جہاں عشق ہو وہیں کربلا Jahan Ishq Ho Wahin Karbala


4.4/5 - (106 votes)

جہاں عشق ہو وہیں کربلا (Jahan Ishq Ho Wahin Karbala)

تحریر:محترمہ مقدس یونس سروری قادری 

صبحِ ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز کن ہوئی تپش آموز جان عشق 

(بانگِ درا)

کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نورِمبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ انسانی کے حصہ میں آیا۔(فرمان سلطان العاشقین)

عشق کیا ہے؟

انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیا سے محبت ہوتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ سے محبت، حضور نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت، ماں باپ سے محبت، بیوی بچے، بہن بھائی، رشتہ دار، دوست احباب، گھر، زمین، جائیداد، شہر، قبیلہ، برادری، خاندان، ملک اور کاروبار وغیرہ۔ جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جائے اور باقی تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں۔ عشق باقی تمام محبتوں کو جلا کر راکھ کردیتا ہے اور ہر محبت پر حاوی ہو جاتا ہے۔(شمس الفقرا)

جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ِمبارک ہے: 
لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ   (بخاری 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا  لِّلّٰہِ (سورۃ البقرۃ۔165)
ترجمہ :اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔

سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشق کے بارے میں فرماتے ہیں:
عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹاہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتاہے۔(سلطان العاشقین)

عشق کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عشقِ حقیقی ہی بارگاہِ ربّ العالمین میں باریابی دلاتا ہے۔عشق ہی انسان کو ’’شہ رگ‘‘ کی روحانی راہ پر گامزن کرکے آگے لے جانے والا ہے۔ یہی اس راہ سے شناسا کراتا ہے۔ یہی روح کے اندر وصالِ محبوب کی تڑپ کا شعلہ بھڑکاتا ہے۔ یہی اسے دن رات بے چین و بے قرار رکھتا ہے، آتشِ ہجر تیز کرتا ہے اور یہی دیدارِ حق کا ذریعہ بنتا ہے۔ (شمس الفقرا)

عشقِ حقیقی وہ بے بہا دولت ہے جو فانی کائنات سے بیگانہ کرکے حقیقت کی طرف لے جاتی ہے، یہ عشق ہی ہے جو عاشق کو ہمہ وقت محبوبِ حقیقی کے تصور اور جلووں میں گم رکھتا ہے۔ عاشق، عشق کی لذت میں کھو کر اپنے باطن کو دنیا سے دور کر لیتا ہے، پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے۔ حتیٰ کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کر دیتا ہے۔

اس عشق میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا ہے، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا ہے، کبھی حکمِ الٰہی پر قربانی کے لیے سر رکھ دیتا ہے، کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے اور کبھی اللہ کی رضا کے لیے میدانِ کربلا میں اپنی اور اپنے پیاروں کی جان قربان کردیتا ہے۔

مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عشق ایسا شعلہ ہے کہ جب بھڑک اُٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عشق محض زبانی دعویٰ کا نام نہیں ہے بلکہ عشق اس کیفیت کا نام ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنے محبوب کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے پر آمادہ ہو جائے۔(سلطان العاشقین)

عشقِ حقیقی کی سب سے بڑی مثال حضرت امام حسینؓ اور میدانِ کربلا ہے جس میں آپؓ نے اپنی جان،مال،اولاد سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر لٹا دیا۔

شاعرِمشرق ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ نے کہا:

صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

آن امامِ عاشقان پور بتولؓ
سرو آزادے زبستانِ رسولؐ

ترجمہ: وہ عاشقوں کے امام سیدّہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے فرزند اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے باغ کے سروِ آزاد تھے۔

سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

عاشق سوئی حقیقی جیہڑا، قتل معشوق دے منےّ ھوُ
عشق نہ چھوڑے مکھ نہ موڑے، توڑے سے تلواراں کھنےّ ھوُ
جت ول ویکھے راز ماہی دے، لگے اوسے بنے ھوُ
سچا عشق حسینؓ ابنِ علیؓ دا باھوؒ، سر دیوے راز نہ بھنے ھوُ

اس بیت کی شرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں:
حضرت امام حسینؓ امام الوقت اور اس دور کے انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب پر فائز تھے۔ انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کن کی زبان ہوتی ہے۔ اگر آپؓ دریائے فرات کو اشارہ کرتے توچل کر خیموں تک آجاتا، آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی، کربلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کردیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ عاشقِ حقیقی وہی ہوتا ہے جو معشوقِ حقیقی (اللہ تعالیٰ) کے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کر لے اور باجود تکالیف اور مصائب کے نہ تو راہِ عشق سے منہ موڑے اور نہ ہی تسلیم و رضا کی راہ میں اس کے قدم متزلزل ہوں خواہ سینکڑوں تلواریں اس کے جسم کو چھلنی کر دیں۔ اصولِ عشق تویہی ہے کہ اس کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا جائے۔ (ابیاتِ باھوؒکامل)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 عشق اور تسلیم و رضا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سردے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں ہونے دیا۔(شمس الفقرا)

واقعہ کربلا سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ مقامِ رضا پر نہ صرف امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ ثابت قدم رہے بلکہ آپؓ کے گھرانے کے باقی افراد بھی آپؓ ہی کی طرح کوہِ استقامت بن کر ڈٹے رہے۔ ان کے ارادوں اور استقامت میں رَتی برابر بھی لغزش نہیں آئی۔
حسینؓ ابنِ علیؓ کا عشقِ الٰہی قیامت تک عاشقوں کے لیے مثال بن گیا۔ ماہِ محرم امام حسینؓ، آپؓ کے اصحابِؓ باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی لہو رنگ لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے جسے تاریخِ انسانی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ تاریخِ بشراس عظیم ترین قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ شریعتِ محمدیؐ میں یہ قربانی قربِ الٰہی کا وسیلہ قرارپائی جو دربارِ الٰہی میں سرخروئی کا سرچشمہ ہے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ عشق ہی ہے جو کربلا کے میدان میں تمام خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے دردی اور سنگدلی سے ذبح ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
عشقِ حقیقی کے طلبگار عاشقوں کے لیے یہ دنیا ایک میدانِ کربلا ہی ہے جس میں انہوں نے اللہ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ تب ہی وہ اپنی منزلِ مقصود پاتے ہیں۔

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ثابت عشق تنہاں نوں لدھا، جنہاں ترٹی چوڑ چا کیتی ھوُ

مفہوم: عشقِ حق تعالیٰ تو وہ پاتے ہیں جو راہِ عشق میں اپنا گھر بار تک لٹا دیتے ہیں۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہم اللہ پاک سے عشق کا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن جب اس کی راہ پر کچھ دینے کی باری آتی ہے تو ہم آنکھیں پھیر لیتے ہیں حالانکہ یہی وقت آزمائش اور قربانی کا ہوتا ہے۔ جو عشق و محبت کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں آزمائش کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے۔

قرآنِ مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (سورۃ البقرۃ ۔ 155)
ترجمہ: اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔ اور (اے محبوبؐ) آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔

جس طرح بازار سے برتن خریدتے ہوئے خوب ٹھونک بجا کر دیکھتے ہیں کہ کچا، ٹوٹا ہوا یا ناقص تو نہیں چاہے وہ معمولی اہمیت کا ہی ہو اس پر معمولی رقم ضائع کرنا گوارا نہیں کرتے، وہ تو ربّ ہے جو اپنے قرب اور رضا کے بدلہ میں تمہاری جانوں کا سودا کر رہا ہے۔ بے شک ایسے بندے بھی ہیں جو اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے بدلے بیچ ڈالتے ہیں۔

 قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط وَ اللّٰہُ  رَؤْفٌ بِالْعِبَادِ   (سورۃ البقرۃ۔ 207 )
ترجمہ: اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔ اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔ 

پس بندے کو اپنا بنانے سے پہلے اللہ تعالیٰ مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، کبھی بیماری اور بھوک، کبھی اولاد اور مال کی کمی کے ذریعے پرکھتا ہے۔ جب وہ جانچ کے مطلوبہ معیار پر پورا اُترے اور ہر آزمائش میں کامیاب ہوجائے تو بندے کو اللہ تعالیٰ آغوشِ رحمت و رضا میں لے لیتا ہے۔ اس خریدار کی طرح جو اپنی پسندیدہ شے کو بخوشی اپنا بنا لیتا ہے۔

عشقِ حقیقی کو پانے کے لیے صبر سے آزمائشوں پر پورا اترنے والوں کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ    (سورۃ البقرۃ۔ 153)
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ 

اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ قف وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ (سورۃ البقرۃ۔ 157 )
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے پے در پے نوازشیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمارا رُخ کس طرف ہے۔ ہم اس نفسانفسی کے دور میں کس چوراہے پر آکھڑے ہیں، کیا ہماری زندگی کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے یامفاد پسند لیڈروں کو؟
ہم چند دنیاوی فائدوں کے لیے اپنے حقیقی مقصد کو بھول بیٹھے ہیں۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: 
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف  ثُمَّ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمِہَادُ   (سورۃ آل عمران۔197)
ترجمہ: (ان کے) یہ (دنیاوی) فائدے تھوڑے ہی دنوں کے لیے ہیں پھر (آخر کار) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

اس پرُ فتن دور میں تحریک دعوتِ فقر آپ کو فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہ (دوڑو اللہ کی طرف) کی دعوت دیتی ہے۔ 

تحریک دعوتِ فقر غیر سیاسی اور غیر سرکاری جماعت ہے جس کا کسی مسلک اور فرقہ پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔ طالبانِ مولیٰ کو دعوتِ عام ہے کہ وہ آئیں اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اللہ ذات حاصل کریں اور آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت و نگاہِ کاملہ سے تزکیۂ نفس کروائیں تاکہ اپنی زندگی کا حقیقی مقصد حاصل کرسکیں جس کے لیے اس دنیا فانی میں بھیجا گیا ہے۔

 مولانا جامی فرماتے ہیں:

غنیمت داں اگر عشق مجازیست
کہ از بہر حقیقت کار سازیست

ترجمہ: اگر تجھے ذاتِ مرشد کا عشق نصیب ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی جان کیونکہ یہ ذاتِ حق کے عشق تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔

استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا۔ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ مجتبیٰ آخر زمانی۔ ایضاً
۳۔ ابیاتِ باھوؒ کامل۔ تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۴۔ سلطان العاشقین۔ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Hazrat Ali ra k Dor-e-Khilafat | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات | Urdu / Hindi Podcast

 
 
 

17 تبصرے “جہاں عشق ہو وہیں کربلا Jahan Ishq Ho Wahin Karbala

  1. تحریک دعوتِ فقر غیر سیاسی اور غیر سرکاری جماعت ہے جس کا کسی مسلک اور فرقہ پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔ طالبانِ مولیٰ کو دعوتِ عام ہے کہ وہ آئیں اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اللہ ذات حاصل کریں اور آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت و نگاہِ کاملہ سے تزکیۂ نفس کروائیں تاکہ اپنی زندگی کا حقیقی مقصد حاصل کرسکیں جس کے لیے اس دنیا فانی میں بھیجا گیا ہے۔

  2. مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    عشق ایسا شعلہ ہے کہ جب بھڑک اُٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔

  3. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    عشق اور تسلیم و رضا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سردے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں ہونے دیا۔(شمس الفقرا)

  4. عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹاہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتاہے۔(سلطان العاشقین)

  5. صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
    معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

  6. عشقِ حقیقی کی سب سے بڑی مثال حضرت امام حسینؓ اور میدانِ کربلا ہے جس میں آپؓ نے اپنی جان،مال،اولاد سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر لٹا دیا۔

  7. عشقِ حق تعالیٰ تو وہ پاتے ہیں جو راہِ عشق میں اپنا گھر بار تک لٹا دیتے ہیں۔

  8. صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
    معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

  9. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ِمبارک ہے:
    لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ (بخاری 15)
    ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

  10. اس بیت کی شرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں:
    حضرت امام حسینؓ امام الوقت اور اس دور کے انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب پر فائز تھے۔ انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کن کی زبان ہوتی ہے۔ اگر آپؓ دریائے فرات کو اشارہ کرتے توچل کر خیموں تک آجاتا، آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی، کربلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کردیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔

  11. صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
    معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

  12. آن امامِ عاشقان پور بتولؓ
    سرو آزادے زبستانِ رسولؐ

  13. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    عشق اور تسلیم و رضا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سردے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں ہونے دیا۔(شمس الفقرا)

  14. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    عشق اور تسلیم و رضا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سردے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں ہونے دیا۔(شمس الفقرا)

اپنا تبصرہ بھیجیں