قربانی | Qurbani


Rate this post

قربانی 

 تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری (اوکاڑہ)

قربانی عربی زبان قر ب سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ہیں قربت۔ اصطلاحی معنوں میں قربانی ایسے عمل کو کہا جاتاہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کاقرب پانے کے لیے اور اُس کی رضا کے حصول کے لیے اپنی تمام تر عزیز اور محبوب چیزیں اور رشتے قربان کردے اور عملی اور باطنی طور پر ظاہر کر دے کہ اُسے ربّ تعالیٰ سے عزیز اور محبوب کوئی رشتہ یا چیز نہیں۔ شرعی لحاظ سے قربانی سے مراد اللہ کی راہ میں حلال جانور کو ذبح کرنا ہے۔
قرآنِ مجید میں قربانی کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
1۔قربانی
   2۔منسک/نسک
   3۔نحر

1۔قربانی:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ  نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا  قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخِرِ ط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔ (سورۃ المائدہ 27)
ترجمہ: (اے نبی مکرم) آپ ان لوگوں کو آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی، تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا۔ اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اللہ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔

 2۔منسک/نسک:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ  جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ط فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْاط  وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۔ (سورۃ الحج۔34)
ترجمہ: اور ہم نے ہرایک امت کے لیے قربانی مقرر کردی ہے تاکہ وہ اُ ن مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے اُنہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کانام لیں۔ سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اُسی کے فرمانبردار بن جاؤ اور (اے حبیبؐ) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنادیں۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ  وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ  رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  (سورۃ الانعام۔162)
ترجمہ: فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

 3۔نحر:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (سورۃ الکوثر۔2)
ترجمہ: اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کریں اورقربانی دیا کریں۔

امام ترمذی اور ابنِ ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قربانی کے متعلق فرمایا:
ابنِ آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کام نہیں کیا اوربے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقامِ مقبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا خوشدلی سے قربانی کرو۔ (سنن ابنِ ماجہ، جلد2، باب ثواب الاضعبہ ،رقم:1045)

پس جو قربانی صدقِ دل اور خوش دلی سے کی جائے وہ نیت کرتے ہی اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔ طالبانِ مولیٰ تووہ ہیں کہ اگر اُن سے کسی بھی چیز کی قربانی طلب کی جائے تو وہ ذرا دریغ نہ کریں اور فوراً حکم کی تعمیل کریں۔ قربِ الٰہی کی تڑپ انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے باز نہیں رکھتی۔
قربانی کے پیچھے جوفلسفہ کارفرماہے وہ یہ ہے کہ اخلاص، روحانیت، تقویٰ، ایثار اورقتلِ نفس کی تیاری کو یقینی بنایا جائے۔ خدا تعالیٰ کے ہاں صرف اُس عمل کی اہمیت ہے جو خالصتاً لقائے الٰہی یارضائے الٰہی کے لیے کیا جائے جو ریا کاری سے پاک ہو۔
تاریخِ اسلام میں ایثار و قربانی کی بیشمار مثالیں موجودہیں۔ کبھی مال کی قربانی، کبھی وطن کی قربانی، کبھی انا کی قربانی، کبھی خواہشات کی قربانی، کبھی اولادکی قربانی، کبھی اہل وعیال کی قربانی، کبھی تعلقات کی قربانی، کبھی آرام وسکون کی قربانی اور کبھی جان کی قربانی۔

عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی درحقیقت اسی جذبۂ ایثار کو پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے ورنہ اللہ کو گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا ہاں مگرخلوص اور عاجزی۔
قربانی کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آرہا ہے اوریہ تمام انبیا کی سنت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے ’’ہم گروہِ انبیا اپنے اپنے مراتب کے لحاظ سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ ؑکا مقام جتنا بڑاتھاآپ کی آزمائش بھی اتنی ہی بڑی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ اللہ کے نبی اور حضرت ابراہیمؑ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ قرآن نے انہیں صادق الوعد کا لقب دیا۔ حضرت حاجرہ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ ابھی بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم ؑاُنہیں اور ان کی والدہ حضرت حاجرہؑ کو اُس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جوآج مکہ مکرمہ کے نام سے مشہور ہے اور عالمِ اسلام کا قبلہ ہے۔

ایک دن حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں آپ کو ذبح کر رہا ہوں اب آپ بتائیں کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ تو حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو منہ کے بل ذبح کرنے کے لیے لٹایا توخداکی طرف سے آوازآئی ’’اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ بیشک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ بیشک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ذبحِ عظیم کے ساتھ اس کافدیہ دیا۔‘‘ (سورۃ صافات۔ 104-107)

مفسرین کا بیان ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم ؑنے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیلؑ کی اسی قربانی کے جذبے کی یاد میں مسلمان عیدالاضحی کے موقعہ پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔

ایسی قربانی کے صدقے دوست سے نسبت ملے
ہیں ذبیح اللہ کہتے ابن ِابراہیمؑ کو

قربانی کا وقت 10 ذوالحجہ بعد نمازِ عید الاضحی شروع ہوتا ہے اور 13 ذوالحجہ غروبِ آفتاب سے پہلے تک ہے۔ نمازِ عید الاضحی سے فراغت کے بعد فوری طور پر قربانی کرنا افضل ہے اور کچھ کھائے پئے بغیر نماز کے لیے جانا اور سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا عید الاضحی کی سنتوں میں شامل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرامؓ کا بھی یہی معمول تھا۔ 

قربانی کے جانوروں میں بکرا، بھیڑ، دنبہ، مینڈھا، گائے، بھینس اور اونٹ شامل ہیں۔ بکرے اور بھیڑ کے لیے عمر کی حد کم از کم ایک سال ہے۔ گائے اور بھینس کی عمر دو سال اور اونٹ کی عمر پانچ سال ہونی چاہیے۔ قربانی کا جانور ہر طرح کے ظاہری عیوب سے پاک ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا، بھیڑ، مینڈھا ایک شخص کی جانب سے ہے۔ 

حضرت جابر ؓ نے فرمایاکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی۔ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے۔ (مسلم، باب جواز الاشتراک فی الہدیٰ)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قربانی کا جانور خود ذبح کیا کرتے تھے۔ اس لیے قربانی خود کر نایا قربانی کے دوران معاونت کرنا مستحب عمل ہے۔ 

اُم المومنین حضرت امِ سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے اورتم میں سے جو کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘

قربانی کی اصل روح تو یہ ہے کہ انسان اللہ کے قرب کو پانے کے لیے اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

 

26 تبصرے “قربانی | Qurbani

  1. قربانی کی حقیقت بہت ہی بہترین روحانی لحاظ سے بیان کیا

    1. عقل نے تو کہا ہو گا ابراہیم علیہ اسلام کو کہ بیٹے کی قربانی کوئی عقلمندی ہے کیا لیکن عشق عقل کی کبھی نہیں سنتا اور اللہ اپنے محبوب بندوں کو قریب سے قریب تر کرنے کے لیے ہر طرح کی آزمائش سے آزماتا ہے۔

      1. اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

  2. قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ
    مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (سورۃ الانعام۔162)
    ترجمہ: فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
    ===========
    فقر وفا اور قربانی کی راہ ہے

  3. اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے

  4. قربانی کی اصل روح تو یہ ہے کہ انسان اللہ کے قرب کو پانے کے لیے اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

  5. اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

  6. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (سورۃ الکوثر۔2)
    ترجمہ: اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کریں اورقربانی دیا کریں۔

  7. عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی درحقیقت اسی جذبۂ ایثار کو پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے ورنہ اللہ کو گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا ہاں مگرخلوص اور عاجزی۔

  8. تاریخِ اسلام میں ایثار و قربانی کی بیشمار مثالیں موجودہیں۔ کبھی مال کی قربانی، کبھی وطن کی قربانی، کبھی انا کی قربانی، کبھی خواہشات کی قربانی، کبھی اولادکی قربانی، کبھی اہل وعیال کی قربانی، کبھی تعلقات کی قربانی، کبھی آرام وسکون کی قربانی اور کبھی جان کی قربانی۔
    اللّٰہ پاک ہمیں قربانی کی اصل حقیت کو سمجھنے کی توفیق دے

  9. اللہ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اخلاص اور تقویٰ پہنچتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں