عقیدہ ختم ِنبوت اور فتنہ ٔ قادیانیت aqeeda-khatm-e-nabuwat-aur-fitna-e-qadianiat


4.7/5 - (70 votes)

عقیدہ ختمِ نبوت اور  فتنۂ  قادیانیت (Aqeeda Khatm-e-Nabuwat aur Fitna e Qadianiat)

تحریر:  مسزعظمٰی شکیل سروری قادری ۔اوکاڑہ

عقیدہ ختمِ نبوت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے )ہیں ۔(سورۃ الاحزاب۔ 40)

اللہ ربّ العزت نے جب اپنے اظہار کی خاطر کائنات کو تخلیق کیا تو انسان کو اپنا نائب بنا کر کرۂ ارض پر بھیجا۔ انسان کو اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرنے کی غرض سے تعلیم و تربیت کے لیے انبیا و رسل کا طویل سلسلہ جاری کیاتاکہ انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزار سکے۔ اس ضمن میں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں۔ خاتم النبیٖین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول۔ حضرت محمدؐ کی شریعت اور کتاب (قرآنِ مجید) قیامت تک کے لیے ہدایت کا منبع ہے۔ نبی اکرمؐ اپنے ظاہری وصال کے بعد ہر زمانہ میں کسی نہ کسی صورت میں موجو دہیں ۔ باطن میں آج بھی مجلسِ محمدیؐ اُسی طرح قائم ہوتی ہے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیات میں سجا کرتی تھی۔ اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے مطابق نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آج بھی زندہ و جاوید ہیں ۔ یہی عقیدہ ختمِ نبوت کی اصل ہے۔ 

عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بیشک میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا اور اسے بہت خوبصورت اور عمدہ بنایا لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ رہنے دی۔ سب لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے رہے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی۔ پس میں ہی مہرِ نبوت کی وہ آخری خشت ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاـ’’ مجھے چھ چیزوں کے لحاظ سے دیگر انبیاکرامؑ پر فضیلت حاصل ہے:
۱۔مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔
۲۔رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔
۳۔مالِ غنیمت میرے لیے حلال قرار دیا گیا۔
۴۔روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنا دیا گیا۔
۵۔مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا۔
۶۔مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔‘‘(صحیح مسلم، مشکوٰۃ شریف)

مسلمانوں کا یقین ہے کہ انہیں قرآن وحدیث کی رہنمائی میں گزاری ہوئی زندگی پر کامیابی اور کامرانی حاصل ہوگی اور قرآن و حدیث اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ایک سچے مسلمان کا عقیدہ بھی یہی ہوناچاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روئے زمین پرموجودہر قوم اور ہر انسان کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید گزشتہ آسمانی کتب کے تمام احکامات منسوخ کرنے والی ہے اور آئندہ کے تمام معاملات کے احکامات و قوانین میں جامع و کامل ہے۔ یعنی اللہ کے قطعی احکامات وارد ہو چکے اور سلسلۂ نبوت منقطع ہو چکا ہے جس کے بعد کسی پر بھی نہ تو اللہ کا یہ کرم اور وحی کا نزول ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی پر ہوگا۔

الغرض قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم ِنبوت کا انکار یا اس پر سوال محال ہے۔ یہ ایسا متفقہ علیہ عقیدہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا فتویٰ ہے کہ خاتم الانبیا کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے سے کوئی دلیل یا معجزہ طلب کرنا بھی کفر ہے۔ عہد ِرسالت میں مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا جھوٹادعویٰ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی سرکوبی میں ذرا تامل نہ کیا اور صدیقِ اکبررضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں صحابہ کرامؓ نے جنگ کرکے اسے کیفرِکردار تک پہنچایا۔ مسلمان اپنے عقیدۂ ختمِ نبوت میں اس قدر پختہ ہیں کہ وہ اس عقیدہ کے متعلق ذرا چھیڑ چھاڑبرداشت نہیں کرتے۔ اگر کوئی ایسا کرتاہے تو سچے مسلمان فوراً اللہ کے حکم کے عین مطابق اپنی جان کی قربانی دے کر بھی اس قسم کے فتنے کے خلاف لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ 

 مشرکین اور کفارنے سرتوڑ کوششیں کیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں سے عقیدۂ ختمِ نبوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس عقیدے کے خلاف اُبھرنے والے جذبۂ جہاد کو ختم کر سکیں۔تاہم ہر طرح کی کوششوں کے باوجودجب ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا توعالمِ کفر نے بڑی مکاری اور سوچی سمجھی ترکیب کے تحت اپنا خفیہ ایجنٹ مقرر کیا جس کو ظاہری شکل و صورت میں مسلمانوں کی طرح اور باطن میں اپنی طرح کافر تیار کیا۔ اس ایجنٹ نے مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت کو مسخ کرنے کی خاطر ان کے جذبات کا رُخ اور نظریہ بدلنے کی منافقانہ کوشش کی مگر مسلمانوں کے ساتھ اللہ ربّ العزت کی بے حد مدد ہمیشہ سے شاملِ حال رہی ہے۔ پس وہ اس مکاری اور فریب کو سمجھنے میں کامیاب رہے اور سمجھ گئے کہ یہ ایک فتنہ ہے جو انگریزوں کا بویاہواہے۔یہ ایسا پوداہے کہ اگر اس کی جڑیں مضبوط ہوگئیں تو اسلام کو گہرا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 معزز قارئین! یہ فتنہ کوئی اور نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی صورت میں فتنۂ قادیانیت ہے ۔مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا تھا جو مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان کو زک پہنچانے کے لیے کاشت کیا گیاتھا۔

مرزا غلام احمد قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا 

1869ء میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ،برطانوی اخبارات کے ایڈمنسٹریٹر اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ یہاں کے مسلمانوں کے عقائد کو کمزور کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کر کے ان پر ہمیشہ راج کیا جا سکے۔ یہ وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں لندن میں ایک اجلاس ہوا جس میں اس وفدنے’’ ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا ورود‘‘ کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفر کے مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف صرف مسلح جنگ کو جہاد قرار دے کر جہاد کرنا اپنادینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے لیے انگریزی حکومت کافروں کی حکومت ہے لہٰذا وہ اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروفِ عمل رہتے ہیں جو کہ برطانوی حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بنتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو مسلمانوں میں مسلمانوں کی حیثیت سے رہے مگر کام انگریز حکومت کے حق میں کرتا ہو، جس کے ذریعے مسلمانوں کے عقیدہ کو نیست و نابود کیا جا سکے اور وہ شخص مسلسل ہمارے پیغام کو مسلمانوں کے دل تک لے جائے تاکہ مسلمان اس پر یقین کر لیں، ایسے میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔انگریز سامراج دعویٰ نبوت کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا:
۱۔ پہلا یہ کہ وہ شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اور خود پر نازل ہونے والی من گھڑت وحی کی عوام الناس میں تشہیر کرے گا(نعوذ باللہ)۔
۲۔مسلمانوں کی محبت و عقیدت سمیٹنے کے بعد وہ شخص یہ اعلان کرے گا کہ خدا نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ اب جہاد حرام قرار دے دیاگیا ہے۔

ان رپورٹس کو مدِنظر رکھتے ہوئے برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لیے خدمات مہیا کر سکے اور جس کے نزدیک تاج ِبرطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو ۔ایسے شخص کی تلاش سیالکوٹ کے یہودی ڈپٹی کمشنر پارکنسن کے ذمہ لگائی گئی جس نے برطانوی حکم کے مطابق سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کی اور چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کر کے انٹرویو کیے۔ بالآخر مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے حصول کے لیے نامزد کر لیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کر دی۔

سوال یہ ہے کہ آخر ان چار اشخاص میں سے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا ہی چناؤ موزوں کیوں تھا؟اس کا جواب مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنی کتابوں میں خود تحریر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، ملاحظہ ہو :
میں ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے، میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار خیرخواہ آدمی تھا جس کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی۔ اور جس کاذکر مسٹر گریفن کی ’’تاریخ رئیسانِ پنجاب‘‘ میں ہے۔1857ء میں انہوں نے ا پنی طاقت سے بڑھ کر ا نگریز سر کا ر کی مدد کی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت انگریز سرکار کی امداد میں دیے تھے۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ (کتا ب البر یہ۔  روحانی خزائن۔ جلد13)

میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے مخالفت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی ہوں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔میں نے ایسی تمام کتابوں کو عرب ممالک اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد 15)

 میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ (تبلیغِ رسالت۔ جلد ہفتم)

میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانانِ ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔ (تبلیغ رسالت۔ جلد سوم)

معزز قارئین! یہ تحاریر مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے خطوط اور اسکی کتابوں کا حصہ ہیں جو اس نے انگریز حکومت کو اپنی اطاعت کا ثبوت دینے کے لیے لکھیں۔لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون انگریز کاوفادار ایجنٹ تھا۔

مرزا غلام احمد قادیانی (ملعون) کی انگریز حکومت کی وفا میں کی جانے والی بے بنیاد حرکات و سکنات:

برطانوی حکومت کے تعاون سے مرزا غلام احمد قادیانی (ملعون) نے جماعت احمدیہ قائم کی اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی آخرزمان ہے۔ لوگوں نے جب کوئی شدید رویہ نہ اپنایااور اسے سمجھانے میں ہی کوشاں رہے تو اس ملعون نے اس امر کو مسلمانوں کی کمزوری سمجھا اور ساتھ ہی اگلا وار آخری نبی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ کیا۔ (نعوذ باللہ)

1888 ء میں یہ گھٹیا شخص دعویٰ کر تا ہے کہ اسے بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملاہے اور اس طرح 23 مارچ 1889ء میں لدھیانہ میں پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ یا مرزائیت کی کریہہ پلاننگ کو عملی جامہ پہنایا۔

چونکہ انگریزوں کو معلوم تھا کہ بغیر دلائل کے تو اس احمق کی بات کوئی مانے گا نہیں لہٰذا انہوں نے وہی طریقہ اپنانے پر زور دیا جس کا کوئی گواہ بھی موجود نہ ہو اور طریق بھی وہی ہو جو مسلمانوں کے دل تک اتر سکے۔ پس مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نے اپنے دماغی فطور کو الہام کا نام دے کر مشہور کرنا شروع کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے خود ساختہ الہامات ملاحظہ ہوں:
ایک فرشتہ کو میں نے بیس برس کے نوجوان کی صورت میں دیکھا۔ صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا تھا۔ میں نے اسے کہا آپ بہت خوبصورت ہیں اس نے کہا ہاں میں درشنی (دیکھنے کے لائق) ہوں۔ (تذکرہ مجموعہ الہامات و مکاشفات مرزا)

عزیز قارئین! شاید مرزا نے خود بھی نہ سوچا ہو گا کہ اس کی محبت انگریزوں سے اس قدر اندھا پن اختیار کر جائے گی کہ اسے فرشتے بھی انگریز لگنے لگیں گے! اصل میں مرزا غلام احمد قادیانی ملعون ان شیطانوں سے اس قدر مانوس ہونے لگا تھا کہ خوابوں میں بھی اپنے جیسے شیطانی صفت انگریز دیکھنے لگا۔

بہر حال! موصوف کے اگلے الہام کو پڑھتے ہیں:
ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں الہام ہوا۔  I Love You پھر الہام ہوا  I Shall help you پھر الہام ہوا  I am with you پھر الہام ہوا  I can what i’ll do  پھر بدن کانپنے لگا اور الہام ہوا  We can what we will do  اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا بول رہا ہے۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن)

کیا اللہ کی طرف سے ہونے والے الہام کا انداز ایسا عامیانہ ہوتا ہے؟

اللہ کے سچے نبی اور رسول کی جانب سے ادا ہونے والا تو ایک ایک حرف اتنا نفیس ہوتاہے کہ دل میں اُترجاتا ہے۔ وہ اللہ کی جانب سے کی جانے والی وحی کو فرشتوں کے ذریعے وصول ضرور کرتا ہے مگر رُتبہ رسول کا بڑا ہوتاہے فرشتوں سے اور اکثر فرشتے نبی سے علم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ حدیث ِجبرائیل میں درج ہے:
ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ سرکارِ دو عالم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روزِ قیامت پر اور اچھی تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم 99)

اس حدیثِ مبارکہ میں جبرائیل ؑ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے اور ان کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہؓ کو بتایا کہ وہ جبرائیل امین تھے۔

قرآنِ مجیدسے قبل آسمانی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے کی دلیل اور گواہیاں موجود تھیں اسی طرح قرآنِ مجید میں بھی پچھلی تمام آسمانی کتب کی تصدیق موجود ہے لیکن ہمیں کسی بھی آسمانی کتاب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی نبی کا حوالہ نہیں ملتا۔ یہی ایک دلیل مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے جھوٹا ہونے کا ثبوت ہے۔ چونکہ ایمان کی شرط ہی یہ ہے کہ اللہ کی سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون  تو اس بے بنیاد دعویٰ کرنے کی بدولت ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا یعنی کہ وہ ایمان کی شرائط ہی نہیں مان رہالہٰذا مرزا غلام احمد قادیانی ملعون تو سیدھا سیدھا کافر ہوا۔ یہ شخص جو ظاہر میں مسلمانیت کا ڈھول پیٹ رہا تھا اور باطن سے کافروں کے ساتھ تھا یہ تو کافروں سے بھی بدتر شکل اختیار کر گیا۔ کم از کم کافر خود کو کافر تو مانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں مگر انگریزوں کی یہ کٹھ پتلی مراد مرزا غلام احمد قادیانی ملعون تو منافق کا درجہ اختیار کر گیا جو کہ قرآن کی روشنی میں کافر ہونے سے بھی بدتر ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی )ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیاہے اور ا ن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو توکہتے ہیں :ہم ہی تواصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ!یہی لوگ(حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں۔ (سورۃ البقرہ۔12-8)

قادیانیت کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نے اپنی خدمات کے لیے مختلف غیر محرم عورتوں کو مقرر کر رکھا تھا جو کہ اسی کے مریدین کی تحریروں سے واضح ہوتاہے۔ 

 ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود (مریدین کی مراد یہاں مرزا قادیانی ہے) کی رات کی خدمت میں رسول بی بی، منشیانی اہلیہ منشی محمد دین اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں۔ (سیرت المہدی ۔جلد سوم ص 213 طبع اول)

مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا ایک اور مرید ڈاکٹر عبدالستار بیان کرتا ہے:
 میری لڑکی زینب بیگم تین ماہ کے قریب حضرت صاحب کی خدمت میں رہی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتاکہ نصف رات یا اس سے زیادہ اسے پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی۔ آپ کئی مرتبہ اپنا تبرک بھی اسے دیتے تھے۔ (سیرت المہدی ۔جلد سوم 272)

جناب ڈاکٹر نور محمد لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آکر مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی خدمت کرتی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد مرزا ملعون نے اس کا ڈوپٹہ کمرے کی کھڑکی کی سلاخ سے باندھا ہو اتھا۔ ( سیرت المہدی۔ جلد سوم ص 126)

ایسی حرکت کرنے والا شخص کسی تھیٹر کا بیہودہ کردار تو ہو سکتا ہے مگر کوئی عظیم انسان تو دور کی بات یہ تو انسان بھی نہیں لگ رہا۔ افسوس کہ مرزا غلام احمد قادیانی منکر شریعت اپنی نازیبا حرکات و سکنات کو بدفعلی سمجھنے کے بجائے نہ جانے کس انداز سے اپنے شیطانی چیلوں کے سامنے رکھتا تھا کہ وہ احمق مرزا ملعون کو ان حرکات پر جوتے مارنے کی بجائے ایسے فضول قصے قلم بند کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ 

عزیز قارئین! اس شخص کو بے نقاب کرنے کی غرض سے اس کی بیہودہ باتیں ظاہر کرنا صرف دین ِحق کے خلاف سازشیں روکنے کی کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ مسلمانوں کا اس جماعت سے یہ اختلاف ہے کہ یہ خود کو ان بیہودہ حرکات کے ساتھ مسلمان کہنا چھوڑ دیں۔ 

مرزا غلام احمد قادیانی ملعون جب علما کرام کی جانب سے دلائل کے ساتھ بے نقاب ہونے لگا تو اس نے بپھرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا:
یہ مولوی دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام ۔ص 305،مندرجہ روحانی خزائن۔ جلد11 )
اے مردار خور مولویو اور گندی روحو! تم پر افسوس اے اندھیری کے کیڑو۔(آئینہ کمالات اسلام ۔ص 305،مندرجہ روحانی خزائن۔ جلد11 )

صد افسوس کہ ایسا فاتر العقل شخص تو صحیح انسانوں کے درمیان بھی رہنے کے لائق نہ تھا تو بھلا ایسا شخص کسی انسانی طبقے کا بانی بھی کیسے ہو سکتا ہے! حیرانی ہے انگریزوں پر جنہوں نے ایک سال کا عرصہ بھی لیا اور اپنی عقلی پسماندگی کی بدولت ایسے شخص کا چناؤ مسلمانوں کے خلاف کرنے کی غلطی کی جو اپنے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کے ڈرامے کو بھی بے نقاب کر گیا۔ 

فتنہ قادیانیت کی روک تھام

اللہ ربّ العزت نے جزا اور سزا کا ایسا طریق مقرر کر رکھا ہے کہ اگر وہ کسی کی رسی کو دراز کرتا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں اس کا انجام ضرور ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح جب مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی فضول گوئی حد سے بڑھ گئی تو اللہ پاک کے کرم سے ہندوستان کے اولیا کرام اور علما کرام نے اس فتنے کی روک تھام کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔

ذکر کرتے ہیں اولیا کرام میں سے پیر مہر علی شاہؒ صاحب کا جنہوں نے خوب ڈٹ کر اس فتنہ کی روک تھام کی۔

پیر مہر علی شاہؒ صاحب حرمین کریمین حاضر ہوئے تو سرکارِ دو عالم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مہر علی تم یہاں آئے ہو اور قادیان کا دجال مرزا غلام احمد قادیانی ملعون جھوٹی تاویلات کی قینچی سے میری شریعت کاٹ رہاہے۔‘‘ پھر مہر علی شاہؒ صاحب نے وطن واپس آکر اس ملعون کے خلاف ’’شمس الہدایۃ‘‘ اور ’’سیف چشتیانی‘‘ دو کتب تحریر فرمائیں۔ مگر مرزا غلام احمد قادیانی ملعون ان کتب کا جواب نہ دے سکا تو اپنی فطری کمزوری کو ظاہر کرتے ہوئے چیلنج دینا شروع کر دیئے کہ مجھ سے مناظرہ کریں اور موصوف نے جگہ کا تعین خود ہی بادشاہی مسجد لاہور کر دیا۔ شرط بھی طے کر لی کہ دونوں کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم ہو گا اور ہم تفسیر لکھیں گے، جس کی تفسیر اچھی ہو گی وہ سچا ہو گا اور علما کرام کا گروہ اس بات کا فیصلہ کرے گا۔ پس پیر مہر علی شاہؒ صاحب اس شرط کو قبول کر کے علما کرام کے گروہ کے ساتھ گولڑہ شریف سے لاہور پہنچے۔ مرزا ملعون کہنے لگا پیر صاحب کے ساتھ سرحد کے پٹھان آئے ہیں جو مجھے مار دیں گے اور جھوٹا کذاب شخص راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے مناظرے پر نہ آیا۔ 

یہ واقعہ پیر مہر علی شاہؒ صاحب کی فتح کی واضح دلیل ہے کیونکہ راہِ حق پر تولوگ جان کی بازی لگا کر ہی دین کا بول بالا کرتے ہیں۔ یہاں مرزا قادیانی ملعون توجان جانے کے غم سے مناظرہ نہ کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہؒ صاحب کے چہرے پر جلال ظاہر ہوا اور آپؒ فرمانے لگے ’’وہ تو کہتا ہے کاغذ اور قلم لے کر تفسیر لکھیں گے اگر وہ آ جاتا تو میں کاغذ پر قلم رکھ دیتا تو قلم خود ہی لکھتا۔‘‘ سبحان اللہ

عزیزانِ قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی (ملعون) اور اس کے چیلوں سے آج تک جتنے بھی مناظرے منظر عام پر آتے رہے تاریخ گواہ ہے یا تو یہ لوگ پہنچتے ہی نہیں یا پھر الٹی سیدھی دلیلیں دیتے رہتے ہیں۔ جواباً حقیقی دلائل ملنے پر جن سے یہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں بھاگ نکلتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان کا تاریخ ساز اقدام

اولیا کرام اور علما کرام کی انتھک محنت اور کوششوں کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ کی روک تھام میں حکومتِ پاکستان نے تاریخ ساز کردار ادا کیا جو آج بھی دنیا بھر میں بطور ریفرنس استعمال کیا جاتا ہے۔

30جون 1974ء کو مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیے جانے کی قرارداد پیش کی۔ 5اگست 1974ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی کار روائی شروع ہوئی جس میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوسمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ دنیا کی تاریخ میں جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ جس میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی اور لاہوری) کے سربراہوں کوبھی اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بلایاگیا۔ قادیانی وفد کو اپنا دفاع کرنے اور موقف بیان کرنے کا پورا پورا موقع دیا گیا۔ 

 7 ستمبر 1974ء کوپاکستان کی منتخب قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے تیرہ روز کی مفصل بحث اور جرح کے بعد ممبران کو بریفنگ دی۔ان کا بیان اس قدر مدلل، جامع اور ایمان افروز تھا کہ کئی آزاد خیال اور سیکولر ممبران اسمبلی بھی قادیانیوں کے عقائد و عزائم سن کر پریشان ہو گئے۔ چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے دونوں فرقوں (ربوی اور لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئینِ پاکستان کی شق 160(2)اور 260(3)میں اس کا مستقل اندراج کر دیا کہ جب تک پاکستان قائم رہے گا اس میں قادیانی کافر رہے گا۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمانی کاروائی پر دستخط کر کے یہ مہرثبت کر دی کہ جب تک پاکستان قائم رہے گا اس میں قادیانی کافر رہے گا۔ اس عمل پر ذوالفقار علی بھٹونے تاریخی الفاظ کہے ’’میں نے شاید ہی زندگی میں کوئی اچھا کام کیا ہو لیکن اس ایک دستخط کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے گا۔‘‘

یاد رکھیں فتنہ قادیانیت برصغیر پاک و ہند میں بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ یہودی اور عیسائی اس کی پشت پرہیں۔ یہ انگریزوں کی پیداوار ہے تا کہ وہ مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ کو خراب کر کے انہیں آپس میں لڑوا سکیں۔دنیا بھر میں جہاں بھی فتنۂ قادیانیت سر اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے توپاکستان کی قومی اسمبلی کی قرارداد کا ریفرنس پیش کیا جاتا ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک نے فتنہ قادیانیت کی روک تھام کے لیے اپنے آئین میں قادیانیوں کو کافر قراردیا۔

موجودہ دور میں بھی پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے یہ ملعون نت نئے فتنے برپا کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس وقت پاکستان کے بدترین معاشی و سیاسی حالات کے پیچھے ان کی سازشوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سیاست میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے یہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہیں اور خصوصاً پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ان کی میلی نظر ہے۔ اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے تاکہ وہ پاکستان کو ان سازشوں سے بچا سکیں۔ آمین

فتنہ قادیانیت سے بچاؤ کا طریقہ

الحمدللہ پوری امتِ مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قادیانی کافر ہیں۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنا ہو گی کہ ہم خود بھی ان سے بچیں اور اپنی نسلوں کو بھی ان کے فریب سے بچا لیں۔ خیال رہے کہ یہ مکار لوگ جب ہر طرف سے مات کھانے لگے تو انہوں نے بے حد گھٹیا راستہ اپنایا۔ قادیانی اپنی نوجوان خوبصورت لڑکیوں اور لڑکوں کے ذریعے کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ فتنہ برپا کروانے کی کوشش میں لگ گئے بلکہ کالج اور یونیورسٹیاں ان کی شکارگاہیں ہیں۔ ان کا طریقۂ واردات کچھ یوں ہے کہ پہلے اپنے پرفریب اخلاق اور منافقانہ نیکیوں کی نمائش کر کے معصوم مسلمان بچے بچیوں کو پھانستے ہیں یا نوجوان غریب لڑکے اور لڑکیوں کو غیر ممالک لے جانے اور معاشی ترقی کے خواب دکھا کر ان سے اپنے بچوں کی شادی کرواتے ہیں اور نکاح نامہ کے ذریعے قادیانی ہونا شرطِ اوّل پر راضی نامہ لے لیتے ہیں۔ چونکہ مرزائیوں کوہے ہی انگریزوں کی سپورٹ اس لیے بیرون ملک بھجوانا ان کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ بہت سے نوجوانوں یا ان کے اہل خانہ کو ان کے فریب کی تب خبر ہوتی ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

قرآن کریم کے تراجم میں اپنے عقیدے کے مطابق تحریف و تبدل کر کے ایسے ہزاروں نسخے مفت تقسیم کرنا بھی ان کی فتنہ انگیزیوں کا ایک طریقہ ہے جس کے خلاف ابھی تک پاکستان کی عدالتیں کوئی مؤثر اقدام نہیں کر سکیں جس کی وجہ سے قادیانیوں کا اثر و رسوخ ہے۔

محترم قارئین! اگر کوئی مسلمان عقیدہ ختمِ نبوت کے مطابق ان سے سوال جواب کرنا شروع کر دے تو یہ فریب دینے کی غرض سے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو ولی یا بزرگ کہنا شروع کر دیتے ہیں جس کا مقصد کسی کو ایک مرتبہ اپنے جال میں پھانسنا ہوتاہے تا کہ بعد میں اس کے عقیدہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر سکیں۔ تو یاد رہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی سچے ولی یا بزرگ نے ایسا کوئی دعویٰ کبھی نہیں کیا بلکہ وہ توخود اللہ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کے فروغ کے لیے کوشاں رہے اور کسی بھی روحانی سلسلے سے منسلک مرید اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ اس سلسلے کے بانی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ عوام الناس کو شریعتِ محمدیؐ پر قائم و دائم رہنے کی تلقین و ارشاد کے ساتھ عشقِ محمدؐ کی ترغیب دی جائے۔

معزز قارئین! اس فتنے کے فریب سے بچاؤ کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر فرد خود کو کسی ایسے روحانی بزرگ یا ولی کے سپرد کر دے جو اسے دین و دنیا دونوں میں بحفاظت دینِ حقیقی پر کامیابی و کامرانی سے چلائے۔ دورِ حاضر میں سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اس کارِ خیر کا بیڑا اٹھایا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی تصانیف ، روحانی صحبت اور تربیت کی بدولت دنیا بھر کے انسانوں کو راہِ حق پر گامزن کرنے میں ہر دَم مصروفِ عمل ہیں۔

حدیث مبارکہ ہے:
جس کا کوئی مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔

الغرض! جب کوئی شخص راہِ حق کے قافلے میں شامل لوگوں کے ہمراہ نہیں چلتا تو اس کے بھٹکنے اور راہِ باطل کی جانب گامزن ہونے کے امکانات یقینی ہیں اور یہاں تو دشمن اس حد تک گھات لگائے بیٹھا ہے کہ ظاہر بھی نہیں ہونے دے گا اور ایمان کی جڑیں کاٹ کر کسی بھی انسان کے دل سے عشقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیج ہی نکال دے گا۔پس ہم سب پر لازم ہے کہ اس شیطانی فتنے سے بچاؤ کی خاطر اللہ والوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ جو شخص خلوص سے اللہ کی جماعت میں شامل ہونے کی نیت کرتاہے تواللہ ضرور اس جماعت تک اس کی راہنمائی کر دیتا ہے۔ پس ہماری نیت ہی اصل ذریعہ ہے جس کی بدولت ہم اللہ کی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ 

دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی۔ اختتام پر عاجز دعا گو ہے کہ ہر وہ مسلمان جو راہِ حق کے لیے کوشاں اور قادیانیت کے خلاف کسی بھی طرح جنگ کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو کامیابیاں عطا فرمائے اور ہر فرد کو تحریک دعوتِ فقر سے منسلک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔ آئینہ قادیانیت، مصنف اللہ وسایا
۲۔ قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرے، مصنف محمد متین خالد
۳۔ پارلیمنٹ میں قادیانی شکست، مصنف اللہ وسایا
۴۔ ردِ قادیانیت، جمع و ترتیب شاہ محمد فصیح الدین نظامی
۵۔ روحانی خزائن۔۶۷۶ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Aqeeda e Khatam e Nabwat and Fitna e Qadianiat | Urdu/Hindi عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت

 

27 تبصرے “عقیدہ ختم ِنبوت اور فتنہ ٔ قادیانیت aqeeda-khatm-e-nabuwat-aur-fitna-e-qadianiat

  1. دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی۔

  2. دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی۔عاجز دعا گو ہے کہ ہر وہ مسلمان جو راہِ حق کے لیے کوشاں اور قادیانیت کے خلاف کسی بھی طرح جنگ کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو کامیابیاں عطا فرمائے اور ہر فرد کو تحریک دعوتِ فقر سے منسلک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    1. حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

  3. اللہ پاک ہمیں تمام شیطانی فتنوں سے محفوظ رکھے اور راہِ حق پر استقامت عطا فرمائے آمین ۔

  4. فتنہ کوئی اور نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی صورت میں فتنۂ قادیانیت ہے ۔مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا تھا جو مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان کو زک پہنچانے کے لیے کاشت کیا گیاتھا۔

  5. بے شک ۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

  6. دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی۔

  7. حدیث مبارکہ ہے:
    جس کا کوئی مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔

  8. حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

  9. دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی

  10. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔

  11. حدیث مبارکہ ہے:
    جس کا کوئی مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔

  12. حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

  13. حضرت محمدؐ کی شریعت اور کتاب (قرآنِ مجید) قیامت تک کے لیے ہدایت کا منبع ہے۔

  14. پیر مہر علی شاہؒ صاحب کا جنہوں نے خوب ڈٹ کر اس فتنہ کی روک تھام کی۔

    1. حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

  15. حدیث مبارکہ ہے:
    جس کا کوئی مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔

  16. شیطانی فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے
    دورِ حاضر میں ہم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کو ایسی جماعت پایا ہے جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت حاصل کی

  17. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے )ہیں ۔(سورۃ الاحزاب۔ 40)

    اللہ ربّ العزت نے جب اپنے اظہار کی خاطر کائنات کو تخلیق کیا تو انسان کو اپنا نائب بنا کر کرۂ ارض پر بھیجا۔ انسان کو اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرنے کی غرض سے تعلیم و تربیت کے لیے انبیا و رسل کا طویل سلسلہ جاری کیاتاکہ انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزار سکے۔ اس ضمن میں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں۔

  18. جو شخص خلوص سے اللہ کی جماعت میں شامل ہونے کی نیت کرتاہے تواللہ ضرور اس جماعت تک اس کی راہنمائی کر دیتا ہے۔ پس ہماری نیت ہی اصل ذریعہ ہے جس کی بدولت ہم اللہ کی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

  19. لکھوں کروڑوں درود و سلام ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آپ کی آل مبارک پر آپ کے اصحاب پر آپ کے اصحاب پر

اپنا تبصرہ بھیجیں