Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

5/5 - (4 votes)

کلید التوحید (کلاں)  (Kaleed ul Tauheed Kalan )

قسط نمبر12                           مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

مثنوی:

بر زبان قرآں تفسیر و حدیث
اشتغال دل بود بارب جلیس

ترجمہ: اصل عالم وہ ہوتا ہے جس کی زبان پر قرآن و تفسیر اور حدیث ہو اور دل اللہ کے ساتھ مشغول ہو۔ 

ایں چنین عالم بود عارف خدا
باجواب و باصواب مصطفیؐ

ترجمہ: ایسا عالم عارفِ خدا ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہر سوال کا جواب باصواب پاتا ہے۔

ہر کہ عالم منکر از باطن نبیؐ
آں منافق کافر است و از شقی

ترجمہ: جو عالم نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی مجلس کا منکر ہو وہ منافق اور بدبخت کافر ہوتا ہے۔

عالمان را فرض شد تلقین طلب
راہ نمایند خلق را از بہر رب

ترجمہ: علما کے لیے فرض ہے کہ مرشد کامل سے تلقین طلب کریں جو اللہ کی خاطر مخلوق کو راستہ دکھاتے ہیں۔

ہر کرا قرب است آں عالم خدا
ہر کرا قرب است حاضر مصطفیؐ

ترجمہ: جسے اللہ کا قرب حاصل ہو وہ عالمِ خدا (یعنی اللہ کے متعلق جاننے والا) ہوتا ہے اور اُسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔

بے حضوری علم حجت سر حجاب
عالمِ بی معرفت شیطان خراب

ترجمہ: حضوری کے بغیر (حاصل کردہ) علم حجاب اور محض حجت ہے کیونکہ جس عالم کو معرفت حاصل نہ ہو شیطان اُسے برباد کر دیتا ہے۔

پس شیطان کو لَا سَجْدَۃَ لِغَیْرِ اللّٰہِ (اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں) کے علم اور اس کی انانیت نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے باز رکھا۔ شیطان کے دل میں یہ خیال تھا (جسے قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے):
اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔ (سورۃ الاعراف۔12)
ترجمہ: (ابلیس نے کہا) میں اس سے بہتر ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے تخلیق کیا جبکہ اسے (آدمؑ کو) توُ نے مٹی سے تخلیق کیا ۔

لہٰذا دونوں جہانوں میں انانیت ہی انسان کو خراب کرتی ہے۔ جان لو کہ آسمان اور زمین کی مخلوقات کے لیے قیامت تک پہنچنے میں پچاس ہزار سال کا وقت ہے۔ اس پچاس ہزار سال کو دنیا کی ایک شب کہتے ہیں اور یومِ حساب گاہِ قیامت پچاس ہزار سال کا عرصہ محض ایک روز ہے۔ پس ظاہر و باطن کی یہ دنیا ایک لاکھ سال کے عرصہ کے برابر ہیں۔ اور شبِ دنیا لباس ہے جبکہ روزِ قیامت میں معیشت ہے (یعنی دنیا کے اعمال کا نتیجہ حاصل ہوگا)۔ لباس کا تعلق عبودیت سے ہے اور معیشت کسب کو کہتے ہیں اور کسب یہ ہے کہ ذکر فکر، معرفت و اشتغالِ الٰہی میں مشغول رہا جائے اور ربوبیت تک پہنچا جائے۔ علما صاحبِ عبودیت ہیں اور فقرا صاحبِ ربوبیت ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا ۔ لا وَّجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا۔  (سورۃ النبا10-11)
ترجمہ: اور ہم نے رات کو (اس کی تاریکی کے باعث) لباس بنایا اور دن کو (کسب) معاش (کا وقت) بنایا۔

پس اہلِ شب کی نظر دنیا پر ہوتی ہے کیونکہ اعمالِ ظاہری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اہلِ روز کی نظر قیامت کے دن پر ہوتی ہے جو حق کے سوا کوئی بھی دوسری شے نہ لیتے ہیں نہ دیتے ہیں۔ پس علما اور فقرا کے درمیان کیا فرق ہے؟ علما علم پر تکبر کے باعث غصہ کے وقت انانیت میں آ جاتے ہیں جبکہ فقرا معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ  کی جمالیت کی بدولت انانیت سے باز رہتے ہیں۔ جو ابتدا میں باعمل عالم ہو وہ انتہا میں درویش اور فقیر کامل بن جاتا ہے۔

مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی عبادت، معرفت اور پہچان کی خاطر تخلیق فرمایا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ  (سورۃ الذاریات56)  اِیْ لِیَعْرِفُوْنِ 
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ یعنی اپنی معرفت کے لیے۔

قیامت کے روز جب تمام مخلوقات حساب گاہ میں جمع ہوں گی تو دنیا میں جس جگہ پر علما نے عبادت کی ہوگی یا رضائے الٰہی کی خاطر علم سیکھا ہو گا اور وہ جگہ جہاں فقرا اللہ کی ذات میں مشغول بیٹھے ہوں گے تو زمین کی اس جگہ کو باب المساکین کا شرف حاصل ہوگا اور وہ آفتاب کی مثل روشن ہوگی۔ وہ جگہ کامل انسان، علما اور فقرا کو بجلی کی طرح پل صراط سے گزار کر جنت میں لے جائے گی۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ یَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا۔  (سورۃ النبا۔40)
ترجمہ: اور (ہر) کافر کہے گا کہ اے کاش! میں خاک ہوتا۔

یعنی کافر کہیں گے کاش ہم علما اور فقرا کے قدموں کی خاک ہوتے اور ان کے قدموں کی خاک ہونے کے سبب جنت میں داخل ہو جاتے اور دوزخ کے عذاب سے خلاصی پاتے۔ علما عامل اور فقرا کامل کی قدر تجھے اس روز معلوم ہوگی۔ علما عامل اور فقرا کامل یہ دونوں بزرگ ہستیاں ہیں جو کوئی ان کا دامن تھام لیتا ہے وہ دنیا و آخرت میں کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ طالب کو اللہ کی خاطر علم سیکھنا چاہیے کیونکہ طلبِ مولیٰ اس اعلیٰ و اولیٰ ذات کے قرب کے لیے بنیاد ہے۔ نیز یہ مرشد کامل کی عطا ہے۔ بیت:

جائی کہ برقِ عصیان بر آدم صفی زد
مارا کجا این زیبد دعوائی بی گناہی

ترجمہ: جب حضرت آدمؑ صفی اللہ پر گناہوں کی بجلی گر سکتی ہے تو ہمیں یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ گناہوں سے پاک ہونے کا دعویٰ کریں۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا (سورۃ الاعراف۔23)
ترجمہ: دونوں نے کہا اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔

نفس کے تین حروف ہیں ن، ف، س۔ حرف ’ن‘ سے نیتِ بد، نالائق، نان طلب (رزق کی طلب کرنے والا)، ایمان کش، ناقص اور ناپسند۔ حرف ’ف‘ سے فریب دینے والا، فتنہ پرور، فضیحت پسند، فساد برپا کرنے والا اور فاجر۔ حرف ’س‘ سے لوہے اور پتھر سے بھی زیادہ سخت، جو شیطان کے موافق اور رحمن کے مخالف ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نفسِ امارہ کی ہے جو کافروں، منافقوں، ظالموں، دنیاداروں اور کاذبوں کا ہوتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کے بھی تین حروف ہیں ن، ف، س۔ حرف ’ن‘ سے نالد یعنی رات دن خوفِ خدا کے سبب رونے والا، نہی (ممنوعات) کو ترک کرنے والا اور امر معروف کو اختیار کرنے والا، نان یعنی حلال رزق کھانے والا اور بے ریا طاعت کرنے والا، جس کی بدولت ایمان کی سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ ناصر التوفیق یعنی جسے توفیقِ الٰہی سے مدد حاصل ہوئی ہو اور اللہ کی ذات میں مشغول ذکر و فکر کرنے والا اور اس کی معرفت، مراقبہ اور مشاہدہ میں غرق رہنے والا۔ جیسے ہی نفس نورِ الٰہی تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو وہ اہلِ نفسِ مطمئنہ ہو کر مغفور ہو جاتا ہے۔
وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ الممتحنہ۔7)
ترجمہ: اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
حرف ’ف‘ سے نفسِ مطمئنہ کفر و اسلام کے درمیان فرق کرنے والا اور فخرِ دین ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ۔ (سورۃ محمد۔11)
ترجمہ: یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ مومنین کا مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں۔

اہلِ نفسِ مطمئنہ حق الیقین کے مراتب کے حامل ہوتے ہیں اور صاحبِ حق الیقین اسے کہتے ہیں جو حق کے تصرف و اختیار میں ہو اور باطل کی طرف نظر نہ کرے۔
اَلْاِسْلَامُ حَقٌ وَ الْکُفْرُ بَاطِلٌ 
ترجمہ: اسلام حق ہے اور کفر باطل ہے۔

فقر اور معرفتِ الٰہی اسلام کی بنیاد ہیں جب کہ دولتِ دنیا کفر کی بنیاد ہے۔ بدعت کی جڑ حبِ دنیا ہے اور ہدایت کی جڑ حبِ مولیٰ ہے۔ حرف ’س‘ سے نفسِ مطمئنہ راہِ راستی پر اللہ کے ساتھ مستغرق ہوتا ہے۔ ظاہری طور پر وہ سجدہ میں مشغول ہوتا ہے جبکہ باطن میں فنا فی اللہ اور معبود کی ذات میں غرق ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کا حامل نفسِ مطمئنہ صرف انبیا اور فقرا کا ہوتا ہے اور بہت کم صاحبِ ولایت اولیا کا۔ 

ابیات:

نفس را بہ شناس از خصلت ہوا
خاصہ را خاصیت است حق راہنما

ترجمہ: (عام لوگوں کے) نفس کو اس کی فطرت یعنی خواہشات سے پہچانا جا سکتا ہے جبکہ خواص کے نفس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ حق کی جانب راہنما ہوتے ہیں۔

نفس را بہ شناس لذت ذائقہ
نفسِ خاصان میکشد بس فائقہ

ترجمہ: (عوام کے) نفس کو ایسے پہچانا جا سکتا ہے کہ وہ کھانے کے ذائقہ کی لذت چاہتا ہے جبکہ خواص نفس کو مار کر بزرگی حاصل کرتے ہیں۔

گر نہ بودی نفس کے بودی ہوا
گر نہ بودی نفس کے برسد خدا

ترجمہ: اگر نفس نہ ہوتا تو خواہشات کس طرح ہوتیں۔ اگر نفس نہ ہوتا تو خدا تک کیسے پہنچا جاتا؟

نفس مرکب مطمئنہ راز بر
می رساند حق بہ توحیدش نگر

ترجمہ: نفسِ مطمئنہ سواری ہے جو اسرار تک لے جاتا ہے اور حق تک پہنچا کر توحید کا دیدار عطا کرتا ہے۔

ہر کرا قرب است از نفس و ہوا
باز دارد ہر دو آن را از خدا

ترجمہ: جو طالب نفس اور خواہشات کا اسیر ہو جائے تو یہ دونوں اسے اللہ کے قرب سے دور رکھتی ہیں۔

درمیانش از دوئی دو راہ شد
ہر کہ گذرد از دوئی آن شاہ شد

ترجمہ: دوئی میں دو راہیں ہیں (جو متزلزل کرتی ہیں) اور جو دوئی سے نکل جاتا ہے وہ بادشاہ ہے۔

شرک و کفر و بد بلا دیگر ہوا
نفس را سر راس کن ای باھوؒا

ترجمہ: خواہشاتِ نفس شرک اور کفر سے بھی بڑھ کر برُی بلا ہیں۔ اے باھوؒ نفس کی اصلاح کر۔

جان لو کہ مرشد کامل سب سے پہلے طالب کے وجود پر نظر کرتا ہے کہ طالب کا وجود پختہ و درست ہے یا خام و شکستہ۔ اللہ کی وحدت و معرفت کی نعمت کے لائق ہے یا نہیں۔ نورِ ذات کی تجلیات اور مشاہداتِ حضوری کو برداشت کرتا ہے یا نہیں۔ حق کو اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ نفس و باطل کو ترک کرتا ہے یا نہیں۔ کم حوصلہ ہے یا وسیع حوصلہ۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی حضوری سے وہ طالبِ مولیٰ کا امتحان لیتا ہے اور تحقیق کرتا ہے کہ آیا یہ طالب دریا نوش ہے یا معرفت کا ایک قطرہ پینے سے ہی مست ہو جاتا ہے اور خود کو بھلا بیٹھتا ہے۔   ابیات:

طالبِ دنیا بود از سرَ ہوا
طالب عقبیٰ طلب عیش و جاہ

ترجمہ: طالبِ دنیا خواہشاتِ نفس کا طالب ہوتا ہے اور طالبِ عقبیٰ (آخرت کے) عیش و عشرت کا۔

طالبِ مولیٰ بود در غرق نور
بگذرد از خود و دنیا و حور و قصور

ترجمہ: طالبِ مولیٰ نور میں غرق ہوتا ہے اور وہ نہ صرف خود سے بلکہ دنیا اور حور و قصور (کی خواہش) سے بھی نجات حاصل کر لیتا ہے۔

ایں چنین طالب خدا باطن صفا
در طلب دائم مقامِ کبریا

ترجمہ: ایسا طالبِ مولیٰ ہی باطن صفا ہوتا ہے اور ہمیشہ مقامِ کبریا تک رسائی کا طلبگار ہوتا ہے۔

ہر کہ طالبِ خود مطالب لاف زن
طالبِ جاسوس باشد راہزن

ترجمہ: اور جو اپنی خواہشات کا طالب ہو وہ جھوٹا ہے اور ایسا جاسوس طالب راہزن ہوتا ہے۔

ہر کہ دعویٰ کرد طالب حق طلب
بگذرد از ہر مطالب بد کلب

ترجمہ: جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ طالبِ مولیٰ ہے اور حق کی طلب رکھتا ہے وہ ہر مطلب اور برائی کو ترک کر دے۔

طالبی ازلش بیاید جان فدا
ایں چنین طالب بود بہر از خدا

ترجمہ: طالبِ مولیٰ ازل سے ہی جان فدا کرنے والا ہوتا ہے اور ایسا طالب صرف خدا کے لیے ہی وقف ہوتا ہے۔

گر بیاید طالب حق راز راہ
مرشدی کامل رساند یک نگاہ

ترجمہ: اگر کوئی طالبِ حق بن کر اسرار کی اس راہ پر آ جائے تو مرشد کامل اسے ایک نگاہ سے ہی مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔

مرشدی حاضر ولے طالب کجا
در میدان استادہ اند راہبر خدا

ترجمہ: مرشد کامل تو حاضر ہے لیکن طالب کدھر ہے؟ مرشد تو خدا تک راہنمائی کے لیے میدان میں کھڑا ہے۔

سگ خصالت نیست طالب سگ طریق
طالبے انسان بہ باید حق رفیق

ترجمہ: کتوں کی خصوصیت رکھنے والا طالب نہیں ہوتا بلکہ وہ تو کتوں کے طریقے پر ہوتا ہے۔ اصل طالب اور انسان کو تو حق کا رفیق ہونا چاہیے۔ 

دُرّ بدہن سگ مینداز ای حکیم
لائق انسان درّش یافتیم

ترجمہ: اے صاحبِ حکمت! کتوں کے منہ میں موتی نہ ڈال۔ ان موتیوں کے لائق ہم نے صرف انسان کو ہی پایا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتْرُکِ الدُّرَّ فِیْ اَفْوَاہِ الْکِلَابِ
ترجمہ: کتوں کے منہ میں موتی نہ ڈالو۔ 

بیت:

طبل زد  ہفت کشور جذب زد بر  ہفت شاہ
اولیا والی ولایت فقر وحدت از الٰہ

ترجمہ: اولیا کو اللہ کی جانب سے ایسی ولایتِ فقر اور وحدت حاصل ہوتی ہے کہ سات ملکوں میں ان کا ڈنکا بجتا ہے اور ان سات ملکوں کے بادشاہوں پر انہیں تصرف حاصل ہوتا ہے۔

مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو روزِ اوّل اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے دونوں جہان طالبِ مولیٰ کے قبضہ و تصرف میں دے دے جس سے طالب صاحبِ جمعیت ہو کر اپنے حال پر مطمئن رہے۔ جان لو کہ سروری قادری مرشد جامع ہوتا ہے اور اس جامع مرشد کے طالب چار طرح کے ہوتے ہیں بعض طالب کامل، بعض مکمل، بعض اکمل اور بعض طالب واصل و موصل ہوتے ہیں۔ جامع مرشد اسے کہتے ہیں جو اپنی نگاہ سے جاہلوں کو مکمل علم عطا کر دے اور علما کو اپنی نگاہ سے مکمل معرفتِ الٰہی بخش دے اور عارفین کو اپنی نگاہ سے فقر کی انتہا بخش دے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ
ترجمہ: جب فقر مکمل ہوتا ہے تو وہ اللہ ہوتا ہے۔
جامع مرشد کی چار نظروں سے طالب ان چار مراتب تک پہنچتے ہیں اور جامع مرشد اسے کہتے ہیں کہ اس کی نگاہ سے لوحِ ضمیر (طالب پر) کھل جائے اور جو علوم لوحِ ضمیر پر تحریر ہیں وہ لوحِ محفوظ کے مطالعہ سے ظاہر ہو جائیں۔ جامع مرشد کلُ ہوتا ہے اور اس کی نظر میں دونوں جہان جز کی مانند ہوتے ہیں۔ جز کی کیا مجال کہ کلُ کے سامنے سر اٹھائے۔ 

(جاری ہے)

 
 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں