اولیا کاملین کا تصرف اور اختیار | Auliya Kamlin ka Tasarruf or Ikhtiyar


2.8/5 - (13 votes)

اولیا کاملین کا تصرف اور اختیار | Auliya Kamlin ka Tasarruf or Ikhtiyar

تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

زمین و آسمان با وسیلہ اولیا قائم و دائم ہیں۔ فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamleen) اور اولیا  (Aulia | Auliya)کرام لامحدود تصرف اور اختیار کے مالک ہیں۔ان کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (سورۃ الانبیا۔105)
ترجمہ: زمین کے وارث صرف صالحین ہیں۔ 

تفسیر ابنِ کثیر میں لکھا ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں عطا کرے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک ومال دیتا ہے۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے۔
اولیا  (Auliya)و صالحین دنیا و آخرت میں ہر دو کی زمین کے وارث ہیں۔ (تفسیر ابنِ کثیر)

مالکِ کل نے اولیا (Aulia)کو زمین کی ملکیت عطا کی۔ ملکیت اپنے اندر تصرف کا مفہوم سموئے ہوئے ہے۔ عقلِ انسانی کی قوی دلیل ہے کہ اگر وارث کواپنی وراثت میں تصرف کا حق نہ ہو تو وارث کیسا؟ مالک وہی ہوتا ہے جو صاحبِ تصرف و بااختیار ہو۔ دنیا میں یہ نظام رائج ہے کہ ملک کے حکمران صدر، وزیراعظم کے پاس اَن گنت اختیارات ہوتے ہیں۔ حکمران تو کیا ان کے وزیروں اور درباریوں کے اختیارات کی بھی حد نہیں۔ اگر دنیا کے حکمران اور ان کے وزیر صاحبِ طاقت و اختیار ہیں تو اللہ کے خلفا اور نائبین کے تصرف و اختیارات کا کیا مقام ہوگا۔
اگر کوئی کج رو شخص اولیا (Aulia | Auliya) کے اختیارات و تصرفات کو دنیاوی حکمرانوں سے بھی کم جانے تو یہ بلاواسطہ اللہ کی قدرت کا انکار ہے۔
امام نبہانیؒ فرماتے ہیں:
اگر ظہورِ کرامت کو ممنوع قرار دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں وہ یہ کہ اللہ کریم ایسا فعل و عمل کرنے کا اہل نہیں۔ اس صورت کا اقرار کفر ہے۔ (جامع کراماتِ اولیا)

شرح فقہ اکبر میں ہے:
کراماتِ اولیا (Aulia ) قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔ معتزلہ اور بدعتیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے میں کوئی سچائی نہیں۔ (شرح فقہ اکبر،ص141)
شرح فقہ اکبر کی عبارت سے جو سوال جنم لیتا ہے کہ اولیا کاتصرف قرآن و احادیث سے ثابت ہے اس کا جواب انہی دو کی روشنی میں ضروری ہے۔

قرآن:

تصرفات اولیا کے ضمن میں سورۃ النمل میں حضرت سلیمانؑ کے ایک امتی ولی کا واقعہ درج ہے جس سے تصرف و اختیار اور طاقتِ اولیا اللہ (Fuqara-e-Kamleen) عیاں ہے۔
(سلیمانؑ نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ بلقیس) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں۔ ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اسکے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس پر تصرف رکھتا ہوں اور امانتدار ہوں۔ (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان ؑ نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا: یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔ (سورۃ نمل 38 تا 40)

آیاتِ مذکورہ سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی امت کے ایک ولی کے پاس اتنا تصرف تھا کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں لے آیا۔
ان آیات میں چند غور طلب نکات جو سمجھنا ضروری ہیں، یہ ہیں:
۱۔ حضرت سلیمانؑ نے اپنے امتیوں سے سوال پوچھا کہ کون اتنے تصرف کا مالک ہے کہ وہ لاکھوں میل دور پڑا ہوا تخت اٹھا لائے۔ آپ کا سوال پوچھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر ممکن تھا۔ یعنی آپ جانتے تھے آپ کے اولیا کو ایسا تصرف حاصل ہے۔
۲۔ حضرت آصف بن برخیا بلقیس کا تخت لے کر آئے۔ ان سے پہلے ایک امتی جن نے کہا تھا کہ وہ بھی لاسکتا ہے لیکن اس نے کہا تھا کہ حضرت سلیمانؑ کے محفل سے اٹھنے سے پہلے۔ جبکہ حضرت سلیمانؑ نے اس سے بھی جلدی لانے کو کہا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اولیا کا تصرف ان کے مقامات کے لحاظ سے مختلف ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں اولیا کے بھی درجات ہیں کسی کو زیادہ تصرف و اختیار حاصل ہے اور کسی کواس سے کم۔
۳۔آیت نمبر 39میں ہے کہ جس جن نے کہا کہ میں آپؑ کے اٹھنے سے پہلے تخت لا سکتا ہوں، اس نے آخر میں یہ بھی کہا:’’بے شک میں اس پر تصرف رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں‘‘۔

یہ نکتہ نہایت لطیف ہے کہ اپنی لطافت کے باعث کمزور ایمان والوں کے لیے حجاب ہے۔ اس کلام کی لطافت یہ ہے کہ اللہ جن کو تصرف عطا کرتا ہے وہ اسے استعمال کرنے میں امانتدار بھی ہوتے ہیں یعنی جس نے تصر ف عطا کیا ہے اسی کے کہنے پر استعمال میں لاتے ہیں اور اسی کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اولیا (Aulia | Auliya)  کرام  بلاوجہ اپنی کرامت کا اظہار نہیں کرتے کیونکہ یہ تصرف اللہ کے امر میں استعمال ہوتا ہے۔
تصرف میں امانت داری ہی کمزور ایمان والوں کے لیے حجاب بن جاتی ہے۔ چونکہ اولیا جابجا اپنی کرامات کا اظہار نہیں فرماتے اس لیے بے عقل و بے ایمان لوگ اولیا (Aulia ) اور ان کے تصرفات سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔

 سلسلہ سروری قادری  (Silsila Sarwari Qadri)  میں ظاہر ی کرامات کم ہونے کی وجہ

تصرف میں امانتداری برتنے کے باعث سلسلہ سروری قادری (Silsila Sarwari Qadri)  کے مشائخ اپنے آپ کو پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں کیونکہ یہ سنتِ خدا ہے۔ اس سلسلہ کے شیخِ کامل (Shaikh-e-Kamil)  کا تصرف بھی بحکمِ خدا کامل ہوتا ہے اور امانتداری کا خاصہ بھی، جس کے باعث ظاہر میں کرامات کا ظہور تقریباً ناپید ہے۔ باطن کی کرامات پردے میں ہوتی ہیں اور بے ایمان لوگوں کو بصیرت حاصل نہیں ہوتی کہ ان باطنی کرامات کو دیکھ سکیں اس لیے کہ یہ بیش بہا اور اعلیٰ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے بصیرت یہاں رکتے نہیں اور صاحبانِ بصیرت یہاں سے جاتے نہیں۔
۴۔ جب حضرت آصف بن برخیا تخت لے آئے، حضرت سلیمانؑ نے تخت دیکھ کر فرمایا ’’یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔‘‘
یعنی تصرفِ اولیا دراصل فضلِ ربی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اولیا کا منکر دراصل اللہ کے فضل کا انکار کرتا ہے جیسا کہ پہلے ’’شرح فقہ اکبر‘‘ کی عبارت میں بیان ہوا ہے۔
جہاں تک تعلق ہے اس علم کا جس کی بدولت اللہ تعالیٰ یہ تصرفات عطا فرماتا ہے اس کے متعلق قرآنِ مجید سے راہنمائی ملتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (سورۃ الکہف۔ 65)
ترجمہ: اور ہم نے اسے اپنا علمِ لدنیّ سکھایا تھا۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت خضرؑ کو علمِ لدنیّ عطا کیا گیا۔ یعنی اعمالِ خضر ؑ کی بنیاد ’’علمِ لدنیّ‘‘ ہے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
اہلِ طریقت کہتے ہیں کہ علمِ لدنیّ ان علوم کی نسبت زیادہ قوی اورمحکم ہوتا ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ کا بغیر تحصیلِ علم ایک سو چالیس (140) کتب تحریرفرمانا علمِ لدنیّ کی قوت پر دلیل ہے۔ علم ِلدنیّ ہی قرآن کے حقیقی معانی سے آشنائی کا واحد ذریعہ ہے۔ بنا برین امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی تفسیر درمنثور میں رقمطراز ہیں:
 تفسیر اشاری سے مراد ظاہر قرآن سے ہٹ کر کسی اشارہ خفیہ کی وجہ سے قرآن کی تاویل کرنا ہے جواربابِ سلوک و تصوف پر ظاہر ہوتا ہے اور ظاہر معنی اور اس خفیہ اشارہ کو جمع کرنا ممکن ہوتا ہے۔ (تفسیر درِ منثور)

علمِ لدنیّ کے متعلق علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
جملہ اولیا (Aulia ) نورِ نبوت سے علمِ لدنیّ حاصل کرتے ہیں جس سے امورِ معرفت اور اسرارِ حقیقت ان پر منکشف ہوجاتے ہیں۔
یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ نورِ نبوت سے حاصل ہونے والا علمِ لدنیّ اپنے تمام تر تصرفات کے ساتھ اولیا کے قلب پر وارد ہوتا ہے۔ مذکور علم لامحالہ منبعِ تصرفات ہے، زیرِ بحث علم کا نزول درجہ بدرجہ ہے باطنی علم کا ظاہر ہونا درجاتِ اولیا سے مطابقت رکھتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ  (سورۃ نور۔ 55)
ترجمہ: وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
خلیفہ (نائب) اس وقت مقرر کیا جاتا ہے جب اصل مر جائے یا غائب ہو یا اصل کسی کام کی سرانجامی سے عاجز ہو یا پھر اصل کسی کو شرف بخشتے ہوئے اپنا قائم مقام مقرر فرمائے۔ پہلے تینوں معانی اللہ تعالیٰ کے لیے ممتنع ہیں یہاں پر آخری معنی مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نائب بنانے کا معنی یہ ہے کہ وہ کریم ذات اپنے اولیا (Aulia | Auliya) کو زمین پر تصرف کرنے کے لیے مقرر فرماتا ہے جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔

مزید لکھا ہے:
اولیا کاملین درحقیقت اللہ تعالیٰ کے خلفا ہیں یہی اقطابِ عالم و عمودِ سما اور اوتاد الارض ہیں۔ انہی سے زمین و آسمان کا نظام قائم ہے۔ دینِ الٰہی انہی سے آباد ہے اور تا قیامت یہ لوگ مختلف طبقات کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔ (تفسیر روح البیان)

قرآن میں ہے:
وَّ الْجِبَالِ اَوْتَادًا (سورۃ النبا۔ 7)
ترجمہ: اور پہاڑوں کو اوتاد نہیں بنایا۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں صوفیا کرام نے اوتاد حضرات کے مقامات، فرائض، مراتب اور قیامِ امن میں ان کے کردار کو تفصیلی طور بیان فرمایا ہے۔  (احوالِ ابدال)

نظامِ تکوین

قرآن میں نظامِ تکوین کی مثال حضرت خضرؓ اور حضرت موسٰیؑ کا قصہ ہے۔ علامہ سیوطیؒ نے رسالہ الخیرالدال میں حدیث لکھی ہے:
ابنِ مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے فرمایا کہ خدا کے تین سو بندے مخلوق میں ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت آدمؑ کے قلب کی مانند ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت موسٰیؑ کے قلب کی مانند ہیں، سات ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت ابراہیمؑ کے قلب پر ہیں، پانچ ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت جبرائیلؑ کے قلب پر ہیں، تین ایسے ہیں جن کے قلوب حضرت میکائیلؑ کے قلب پر ہیں اور ایک ایسا ہے جس کا قلب اسرافیلؑ کے قلب پر ہے۔ ( الخیر الدال)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے یہ سب باطنی پرتو ہے۔ تصوف سے یہ بات ثابت ہے کہ باطنی طور پر بھی ایک نظامِ حکومت موجود ہے جسے اللہ کے خاص بندے چلا رہے ہیں اور دنیا میں جو کچھ وقوع پذیر ہونا ہوتا ہے وہ اس نظامِ تکوین کے تحت باطن سے ظاہر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)

طبرانی کی روایت ہے:
چالیس مرد جومثل خلیل اللہ کے ہیں، ان سے کبھی زمین خالی نہ ہوگی۔ ان کی وجہ سے تمہیں بارش دی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی۔ جب ان میں سے کوئی فوت ہو گا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔ 

مولانا ابو الرشید محمد عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں:
قرآن میں اللہ نے ’’والجبال اوتادا‘‘ ارشاد فرمایا ہے تو اولیا کرام سے چار او تادمثل پہاڑوں کے ہیں زمین پر ان میں سے ایک مشرق کو محفوظ رکھتا ہے، دوسرا مغرب کو، تیسرا شمال کو اور چوتھا جنوب کو۔ وہ ہر زمانے میں چار ہوتے ہیں۔ اس سے کم وبیش نہیں ہوتے۔ ان کو ’’عمد‘‘ بھی کہتے ہیں۔ (احوالِ ابدال)
علامہ سیوطیؒ نے تقریباً بیس کتب سے ابدال کی احادیث نقل کی ہیں اور تمام کو صحیح اور حسن فرمایا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں ۔
’’ دنیا میں ایک قطب مدار ہر وقت ہوتا ہے۔‘‘
قطبِ مدار کے متعلق قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کے واقعی کے تحت امام ربانی سے حضرت خضرؑ کا قول نقل فرمایا ہے:
حضرت خضرؑ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہم کو قطبِ مدار کا معاون بنایا ہے جو اولیا اللہ سے ہے جسے اللہ نے دنیا کی بقا کا سبب بنایا ہے۔ اس کے وجود کی برکت سے بقائے عالم ہے۔‘‘ اور فرمایا ’’اس وقت قطب ِمدار یمن میں ہے اور ہم اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ (تفسیر مظہری)
صوفیا کی نظر میں قطبِ مدار ہی اپنے زمانے کا انسانِ کامل ہوتا ہے۔ وہی اللہ کا کامل اور حقیقی مظہر ہوتا ہے۔
علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
جب تک انسانِ کامل جو مرکزِنظرِالٰہی ہے، عالم میں موجود ہے عالم بربادی و تباہی سے محفوظ اور قائم رہتا ہے۔ (فصوص الحکم)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں :
زمانے کی ضرورت کے پیشِ نظر بعض اوقات انسانِ کامل کے مرتبہ پر دو ہستیاں ہوتی ہیں۔ ایک نظامِ تکوین کی ذمہ دار (قطب مدار) ہوتی ہے اور دوسری صاحبِ تلقین و ارشاد۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

تصرفاتِ اولیا کاملین کی مثال

یہاں چند مشہور اولیا کاملین (Aulia  Kamlin| Auliya Kamleen) کے تصرفات کا بیان لازم ہے تاکہ جو قرآن و حدیث سے امر سامنے آیا ہے اس کی مثال لازم ہے تاکہ بات مکمل ہو۔

سیدّنا غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
(Sayyidina Ghaus-ul-Azam Hazrat Shaikh Abdul Qadir Jilani)

 سیدّ عبدالقادر اربلیؒ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں:
حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں جن وشیاطین مخلوق پر مسلط تھے تو آپؑ نے ایک دن سوچا کہ جب میرے زمانے میں لوگوں کو جن و شیاطین سے نقصان اور اذیتیں پہنچتیں ہیں حالانکہ یہ سب میرے ماتحت ہیں تو میرے بعد مخلوقِ خدا کا کیا حال ہوگا۔ آپ اسی فکر میں تھے کہ ہاتفِ غیبی نے آواز دی کہ میں اخیر زمانے میں اپنے حبیب محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نبوت ختم کردوں گا اور آپؐ کی نسل سے عبدالقادرؓ نامی ایک شخص پیدا ہوگا یہ تمام جن و شیاطین اس کے حکم و اطاعت اور قید میں ہوں گے۔ یہ کلام سن کر حضرت سلیمانؑ خوش ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور حکم دیا کہ ان جنات کو قید کر کے سمندروں میں ڈال دو اور فرمایا ’’ان کی زنجیریں آخر زمانہ میں کھلیں گی۔ یہ سب حضرت غوثِ اعظمؓ کے تحتِ حکم اور آپؓ کی قید میں ہوں گے اوراپنے گھروں میں بیٹھے آپ کے خوف سے کانپتے ہوں گے کیونکہ آپ انسانوں، جنوں اور ملائکہ کے شیخ ہوں گے۔‘‘
وہ سب اب آپ کے خلفااور مریدین کی اطاعت میں ہیں۔ (تفریح الخاطر فی مناقب شیخ سید عبدالقادر جیلانیؓ)

حضرت سخی سلطان باھوؒ 
(Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo)

آپ شور کوٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس اور ناداری سے تنگ ایک سفید پوش عیال دار سید صاحب اولیا کی تلاش میں پھرتے تھے تاکہ ان کے تصرف وکرامت سے تنگدستی اور غربت دور ہوجائے۔
اسی تلاش میں سرگرداں وہ سید صاحب حضرت سخی سلطان باھوؒ کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت آپؒ ہل چلا رہے تھے۔ اس نے آپؒ کے سامنے اپنی حالتِ زار بیان کی اور مہربانی کی درخواست کی۔ آپؒ نے فرمایا ’’شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے، آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں، میں پیشاب سے فارغ ہو کر آتا ہوں۔‘‘ غرض آپؒ نے پیشاب کیا اور مٹی کے ڈھیلے سے استنجا کرنے کے بعد وہ ڈھیلا ہاتھ میں لیے سید صاحب سے مخاطب ہوئے ’’شاہ صاحب! آپ نے مفت میں تکلیف اٹھائی، میں توایک جٹ آدمی ہوں۔‘‘ سید صاحب طیش میں آکر بولے ’’ہاں یہ میری سزا ہے کہ سید ہو کر ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں۔‘‘

حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo) کو جلال آیا اور اپنی زبانِ مبارک سے یہ شعر پڑھتے ہوئے وہ پیشاب کا ڈھیلا زمین پر دے مارا:

نظر جنہاں دی کیمیا سونا کردے وٹ
قوم اتے موقوف نہیں کیا سید کیا جٹ

آپؒ کا پھینکا ہوا ڈھیلا جدھر جدھر لڑھکتا گیا اور جس جس مٹی کے ڈھیلے کو چھوتا گیا وہ سونا بنتاگیا۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس: (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور میں انسانِ کامل اور قطبِ مدار کے مرتبے پر فائز ہیں۔ آپ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ ہر ہفتہ اور اتوار کو خانقاہ سلطان العاشقین رنگیل پور شریف لاہور (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں تشریف لے کر جاتے ہیں۔ ذیل میں آپ مدظلہ الاقدس کی جو کرامت بیان کی جا رہی ہے اس کا ظہور بھی خانقاہ سلطان العاشقین (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں ہوا۔

ایک مرتبہ میں (راقم الحروف)خانقاہ سلطان العاشقین میں تھا۔ رات کا وقت تھا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) اپنے کمرہ مبارک میں تشریف فرما تھے جبکہ میں اس وقت مسجدِزہرؓا  (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضور مرشد کریم اکیلے مسجدِزہراؓ کی جانب تشریف لا رہے ہیں۔ میں حیران رہ گیا کیونکہ آپ کے خدمتگار اور مریدین ہمیشہ آپ کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ یہی سوچ کر میں پریشان ہو گیا۔ اتنے میں آپ میرے پاس سے گزر گئے اور میری طرف دیکھا تک نہیں۔ آپ چلتے ہوئے مسجدِزہراؓ کے اندر داخل ہو گئے۔ میں بھی حیرانی کے عالم میں آپ مدظلہ الاقدس کے پیچھے چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ مسجد ِزہراؓ  (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں ایک بہت عالیشان اور بلند و بالا غیبی دروازہ کھلا ہوا ہے جس کے دوسری جانب دن کی روشنی ہے اور وہاں ایک پورا شہر آباد ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen ) اس دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔ میں بھی ورطہ ٔحیرت میں گم آپ کے پیچھے چل دیا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس ایک عظیم الشان اور خوبصورت مکان کے سامنے رکے جو بالکل مسجد ِزہرا (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) کی طرز کا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس اس کے اندر داخل ہو گئے۔ میں اندر داخل ہونے لگا تو دیکھا کہ اندر تو پہلے ہی بہت زیادہ رش ہے۔ کافی زیادہ کرسیاں لگی ہوئی ہیں جن پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ سامنے کی جانب ایک سٹیج بنا ہوا تھا جس پر ایک صوفہ رکھا گیا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس اس صوفہ پر تشریف فرما ہو گئے۔ میں ڈر کے مارے اندر داخل نہیں ہوا اور دروازے سے ہی یہ سب منظر ملاحظہ کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک کتاب آسمان سے اتر کر آپ کے ہاتھوں میں آگئی۔ آپ نے اسے کھولا۔ اس کتاب میں کچھ احکام درج تھے جو آپ مدظلہ الاقدس سب کو پڑھ کر سنا رہے تھے۔ آپ نے وہاں کرسیوں پر بیٹھے ہر شخص کو چوبیس احکامات دیئے۔ میرا گمان تھا کہ ہر حکم ہر ایک گھنٹے کے لیے ہے۔

احکامات سنانے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا ’’کل اسی وقت سب دوبارہ آجائیں تاکہ اگلے دن کے احکامات بتا دیئے جائیں۔‘‘ پھر وہ کتاب دوبارہ آسمان کی جانب غائب ہو گئی۔ میں نے کسی شخص کو کہتے سنا کہ وہ لوحِ محفوظ تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی جگہ سے اٹھے، مکان سے باہر تشریف لے آئے اور میری طرف دیکھے بغیر واپس اسی جانب چل دئیے جس طرف سے داخل ہوئے تھے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ بالآخر آپ اسی دروازے پر پہنچ گئے جو مسجد ِزہراؓ (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں کھل رہا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس اس میں داخل ہو گئے۔ اس دروازہ سے داخل ہو کر آپ خانقاہ سلطان العاشقین (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) کی جانب روانہ ہو گئے۔ میں نے بہت کوشش کی آپ کے ساتھ ساتھ چلوں لیکن ایسا نہ کر سکا  یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا میرے پاؤں زمین نے جکڑ لیے ہوں۔ لیکن جیسے ہی آپ خانقاہ سلطان العاشقین (Khanqah Sultan ul Ashiqeen & Masjid-e-Zahra, Rangilpur Sharif) میں داخل ہوئے میرے لیے بھی چلنا آسان ہو گیا۔ میں بھاگتے ہوئے خانقاہ پہنچا تو دیکھا کہ آپ مدظلہ الاقدس اپنے کمرہ مبارک میں موجود ہیں جہاں کثیر تعداد میں مریدین آپ کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ مدظلہ الاقدس سب سے گفتگو فرما رہے تھے۔ میں نے آپ مدظلہ الاقدس کے ایک خدمتگار سے پوچھاکہ حضور ابھی کدھر سے تشریف لائے ہیں؟ تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ آپ مدظلہ الاقدس تو دوپہر سے اسی کمرہ مبارک میں موجود ہیں اور کہیں بھی تشریف نہیں لے گئے بلکہ مریدین سے ملاقات اور گفتگو فرما رہے ہیں۔ (راقم الحروف)

استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا
۲۔تفسیر درِمنثور
۳۔ فصوص الحکم
۴۔الخیر الدال
۵۔تفسیر روح البیان
۶۔تفسیر ابن ِکثیر
۷۔تفریح الخاطر فی مناقب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۸۔جامع کراماتِ اولیا
۹۔ احوالِ ابدال

 

2 تبصرے “اولیا کاملین کا تصرف اور اختیار | Auliya Kamlin ka Tasarruf or Ikhtiyar

  1. اللہ تعالیٰ نے اولیا کاملین کو کامل تصرف عطا کیا ہوتا ہے۔ یہ تصرف ظاہری دنیا کے ساتھ ساتھ باطنی دنیا پر بھی ہوتا ہے۔ انہی فقرا کی برکت سے اللہ مخلوق پر نوازشات فرماتا ہے۔ اولیا کاملین کے مرتبہ اور تصرف و اختیارات کے متعلق جاننے کے لیے مضمون کا تفصیلی مطالعہ کریں۔
    https://bit.ly/3Hw2xeJ
    #sultanulashiqeen #sultanbahoo #tehreekdawatefaqr #markazefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #faqr #sufi #sufism #Allah #auliya #akhrat #dunya #Quran #hadees #sunnah #sunnat #ilm #kamleen #auliya_allah_kamleen_ka_tasarruf_aur_ikhtiyar
    #auliyakamileenkatasarrufaurikhtiyar

اپنا تبصرہ بھیجیں