امیر الکونین
قسط نمبر23
شرح حاجی الحرمین شریفین
بعض حاجی اہلِ حرم اور بعض حاجی اہلِ کرم ہوتے ہیں۔ جو کوئی صدق، اعتقاد اور خالص وجود کے ساتھ سے حرمِ کعبتہ اللہ میں داخل ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے تو تمام حرم اور خانہ کعبہ کی دیواریں اس پر انوار کی بارش کرتی ہیں اور حاجی ان انوار میں اللہ کے قرب، مشاہدہ اور دیدار سے مشرف ہوتا ہے اور حاجی اہلِ کرم کو مکمل طور پر خانہ کعبہ پر یقین و اعتبار ہوتا ہے (کہ یہ اللہ کا گھر ہے)۔ جو فقیر ان مراتب کا حامل ہو وہی خانہ کعبہ کے حج اور طواف کے لائق ہوتا ہے۔ اور جب حاجی حرمِ مدینہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ میں داخل ہوتا ہے تو حرمِ مدینہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روضہ کے تمام در و دیوار حاجی پر نور برساتے ہیں اور حاجی سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے۔ ایسا حاجی اہلِ کرم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری کا حامل ہوتا ہے اور یقین و اعتبار سے اس (مجلس) کا دیدار کرتا ہے۔ اور جب حاجی میدانِ عرفات میں پہاڑ پر خطبہ سنتا ہے اور دست بستہ کھڑا ہو کر دعا کرتا ہے:
٭ لَبَّیْکَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ط وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ
ترجمہ: اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں تو واحد ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔
تب تمام میدانِ عرفات اور پہاڑ گویا نور بن جاتے ہیں اور حاجی کو انوار سے مشرف کر کے اللہ کا قرب عطا کرتے ہیں۔ اس مرتبہ میں نقص نہ نکال اور نہ حیران ہوکیونکہ یہ حق کی جانب سے ہے اور برحق ہے۔ ابیات:
ہر دمی من حاجیم از کرم
کعبہ را در دل بہ بینم نیست غم
ترجمہ: اللہ کی مہربانی سے میں ہر دم حج کرتا ہوں کیونکہ میں اپنے دل میں کعبہ کو دیکھتا ہوں۔ اس لیے مجھے کوئی غم و فکر نہیں۔
ہم صحبتم بامصطفیؐ با ہر دوام
ظاہر و باطن یکے گردد تمام
ترجمہ: میرا ظاہر و باطن ایک ہو چکا ہے اس لیے میں ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم مجلس رہتا ہوں۔
مرشد کامل جس طالب مرید کا نام لے کر اسے یاد کرتا ہے اسے اپنی نظر و توجہ (کی تاثیر) سے معرفت و معراج سے نوازتے ہوئے اللہ کا قرب، مشاہدہ اور دیدار عطا کرتا ہے اور اسی وقت اللہ کے حضور پہنچا دیتا ہے جس سے طالب ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور رہتا ہے۔ مرشد کے لیے لازم ہے کہ طالب کو حضور ی کے ان مراتب تک ضرور پہنچائے۔ مرشد کامل جس طالب و مرید کی طرف توجہ کرتا ہے تو اپنی نگاہ سے کیمیا اکسیر کا ہنر اور دعوتِ کیمیا تکثیر کے تمام خزانوں پر تصرف عطا کرتا ہے اور زمین میں چھپے سونا و چاندی کے تمام خزائن ِ الٰہی طالب کو عطا کر دیتا ہے۔ بیت:
باھوؒ کاملان را در عمل ہر کیمیا
از خود دہند یا میدہانند از خدا
ترجمہ: باھُوؒ کاملین کے عمل میں ہر طرح کا کیمیا اکسیر ہوتا ہے وہ اپنے طالبوں کو خود عطا کرتے ہیں یا اللہ سے عطا کرواتے ہیں۔
کامل مرشد جس طالب مرید کو یاد کرتا ہے اسے ولی اللہ کے مرتبہ پر فائز کر دیتا ہے اور اس کا مرتبہ (دنیاوی) بادشاہ سے بھی فائق تر کر دیتا ہے کیونکہ اللہ کے فقیر کی نگاہ میں دنیاوی بادشاہ سائل، عاجز، مفلس اور گدا ہوتے ہیں۔ مرشد کامل جس طالب کو تصور اسمِ اللہ ذات بخشتا ہے اسے چشمِ عیاں عطا ہوتی ہے اور ملکِ سلیمانی ؑکی بادشاہی اس طالب کے قید و قبضہ میں آ جاتی ہے۔ مرشد کامل اپنے طالب مرید کو ہر عمل اور کیمیا میں کامل کرتا ہے اور اسے غنایت و سنگ ِ پارس سے ایسا تصرف عطا کرتا ہے کہ بادشاہ اس کی خدمت میں حلقہ بگوش اور جاں فدا غلام کی مثل حاضر ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کے تمام ماہ و سال وہیں گزارتا ہے۔ ابیات:
من غنی ام بادشاہ ہم باخدا
بادشاہ در نظر من مفلس گدا
ترجمہ: میں خدا کے ساتھ وصال کی بدولت غنی بادشاہ ہوں اور یہ دنیاوی بادشاہ میری نظر میں مفلس اور گدا ہیں۔
احتیاجے نیست ما را سیم و زر
غالبم باموسیٰؑ غالب بر خضرؑ
ترجمہ: مجھے کسی مال و دولت کی ضرورت نہیں بلکہ میں موسیٰ ؑ اور خضر ؑ سے بھی زیادہ روحانی طور پر طاقتور ہوں۔
ہر تصرف از تصور بردہ ایم
کونین را در حکم خود آوردہ ایم
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات کے تصور سے ہی میں نے ہر شے پر تصرف حاصل کیا ہے اور دونوں جہان میرے حکم کے ما تحت آ گئے ہیں۔
سنگ پارس در نظر من بیشمار
صد زبانم ہمچو تیغے ذوالفقار
ترجمہ: میری نظر بے شمار سنگ ِ پارس سے بھی طاقتور ہے اور میری زبان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلوار ’’ذوالفقار‘‘ سے سو گنا زیادہ تیز ہے۔
حوصلہ باید وسیع طالب بود
طالب کم حوصلہ دشمن شود
ترجمہ: طالبِ مولیٰ بننے کے لیے حوصلہ بلند ہونا چاہیے کیونکہ کم حوصلہ طالب (مرشد کے) دشمن ثابت ہوتے ہیں۔
عاقلان را محرمیت سر عطا است
احمقانرا محرمیت سر خطا است
ترجمہ: عقلمندوں کو اللہ کے اسرار سے واقف بنانا عطا ہے جبکہ احمقوں کو اسرار سے آگاہی عطا کرنا سراسر خطا ہے۔
کس نیابم طالبے توفیق تر
کم حوصلہ لائق نباشد سیم و زر
ترجمہ: میں کوئی بھی ایسا طالب نہیں پا سکا جو توفیقِ الٰہی کا اہل ہو۔ کم حوصلہ طالب اس دولت کے اہل نہیں ہوتے۔
کس نیابم طالبے حق حق طلب
میرسانم باحضوری راز ربّ
ترجمہ: میں کوئی بھی طالبِ حق نہیں پاسکا جو (مجھ سے) حق طلب کرے اور میں اسے رازِ ربّ عطا کرتے ہوئے حضورِ حق میں پہنچا دوں۔
نفس و قلب و روح را بگذار تو
تا بیابے معرفت دیدار او
ترجمہ: تو اپنے نفس، قلب اور روح کو چھوڑ دے تاکہ تو حق تعالیٰ کی معرفت اور دیدار حاصل کر سکے۔
آنچہ می بیند ولی باشد چو بود
جثہ شد نور وحدت میربود
ترجمہ: جو حق تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے وہ اس کا دوست بن جاتا ہے اور اس کا وجود نور بن جاتا ہے اور وہ وحدت حاصل کر لیتا ہے۔
این مراتب روز اوّل اولیا
روز اوّل اولیا را شد لقا
ترجمہ: یہ مراتب اولیا کو روزِ اوّل ہی حاصل ہو جاتے ہیں اور روزِ اوّل ہی انہیں اللہ کا قرب اور دیدار حاصل ہو جاتا ہے۔
تمام اولیا کے مراتب کو جمع کر لیا جائے تو وہ فقیر کے مرتبہ کے برابر ہیں اس حقیقت کو نفس کے اسیر اور احمق کیا جانیں۔ ابیات:
آنچہ می یابم بیابم از خدا
آنچہ می بہ بینم از لقا
ترجمہ: میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اللہ سے حاصل کیا ہے اس لیے جدھر بھی دیکھتا ہوں اللہ کو ہی دیکھتا ہوں۔
درمیانش کس نہ گنجد ہیچ کس
عاشقان را بس بود اللہ بس
ترجمہ: اللہ اور اس کے عاشقوں کے درمیان کوئی نہیں آ سکتا کیونکہ عاشقوں کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے۔
جبرائیلش در نگجد این مقام
این شرف امت محمدؐ والسلام
ترجمہ: جبرائیل ؑ کی رسائی بھی اس مقام تک نہیں ہے کیونکہ یہ شرف صرف امت ِ محمدیہ کو حاصل ہے۔
ہر کتابے را جوابے حق طلب
ہر کہ حق از حق نہ بیند از کلب
ترجمہ: (دین کی) ہر کتاب یہی کہتی ہے کہ حق طلب کرو اور جو کوئی حق سے حق طلب نہیں کرتا وہ کتے کی مانند ہے۔
از مطالعہ علم طالع باقضا
علم ِ ذکر و فکر باز دارد از خدا
ترجمہ: علمِ حق کے مطالعہ سے طالب (اللہ کے دیدار کے باعث) خوش قسمت بن جاتا ہے جبکہ علمِ ذکر و فکر حق سے دور رکھتے ہیں۔
شد مطالعہ معرفت توفیق تر
خوش بہ بین دیدار عارف بانظر
ترجمہ: مطالعہ ٔ معرفت سے طالبِ مولیٰ توفیقِ الٰہی کا اہل بنتا ہے اور عارف بن کر اپنی نظرِ عیاں سے واضح طور پر حق کا دیدار کرتا ہے۔
ہم ناظرم ہم حاضرم حق راہنما
طالبان را می برم وحدت لقا
ترجمہ: میں اللہ کی حضوری میں رہنے والا اور اس کا دیدار کرنے والا ہوں اور طالبانِ مولیٰ کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہوں اور انہیں وحدت میں لے جا کر قرب و دیدار عطا کرتا ہوں۔
چون درآیم لامکان بالا مکان
کونین پرپشہ بود بین باعیان
ترجمہ: جب میں دنیا سے نکل کر لامکان میں پہنچا تو دونوں جہان عیاں دکھائی دئیے جو مچھر کے پر کی مانند ہیں۔
لامکان ملک است ملک لازوال
نہ مطالعہ علم نی شد قیل و قال
ترجمہ: لامکان وہ جگہ ہے جسے زوال نہیں اور جہاں نہ مطالعہ ٔ علم ہے اور نہ زبانی گفتگو۔
نیست آب و باد آتش خاک را
ہر طرف کردم نظر بینم لقا
ترجمہ: وہاں نہ پانی ہے نہ ہوا اور نہ آگ اور مٹی۔ اس مقام پر میں نے جس طرح بھی نظر کی حق کا دیدار ہی کیا۔
این شرف امت محمدؐ باشرف
ہر علم را کرد حاصل از حرف
ترجمہ: یہ شرف صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کو ہی حاصل ہے کہ وہ ہر علم کو صرف ایک حرف یعنی اسمِ اللہ ذات سے حاصل کر سکتے ہیں۔
آن مقامے نور پاک و پاک تر
سیاح توحید است شد عارف خضر
ترجمہ: وہ مقامِ نور پاک ہے جو ہر شے سے پاک تر ہے۔ اس کی طرف سفر کرنے والا اور راہنما عارف ہی ہے جو عین توحید ہو جاتا ہے۔
نہ علم نہ صوت نہ حرف نہ آواز
عین برسد عین باشد عین راز
ترجمہ: اس مقام پر نہ کوئی علم ہے نہ شور اور نہ کوئی حرف و آواز۔ جو اس جگہ پہنچتا ہے وہ عین حقیقت کا راز جان کر عین بن جاتا ہے۔
عین را باعین دیدن شد روا
علم خواند عین علم بالقا
ترجمہ: اس جہان میں عین ذات کو آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے۔ اس راز کو سمجھنے کے لیے حق تعالیٰ کے لقا کا علم حاصل کر۔
بر باھوؒ شد غالب بدیدار ختم
نیست باھوؒ یاھُو در جان تنم
ترجمہ: باھُوؒ پر دیدار غالب آگیا ہے جس کے بعد باھُوؒ کا اپنا وجود فنا ہو گیا ہے اور اس کے وجود اور روح میں یاھُو ہی باقی رہ گیا ہے۔
مراتب ِ فقر اور مراتب ِ ترک و توکل اور مراتب ِ مست الست صرف کامل طریقہ قادری میں ہیں اس کے علاوہ کوئی طریقہ اگر ان مراتب کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور شیخی خور ہے۔ سب سے پہلے آدمی کو چشمِ شناسائی حاصل کرنی چاہیے۔ جو کوئی ظاہر و باطن میں عقل و شعور رکھتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ چشمِ بینائی اور علم ِ دانش و دانائی حاصل کرے اور جہالت و رسوائی کو ترک کر دے۔ اس کے بعد طالب مرشد وپیر تلاش کرے اور علم، تصرف، خزانے اور جمعیت حاصل کرے اور معرفت و فقر کی راہ پر قدم رکھے۔ ایسے آباد باطن پر مبارکباد۔ طالب مرشد کے مقام کو نہیں پہچانتا جبکہ مرشد طالب اور اس کی طلب کو اس طرح پہچانتا ہے جس طرح قسمت‘ خوش قسمت کو پہچانتی ہے۔
٭ طَلْبُ الرِّزْقِ اَشَدُّ مِنْ طَلْبِ اَجَلِہٖ
ترجمہ: رزق انسان کو اس کی موت سے زیادہ شدت سے تلاش کرتا ہے۔
جس طرح بندہ خدا کو پہچانتا ہے اسی طرح معشوق عاشق کو پہچانتا ہے اور عاشق معشوق کو‘ اور جس طرح عالم علم کو پہچانتا ہے اور پیر مرید کو پہچانتا ہے اسی طرح باپ بیٹے کو اور استاد شاگرد کو پہچانتا ہے اور غلام اپنے آقا کو ایسے پہچانتا ہے جیسے گھوڑا اپنے سوار کو پہچانتا ہے۔ بیت
چشم ظاہر نہ چشم ز دل نگر
چشم ظاہر داشتند ہم گائو خر
ترجمہ: اگر تو حق کو پہچاننا چاہتا ہے تو چشم ِ ظاہر سے نہیں بلکہ چشم ِ دل سے دیکھ کیونکہ چشم ِ ظاہر تو حیوان بھی رکھتے ہیں۔
شرح فقیر
مرشد کامل کے لیے اپنی دونوں آنکھوں سے کونین کا تماشا دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے شیشہ عینک آنکھ کی پتلی پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ ظاہری آنکھ سے دیکھنے کے مراتب ہیں کہ فقیر کی ظاہری آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں وہی اس کی باطنی چشمِ عیاں سے منعکس ہوتا ہے اور وہ چشمِ عیاں سے مشاہدہ و دیدار کر کے معرفت و معراج حاصل کرتا ہے اور اپنے مریدین پر بھی دیدار کی راہ کھولتا ہے۔ مرتد و مردود عارف بہت سے ہیں (کہ معرفت سے متعلق ان کا علم غلط ہے) اور وہ اللہ کے دیدار کے سوا ہر شے دیکھتے ہیں۔ ابیات:
این معرفت مردود عارف بے حیا
آن معرفت فی اللہ می بیند لقا
ترجمہ: یہ مردود اور بے حیا برائے نام عارف ہرگز معرفت نہیں رکھتے کیونکہ اللہ کی معرفت اس کے دیدار اور قرب سے حاصل ہوتی ہے۔
در معرفت عارف بود عیسیٰؑ صفت
مردہ را زندہ کند بامعرفت
ترجمہ: عارف اللہ کی معرفت حاصل کر کے عیسیٰ علیہ السلام کی صفت کا حامل ہو جاتا ہے اور معرفتِ الٰہی سے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔
معرفت معراج عارف باحضور
کے بود این عارفان اہل از غرور
ترجمہ: عارف کو معرفت معراج عطا کرتے ہوئے حضورِ حق میں لے جاتی ہے۔ یہ مغرور لوگ عارف کیسے ہو سکتے ہیں؟
عارف دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارف جو فقیر اور اولیا ہیں دوسرے جو خواہشاتِ نفس کے باعث روحانی سیر میں مشغول رہتے ہیں۔ جو عارف اپنی طاقتور روح کی بدولت لامکان تک پہنچ گیا ہو اس کے لیے زندگی و موت کے مراتب ایک ہی ہیں۔ موت کے مراتب حاصل کرنے کے بعد وہ ظاہر میں مخلوق سے علیحدہ اور لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن زندہ لوگوں پر غالب ہوتے ہیں اگرچہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ زیر ِ خاک قبر میں ہیں لیکن قبر میں بھی وہ اللہ کے قرب میں ہوتے ہیں اور ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ان کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں۔ فقیر اولیا اللہ جس طرح اپنی زندگی میں طالب مرید کو باطنی علم کی تعلیم اور معرفت کی تلقین کرتے ہیں ظاہری موت کے بعد اپنے طالبوں کو اس سے دگنا نوازتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حیات میں (نفسانی طور پر) مر چکے ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد حیاتِ ابدی پا لیتے ہیں بلکہ تصور اسمِ اللہ ذات سے زندگی و موت دونوں سے نجات حاصل کر لیتے ہیں اور نورِ توحید میں غرق ہو کر فنا فی اللہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ابیات:
و ز قبر جثہ برد بیرون باخدا
در قبر ہرگز نباشد اولیا
ترجمہ: اولیا اپنی قبروں میں ہرگز مقید نہیں رہتے بلکہ وہ تو اپنے وجود کو بھی قبر سے باہر نکال کر اللہ کے قرب میں لے جاتے ہیں۔
باحضوری مصطفیؐ مجلس دوام
بر قبر حاضر شود گفتن بنام
ترجمہ: یہ اولیا ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری میں موجود رہتے ہیں لیکن جب کوئی قبر پر ان کا نام لے کر ان کو پکارتا ہے تو فوراً حاضر ہو جاتے ہیں۔
ہر مطالب طلب کن اہل از قبور
پیش کامل باجواب و باحضور
ترجمہ: ان اولیا اللہ فقرا کی قبروں سے اپنا ہر مطلوب و مقصود حاصل کر۔ ان کامل ہستیوں کے سامنے حاضر ہو کر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کر۔
بعضی قبر گمنام و بے نام و نشان
جثہ را باخود برند در لامکان
ترجمہ: بعض فقرا کی قبریں گمنام و نشان ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے وجود کو خود لامکان میں لے جاتے ہیں۔
از مطالعہ لوح نامی یافتن
حاضر کند باخود رفیقی ساختن
ترجمہ: لوحِ محفوظ کے مطالعہ سے ان (فقرا) کے نام جانے جا سکتے ہیں اور طالب خود کو ان کا رفیق بنانے کے لیے ان کے پاس حاضر ہو سکتا ہے۔
عارف و فقیر اولیا صاحبِ منصب ہوتے ہیں جو درویش ولی اللہ کہلاتے ہیں۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے احوال کی حقیقت جانتے ہیں اور دونوں جہانوں میں موجود اللہ کے خزانوں پر تصرف رکھتے ہیں اور ان سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہوتا۔ جو دعویٰ کرتا ہے وہ جانتا نہیں اور جو جانتا ہے وہ بولتا نہیں (بلکہ خاموش رہتا ہے)۔ کامل صاحب ِ اختیار ہوتا ہے چاہے اقرار کرے یا نہ کرے۔ میرا یہ قول میرے حال کے مطابق ہے۔ (جاری ہے)