Insan e Kamil

انسانِ کامل اور حقیقت ِ برزخ | Insan e Kamil or Haqiqat e Barzakh


Rate this post

انسانِ کامل اور حقیقتِ برزخ

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی صرف انسانِ کامل کے فیضان سے حاصل کی جا سکتی ہے جو دل کے آئینہ کو ہر کدورت سے پاک کر کے ہدایت کا نور جسم کے لوں لوں میں سرایت کر دیتا ہے۔ ہر دور میں ایک انسانِ کامل موجودہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روحانی وارث، امانتِ فقر کا حامل اور حقیقتِ محمدیہ کا مظہر ہوتا ہے۔
حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ اپنی تصنیف ’’انسانِ کامل‘‘ میں فرماتے ہیں:
انسانِ کامل وہ قطب ہے جس پر اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور وہ جب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبارِ لباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد ہے، اس کی کنیت ابوالقاسم اور وصف عبداللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ پھر باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانے میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانے کے لباس کے لائق ہوتا ہے۔ (انسانِ کامل)

دنیا کی ہر شے ذات و صفاتِ الٰہیہ کی مظہر ہے لیکن وہ ذات جس میں تمام اسما و صفاتِ الٰہیہ کامل اور اُتمّ صورت میں موجود ہیں وہ ذات انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے۔ حق تعالیٰ کا فرمان ہے ’’میں نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔‘‘ دونوں ہاتھوں سے مراد دونوں صفاتِ جلال اور جمال کی ہیں۔
جب ہدایت کی بات کی جائے تو اس سے مراد بندے کے وجود سے تمام خصائلِ بد کا خاتمہ کر کے اس کے باطن کو اسما و صفاتِ الٰہیہ سے متجلی کر نا ہے۔ ہدایت کا علمبردار وہی مردِ کامل ہو سکتا ہے جس کا وجود خود صفاتِ الٰہیہ کا عرش ہو۔ حدیث ِنبویؐ ہے:
’’مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔‘‘
حدیثِ قدسی ہے :
’’نہ میں ز مین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔‘‘
انسانِ کامل ہی وہ کامل وسیلہ ہے جو طالب کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرسکتا ہے ۔حدیث شریف میں بیان ہوا ہے :
تخلقوا باخلاق اللّٰہ 
ترجمہ: اللہ کے اخلاق (صفات) سے متصف ہو جاؤ۔ 

 انسانِ کامل خالق و خلق کے مابین تعلق استوار کرنے کا وسیلہ ہے ۔ اسی نسبت کی بنا پر انسانِ کامل کے لیے ’’برزخ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ برزخ کے معنی رابطہ اور وسیلہ کے ہیں۔ دو حالتوں اور چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ اسی لیے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو ۔ (سورۃ المائدہ 35)
یہاں وسیلہ سے مراد انسانِ کامل ہے۔ انسانِ کامل کا وجود طلسمات کا گنج معمہّ ہے کیونکہ اسکی بشریت کی حقیقت تک عقل و فہم کی رسائی ممکن نہیں۔ صرف عشق کی صداقت ہی اس کے وجود کی حقیقت کو آشکار کر سکتی ہے۔ انسانِ کامل کی ذات کے دو رُخ ہیں ایک جہت عبودیت ہے اور دوسری ربوبیت۔ ربوبیت سے مراد ربّ کا ربّ ہونا ہے اور عبوبیت سے مراد بندے کی بندگی ہے۔ یہ دونوں مختلف جہتیں ہیں۔ ربّ ‘ربّ ہے جو صفت ِ ربوبیت رکھتا ہے اور بندہ، بندہ ہے لیکن صرف انسانِ کامل ہی وہ ذات ہے جس میں یہ دونوں   جہتیں کامل صورت میں موجود ہوتی ہیں اسی بنا پر اسے ’’عبدہٗ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ربوبیت اور عبودیت کے درمیا ن مقامِ برزخ ہے، وہ انسانِ کامل کا مرتبہ ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں فرماتے ہیں:
معر فتِ صفاتِ حق تعالیٰ کا تعلق عبودیت سے ہے اور معرفتِ ذات حق تعالیٰ کا تعلق ربوبیت سے ہے ۔ (شمس الفقرا)

 انسانِ کامل کے وجود میں یہ دونوں صفات کس طرح یکجا ہیں اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے قرآنِ کریم کی آیت کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اسی نے دو سمندر رواں کیے جو باہم مل جاتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک آڑ (برزخ) ہے، (وہ اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ (سورۃ الرحمٰن 19-20)
دو سمندورں سے مراد جہتِ ربوبیت اور جہتِ عبودیت ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ یعنی برزخ ہے جس نے ان دونوں کو آپس میں ملایا بھی ہوا ہے اور دونوں کے درمیان حدِ فاصل بھی ہے۔ اس مقام سے مراد انسانِ کامل ہے۔ انسانِ کامل کے سوا کسی اور وجود کے اندر یہ ملاپ ممکن نہیں اس لیے اس آیتِ کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ دونوں جہتیں اپنی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتیں۔ 

مرآۃ العارفین کی شرح میں بڑے خوبصورت انداز میں انسانِ کامل کے مقامِ برزخ کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
برزخ سے مراد وہ شے ہے جو دو چیزوں کے درمیان موجود ہو جس کا ایک رخ ایک طرف ہو تو دوسرا رخ دوسری طرف، اور جس کا تعلق دونوں طرف کی حالتوں سے ایک جیسا برابر ہو۔ اگر ایک طرف سے دیکھیں تو لگے کہ اس کا رخ ادھر ہی ہے اور دوسری طرف سے دیکھیں تو لگے کہ نہیں اس کا رخ تو ادھر ہے ۔ (مرآۃ العارفین، ترجمہ و شرح مسز عنبرین مغیث سروری قادری)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں :

’’اگر آنہا را خدا خوانی بجا و اگر بندہ ٔ خدا دانی روا‘‘

ترجمہ: اگر تو انہیں خدا کہے تو بجا اور اگر بندۂ خدا جانے تو روا۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :

عبدہٗ از فہم تو بالاتر است
زاں کہ او ہم آدم و ہم جوہر است 

ترجمہ:عبدہٗ تیری عقل و فہم سے بالاتر ہے کیونکہ وہ بشر بھی ہے اور جوہر (نور) بھی۔
برزخ کے معانی حجاب اور پردے کے بھی ہیں۔ انسانِ کامل کی ذات کی حقیقت اہلِ ہوا و ہوس سے حجاب میں ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگ جو انسانِ کامل کی بشریت کی حقیقت کو نہیں جان سکتے وہ کبھی اس کے مرتبہ ھویت کو بھی نہیں پہچان سکتے۔ انسانِ کامل کی حقیقت تک رسائی متلاشیانِ حق کا نصیبہ ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
اے محبوبؐ تو دیکھے کہ تیری (بشریت کی ) طرف تکتے ہیں اور (تیری حقیقت میں سے) کچھ نہیں دیکھتے۔ (سورۃ الاعراف۔ 198)

انسانِ کامل کے تین برزخ

سید عبد الکریم بن ابراہیم الجیلیؒ نے اپنی تصنیف ’’انسانِ کامل ‘‘ میں انسانِ کامل کے تین برزخ بیان کیے ہیں۔ قارئین کے لیے یہاں اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے :
برزخ اوّل ہدایت ہے۔ انسانِ کامل ہی ہدایت کا نور اور منبع ہے اور اسے ہی تمام اسما و صفاتِ الٰہیہ سے مشرف ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا برزخ توسط ہے۔ اس مرتبہ سے مراد انسانِ کامل کے وجود پر حقائقِ رحمانیہ کے ساتھ ساتھ حقائقِ انسانیہ کے اسرار کا روشن ہونا ہے جس سے وہ تمام پوشیدہ اور مخفی اسرار سے واقف ہو جاتا ہے۔ تیسرے برزخ سے مراد ان امور کا اس سے رائج ہونا ہے جن کا شمار غیبی معجزات سے ہوتا ہے ۔

سورۃ فاتحہ اور مقامِ برزخ :

قرآنِ کریم کی ہر سورۃ اور آیت اپنے اندر اسرار و رموز کے بیش بہا موتیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ہر شخص اپنی باطنی استطاعت کی بنا پر قرآنِ کریم کی ہر آیت اورسورۃ سے معنی اخذ کرتا ہے۔ سورۃ فاتحہ جو کہ اُم القرآن اور خلاصۂ قرآن ہے، اس میں جامع انداز میں ذات و صفاتِ حق تعالیٰ اور مقصد ِانسانی کو بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات ذات و صفاتِ حق تعالیٰ کے متعلق ہیں اور آخری تین آیات بندے سے متعلق ہیں ۔ بیچ کی جو درمیانی آیت ہے وہ برزخ کہلاتی ہے جس سے مراد انسانِ کامل ہے۔ انسانِ کامل ربّ اور بندے کو آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے۔ وہی طالبِ مولیٰ کو عبادت اور توکل (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور فرما کر بندگی کے اصل معنوں سے روشناس کرواتا ہے۔

 بِسْمِ اللّٰہِ اور مقامِ برزخ :

حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں ’’تمام قرآن سورۃ فاتحہ میں جمع ہے اور تمام فاتحہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘میں جمع ہے‘‘ ۔ (مرآۃ العارفین) 

اس حوالے سے دیکھا جائے تو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اُم الام یعنی ماں کی ماں ہوئی۔بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے اصل اور حقیقی معنی کوعوام پر منکشف کرنے کے لیے حضرت امام حسینؓ نے اپنی تصنیف مرآۃ العارفین میںبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور یہ تین حصے مخلوقات کے تین حصوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ پہلا حصہ ’’ بسم  ‘‘ یعنی اللہ کے اسما کے لیے ہے، دوسرا حصہ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ صفاتِ الٰہیہ کو ظاہر کرتا ہے۔ بیچ کا درمیانہ حصہ ’’اللہ ‘‘ مقامِ برزخ ہے (اسما و صفاتِ الٰہیہ دونوں کے ساتھ منسلک ہے)۔ اس مقام و مرتبہ کو انسانِ کامل کے اسم سے موسوم کیا جاتا ہے۔ انسانِ کامل کے لیے اسمِ اللہ کا اطلاق جائز اور واجب ہے کیونکہ صرف اسی کی ہی ذات اللہ کی ہر صفت اور ہر اسم کی مظہر ہے۔ سید عبد الکریم بن ابراہیم الجیلیؒ فرماتے ہیں ’’پھر اس کو کہا جاتا ہے تو میرا حبیب ہے، تو میرا محبوب ہے، تو میری مراد ہے۔ بندوں میں میرا منہ (چہرہ اور زبان) ہے۔ تو مقصدِ اسنیٰ اور مطلبِ اعلیٰ ہے۔ اسرار میں تو میرا سرّ ہے، انوار میں تو میرا نور ہے، تو میرا عین، تو میری زینت، تو میرا جمال، تو میرا کمال ہے۔ تو میرا اسم، تو میری ذات، تو میری نعت، تو میری صفات ہے۔ میں تیرے اسم میں، تیری رسم میں، تیری علامت میں تیری نشانی ہوں۔ (انسانِ کامل ۔ ناشر نفیس اکیڈمی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم   میں تین طرح کے گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ’’ بسم ‘‘ میں مخلوق کے اس حصہ کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کو صرف اس کے اسم سے جانتے ہیں۔ ان کا علم یہاں تک ہی محدود ہے کہ کوئی ذات ہے جو نظامِ ہستی چلا رہی ہے جس کا اسم اللہ ہے ۔ آخری حصہ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ‘‘میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اللہ کو اسکی صفات سے پہچانتے ہیں اور کائنات کی ہر شے میں اس کی صفات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بیچ کا درمیانہ حصہ جس میں اسم و صفات دونوں یکجا ہیں جسے ’’اللہ‘‘ ظاہر کیا گیا ہے،مقامِ برزخ ہے۔ بندوں میں سے ان خاص الخاص لوگوں کو ظاہر کرتا ہے جو ذاتِ حق تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور جن پر اسم اللہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ الغرض یہ مرتبہ انسانِ کامل کا ہے۔ 

انسانِ کامل کو بارگاہِ الٰہی سے ربّ الارباب کا لقب حاصل ہے ۔ اس لیے کہ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ اس کے باطن میں موجود ذاتِ حق تعالیٰ کامل طور پر اس میں ظاہر بھی ہے۔ اس کاباطن ربوبیت کا نام ہے اور ظاہر عبودیت کا۔ جس طرح انسانِ کامل ربوبیت اور عبودیت کے درمیان برزخ ہے اسی طرح صفاتِ فاعلہ اور صفاتِ قابلہ کے درمیان بھی برزخ ہے۔ اسی کی ذات میں دونوں صفاتِ فاعلہ اور قابلہ مجتمع ہیں۔ صفاتِ فاعلہ سے مراد حق تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جو ہر شے کو حیات، سماعت، بصارت، کلام، ارادہ اور قدرت عطا کرتی ہیں اور جن کی بدولت وہ ہر عمل اور فعل سرانجام دیتا ہے۔ یہ صفات ہر مخلوقِ الٰہی کے لیے عام ہیں۔ صفاتِ قابلہ سے مراد وہ خاص صفاتِ الٰہیہ ہیں جو کسی مخلوق کو کسی خاص قابلیت کے لحاظ سے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں مثلاً کسی شخص پر رحم کی صفت دوسری تمام صفات پر حاوی ہے، کسی پر قہر کی صفت غالب ہے۔ ہر شخص اپنی باطنی استعداد اور قابلیت کی بنا پر ان صفات کو اپنی ذات سے ظاہر کرتا ہے۔ انسانِ کامل میں صفاتِ قابلہ اور صفاتِ فاعلہ دونوں کامل اور اتمّ صورت میں موجود ہوتی ہیں وہی ربّ تعالیٰ سے صفاتِ فاعلہ و قابلہ کی قوت حاصل کر کے اسے مخلوقات تک پہنچانے کاوسیلہ اور ذریعہ ہوتا ہے۔ وہی ہر شے کی قوت کا باعث ہے، اس کی حیات سے ہی ہر شے کی حیات ہے، اس کی قوتِ کلام ہر شے میں متکلم ہے۔ غرضیکہ وہی ہر شے اور تمام کائنات میں روحِ رواں ہے جیسا کہ شب ِمعراج جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عالمِ ناسوت سے نکل کر لاھوت لامکان کی طرف تشریف لے گئے تو کائنات یک دم بے حس و حرکت ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوتِ سماعت و بصر وغیرہ کی وجہ سے ہر شے کو قوتِ سماعت و بصر وغیرہ حاصل ہے ۔ 

’’ اسمِ رحمٰن‘‘اور مقامِ برزخ :

’اللہ‘ ذاتِ الٰہی کا ذاتی اسم ہے لیکن صفاتی اسما میں اللہ کی ذات کو مکمل بیان کرنے والا اسم ’’ رحمٰن‘‘ہے ۔ اسم  رحمٰن اپنی وسعت اور فراخی کی بنا پر ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسی اسم کی تجلی کی بنا پر ہر شے کو اپنی رحمت و کرم سے نوازتا ہے۔ اللہ کا یہ اسم کُل موجودات تک رحمت پہنچانے والا ذریعہ ہے۔ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ساری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات برزخ ہے، اللہ اور مخلوق کے درمیان رحمت پہنچانے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی اسما ہیں ان میں مقامِ برزخ انسا نِ کامل کی ذات ہے۔ اسی کی ذات سے ان تمام اسما کی صفات کامل طور پر ظاہر ہوتی ہے اور باقی جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ انسانِ کامل کی ذات کے سبب اور وسیلہ سے اسما اور صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہوتی ہیں۔ اگر یہ وسیلہ درمیان میں نہ ہو تو مخلوق کے لیے اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ مرآۃ العارفین میں حضرت امام حسینؓ نے اسما و صفاتِ الٰہیہ کے حوالہ سے حقائقِ کونیہ اور حقائقِ برزخ کو بہتر انداز میں سمجھانے کے لیے تین قوسوں کو بنا کر اپنی بات کو واضح فرمایا ہے جس میں اوپر والی قوس میں اسما و صفاتِ الٰہیہ کو رکھا جائے اور نیچے کی قوس میں خلق کو رکھا جائے تو درمیان میں جو وسیلہ اور رابطہ والی قوس ہے جس کے توسط سے تجلیاتِ الٰہی مخلوق تک پہنچتی ہیں وہ برزخ انسانِ کامل ہے۔ اسی بنا پر انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اسم ’’القاسم‘‘ بھی ہے جس کے معنی بانٹنے والا یا تقسیم کرنے والا ہے۔ 

حضرت سخی سلطان باھوؒ کے نزدیک علما اور فقرا کاملین میں مقامِ برزخ کا فرق ہے۔ فقرا کاملین کو مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ ان کا ہر قول و فعل بحکمِ الٰہی ہوتا ہے۔ علما علم کو وسیلہ بنا کر ہر سوال کا جواب دیتے ہیں اس کے برعکس فقیرِ کامل کو مقامِ تصور کے اعلیٰ درجا ت حاصل ہوتے ہیں۔حضرت سلطان باھوؒ عقلِ بیدار میں فرماتے ہیں:
پس معلوم ہوا کہ علما کتابیں پڑھ کر جواب دیتے ہیں اور فقیرمقامِ تصور سے نص و حدیث معلوم کر کے اس علم کا جواب دیتا ہے جو خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیغام کی صورت میں آیا ہے کہ تمام خلقِ خدا کا مفہوم اسی میں پوشیدہ ہے۔ پس فقیر کو تکلیف و تقلید سے کیا واسطہ کہ اس کے تن پر لباسِ نور ہوتا ہے اور اس کا قلب دائم حضور ہوتا ہے۔ (عقلِ بیدار)

موجودہ دور کے انسانِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ انسانِ کامل کی ذات عین حقیقتِ ربوبیت، اللہ کی تمام اسما و صفات کی مظہر اور خالق اور خلق کے درمیان کامل وسیلہ ہوتی ہے ۔ عوام الناس کو آپ مدظلہ الاقدس کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ 
اللہ پاک ہم سب کو شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے ساتھ اخلاص و محبت کے رشتے میں منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) 

استفادہ کتب:
مرآۃ العارفین: تصنیف سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ،مترجم و شارح :مسز عنبرین مغیث سروری قادری
رسالہ روحی شریف: تصنیف لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
عقلِ بیدار : تصنیف  ایضاً
شمس الفقرا :تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
انسانِ کامل: مصنف: سید عبدالکریم بن ابرا ہیم الجیلیؒ، مترجم: فضل میراں

 
 

26 تبصرے “انسانِ کامل اور حقیقت ِ برزخ | Insan e Kamil or Haqiqat e Barzakh

  1. انسانِ کامل یا فقیر کامل خالق و خلق کے مابین تعلق استوار کرنے کا وسیلہ ہے ۔ اسی نسبت کی بنا پر انسانِ کامل کے لیے ’’برزخ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ برزخ کے معنی رابطہ اور وسیلہ کے ہیں۔ دو حالتوں اور چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ اسی لیے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے۔

    1. اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو ۔ (سورۃ المائدہ 35)

  2. انسانِ کامل کی ذات عین حقیقتِ ربوبیت، اللہ کی تمام اسما و صفات کی مظہر اور خالق اور خلق کے درمیان کامل وسیلہ ہوتی ہے ۔

    1. انسانِ کامل ربّ اور بندے کو آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے۔ وہی طالبِ مولیٰ کو عبادت اور توکل (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور فرما کر بندگی کے اصل معنوں سے روشناس کرواتا ہے۔

  3. ماشاءاللہ
    نہایت عمدہ اور پر روح تحریر ہے۔
    پڑھنے سے روحانی سکون ملا ۔اور انسان کامل کے بارے علم میں اصافہ ہوا۔
    انسان کامل کی حقیقت کو نہایت آسان فہم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے

  4. انسانِ کامل یا فقیر کامل خالق و خلق کے مابین تعلق استوار کرنے کا وسیلہ ہے ۔ اسی نسبت کی بنا پر انسانِ کامل کے لیے ’’برزخ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ برزخ کے معنی رابطہ اور وسیلہ کے ہیں۔ دو حالتوں اور چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ اسی لیے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے۔

  5. حضرت سخی سلطان باھوؒ کے نزدیک علما اور فقرا کاملین میں مقامِ برزخ کا فرق ہے۔ فقرا کاملین کو مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ ان کا ہر قول و فعل بحکمِ الٰہی ہوتا ہے۔ علما علم کو وسیلہ بنا کر ہر سوال کا جواب دیتے ہیں اس کے برعکس فقیرِ کامل کو مقامِ تصور کے اعلیٰ درجا ت حاصل ہوتے ہیں۔

  6. بیشک انسان کامل ہی اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ ہے اور اسی کی مدد سے اللہ کی معرفت, قرب اور وصال ممکن ہے.

  7. ماشائ اللہ بہت عمدہ تحریر ہے۔
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #socialmedia #faqr #markazefaqr #insanekamil #haqiqat

  8. سبحان اللہ بہت خوبصورت لکھا ہے۔
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #socialmedia #faqr #markazefaqr #insanekamil #haqiqat

  9. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #socialmedia #faqr #markazefaqr #insanekamil #haqiqat

  10. اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو ۔ (سورۃ المائدہ 35)

  11. سبحان اللہ بہت ہی اچھا مضمون ہے
    بے شک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس ہی موجودہ دور کے انسانِ کامل ہیں

  12. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے۔
    بے شک جو کوئی بھی اللہ پاک کی ذات کا مشاہدہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا اللہ پاک کی ذات َ اقدس تک رسائی چاہتا ہے اسے چائیے کے سب سے پہلے کسی انسان َ کامل (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدہ) کی تلاش کرے کیونکہ اس راہ پر چلنے کے لیے مرشد کامل اکمل کی راہبری فرض عین ہے۔

  13. موجودہ دور کے انسانِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ انسانِ کامل کی ذات عین حقیقتِ ربوبیت، اللہ کی تمام اسما و صفات کی مظہر اور خالق اور خلق کے درمیان کامل وسیلہ ہوتی ہے ۔

  14. سبحان اللہ بہت ہی اچھا مضمون ہے
    بے شک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس ہی موجودہ دور کے انسانِ کامل ہیں

  15. انسانِ کامل کی ذات عین حقیقتِ ربوبیت، اللہ کی تمام اسما و صفات کی مظہر اور خالق اور خلق کے درمیان کامل وسیلہ ہوتی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں