دعوت و تبلیغ کی عالمگیریت و آفاقیت Dawat-o-Tabligh ki Alamgiriat-o-Afaqiat


4.5/5 - (82 votes)

دعوت و تبلیغ کی عالمگیریت و آفاقیت
 Dawat-o-Tabligh ki Alamgiriat-o-Afaqiat

تحریر:محترمہ نورین سروری قادری ۔سیالکوٹ

دعوت کے لفظی معنی ہیں ’’بلانا۔‘‘ دعوت عربی زبان کے لفظ ’’دَعَوَ‘‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی پکارنے اور بلانے کے ہیں۔
دینِ اسلام میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دینِ حق کی طرف بلانا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور تم (لوگوں کو) اپنے ربّ کی طرف بلاتے رہو۔(سورۃ القصص۔87)
تبلیغ کا لغوی معنی ’’پہنچا دینا‘‘ ہے۔شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ پیغامِ حق کو لوگوں تک پہنچانا تبلیغ کہلاتا ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
 اے (برگزیدہ) رسولؐ ! جو کچھ آپؐ کی طرف آپؐ کے ربّ کی جانب سے نازل کیا گیاہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔   (سورۃالمائدہ۔67)

تبلیغ کا مقصد محض زبانی طور پر بات پہنچا دینا ہی نہیں بلکہ اسے اپنے قول و فعل سے دوسروں کے دل میں اتارنا ہے۔ مؤثر تبلیغ قول سے پہلے فعل کی متقاضی ہے ورنہ بے اثر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دینے کے لیے نبیوں اور رسولوں کو بھیج کر خلق پر حجت تمام کر دی تاکہ روز ِمحشر لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمیں نیکی اور سچائی کا راستہ بتانے والا کوئی نہ تھا اس لیے ہم گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے رہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رسول جو خوش خبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے (اس لئے بھیجے گئے) تاکہ (ان) پیغمبروں (کے آ جانے) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی عذر باقی نہ رہے اور اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے۔ (سورۃالنسا۔165)

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے( یہ آخر الزمان) رسولؐ پیغمبروں کی آمد(کے سلسلے) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں، جو تمہارے لئے (ہمارے احکام) خوب واضح کرتے ہیں، (اس لئے) کہ تم (عذر کرتے ہوئے یہ) کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ (تو) کوئی خوشخبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ڈر سنانے والا۔ (اب تمہارا یہ عذر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ) بلاشبہ تمہارے پاس (آخری) خوشخبری سنانے اور ڈر سنانے والا (بھی) آ گیا ہے، اور اللہ ہر چیز پربڑا قادر ہے۔ (سورۃ المائدہ۔19)

دعوت و تبلیغ کا عظیم عمل شیوۂ پیغمبری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا کرام اس عظیم ترین مشن کی تکمیل کے لیے ہی دنیا میں تشریف لائے اور تمام عمر اس پر گامزن رہے۔

دعوت ایک نظام ہے جس کے سہارے خیر اور بھلائی کی عمارت کھڑی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام مبعوث کیے گئے ان سب کے ذمے معاشرے میں خیر کے فروغ کے ساتھ دعوت اِلی اللہ بھی تھی، جس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔

دعوت و تبلیغ سنتِ انبیا:

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کے بعدآدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوتی اور تبلیغی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:
اے میرے ربّ! بیشک میں اپنی قوم کو دن رات بلاتا رہا۔ (سورۃنوح۔5)
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سخت ترین تنفر، بیزاری ، سنگدلی اور طعنہ زنی کے باوجود دعوتِ حق دینے کی ذمہ داری نبھانے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

حضرت ہود علیہ السلام کی تبلیغی اور دعوتی ذمہ داری کے حوالے سے قرآن میں ارشاد ہے:
میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانت دار اور خیر خواہ ہوں۔‘‘ (الاعراف۔68)

حضرت صالح علیہ السلام نے منصبی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے فرمایا:
 اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے ربّ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ (سورۃالاعراف۔ 79)
پھر حضرت شعیب علیہ السلام نے عوت و تبلیغ کے نظام کو آگے پہنچایا اور فرمایا:
اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کر دی تھی۔(سورۃ الاعراف۔93)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ظلم و ستم کے سامنے کلمۂ حق بلند فرمایا اور دعوت و تبلیغ کا ایمان افروز مظاہرہ کیاجسے قرآنِ مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ تم مجھے یہ دعوت دیتے ہوکہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کچھ علم بھی نہیں اور میں تمہیں خدائے غالب کی طرف بلاتا ہوں جو بڑا بخشنے والا ہے۔(سورۃمومن۔ 42-41)

مندرجہ ذیل آیاتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منصبِ دعوت پر فائز کیے جانے کا ذکر ہے۔
( اے رسول معظم!) آپؐ اپنے ربّ کی راہ کی طرف بلائیے۔ (سورۃالنحل۔125)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا۔ بشارت دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔ اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منور کرنے والا آفتاب۔ (سورۃ الاحزاب۔ 45,46)
پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نصیحت فرماتے رہیے۔ آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں۔ (سورۃ الغاشیہ۔21)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسلام کی نشر و اشاعت اور فروغ کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسلام کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے پرامن انداز میں مختلف حکمرانوں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی۔خاتم النبیین ،آقائے دو جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی بساط کی حد تک اسلام کے فروغ اور نشر و اشاعت کے لیے کوشش کریں۔ 

احادیث مبارکہ میں دعوت و تبلیغ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:ّ
جس نے ہدایت کی طرف بلایا،اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کے برابر ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس بدعملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہو گی۔(الرقم، ترمذی)

حضرت ابو سعید خدریؓ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
کسی شخص کو لوگوں کا ڈر حق بات کہنے سے نہ روکے جبکہ اسے اس شے کا حق ہونا معلوم ہو۔(ترمذی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو قبل اس کے کہ (وہ دور آ جائے جب) تم اللہ تعالیٰ سے مانگو اور تمہاری دعا مقبول نہ ہو۔(ابنِ ماجہ)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے برُے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے (مدد کی)دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہو گی۔(طبرانی)

عصرِ حاضر میں دعوت و تبلیغ کی ضرورت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ اسلام کے خلاف منکرینِ رسالت و آخرت اور دیگر منحرف افکار و عقائدکے حامل افراد اپنی اپنی دعوت پھیلانے میں سرگرم ہیں۔ دعوت انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی، قومی بھی اور بین الاقوامی بھی۔ اصلاحِ معاشرہ اور ریاست کا آغاز فرد سے ہوتا ہے اس لیے دعوتِ دین کا پہلا ہدف بھی فرد ہے۔

دعوت کی اقسام

انفرادی دعوت:

امتِ مسلمہ کا ہر فرد انفرادی طور پر دین کا داعی ہے اور اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط، استعداد اور صلاحیت کے مطابق کام کرے اور اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا حق خاندان والوں اور عزیز و اقارب کا ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی دینِ حق کی دعوت سب سے پہلے اپنے خاندان والوں کو دی۔ البتہ یہاں بات دینِ اسلام کی طرف دعوت دینے کی نہیں ہو رہی کیونکہ ایک مسلمان کا خاندان پہلے ہی مسلمان ہوگا،بلکہ راہِ حق یعنی راہِ معرفت اور راہِ فقر کی طرف دعوت دینے کی ہو رہی ہے جو اللہ کے قرب و وصال کی راہ ہے۔ ایک مسلمان جب فقر کی اس راہ کو پا لے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کو بھی اس کی ترغیب دے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (سورۃتحریم۔6)
 اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔(سورۃ توبہ۔71)

ان آیاتِ کریمہ میں ہر مسلمان کو انفرادی طور پر دعوتِ حق آگے پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

اجتماعی دعوت:

دعوت کی دوسری صورت اجتماعی دعوتِ حق ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک تحریک، تنظیم یاجماعت وجود میں لائی جائے جو اس فریضہ کو بہ حسن و خوبی انجام دینے کی ذمہ دار ہو تاکہ دعوت کو ایک بھرپور نظام کے طور پر معاشرے میں متعارف کرایا جائے اور اس کام کے لیے مخصوص افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ یہ افراد قرآن و سنت کے علوم اور فقر کی تعلیمات سے بہرہ ور ہو کر کامیاب داعی کی ذمہ داری نبھائیں اور لوگوں کو اسلام کی اصل روح سے آشنا کریں۔ ارشاد ربانی ہے:
 اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو(اللہ تعالیٰ کی) معرفت کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ (سورۃآل عمران۔104)

ایمان کی سلامتی کے حصول کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعوتِ حق دینے والی جماعت میں شمولیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں انفرادی طور پر ایمان کو بچانا ممکن نہیں۔ جس طرح شر کی طاقتیں متحد ہو کر اسلام کے خلاف حملہ آور ہوتی ہیں اسی طرح حق کی جماعت کو بھی اجتماعی طور پر جدوجہد کرنا ہو گی۔

چونکہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا اور قیامت تک کوئی نبی یا رسول امتِ مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نہیں آئے گا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد دعوت کا کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے بہترین لوگوں کو منتقل کر دیا گیا جو کہ اولیا و فقرا کاملین ہیں۔ اولیا و فقرا کاملین دعوت و تبلیغ سے معاشرے کو منور فرما رہے ہیں۔ 

موجودہ دور کے مجددِ دین اور فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے’’تحریک دعوتِ فقر ‘‘ کے نام سے دینِ حق کی دعوت دینے والی ایک جماعت قائم فرمائی ہے۔ اس جماعت کا مقصد دنیا کو دینِ اسلام کی حقیقی روح یعنی ’’فقرِ محمدیؐ‘‘سے آشنا کروانا ہے۔ مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ سے مضبوط روحانی تعلق کو پھر سے استوار کرنا اس جماعت کا بنیادی مقصدہے۔ اس روحانی تعلق کی کمزوری کی بنا پر ہی آج مسلمان خیر الامم ہونے کے باوجود انتہائی پست ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ تحریک دعوتِ فقر کا مقصد مسلمانوں کی توجہ روح سے خالی محض ظاہری بدنی اور دکھاوے کی عبادات سے ہٹا کر ان کی روحانی پاکیزگی کی طرف مبذول کرانا ہے جس کے بعد ہی ظاہری عبادات قبولیت کے لائق بنتی ہیں۔جب تک معاشرے کے ہر فرد کی روحانی و باطنی اصلاح نہیں ہوتی تب تک معاشرے کی فلاح ممکن نہیں۔ صرف روحانی طور پر پاکیزہ مسلمان ہی مومن کہلانے کے لائق ہیں اور اللہ پاک نے قرآن پاک میں صرف مومنین کی مدد اور ان پر مہربانی کا وعدہ فرمایا ہے نہ کہ نام نہاد ظاہری مسلمانوں کا۔ دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی روحانی طور پر پاکیزہ مومنوں کا مقدر ہے اسی لیے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روحانی پاکیزگی کی طرف بلانا تحریک دعوتِ فقر کا مقصدہے تاکہ دنیا و آخرت کی ظاہری و باطنی فلاح حاصل ہو سکے۔

آئیں! آپ بھی تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بن کر دین کی حقیقت سے روشناس ہوں اور مقصدِ حیات حاصل کریں۔

استفادہ کتب:
سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
دعوت و تبلیغ میں خواتین کاکردار:  ڈاکٹرطاہر القادری
حسنِ اعمال:  ایضاً

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Dawat o Tableegh ki Alamgiriat o Aafaqiat | Topic in Urdu/Hindi دعوت و تبلیغ کی عالمگیریت و آفاقیت

 

36 تبصرے “دعوت و تبلیغ کی عالمگیریت و آفاقیت Dawat-o-Tabligh ki Alamgiriat-o-Afaqiat

  1. دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی روحانی طور پر پاکیزہ مومنوں کا مقدر ہے اسی لیے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روحانی پاکیزگی کی طرف بلانا تحریک دعوتِ فقر کا مقصدہے تاکہ دنیا و آخرت کی ظاہری و باطنی فلاح حاصل ہو سکے۔

  2. امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روحانی پاکیزگی کی طرف بلانا تحریک دعوتِ فقر کا مقصدہے تاکہ دنیا و آخرت کی ظاہری و باطنی فلاح حاصل ہو سکے۔

  3. دعوت و تبلیغ کا عظیم عمل شیوۂ پیغمبری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا کرام اس عظیم ترین مشن کی تکمیل کے لیے ہی دنیا میں تشریف لائے اور تمام عمر اس پر گامزن رہے۔

  4. آئیں! آپ بھی تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بن کر دین کی حقیقت سے روشناس ہوں اور مقصدِ حیات حاصل کریں۔

  5. موجودہ دور کے مجددِ دین اور فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے’’تحریک دعوتِ فقر ‘‘ کے نام سے دینِ حق کی دعوت دینے والی ایک جماعت قائم فرمائی ہے۔

  6. دینِ اسلام میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دینِ حق کی طرف بلانا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا ہے۔

  7. ارشاد ربانی ہے:
    اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو(اللہ تعالیٰ کی) معرفت کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ (سورۃآل عمران۔104)

  8. دینِ اسلام میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دینِ حق کی طرف بلانا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لوگوں کو دینِ حق کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ آپ دورِ حاضر کے مرشدِ کامل ہیں ۔

  9. دینِ اسلام میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دینِ حق کی طرف بلانا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا ہے۔

  10. تبلیغ کا مقصد محض زبانی طور پر بات پہنچا دینا ہی نہیں بلکہ اسے اپنے قول و فعل سے دوسروں کے دل میں اتارنا ہے۔ مؤثر تبلیغ قول سے پہلے فعل کی متقاضی ہے ورنہ بے اثر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دینے کے لیے نبیوں اور رسولوں کو بھیج کر خلق پر حجت تمام کر دی تاکہ روز ِمحشر لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمیں نیکی اور سچائی کا راستہ بتانے والا کوئی نہ تھا اس لیے ہم گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے رہے

  11. دعوت کے لفظی معنی ہیں ’’بلانا۔‘‘ دعوت عربی زبان کے لفظ ’’دَعَوَ‘‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی پکارنے اور بلانے کے ہیں۔
    دینِ اسلام میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دینِ حق کی طرف بلانا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا ہے۔

    ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اور تم (لوگوں کو) اپنے ربّ کی طرف بلاتے رہو۔(سورۃ القصص۔87).

  12. دعوت و تبلیغ کا عظیم عمل شیوۂ پیغمبری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا کرام اس عظیم ترین مشن کی تکمیل کے لیے ہی دنیا میں تشریف لائے اور تمام عمر اس پر گامزن رہے۔

  13. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں

  14. تحریک دعوتِ فقر ہی وہ واحد جماعت ہے جو فقر کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلا رہی ہے۔

  15. جب تک معاشرے کے ہر فرد کی روحانی و باطنی اصلاح نہیں ہوتی تب تک معاشرے کی فلاح ممکن نہیں۔

  16. دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی روحانی طور پر پاکیزہ مومنوں کا مقدر ہے اسی لیے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روحانی پاکیزگی کی طرف بلانا تحریک دعوتِ فقر کا مقصدہے تاکہ دنیا و آخرت کی ظاہری و باطنی فلاح حاصل ہو سکے۔

  17. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اور تم (لوگوں کو) اپنے ربّ کی طرف بلاتے رہو۔(سورۃ القصص۔87)

  18. حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے برُے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے (مدد کی)دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہو گی۔(طبرانی)

  19. دعوت ایک نظام ہے جس کے سہارے خیر اور بھلائی کی عمارت کھڑی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام مبعوث کیے گئے ان سب کے ذمے معاشرے میں خیر کے فروغ کے ساتھ دعوت اِلی اللہ بھی تھی، جس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔

  20. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:ّ
    جس نے ہدایت کی طرف بلایا،اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کے برابر ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس بدعملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہو گی۔(الرقم، ترمذی)

  21. تحریک دعوت فقر بہترین طریقے سے اللہ کا پیغام پہنچا رہی ہے۔

  22. دعوت و تبلیغ کا عظیم عمل شیوۂ پیغمبری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا کرام اس عظیم ترین مشن کی تکمیل کے لیے ہی دنیا میں تشریف لائے اور تمام عمر اس پر گامزن رہے۔

  23. 🌹 موجودہ دور کے انسانِ کامل، فقیر مالک الملکی، مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ، سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس 🌹

  24. ارشاد ربانی ہے:
    اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو(اللہ تعالیٰ کی) معرفت کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ (سورۃآل عمران۔104)

  25. بہترین انداز میں دعوت و تبلیغ کی وضاحت کی ہے۔

  26. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد دعوت کا کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے بہترین لوگوں کو منتقل کر دیا گیا جو کہ اولیا و فقرا کاملین ہیں۔ اولیا و فقرا کاملین دعوت و تبلیغ سے معاشرے کو منور فرما رہے ہیں۔

    موجودہ دور کے مجددِ دین اور فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے’’تحریک دعوتِ فقر ‘‘ کے نام سے دینِ حق کی دعوت دینے والی ایک جماعت قائم فرمائی ہے۔

  27. حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے برُے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے (مدد کی)دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہو گی۔(طبرانی)۔

  28. آئیں! آپ بھی تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بن کر دین کی حقیقت سے روشناس ہوں اور مقصدِ حیات حاصل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں