معلمِ حقیقی کا کردار اور اس کا مرتبہ و احترام
تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری۔ (سیالکوٹ)
اللہ ربّ العزت نے انسان کی تخلیق احسن تقویم میں فرمائی۔ مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ وبو میں خالق ِکائنات کی نیابت کا حقدار بھی ٹھہرا۔ اشرف المخلوقات، مسجودِ ملائکہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے متصف حضرتِ انسان نے یہ ساری عظمتیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں ورنہ عبادت و ریاضت اور اطاعت و فرمانبرداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے۔ ان کی تعریف اللہ کریم نے قرآنِ پاک میں یوں بیان فرمائی ہے ’’وہ اللہ کی کسی بات میں نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘ (التحریم۔6)
علم، عقل و شعور، فہم وادراک، تمیز، معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی بدولت انسان باقی مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ اور ممتاز قرار دیا گیا۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ حصولِ علم‘ درس و مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی ممکن ہوتا ہے جن میں مرکزی حیثیت استاد اور معلّم کی ہے۔ استاد کے بغیر صحت مند معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے۔ معلم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور، منبع و مرکز ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب، توانا، پُرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی کا مرہونِ منت ہے۔
اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابلِ قدرہستی، محترم ومعظم شخصیت اور مربی کی حیثیت عطا کی۔ معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم ِرنگ و بو میں معلّم اوّل خود ربّ ِکائنات ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ’’اور آدم ؑ کو اللہ کریم نے سب اسماء کا علم عطا کیا۔‘‘ (البقرہ۔31)
انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اس کی تعلیم کا بھی انتظام فرمایا ’’رحمن ہی نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا اس کو گویائی سکھائی۔‘‘ (الرحمن)
ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا ’’پڑھ اور تیرا ربّ بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ (العلق۔6)
معلّمِ کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرام کو معلّم و مربیّ بنا کر بھیجا۔ ہر نبی شریعت کا معلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھا جیسے حضرت آدمؑ دنیا میں زراعت و صنعت کے معلّم اوّل تھے، کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا، حضرت نوحؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علمِ مناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔ اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ہے اور معلم کو عظمت اور طالبعلم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے جس کا اندازہ خاتم الانبیا،محبوب ِ خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان الفاظ سے بخوبی ہو جاتا ہے ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (ابن ِ ماجہ۔229)
خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ (بخاری۔5027)
معلّم کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشارت حضرت ابوہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’غور سے سنو! دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال، عالم اور طالبعلم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)‘‘۔ (ترمذی۔ 2322)
جس طرح دنیاوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے اور اسے عوام الناس میں منتقل کرنے والی عظیم شخصیت کو معلم یا استاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسی طرح دین اور اس کی حقیقی روح، اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کروانے والی عظیم المرتبت شخصیت کو ’’مرشد‘‘ کہتے ہیں۔ دنیاوی علوم و فنون سے بہرہ ور کرنے والے استاد اور معلم کی شان، مرتبہ اور ادب و احترام کے بارے میں تو بے شمار کتب بھری پڑی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے سامنے حقیقی استاد یعنی ’مرشد‘ کے ادب، احترم اور مقام و مرتبے کی بات نہیں کی جاتی جو اُس ذاتِ کبریا کا علم عطا کرنے والا ہے جو تمام ظاہری و باطنی علوم کا منبع ہے اور ’علیم بذات الصدور‘ یعنی سینوں میں چھپے رازوں سے بھی واقف ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں ظاہری علم کے ماہر معلم کو اس قدر بلند رتبہ عطا فرمایا ہے تو دین کی حقیقت اور اللہ کی معرفت عطا کرنے والے عظیم معلم یعنی مرشد کا رتبہ کس قدر بلند ہو گا۔ مرشد درحقیقت کس کو کہتے ہیں؟ وہ کن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور کس طرح اپنے طالبوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے؟ مرشد سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے اور وہ کس مقام و مرتبہ کا حامل ہوتا ہے؟ مرشد رفیق کو کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو۔ ‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے:
’’مرشد اپنی قوم میں یوں ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ مرشد صاحبِ تصرف فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر ہوتا ہے۔ وہ دلوں کو زندہ کرنے والا، نفس کو مارنے والا ہوتا ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ مرشد کی نظر سورج کی طرح (فیض بخش) ہے جو بدخصائل کو (نیک عادات سے) تبدیل کر دیتی ہے۔ (عین الفقر)
ایک مرشد کامل کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
٭ مرشد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح صاحبِ خُلق ہوتا ہے۔ ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان، اللہ کی راہ میں ہدایت دینے والا بہترین راہنما، (معرفتِ الٰہی کا) خزانہ عطا کرنے والا، جیسے کہ بیش قیمت لعل اور ہیروں کی کان، کرم کی موج جیسے موتیوں کا دریا، ہر منزل کا ایسا مشکل کشا جیسے کہ ہر تالے کو کھولنے والی چابی۔
یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جس طرح ہر طالب ِ علم معلم کے علم سے یکساں فیض یاب نہیں ہو پاتا بلکہ جس میں جتنی طلب ہو وہ اتنا ہی فیض پاتا ہے۔ اسی طرح راہِ فقر و تصوف میں بھی مرشد کا ہر طالب یکساں فیض یاب نہیں ہوتا۔ جو طالب اپنی طلبِ مولیٰ میں جس قدر کھرا ہو گا اسی قدر مرشد معرفتِ الٰہی کے اسرار و رموز طالب پر عیاں کرتا جائے گا۔
مرشد کامل کا اندازِ تربیت
اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اور پیروی کرو اس شخص کے راستہ کی جو مائل ہوا میری طرف‘‘۔ (سورۃ لقمان۔15)
بلاشبہ وہ شخص مرشد کامل اکمل ہے جو طالبِ مولیٰ کی تربیت بالکل اسی طریقے سے کرتا ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اندازِ تربیت قرآنِ پاک میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
ترجمہ: میرا محبوب ان کو آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ (سورۃ الجمعہ۔2)
مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں تین باتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے :
۱۔آیات پڑھ کر سنانا
۲۔تزکیہ نفس کرنا
۳۔کتاب و حکمت کی تعلیم دینا
ان تینوں باتوں کو سمجھنے کے لیے موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ لطیف ’’تزکیہ نفس کا نبویؐ طریق‘‘ کی مدد حاصل کریں گے۔ اس کتاب میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحابؓ کی تربیت ان تین نکات کے پیشِ نظر فرمائی۔ پہلے نکتے میں آیات پڑھ کر سنانے سے مراد قرآنِ مجید کی آیات کی تلاوت، ان کی وجہ نزول اور وضاحت ہے۔ دوسرا نکتہ تزکیہ نفس ہے یعنی نفسِ امارہ کو اپنی نگاہِ کامل اور صحبت سے پاک کر کے نفسِ مطمئنہ کے درجہ پر پہنچانا ہے۔ تیسرے نکتہ میں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب پہلے قرآن کی آیات کا ذکر ہو چکا تو دوبارہ کتاب کی تعلیم کا ذکر کرنے کا کیا جواز ہے۔ دراصل اس سے مراد وہ باطنی علوم اور حکمت ہے جو اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کیے اور باطنی علم اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کا علم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے دل سے طالب کے دل میں اُتارتے تھے۔ ایک ظاہری علم کے استاد یا معلّم کے پاس بیٹھ کر ہم صَرف و نحو سیکھ سکتے ہیں، اس کی زندگی کے تجربات پر مبنی تلخ و شریں باتوں سے سبق تو حاصل کر سکتے ہیں، حکمت و دانائی کے موتی تو اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں لیکن ایک چیز جو ظاہری علوم و فنون کے ماہر اساتذہ سے حاصل نہیں ہوسکتی وہ ہے ’’ تزکیہ ٔ نفس‘‘۔
تزکیۂ نفس وہ خاص تربیت ہے جو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی نگاہ ِ کاملہ اور صحبت سے اپنے اصحاب کی فرمائی۔ اِسی خاص تربیت کی بنا پر صحابہ کرام ؓ کے دلوں سے دنیا کی محبت اور نفس کی خواہشات کے بتوں کو توڑا۔ یہ سلسلہ آج بھی اُسی طرح جاری و ساری ہے۔ ہر مرشد کامل اکمل اپنے دور کے طالبانِ مولیٰ کی تربیت اِسی طریقہ کار کے مطابق کرتا ہے۔ اُن کے دلوں سے دنیا کی محبت، نفس کی خواہشات اور خناس و خرطوم نکالنے کے لیے طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارتا ہے۔ جو اپنی طلب میں کھر ا ہو وہ ان تمام تر مشکلات اور آزمائشوں سے انتہائی کامیابی و کامرانی سے گزر کر معرفتِ الٰہی اورمجلسِ محمدیؐ جیسے عظیم الشان باطنی مراتب حاصل کرتا ہے اور جو ناقص ہوتا ہے وہ رجعت کھا کر اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے اور ملعون و مردود ہوجاتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے کمال خوبصورتی سے مرشد کامل اکمل کی تربیت اور طالبِ مولیٰ کی خاصیت بیان کی ہے:
گِل را چہ مجال است کہ گوید بکلال
از بہر چہ سازی و چرا می شکنی
ترجمہ: ’’مٹی کی کیا مجال کہ وہ کمہار کو کہے کہ وہ اسے کیوں بناتا ہے اور کیوں توڑتا ہے۔‘‘
اس فرمان میں طالب ِ مولیٰ کو مٹی سے تشبیہ دینے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک طالب ِ مولیٰ میں انتہا درجے کی عاجزی ہونی چاہیے اور مرشد کو کمہار کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ایک کامل مرشد طالبِ مولیٰ کے تمام خصائل ِ بد، خُوبو، انا، غرور و تکبر، خناس اوردیگر تمام باطنی بیماریاں ختم کر کے ایک نیا انسان تشکیل دیتا ہے جوعارفِ اللہ، محبوبِ خدا اور محبوبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتا ہے۔ تو پھر ایسے استاد کا احترام ہم پر کیوں نہ واجب ہو جو ایک دنیادار، بدکردار اور شقی انسان کو اپنی نگاہِ کامل سے پاک کر کے بارگاہِ ربوبیت میں منظور و مقبول بنا دے۔
آدابِ مرشد
جب بطور معلّم دنیا کے بہترین معلّم یعنی سرورِ کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر ہو تو طالبوں کی بھی بہترین مثال صحابہ کرام ؓ کا ذکر ضروری ہے۔ آدابِ مُرشد کیا ہیں ؟اس کا جواب صحابہ کرام کی زندگیوں سے بہترین اور کیا ہو سکتا ہے۔ خلفائے راشدین اور حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابی بن کعب، حضرت مصعب بن عمیر اور سینکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے ادب و احترام کی جیتی جاگتی تصویر بنے بیٹھے رہتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کلام فرماتے تو مکمل انہماک اور توجہ سے سنتے۔ مجلس میں یوں ساکت بیٹھتے تھے کہ اکثر پرندے صحابہ کرام ؓ کے سروں پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنی آواز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آواز سے نیچی رکھتے تھے۔ اِسی مجلسِ محمدیؐ نے اپنی بہترین تربیت اور کردار سازی سے ایسے ایسے طالبِ مولیٰ پیدا کئے جنہوں نے پانی پر گھوڑے دوڑا دیے، دریاؤں کو خط لکھے، جنگلوں کے جانوروں سے کلام کیے، اللہ کی زمین پر عدل و انصاف قائم کیا اور تقریباً ساری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ اِس قدر شان و عظمت کے باوجود ان طالبانِ مولیٰ میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا قول ہے ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔‘‘
استاد کا دلی احترام
صحابہ کرام ؓ کی بہترین مثال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلاشبہ علم عاجزی اور انکساری کو پسند کرتا ہے۔ اس کا مقام وہ دل ہرگز نہیں ہو سکتا جس میں تکبر اور غرور ہو۔ پس طالب ِعلم پر فرض ہے کہ علم کی قدر پہچانے اور اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے۔ اپنے استاد سے تکبر و غرور سے پیش نہ آئے بلکہ ادب و احترام ملحوظِ خاطر رکھے۔ اگر کوئی سوال بھی کرنا ہو بلکہ اس سے بحث و مباحثہ بھی درکار ہو تو بھی عزت و احترام کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ورنہ وہ علم کی نعمت سے محروم رہے گا۔
مشہور مقولہ ہے:
باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب
۔۔۔۔
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا ربّ
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا ربّ
جو لوگ استاد کا احترام نہیں کرتے وہ زندگی کے کسی موڑ پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ استاد تمہارا روحانی والد ہے۔ اس کا احترام کرو گے تو زندگی میں کامیابی حاصل ہو گی۔ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے استاد کو راضی کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا جس بدبخت سے اس کا استاد ناراض ہو گیا اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گیا۔
جب ایک دنیاوی تعلیم دینے والے استاد کا اتنا رتبہ ہے تو مرشد کامل کے رتبے کی کیاشان اور مقام ہو گا جو علم و معرفتِ الٰہی کے ساتھ ساتھ قرب و دیدار بھی عطا کرتا ہے، دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوارتا ہے، طالب کے باطن کا تزکیہ کر کے اسے بارگاہِ الٰہی میں کامیاب کراتا ہے۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اس امتحان میں کامیابی دنیاوی تعلیم سے نہیں بلکہ باطنی تعلیم سے ہی ممکن ہے جس کا استاد مرشد کامل ہے۔ جس طرح اللہ کی معرفت و دیدار کے علم کو فانی دنیاوی علم پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل کا حق دنیاوی استاد سے کہیں بڑھ کر ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
٭ جان لے کہ طالب پر پانچ قسم کے حقوق واجب ہیں والدین کا، استاد کا، بزرگوں کا، مرشد کا اور بیوی کا۔ ان سب حقوق میں سے غالب و فائق تر حق مرشد کا ہے کیونکہ مرشد سے طالب کو معرفتِ الٰہیہ نصیب ہوتی ہے، اس کی نظر حق سے جاملتی ہے اور وہ روشن ضمیر ہو کر علمِ تفسیر کا عالم بنتا ہے جس سے ہر حقدار اس سے راضی ہو کر اسے دعا دیتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
استفادہ کتب:
تزکیہ ٔ نفس کا نبویؐ طریق: تصنیف ِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
معلمِ اخلاقؐ: تصنیف حافظ ثنااللہ ضیاء
آنحضورؐکی تعلیمی جدو جہد :تصنیف پروفیسر رب نواز