Ameer ul kunain

امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر24
شرح اولیا اللہ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَایَمُوْتُوْنَ
بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلٰی دَارٍ

ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔

یہ مراتب اس مرشد کے ہیں جسے دیدار حاصل ہو اور مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے پہلے مر جاؤ) کا مرتبہ طے کر لیا ہو۔ بیت:
این جہان و آن جہان در یک نظر
عارفان این بوند اہل از بصر
ترجمہ: عارفین ایسے صاحبِ  بصیرت ہوتے ہیں کہ دونوں جہان ان کی کو ایک نظر کی طے میں ہوتے ہیں۔
مرشد کامل وہ ہے جو سب سے پہلے صادق طالب کو اسمِ اللہ ذات کے تصور سے حضوری عطا کرے اور تمام انبیا اور اولیا اللہ کی ارواح سے ملاقات کرائے اور پھر اسمِ اللہ ذات کی قوت سے لامکان میں پہنچا کر اللہ کے دیدار اور قرب سے اس طرح مشرف کرے کہ طالب کو تمام عمر مجاہدہ و ریاضت اور چلہ کشی و خلوت نشینی کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ مرشد کامل کے لیے مرتبہ امتحان ہے۔ جو مرشد ان صفات کا حامل نہیں وہ راہزن ہے اور اس کے طالب شیطان کے چیلے ہیں اور بے معرفت، اندھے اور بے عیاں ہونے کے باعث حیوانات کی مثل احمق ہیں یا وہ نادان بچے کی مثل بے شعور طالب ہیں۔ بیت:
بر قبر رو تا شود مطلب تمام
میبرد با تو روحانی ہر مقام
ترجمہ: تو اولیا کی قبر پر جا کر سوال کر تاکہ تجھے تیرا مطلوب حاصل ہو جائے اور اولیا کی ارواح تجھے ہر مقام طے کرائیں گی۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ
ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ۔154)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ہی اس کا شعور نہیں رکھتے۔

ابیات:
ہر کہ گوید مردہ آن مردئہ
اولیا باخود حیاتے بردئہ
ترجمہ: جو اولیا کو مردہ کہتا ہے وہ خود مردہ ہے کیونکہ اولیا حیاتِ ابدی حاصل کرنے کے بعد اس دنیا سے جاتے ہیں۔
اولیا زندہ شود باسم ذات
و ز خلائق او ھمی یابد نجات
ترجمہ: اولیا اسمِ اللہ ذات سے حیاتِ ابدی پاتے ہیں جس کے بعد وہ مخلوق (کے مراتب) سے مکمل نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
اوّل مرشد کے لیے لازم ہے کہ طالب کے نفس کو جمعیت بخشے اور نفس کو لذات اور مردار دنیا پر تصرف سے جمعیت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا مردار کی لذات سے سیری حاصل کیے بنا طالب کے نفس کو مرشد پر بالکل اعتبار نہیں آتا اگرچہ وہ ان لذاتِ دنیا سے خود کو سرزنش کرتا رہے یا ہزار بار استغفار کرے۔ دنیا سے سیری حاصل کرنے کے بعد ہی نفس مردار دنیا سے بیزار ہوتا ہے جس کے بعد نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ کر حق تعالیٰ کے دیدار کے قابل بنتا ہے جیسے دھوبی ناپاک کپڑے کو پاک کرتا ہے۔ گندگی و بندگی دونوں یکجا نہیں ہو سکتیں۔ دیدار اور مردار (دنیا) ایک وجود میں قرار نہیں پا سکتے جس طرح کفر و اسلام اور یہودی و مسلمان ایک جگہ نہیں ہو سکتے۔جو مرشد طالب کو تمام مردار دنیا پر تصرف کی توفیق سے سیری عطا کرنا نہیں جانتا تحقیق وہ دیدار عطا کرنا بھی نہیں جانتا۔ مطلب یہ کہ طالب کو ظاہری خزانوں پر تصرف عطا کرنا توفیق ہے اور باطن میں اللہ کا قرب عطا کرتے ہوئے اللہ کی ذات و صفات کے تمام مقامات کو طے کرنا تحقیق ہے۔ جس مرشد کو نہ توفیق کی خبر ہے نہ تحقیق کی‘ وہ احمق اور اہلِ  زندیق میں سے ہے۔ بعض مرشد دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں دیدارِ الٰہی حاصل ہے لیکن وہ مردار دنیا کی قید میں ہیں اور بعض مرشد اللہ کے قرب و وِصال کا دعویٰ کرتے ہیں وہ احمق اور بے حیا دنیا کے طالب ہیں۔ مرشدی و طالبی آسان کام نہیں۔ مرشدی کے لیے کامل تصرف کی ضرورت ہے اور اسے حاصل کرنے میں اللہ کے عظیم اسرار ہیں۔ مرشد و طالب شریعت میں ہوشیار اور کفر و بدعت سے بیزار ہوتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ ابیات:
ہر کرا مرشد شود آن راہبر
حاضر و ناظر بود صاحبِ  خبر
ترجمہ: جس کا راہبر کامل مرشد ہو اسے حضورِ حق اور دیدارِ الٰہی حاصل ہوتا ہے اور وہ صاحبِ خبر ہوتا ہے۔
احتیاج از کس ندارد شد غنی
روز و شب حاضر بود مجلس نبیؐ
ترجمہ: ہر شے سے سیری حاصل کرنے کے بعد اسے کسی کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ دن رات مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہوتا ہے۔
سب سے پہلے مرشد کو چاہیے کہ اپنے آپ کو (کامل) مرشد ثابت کرے اور اس کے لیے اسے دو گواہوں کی ضرورت ہے‘ اوّل گواہ یہ کہ اسمِ اللہ ذات سے طالب کو اللہ کا دیدار اور حضوری عطا کرے دوم گواہ یہ کہ طالب کو اللہ کے بے شمار خزانوں پر کامل تصرف عطا کرے۔ اور طالب کے لیے بھی دو گواہ ضروری ہیں جس سے ثابت کرے کہ وہ اللہ کا طالب ہے‘ اوّل یہ کہ مرشد کی خاطر جان و مال خرچ کرے، دوم یہ کہ خود کو مرشد کے حکم و اختیار میں دے دے اور جو کام بھی کرنا چاہے مرشد کے حکم کے بغیر نہ کرے چاہے وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا۔
آخر انتہائے فقر اور درویش اولیا اللہ کی معرفت کیا ہے اور کیسے ہونی چاہیے؟ وہ اپنے نوری وجود کے ساتھ اللہ کے ساتھ یکتا ہوتے ہیں اور ساری مخلوقات ان کو اپنے سامنے ایسے نظر آتی ہے جس طرح سورج کی روشنی ہر جگہ پہنچتی ہے اور وہ اپنی روشنی سے سب کو فائدہ دیتا ہے۔ یہ درویش اپنے نوری وجود کے ساتھ ہمیشہ اللہ کے دیدار سے مشرف رہتے ہیں۔ ایسے نوری وجود والا درویش جب ظاہری زبان سے بولنے کے لیے لب ہلاتا ہے تو اللہ جانتا ہے کہ وہ اس سے ہم کلام ہے اور انبیا و اولیا اور مومنین و مسلمانوں کی ارواح سمجھتی ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے اور تمام مؤکلات و فرشتے سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے اور تمام جن و انسان سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے اور تمام خاص و عام لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے ہم کلام ہے۔ یہ نوری وجود ہر مقام پر پہنچ سکتا ہے اور حضورِ حق میں موجود رہتا ہے جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’میں تیس سال اللہ سے ہم کلام رہا لیکن مخلوق یہ سمجھتی رہی کہ میں ان سے ہم کلام ہوں۔‘‘ یہ عظیم نوری وجود اسمِ اللہ ذات کی کنہ تک پہنچ کر حاصل کیا جا سکتا ہے اور کن کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ 
فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (البقرہ۔117)
ترجمہ: پس بے شک وہ جس چیز کے لیے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ وہ ہو جاتی ہے۔ 

دونوں جہان کو ایک دم میں اپنے تصرف، قید و قبضہ اور حکم کے تحت لے آنا آسان کام ہے جبکہ نفس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن تصور اسمِ اللہ ذات سے اور قرآن کی آیات اور کلمہ طیبہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ
اللّٰہ 
 کو اس کی کنہ سے پڑھنے سے نفس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابیات:

نبودے کس نبودے ہیچکس
من کہ بودم باخدا بودیم بس
ترجمہ: جس وقت میں اللہ کے ساتھ تنہا تھا اس وقت کوئی نہ تھا بس ہم ہی تھے۔
شد مرا دیدار دائم در آئینہ عین از نما
زان بقائم یافتم من از خدا
ترجمہ: میں آئینہ ٔ عین میں ہمیشہ اللہ کو دیکھتا ہوں جس میں مجھے اس کا واضح دیدار ہوتا ہے اور اس دیدار سے میں نے اللہ سے بقا حاصل کی اور یہ سب عنایت اللہ سے بلاواسطہ حاصل کی۔
برتنم ہر موئے عارف شد وجودی معرفت
احتیاجے نیست ذکرش ہر کرا این شد صفت
ترجمہ: میرے وجود کا ہر بال اللہ کا دیدار کرتا ہے اور میرے وجود کو اللہ کی معرفت حاصل ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہو اسے کسی ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
باھوؒ را بدنام کردی خویش را پس نام تن
تن ولایت لایزالی لامکان دارالامن
ترجمہ: تُو نے باھُوؒ کے صرف نام اور وجود کا تذکرہ کر کے باھُوؒ کے مرتبہ کو نہیں سمجھا۔ باھُوؒ کا وجود ولایتِ  ازلی کا حامل ہے اور اس کا گھر لامکان ہے جو دارالامن ہے۔
جس کسی کا وجود حق تعالیٰ کے نور کو جذب کر کے پختہ ہو گیا ہو وہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے، اس کی طرف معراج اور اس کے نور کے مشاہدہ اور دیدار میں مشغول رہتا ہے۔ ایسا وجود چشم ِ سرّ سے دنیا میں اسرار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور جب وہ قبر سے برآمد ہوتا ہے تو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں تمام انبیا و اولیا کی ارواح سے ملاقات کرتا ہے اور ان سے ہم کلام ہو کر ان کی صحبت سے مستفید اور اللہ کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے اور اس کا ظاہر و باطن اللہ کی نظر میں منظور ہوتا ہے۔ غیب کے ان احوال میں نقص نہ نکال اور نہ ہی اس پر حیران ہو ورنہ تو اہلِ  زنار کفار میں سے ہو جائے گا جو جہنم کی آگ کے لائق ہیں۔ ایسا کرنے پر ہزار بار توبہ اور استغفار کر۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَایَمُوْتُوْنَ 
ترجمہ: خبردار! بے شک اولیا اللہ مرتے نہیں ہیں۔
ظاہری مذہبی عالم اور عالم باللہ فقیر میں یہی فرق ہے کہ پہلے کا نام علما اور دوسرے کا نام فقیر اور اولیا ہے۔ علما عامل ہیں جبکہ فقرا کامل ہیں۔ عالم (باطنی طور پر) مردہ ہیں جبکہ فقیر (باطنی و قلبی طور پر) زندہ ہیں۔ عالم ہر (ظاہری) علم کو جانتے ہیں اور مسائلِ  فقہ اور قرآن کی آیات و حدیث کی تفسیر بیان کرتے ہیں جبکہ فقیر مشروحاً اللہ کی حضوری اور قرب عطا کرتے ہیں۔ گفتگو کرنے والوں اور دیدار کرنے والوں کو ایک دوسرے کی صحبت پسند نہیں آتی۔ ایسا ہی معاملہ مست و ہوشیار اور خوابیدہ و بیدار کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابیات:
نفس را رسوا کنم بہر از خدا
بر ہر درے قدمے زنم بہر از خدا
ترجمہ: میں اپنے نفس کو خدا کی خاطر رسوا کرتا ہوں اور ہر در سے فقط خدا کی خاطر طلب کرتا ہوں۔
در تصرف عاملم کامل تمام
احتیاج از کس ندارم خاص و عام
ترجمہ: میں ہر تصرف میں عامل و کامل ہوں اس لیے مجھے بھی کسی خاص و عام کی ضرورت نہیں۔

جان لو کہ چور، دغاباز، فتنہ انگیز اور فریبی بھی خود کو فقیر کہتے ہیں اور صاحبِ تصرف اور کیمیا اکسیر کے حامل، تاثیر بخش، اہلِ  خزائنِ الٰہی، روشن ضمیر اولیا اللہ اور کونین پر امیر و عالمگیر اصل فقیر ہوتے ہیں۔ پس کاذب اور صادق فقیر کو کونسے عمل، علم، حکمت، کلام اور معمہ کل و جز سے پہچانا جا سکتا ہے۔ ناقص آج اور کل کے وعدے کر کے اور دلیری کے قصے و افسانے سنا کر وقت کو ضائع کرتا ہے جبکہ کامل توجہ سے مشاہدہ عطا کرتا ہے اور طالبِ مولیٰ کے تمام مقصود روزِ اوّل ہی اسے عطا کر دیتا ہے۔ بیت:

مرشدے نامرد صورت زن نما
از طالبان زر طلب باشد بے حیا
ترجمہ: ناقص مرشد نامرد ہوتے ہیں اور عورتوں کی مثل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بے حیا ناقص مرشد طالبوں سے مال و دولت طلب کرتے ہیں۔
مرشد کامل تصور اسمِ اللہ ذات سے عین حقیقت ِ حق کا مشاہدہ عطا کرتا ہے اور علمِ  حق عطا کرتا ہے جبکہ ناقص مرشد ذکر، فکر، مراقبہ اور ورد وظائف میں مشغول رکھ کر خراب و خوار کرتا ہے اور کامل مرشد روزِ اوّل ہی اللہ کے دیدار سے مشرف کر دیتا ہے۔ بیت:
جز بدیدارے دگر راہے ندید
این مراتب رابعہؒ حضرت بایزیدؒ
ترجمہ: دیدار کی راہ کے سوا کوئی دوسری راہ تلاش نہ کر۔ یہ راہ حضرت رابعہ بصریؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ کے مراتب کی طرف لے جاتی ہے۔
مراتبِ  ذکر (پر رکے رہنا) زوال کا باعث ہے اور مراتبِ  فکر (میں مشغول رہنا) محض خام خیالی ہے اور مراتبِ مراقبہ روحانی احوال کی ابتدا ہیں اور مراتبِ  الہام پر پہنچ کر بھی طالب نامکمل رہتا ہے اور مراتبِ  مذکور پر پہنچ کر بھی وہ نامنظور رہتا ہے (جب تک وہ عین توحید نہ ہو جائے)۔ ابیات:
طالب از مرشد طلب دیدار کن
دیدہ در دیدار شد در رازِ کن
ترجمہ: اے طالب! مرشد سے دیدار طلب کر۔ آنکھیں جب دیدار میں محو رہیں تب رازِ کن عیاں ہوتا ہے۔
ذکر و فکر دور گرداند ترا
ذاکران بے خبر وحدت و ز لقا
ترجمہ: ذکر و فکر تجھے حق کے دیدار سے دور کر دیں گے کیونکہ ذاکر وحدت اور اللہ کے قرب و دیدار سے بے خبر ہوتے ہیں۔
فقیر ِ کامل چند صفات کا حامل ہوتا ہے اوّل وہ نفس کے لیے بخیل ہوتا ہے اور طالبانِ مولیٰ کا دوست ہوتا ہے۔ دوم وہ ربّ جلیل کے دیدار سے دائمی طور پر مشرف ہوتا ہے اور اللہ کے قرب و حضوری سے وھم و دلیل کے ذریعے قلبی طور پر الہام پاتا ہے۔ ابیات:
از کجا آوردہ با کے بردہ
اہلِ دیدارش نہ ہرگز مردہ
ترجمہ: (یہ کوئی نہیں جانتا کہ)اہلِ دیدار کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں لیکن وہ ہرگز نہیں مرتے (کیونکہ وہ حیاتِ ابدی پا چکے ہوتے ہیں)۔
من باخدا بودم میباشم دوام
این بود توحید مطلق حق تمام
ترجمہ: میں (ازل میں) خدا کے ساتھ تھا اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہوں گا یہی توحیدِ مطلق اور حق ہے۔
ہر کہ حق را پوشیدہ آن کافر پلشت
ہر کہ گوید دیدہ ام اہل از بہشت
ترجمہ: جو حق کو پوشیدہ رکھتا ہے وہ کافر اور ناپاک ہے اور جو کہتا ہے کہ میں نے حق کو دیکھا ہے وہ اہلِ بہشت میں سے ہے۔
گر کسے گوید بدہ صورت نشان
آن لایزالی بیمثال لامکان
ترجمہ: اگر کوئی کہے کہ مجھے اللہ کی صورت اور نشان بتاؤ (تو اسے کہہ دو کہ) وہ لامکان میں رہنے والا لازوال اور بے مثال ہے۔

ہر کہ خواند این مطالعہ بالیقین
لائق دیدار شد دیدار بین
ترجمہ: جو یقین کے ساتھ اس علم کا مطالعہ کرتا ہے وہ دیدار کے لائق بن کر اللہ کا دیدار کرتا ہے۔
بانظر ناظر کند حاضر خدائے
چون نگویم دیدہ ام ہر دم لقائے
ترجمہ: ہر دم حاضر رہنے والے خدا نے مجھے ایسی نظر عطا کی ہے کہ میں اس کا دیدار کروں سو میں کیوں نہ کہوں کہ مجھے دیدار حاصل ہے اور میں ہر وقت اسکے قرب میں ہوتا ہوں۔
جز حضوری بالقا دل کس مبند
ذکر دم روح و قلب احمق پسند
ترجمہ: اللہ کے قرب و دیدار اور حضوری کے سوا دل کو کسی اور طرف مشغول نہ ہونے دے۔ ذکرِ دم، ذکر ِروح اور ذکرِ قلب کو پسند کرنے والے احمق ہیں۔
ہر طریقت را بدانم ہر طریق
طلب کن دیدار توفیق از غریق
ترجمہ: میں طریقت کے ہر راستے (طریق) سے واقف ہوں اس لیے مجھ سے دیدار میں غرق ہونے کی توفیق طلب کر۔
احتیاجے نیست گفتن عاقلان
عارفان دیدار بین صاحب عیان
ترجمہ: عقلمندوں کو گفتگو کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔ عارفین دیدار کر کے صاحبِ عیاں بن جاتے ہیں۔
منکہ رو آوردہ ام دیدار در
دیدہ را دیدار شد صاحب نظر
ترجمہ: میں نے اپنا چہرہ اللہ کے دیدار کی طرف موڑ لیا ہے۔ جسکی آنکھیں دیدار کرتی رہیں وہ صاحب ِ نظر بن جاتا ہے۔
دیدہ باحق رود باطل گذار
روز و شب دیدار بین اعتبار
ترجمہ: جب طالب اپنی آنکھیں حق کی طرف موڑ لے تب باطل کو ترک کر دیتا ہے اور دن رات اس کا دیدار کر کے اعتبار حاصل کرتا ہے۔
آن دیدۂ دیدار بین باشد کجا
دیدہ لائقِ دیدار باشد باخدا
ترجمہ: یہ ظاہری آنکھیں دیدار کرنے والی کیسے ہو سکتی ہیں جو آنکھیں اللہ کے ساتھ مشغول رہتی ہیں وہ دیدار کے لائق ہیں۔
باھوؒ بہر از خدا دیدہ بدہ
بے چشم دیدار بین آن دیدہ بدہ
ترجمہ: اے باھُوؒ خدا کی خاطر ایسی بصیرت عطا کر کہ آنکھوں کے بغیر ہی اللہ کا دیدار کرتا رہوں۔
(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں