علم | Ilm


Rate this post

علم

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

دنیا میں تمام علوم، فلسفہ اور سائنس کی بنیاد عقل وخرد پر ہے اور یہ سب عقل کی بنیاد پر ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام علوم کثرت کے دائرہ میں آتے ہیں اور انسانی عقل بھی صرف کثرت میں رہ کرہی کام کرسکتی ہے۔ اسکے برعکس مالکِ کل کثرت سے مبرّا ہے، وہ وحدت، احد کی صورت ہے لہٰذا اس سے متعلقہ علم یا روحانیت کی بھی وہی صورت ہے۔ کثرت کی دنیا میں محیط انسانی علم اور عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی۔
ہم عارفین کی تعلیمات کو اصولی طور پر ایک حد تک ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ مشاہدات ِحق پر مبنی یہ علمِ حق مکمل طور پر ہماری عقل کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ عام طور پر جب بھی ہم عقل کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں ہماری تنگ نظری کو زیادہ دخل حاصل ہوتا ہے کیونکہ عقل کا دائرہ تنگ اور مشاہدہ حق کا دائرہ بے حد وسیع بلکہ لامحدود ہے۔ اس تنگ نظری کا نتیجہ ہمارے سامنے یوں آتا ہے کہ مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں یہ علم پیٹ کا دھندہ بن جاتا ہے اور اللہ کی مخلوق میں نفرت پیدا کر کے جھگڑے اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ دلیل‘ بحث ومباحثہ سے اپنے فرقہ کو دوسرے کے فرقہ سے برتر ثابت کیا جاتا ہے اور یوں لوگ اپنے مذہب سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہ علم انفرادی سطح پر بھی کبھی کبھی حق کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کے اندر چھپی ہوئی انانیت کو ابھارتا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور پھر یہ بندے اور اللہ کے درمیان بہت بڑے حجاب کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
علم کی بے شمار اور لاتعداد اقسام ہیں لیکن بہترین علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے فانی ہے اور فانی کا علم فانی ہے اور باقی کا علم حیاتِ جاودانی ہے اس لیے جو علم باقی کی پہچان اور معرفت نہ کرائے وہ جہالت ہے اور جو علم باقی تک لے جائے وہی علمِ حقیقی ہے۔
عارفین نے اپنی کتب میں ہمیشہ علم کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کی تعلیمات میں جہاں کہیں بھی علم کی مذمت نظر آتی ہے وہاں علمِ  بے مغز مراد ہے۔ علم ایک نور ہے اور علم عقل کے اوپر پڑا ہوا ایک پردہ بھی ہے۔ وہ علم جو حقیقت تک پہنچا دے وہ نور ہے اور جو حقیقت سے دور کر دے وہ علم عقل پر پردہ بن جاتا ہے۔

علمِ حصولی

علمِ حصولی سے مراد وہ علم ہے جو عقل کے دائرہ کار میں رہ کر حاصل کیا جاتا ہے یعنی وہ تمام علوم جو ہم دیکھنے، سننے، سمجھنے اور سونگھنے یعنی حواسِ خمسہ سے حاصل کرتے ہیں یا وہ علم جو کسی مدرسہ، کالج، یونیورسٹی سے یاکتب پڑھ کر یا تحقیق کرکے حاصل کرتے ہیں۔

علمِ  حضوری یا علمِ لد نی

علمِ حضوری یا علمِ  لدنیّ سے مراد وہ علم ہے جو عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ نگاہ کا وہ علم ہے جو مرشد توجہ سے طالب کے قلب پر وارد کرتا ہے۔ علمِ حضوری یا علم ِ لدنیّ ذکر، فکر، تفکر، تدبرّ، مراقبہ، الہام، کشف اور وَھم کسی بھی ذریعے سے عطا کیا جاسکتا ہے۔ اس علم میں کتب اور پڑھنے پڑھانے کا دخل نہیں ہے۔ بس قلب میں اللہ تعالیٰ کا نور چمکتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے اسرار کھول دیتا ہے۔ اس علم کے حصول کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ مرشد کامل سروری قادری اور ذکر و تصورِ اسمِ  اللہ ذات ہے ۔
علمِ  حصولی وہ علم ہے جو انسان کو بذریعہ امورِ خارجی حاصل ہو جیسے کہ اپنے غیر کا علم۔ اور علمِ حضوری وہ علم ہے جو بلا ذریعہ ٔخارجی حاصل ہو جیسے کہ انسان کا اپنی ذات و صفات کا علم۔
عارفین کے نزدیک ’علم‘ سے مراد علمِ  حقیقت یا علمِ  لدنیّ ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔(سورہ علق)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ (انسان) پہلے نہ جانتا تھا۔
سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (الکہف65) ترجمہ: اور ہم نے اُسے علمِ لدنیّ (علمِ اسرار یا علمِ حقیقت) عطا کیا۔
امام احمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ قرآنِ پاک میں اس آیت ِمبارکہ کے حواشی میں مولانا نعیم الدین تحریر فرماتے ہیں:
 ’’مفسرین و محدثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لیے خاص فرمایا وہ علمِ باطن و علمِ  مکاشفہ ہے اوریہ اہلِ کمال کے لیے باعثِ فضل ہے…… اِن کی فضیلت اس چیز سے ہے جو اِن کے سینہ میں ہے یعنی علمِ باطن و علمِ اسرار، کیونکہ جو افعال صادر ہوں گے وہ ’’حکمت‘‘ سے ہوں گے اگرچہ بظاہر خلاف معلوم ہوں‘‘۔
بیان القرآن میں مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا: ’’ اس خاص علم سے مراد علم ِاسرارِ کونیہ ہے۔‘‘
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایک حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی طرح علم ِ ظاہر کا نمائندہ ہوتا ہے جو کلیم اللہ تو ہوتا ہے مگر اُس کی نظر گناہ پر رہتی ہے۔ دوسرا حضرت خضر علیہ السلام کی طرح علمِ باطن کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی نگاہِ باطن صحیح راہ پر ہوتی ہے۔ جو آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام جیسا علم نہیں رکھتا وہ معرفتِ الٰہی تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اَدَّ بٰنِیْ مَاْ اَدَّ بٰنِیْ رَبِّی” مجھے جوکچھ بھی سکھایا میرے ربّ نے سکھایا۔‘‘ (عین الفقر)
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علم کے دو تھیلے حاصل کیے یعنی دو قسم کا علم حاصل کیا۔ ایک کو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا اگر میں دوسرے علم کو پھیلاؤ ں تو میرا یہ نرخرہ کاٹ دیا جائے‘‘۔ (بخاری شریف کتاب العلم)
 امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم (جلد4) میں اور شیخ محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ نے فتوحاتِ مکیہ جلد سوم میں امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ایک فرمان در ج کیا ہے: 
یا رب جوھر علم لو ابوح بہ
لقیل لی انت ممن یعبد الوثنا
ولا ستحل رجال مسلمون دمی
برون اقبح ما یاتونہ حسنا

ترجمہ: علم کے بہت سے جواہر اور راز ایسے ہیں جن کو اگر میں ظاہر کر دوں تو اے میرے ربّ! لوگ کہیں گے تم بت پرست ہو اور مسلمان میرے خون کو حلال سمجھیں گے اور میرا خون بہانے کے قبیح امر کو نیک خیال کریں گے۔

 پیرانِ پیر غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ’’سرالاسرار‘‘ میں علوم کی اقسام اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’نبی اور ولی (مرشد) میں فرق یہ ہے کہ نبی کو عوام و خواص دونوں کی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بالذات ہوتا ہے۔ جب کہ ولی مرشد کو فقط خواص کی تر بیت کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بالذات نہیں ہو تا بلکہ اپنے نبی علیہ السلام کے تابع ہوتا ہے۔ اگر وہ دعویٰ کرے کہ وہ مستقل بالذات ہے تو کافر ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے: ’’میری امت کے علما انبیائے بنی اسرائیل جیسے ہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے بنی اسرائیل ایک ہی نبی مرسل موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی اتباع کرتے چلے آئے اور کسی اور شریعت کو اپنانے کی بجائے اسی ایک شریعت کے احکام کی تجدید و تاکید کرتے چلے آئے۔ اسی طرح اِس امتِ محمدیہ کے علما کو جن کا تعلق گروہ اولیا سے ہے‘ خواص کی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ شریعت ِ محمدیہ، او امرو نواہی کی تجدید کریں‘ استحکامِ اعمال کی تاکید کریں‘ اصل شریعت ’’دِل‘‘ میں مواضعاتِ معرفت کا تصفیہ کریں اور انہیں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے آگاہ کریں جیسا کہ اصحاب ِ صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم (نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے اس قدر آگاہ تھے کہ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خبر دینے سے پہلے ہی شب ِ معراج کے اسرار پر بحث فرما رہے تھے۔ پس ولی کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اُس (ولی کامل) کے پاس’’امانت‘‘ (امانتِ الٰہی خزانہ فقر) ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ علما ہرگز نہیں جنہوں نے محض علم ِ ظاہر حاصل کر رکھا ہے کیونکہ اگر وہ ورثائے نبوی  میں داخل ہوں بھی تو ان کا رشتہ ذوِی الارحام  کا سا ہے۔ پس وارثِ کامل وہ ہوتا ہے جو حقیقی اولاد ہو کیونکہ باپ سے اُس کا رشتہ تمام عصبی رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس بیٹا (وارثِ کامل، فرزندِ حقیقی) ظاہر باطن میں باپ کے اوصاف کا سِرّ (وارث) ہوتا ہے۔ اسی لیے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’علم کا ایک حصہ مخفی رکھا گیا ہے جسے علمائے ربّانی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘ جب وہ اُس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو اہلِ عزت اس کا انکار نہیں کرتے۔ یہ وہ بھید ہے جسے معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک کے تیس ہزار بطون میں سب سے گہرے بطن میں ودیعت کیا گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے عوام میں سے کسی پر ظاہر نہیں فرمایا سوائے اصحابِ مقربین اور اصحابِ صفہ کے۔ اسی بھید کی برکت سے شریعت قائم رہے گی۔ اس بھید تک صرف علمِ باطن کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ باقی تمام علوم و معارف اس بھید کی حفاظت کے لیے چھال یا چھلکا ہیں۔ علمائے ظاہر بھی وارثِ انبیا ہیں کہ ان میں سے بعض صاحبِ فروض (فرائض و احکام جاننے والے) ہیں اور بعض بمنزلہ ذوی الارحام ہیں۔ ان کے سپرد علم کا چھلکا ہے جس سے وہ لوگوں کو مواعظِ حسنہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں لیکن مشائخِ عظام کہ جن کا سلسلہ ٔ طریقت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تک تسلسل کے ساتھ پہنچتا ہے، بابِ علم (حضرت علیؓ) سے گزر کر علم کے صدر مقام (حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  یعنی مجلسِ محمدیؐ) تک پہنچتے ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف حکمت کے ذریعے بلاتے ہیں جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ’’لوگوں کو اپنے ربّ کی طرف بلاؤ حکمت اور مواعظ ِحسنہ سے۔‘‘ (نحل ۔125)
علمائے ظاہر اور علمائے باطن کا قول اصل کے لحاظ سے ایک ہی ہے لیکن فروعات کے لحاظ سے مختلف ہے۔ یہ تینوں معانی جو مذکورہ بالا آیت میں جمع ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات میں جمع تھے۔ اُن کے بعد کسی میں ہمت نہیں کہ ان کا متحمل ہو سکے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں تین قسموں میں تقسیم فرمایا:
قسمِ اوّل: یہ علم الحال ہے جو ان تینوں کا لُبّ (مغز یا گودا) ہے اور یہ مردوں (طالبانِ مولیٰ) کو عطا فرمایا۔ اس سے مردانِ خدا کو ہمت نصیب ہوتی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’مردانِ خدا کی ہمت پہاڑوں کو بنیاد سے اکھیڑ دیتی ہے۔‘‘ یہاں پہاڑ سے مراد سنگدلی ہے جو اُن کی دعا و گریہ زاری سے مٹ جاتی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’جسے حکمت (علمِ لدنی ّیا علمِ اسرار) دی گئی بے شک اسے خیر ِ کثیر عطا ہوئی۔‘‘
قسمِ دوم: یہ اس مغز یا گودے (علم الحال) کا چھلکا ہے (جسے ظاہر کہا جاتا ہے) یہ علمائے ظاہر کو عطا فرمایا اور اس کا مقصد لوگوں کو احسن طریقے سے وعظ و نصیحت کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’عالم علمِ ادب کے ذریعے نصیحت کرتا ہے اور جاہل مار پیٹ اور غیظ و غضب کے ذریعے۔‘‘
قسمِ سوم: یہ اس چھلکے کے اوپر ایک اور چھلکا ہے اور یہ اولی الامر (حکمرانوں) کو عطا فرمایا اس سے مراد حکمرانوں کا عدلِ ظاہری اور سیاست ہے اور فرمانِ الٰہی ’’وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ‘‘ (النحل- 125۔ترجمہ: ان کے ساتھ عمدہ طریقے سے بحث کریں یعنی لوگوںمیں عدل و انصاف قائم کرے) میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے مظاہر قہر و جبر ہیں جو نظامِ دین کی حفاظت و نگرانی کا سبب ہیں۔ ان (حکمرانوں) کی مثال اخروٹ کے کچے سبز چھلکے کی ہے، علمائے ظاہری کی مثال اخروٹ کے پکے سرخ چھلکے کی ہے اور علمائے باطن (اولیا کرام مرشدانِ کامل اکمل) کی مثال اخروٹ کے مغز یا گودے کی ہے اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’تم پر علما کی صحبت میں بیٹھنا اور حکما کا کلام سننا لازم کیا گیا ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نورِ حکمت سے دِل زندہ کرتا ہے جس طرح کہ بارش کے پانی سے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’کلمۂ حکمت دانشمند کی گم شدہ میراث ہے وہ اسے جہاں پاتا ہے لے لیتا ہے۔‘‘ وہ کلمہ جو عوام کی زبان سے ادا ہوتا ہے لوحِ محفوظ سے اترا ہے جو عالم ِ جبروت میں ہے اور اس کا تعلق درجات سے ہے اور وہ کلمہ جو واصلین زبانِ قدسی سے بلا واسطہ پڑھتے ہیں عالمِ قرب میں لوحِ اکبر سے اترا ہے۔ پس ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہے اس لیے اہلِ تلقین (مرشد ِ کامل) کی تلاش حیاتِ قلب کے لیے فرض ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘ اس سے مراد علمِ  معرفت و قربت ہے اور علمِ ظاہر سے متعلق باقی تمام علوم کی ضرورت نہیں ہے سوائے اس علم کے جس کی ضرورت ادائیگی ِ فرائض میں پڑتی ہے مثلاً علمِ فقہ کہ جس کی ضرورت عبادات میں پیش آتی ہے۔
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس کے بندے درجات کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے قربِ الٰہی کی طرف بڑھیں جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی  (الشوریٰ23، ترجمہ:محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! آپ فرما دیں کہ میں تم سے تبلیغِ حق کے بدلے اجرت نہیں مانگتا البتہ تم سے قرابت کی محبت کا طلبگار ہوں) ایک قول کے مطابق اس سے مراد علمِ قربت ہے۔ (فصل نمبر5)
 پیرانِ پیر غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ’’سرالاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’پس ہمارے لیے دو قسم کا علم نازل کیا گیا ہے ایک علم ِ ظاہر ہے اور دوسرا علمِ  باطن ہے یعنی ایک علمِ شریعت ہے اور دوسرا علمِ معرفت۔ شریعت کا علم ہمارے ظاہر کو سنوارتا ہے اور معرفت کا علم ہمارے باطن کو۔ اِن دونوں علوم کے اجتماع کا نتیجہ علمِ  حقیقت ہے فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’اس نے دو سمندر اس طرح بہائے کہ بظاہر دونوں ملے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اِن کے درمیان ایک حدِّ فاصل ہے جس سے وہ ایک دوسرے پر چڑھ نہیں سکتے ‘‘(الرحمن27) محض علمِ ظاہر سے حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی منزلِ مقصود پر پہنچا جا سکتا ہے عبادت ِ کامل کے لیے دونوں علوم کا جمع ہونا ضروری ہے محض ایک علم سے کام نہیں چلتا۔‘‘ (سرِّا لاسرار)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 علمِ باطن کے بغیر ظاہری علم پر توجہ اور زور سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور ان جھگڑوں کے بطن سے فرقے جنم لیتے ہیں اور پھر یہ فرقے مخلوق میں نفرت پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں ہر طرف فتنے اور دنگا فساد پھیل جاتا ہے۔ ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور برتر ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے اور یوں لوگوں کو دین سے دور کر دیا جاتا ہے۔ علمِ باطن محبت‘ اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔
علم ایک نور ہے اور علم عقل کے اوپر پڑا ہوا ایک پردہ بھی ہے۔ وہ علم جو حقیقت (اللہ) تک پہنچا دے وہ نور ہے اور جو حقیقت (اللہ) سے دور کرے اورامت میں فتنہ و فساد کا موجب بنے وہ علم عقل پر پڑا ہوا حجاب ہے۔
علم حاصل کرتے وقت اگر نیت یہ ہو کہ دولت کما کر حرص و ہوس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے، اپنے فرقے کو حق ثابت کیا جائے‘ امت کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے اور اسے لڑایا جائے تو یہ مذموم علم ہے۔ اگر علم اللہ تعالیٰ کی پہچان اور قرب اور عوام کی فلاح کے لئے حاصل کیا جائے تو یہ فضیلت بخش ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیفات میں بھی علم کا بار بار ذکر کیا ہے۔ آپ علم کی تحصیل میں نیت کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ اگر علم اس لیے حاصل کیا جا رہا ہے کہ اس کی مدد سے دولت کما کر یا کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرکے حرص وہوس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے تو یہ مذموم ہے اور اگر علم قربِ اللہ تعالیٰ کیلئے حاصل کیا جائے تو یہ فضیلت بخش ہے اس سے آدمی عارف اور عالمِ علمِ ربوبیت ہو جاتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں:
 علم بھی دو قسم کا ہے، ایک علم ِ معاملہ ہے اور دوسرا علمِ مکاشفہ۔ علمِ  مکاشفہ سے معرفت ِ الٰہی منکشف ہوتی ہے اور علمِ معاملہ ؟ علمِ معاملہ علمِ مکاشفہ میں ہی آجاتا ہے کیونکہ مشق ِ تصورِ اسمِ اللہ  ذات سے تمام علوم کی کتب الاکتاب صاحبِ تصور کے سامنے کُھل جاتی ہے اور ظاہر و باطن کے تمام علوم کلماتِ حق کی صورت میں اُس پر کُھل جاتے ہیں۔ (شمس العارفین)
آپ ؒنے علم کو دو حصوں یعنی علمِ ظاہر اور علمِ باطن میں تقسیم کر کے بھی اس کی وضاحت کی ہے علمِ ظاہر سے علم ِفقہ و منطق یا وہ تمام علوم و فنون مراد ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے کسی لحاظ سے بھی مفید ہیں اور علمِ باطن سے علمِ سلوک وتصوف یا علمِ معرفت و فقر مراد ہے۔ فقیر کے لیے دونوں ضروری ہیں۔ علمِ ظاہر بمنزلہ ابتدا ہے اور علمِ باطن انتہا۔ دونوں علموں کے بغیر عین (ذاتِ حق تعالیٰ) کو نہیں پہنچ سکتا۔ علم جان کا غم خوار ہے۔ علم کے بغیر زُہد بمنزلہ شیطان ہے۔ (کلیدالتوحید کلاں)
 فقیر علمِ ظاہری سے بے نیاز نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ انبیا کی تعلیم ہے۔ وہ فقیر جوعلمِ ظاہری سے دوستی نہیں رکھتا وہ باطنی مجلسِ انبیا سے خارج ہو جاتا ہے اور کسی مرتبے کو نہیں پہنچتا۔ (شمس العارفین)
البتہ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ علم ِباطن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں علمِ باطن کی لیاقت حاصل ہو تو علمِ ظاہر کا حصہ بھی اس میں سے نکل آتا ہے۔ کیونکہ’’……عارف باللہ اگرچہ ظاہری اور باطنی علم میں رکا نہیں رہتا‘‘۔ (تیغ ِ برہنہ)
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 واضح ہوکہ علم راستے کی روشنی ہے اور بغیر روشنی جاہل فقیر گمراہ ہو کر راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ علم جان کا مونس اور معاون ہے۔ جاہل فقیر شیطان سے بدتر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے کا راہزن ہے لیکن علم دوقسم کے ہیں علمِ ظاہر قال وبیاں اور علمِ باطن معرفت وصال و عیاں۔ جہاں معاملہ عیاں ہے وہاں کیا حاجت ِقال وبیاں ہے۔ جو شخص نہ واقف علمِ تصوف عیاں اور نہ عالم ِعلم ِظاہر فقہ مسائل بیان ہے وہ فقیر نہیں ہے بلکہ حیوانِ مطلق اور بندۂ نفس وشیطان ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں )
علمِ باطن سے قربِ الٰہی کے درجات اور مشاہدات و واردات کا علم مراد ہے اور یہ علمِ ظاہر کے بعد اخلاص فی العمل سے حاصل ہوتا ہے۔ حضرت سلطان باھوؒ نے اس زاؤیہ نظر سے بھی علم کے فضائل پر روشنی ڈالی ہے۔ علم کی فضیلت عمل سے ہے اور جب علم اخلاص کے ساتھ بہ شانِ استقلال و استقامت انسان کے عمل سے ظاہر ہوتو یہی فقر ہے۔
جو شخص عمر بھر علم اور عمل میں مصروف رہے‘وہی فقیرِ کامل ہے۔ (عقل ِ بیدار)
 علم سے عامل پر انوارِ اسرارِالٰہی نازل ہوتے ہیں اور جب زبان دل کے ساتھ موافق ہوتی ہے‘ دل اور زبان ایک ہوجاتے ہیں اور انوار ِعشق اس جگہ پیدا ہوتے ہیں۔ (عین الفقر)
 علم دو طرح کے ہیں ایک علمِ زبانی دوسرا قلبی۔ علمِ زبانی عین بعین ہے اور دوسرا علمِ قلبی۔ جب دِل کی زبان کھلتی ہے اور بولنے لگتی ہے تو ظاہر ی زبان میں بولنے کی طاقت نہیں رہتی۔ (اسرارِ قادری)
 واضح رہے کہ جو شخص فقر میں قدم رکھتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے آپ کو علمِ  ظاہری و باطنی میں آزمائے کیونکہ اگر جاہل آدمی فقر شروع کرے گا تو آخر کار وہ مجنون اور پریشان ہو کر رجعت کھا کر دیوانہ اور کافر ہو جائے گا اور اس کا دِل سلب کر لیا جائے گا جیسا کہ سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے ’’جس نے علم کے بغیر زُہد کیا وہ آخری عمر میں دیوانہ ہو گا یا کافر ہو کر مرے گا۔ (امیر الکونین)
علم دو قسم کا ہے ایک ظاہری دوسرا باطنی۔ ظاہری عالم زبانی علوم کے عالم ہوتے ہیں اور انہیں وجود کا علم ہوتا ہے لیکن باطنی عالم باطنی قلب کے علوم کے عالم ہوتے ہیں۔ جس شخص کو علم ِ باطنی اور معرفت و توحید ِ الٰہی پورے پورے حاصل ہیں اسے ظاہری علوم کی کیا ضرورت ہے، مطلب یہ کہ علمِ ظاہر دلالت، راستی کاگواہ اور راستے کا نگہبان ہے۔ رفیقِ طریق اور رفیق با توفیق علمِ باطنی ہے جس طرح علمِ ظاہر ہے اسی طرح علمِ باطن ہے ۔ علمِ ظاہر بمنزلہ نمک ہے اور علمِ باطن بمنزلہ طعام۔ جس طرح طعام میں نمک جذب ہو جاتا ہے اس طرح علمِ باطن میں علم ِ ظاہر گم ہوجاتا ہے۔ علمِ  ظاہر چراغ کی طرح ہے اور علمِ باطن آفتاب کی طرح، علمِ ظاہر دودھ ہے تو علمِ باطن مکھن اور گھی، علم ظاہر بدن ہے تو علم ِ باطن روح، علمِ ظاہر زراعت ہے تو علمِ باطن غلہ، علمِ ظاہر تیس سالہ محنت و مشقت کے بعد کہیں نصیب ہوتا ہے لیکن علمِ باطن اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے ایک لحظہ میں حاصل ہو سکتا ہے بشرطیکہ مرشد کامل ہو۔ اسمِ اللہ  ذات کے حاضرات سے علمِ لازوال حاصل ہوتا ہے باطنی علم ظاہری علم پر اس طرح غالب ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کے سینے سے سارا علم سلب کرلے یہاں تک کہ ظاہری عالم کو حروفِ تہجی بھی یاد نہ رہیں۔ (امیر الکونین)
بے معرفت عالم شیطان ہے جس کے وجود میں طلب ِ الٰہی نہیں وہ حیوان ہے۔ (محک الفقر کلاں)

علمِ باطن ہمچو مسکہ، علمِ ظاہر ہمچو شِیر
کے بود بے شِیر مسکہ کے بود بے پیر پیر

ترجمہ: علم ِ باطن مکھن ہے اور علمِ ظاہر دودھ ہے ۔ دودھ کے بغیر مکھن کہاں اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں۔ (محک الفقر کلاں)
اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَرِ (ترجمہ: علم ہی سب سے بڑا حجاب ہے)۔ جان لے کہ علم تین قسم کا ہے علمِ دنیا، علمِ عقبیٰ، علمِ مولیٰ۔ علمِ دنیا سے مراتبِ دنیا نصیب ہوتے ہیں ، آدمی بادشاہ بن جاتا ہے اور اُس سے لوگوں کو عدل و انصاف ملتا ہے، علمِ عقبیٰ سارے کا سارا علما کے پاس ہے اور انہی سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اُس پر عمل بھی کیا ہے یا نہیں۔ تیسرا علم علمِ مولیٰ ہے (جو صحیح مراد بخش ہے)۔ علمِ دنیا زینتِ دنیا ہے اور علمِ عقبیٰ زینتِ عقبیٰ ہے اور یہ حورو قصور بہشت تک پہنچانے والا ہے۔ جب ان دونوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی  (سورہ النجم 17۔ ترجمہ: نہ پھری آپ کی نگاہ اور نہ حد سے بڑھی) کہ یہ دونوں علوم اللہ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہیں۔ بندے اور اللہ کے درمیان پیاز کے پردے سے بھی باریک تر پردہ ہے جسے چاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن اِس کے لیے نگاہِ مرشد ِ عارف باللہ صاحبِ راز کی ضرورت ہے۔ فقیر اس لیے بے نیاز ہوتا ہے کہ اُس کی نگاہ مراتب سے آگے (ذاتِ حق پر) ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے ’’فقر کو ماسویٰ اللہ کسی چیز کی حاجت نہیں۔‘‘ دونوں جہان میں مشکل ترین کام ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ‘‘ (فقرجہاں مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہوتا ہے) کے مراتب پر پہنچنا ہے۔ اِن مراتب پر پہنچنا کوئی آسان کام نہیں کہ فقر میں اللہ تعالیٰ کے اسرارِ عظیم پائے جاتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محک الفقر کلاں)
 جان لے کہ آدمی کے وجود سے حرص و حسد اور طمع و بغض جیسے بچگانہ خصائل ہرگز نہیں نکلتے اس لیے علما جو بچپن میں پڑھتے ہیں اور بعد میں بچوں کو پڑھاتے ہیں اُن پر بھی بچوں کی صحبت کی تاثیر وارد ہو جاتی ہے اور بچوں کی عادت ہے کہ وہ اپنی ہر مطلوبہ چیز لڑ جھگڑ کر اور رو پیٹ کر حاصل کرتے ہیں۔ پس علما بچوں کے مراتب سے ہر گز نہیں نکل سکتے جب تک کہ وہ عارف باللہ بزرگوں کی صحبت اختیار کر کے مرتبہ ٔ بزرگی حاصل نہیں کر لیتے اور عارف باللہ کو بزرگی اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام اللہ  ہی سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ علما ’’اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ‘‘ (ترجمہ: علم کے بہت بڑے درجے ہیں) کے مراتب حاصل کر لیتے ہیں لیکن فنا فی اللہ ذات کے مراتب تک نہیں پہنچ سکتے۔ (محک الفقر کلاں)
 علما کے سر پر علم کا نام ہے اور علم کے معنی ہیں جاننا یعنی اپنے اِس مقصد کو جاننا کہ نفس کو طاعتِ حق کے تابع کرنا ہے اور یہ محض معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ سے ہی ممکن ہے۔ جو آدمی علم کے معنی اِس کے علاوہ جانتا ہے اُسے علمائے عامل نہیں کہا جاسکتا۔ فقرا کے سر پر فقر کانام ہے اور فقر اللہ کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے سوا ہر چیز پر خطِ  تنسیخ کھینچ دو۔ پس جاننے (علم) اور نامِ اللہ (فقر) میں بڑا فرق ہے۔ (محک الفقر کلاں)

اے عالمِ نادان تُو در علم غروری
نزدیک تُو بہ معبود نہ بلکہ تُو دُوری
کشاف و ہدایہ اگر امروز بخوانی
تا خدمت خاصاں نہ کنی ہیچ نہ دانی

ترجمہ: اے نادان عالم! تُو اپنے علم پر مغرور ہورہا ہے حالانکہ تیرے علم نے تجھے قربِ معبود سے بہت دُور کر دیا ہے۔ اگرچہ تُو ہر روز ’’کشاف و ہدایہ‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے لیکن جب تک تُو خاصانِ خدا کی خدمت میں نہیں پہنچے گا کچھ بھی نہیں جان سکے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’قیامت کے دِن شدید ترین عذاب اُس شخص کو دیا جائے گا جس نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’جس نے علم تو زیادہ حاصل کیا مگر پرہیز گاری میں اضافہ نہ کیا اُس نے اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار کی۔‘‘ جان لے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’علما انبیا کا ورثہ ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ علما ہیں جنہوں نے امر ِمعروف کے ساتھ دِل وجا ن سے دوستی کی۔ اگر کسی قاضی یا مفتی یا ظالم حاکم یا کسی خانوادہ کے کسی آدمی نے بدعت کو روارکھا ، شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امر معروف سے برگشتہ ہوا ، نہی عن المنکر کو روا رکھا اور شراب نوشی میں ملوث رہا تو وہ گویا دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پھر گیا۔ (محک الفقر کلاں)
پنجابی ابیات میں بھی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ ان ظاہری علوم کے علما کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو مذہبی اور شرعی علوم میں تو ماہر ہیں مگر ان علوم کی روح اور حقیقت سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ ایسے لوگ قرآن کے حافظ ہیں، حدیث کے عالم ہیں مگر اس قدر علمیت کے باوجود دنیاوی مال ودولت، شہرت اور عہدوں کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنے اس علم کو شکم پروری اور مال و دولت کے حصول کا وسیلہ بنائے بیٹھے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ لاکھوں کتابوں کے مطالعہ سے بھی تمنا کی آگ بجھ نہیں سکتی۔ درحقیقت صرف عارفین ہیں جنہوں نے نفس ِ امارہ کو مار رکھا ہے اور اصل معنوں میں وہی عالم ہیں۔

الف اللہ پڑھیوں پڑھ حافظ ہویوں، ناں گیا حجابوں پردا ھُو
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں، پر طالب ہویوں زر دا ھُو
سے ہزار کتاباں پڑھیاں، پر ظالم نفس نہ مردا ھُو
باجھ فقیراں کسے نہ ماریا باھوؒ، ایہہ ظالم چور اندر دا ھُو

مفہوم:تُونے اسمِ اللہ  ذات کا ذکر مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کی رفاقت، راہبری اور اجازت کے بغیر کیا اور تُو اس کا حافظ بھی بن گیا ہے مگر تیرا حجاب دور نہ ہوا کیونکہ یہ حجاب تب تک دور نہیں ہو سکتا جب تک صاحب ِ مسمّٰی مرشد کامل ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات عطا نہ فرمائے اور پھر تصورِ اسمِ اللہ  ذات کے ذریعے رازِ پنہاں سے پردہ نہ اٹھائے۔ تونے ذکرِ اللہ  کے ساتھ ساتھ مختلف دینی اور دنیاوی علوم پر مشتمل ہزاروں کتابیں بھی پڑھ ڈالی ہیں اور ان کتب کا تو عالم بھی ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود تیرا نفس نہیں مر سکا یعنی تو نفسِ امارہ سے چھٹکاراحاصل کرکے نفس ِ مطمئنہ کی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ بلکہ اِن علوم کو حاصل کرکے تیری نفسانی خواہشات میں اضافہ ہی ہواہے اور اب تونے ان علوم کو دنیا، دولت اور شہرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ تیری نظراور دِل پر پڑے ہوئے حجاب کا پردہ نہیں اٹھ سکا اور تُو حق تعالیٰ کی پہچان میں ناکام رہا۔ یا د رکھ ’’نفس‘‘ انسانی جسم کے اندر چھپا ہوا ایک ایسا چور ہے جس کو مرشد ِ کامل اکمل کی نگاہ ہی مار سکتی ہے۔

پڑھ پڑھ عالم کرن تکبر، حافظ کرن وڈیائی ھُو
گلیاں دے وچ پھرن نمانے، وَتن کتاباں چائی ھُو
جتھے ویکھن چنگا چوکھا، اُوتھے پڑھن کلام سوائی ھُو
دوہیں جہانیں سوئی مٹھے باھوؒ، جنہاں کھادھی ویچ کمائی ھُو

مفہوم: آپ رحمتہ اللہ علیہ  ان علما اور حفاظ کے رویہ پر حیرت کا اظہار فرما رہے جو حصولِ علم کے بعد تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنے علم اور فضیلت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور اپنی فضیلت کا خودہی اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کے باطن اور ایمان کی یہ حالت ہے کہ مال و دولت کے لئے علم کی حقیقت کو فروخت کر دیتے ہیں اور اس کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں پھر جب مال مل جائے تو طرح طرح کی تاویلیں گھڑ کر حق کو چھپا لیتے ہیں۔ حکمرانوں اور مال یا عہدہ دینے والے کی منشا کے مطابق علم کی شرح بیان کرتے ہیں۔ ایسے بے ضمیر عالم و تعلیم یافتہ لوگ اور علم کو فروخت کرنے والے علما دونوں جہانوں میں رو سیاہ اور خوارہوں گے۔ 

پڑھ علم ملوک رجھاون، کیا ہویا اِس پڑھیاں ھُو
ہرگز مکھن مول نہ آوے، پھٹے ددّھ دے کڑھیاں ھُو
آکھ چنڈورا ہتھ کے آئیو اِی، اس انگوری چنیاں ھُو
ہک دل خستہ رکھیں راضی باھوؒ، لئیں عبادت وَرہیاں ھُو

مفہوم: یہ علما اور تعلیم یافتہ لوگ علم صرف حکمرانوں کو خوش کرنے یا حکومت میں کوئی عہدہ پانے کے لئے حاصل کرتے ہیں اور معرفتِ الٰہی یا اﷲ تعالیٰ کی رضا ان کا مقصود نہیں ہے۔ چونکہ ان کی نیت میں ہی کھوٹ ہوتی ہے اس لئے یہ علم کی کنہہ اور حقیقت اور اﷲ تعالیٰ کی نظرِرحمت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو علم کا مغز حاصل کرنے کی بجائے ہڈیوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں اگر تو کسی ایسے صاحبِ دل فقیر کو جو وصالِ الٰہی پا چکا ہو، خوش اور راضی کر لے تو تجھے کئی برسوں کی عبادت کا ثواب ملے گا۔

پڑھیا علم تے وَدّھی مغروری، عقل بھی گیا تلوہاں ھُو
بھُلا راہ ہدایت والا، نفع نہ کیتا دُوہاں ھُو
سر دِتّیاں جے سِرّ ہتھ آوے، سودا ہار نہ توہاں ھُو
وڑیں بازار محبت والے باھوؒ، کوئی راہبر لے کے سُوہاں ھُو

مفہوم:سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ  اس بیت میں اُن علما کا ذکر فرما رہے ہیں جن میں علم حاصل کرنے کے بعد غرور، تکبر اور اکڑپیدا ہو جاتی ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ  اُن کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ علمِ  ظاہر کے حصول کے بعد تُو غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے جس سے تیری عقل نے بھی تیرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ علم حاصل کرنے سے تیری عقل میں اضافہ ہوتا اور تُو صراطِ مستقیم کو پہچان لیتا لیکن تُو تکبر اور انانیت کی وجہ سے ابلیس کی طرح اپنی عقل بھی گنوا بیٹھا ہے۔ علم اور عقل دونوں میں سے کسی نے تجھے فائدہ نہیں دیا اور تو اسی تکبر اور انانیت کی وجہ سے ’’ہدایت کی راہ‘‘ (صراطِ مستقیم) سے گمراہ ہو چکا ہے۔ اگر سر دینے سے سِرِّالٰہی ہاتھ آ جائے تو اس سودے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے لیکن عشق کے بازار میں مرشد کامل کی راہبری میں ہی داخل ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس راہ کا واقف ہوتا ہے اور راہبر کے بغیر منزل نہیں ملتی۔

فقرا کاملین اور عارفین بے خوف وخطر دنیا کے علوم کی اصلیت کو ظاہر کرتے ہیں-وہ انسان کے دل ا ور نگاہ کا رخ علمِ حقیقت کی طرف موڑتے ہیں جس سے وہ حق سے آگاہ ہو کر اور اس میں فنا ہو کر عرفانِ حق کا مستحق بن جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف ِ مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ کے باب ’’علم‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں