Deen) قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 85)

  4. بہترین مضمون ہے ❣️❣️❣️

  5. بہت وضاحت سے دین اور مذہب کے فرق کو بیان کیا گیا ہے

    1. ماشااللہ جی بہت اچھا مضمون لکھا ہے اس مضمون کو پڑھنے کے بعد دین اور مذہب کا فرق معلوم ہوا ہے

      1. بہت خوبصورت مضمون ہے ماشاءاللہ

  6. دین اور مذہب کے فرق کو بہترین اور جدا انداز میں رقم کیا گیا ہے

  7. بہت اچھے طریقے سے مذہب اور دین کے فرق کو بیان کیا گیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں