فقیر ِکامل کا تصرف اور تسلیم و رضا
Fakir-e-Kamil Ka Tasaruf Aur Tasleem-o-Raza
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
اولیا کرام میں فقیرِ کامل کی شان اور مقام و مرتبہ سب سے بلند اور منفرد ہوتا ہے۔ وہ فنا فی اللہ بقا باللہ کے مرتبہ کا حامل صاحبِ تصرف فقیر مالک الملکی ہوتاہے جس کے تصرف میں اللہ تعالیٰ کے تمام خزانے ہوتے ہیں۔ کل و جز اور زیر و زبر کی ہر شے اور ہر مخلوق اس کے تابع فرمان ہوتی ہے۔ صوفیا اور اولیاکرام نے بھی اپنے کلام اور تصانیف میں فقرا کی شان بیان کی۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کامل فقیر اور اس کے تصرف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
جب بندے کا دل اپنے پروردگار کی طرف پہنچ جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اپنا قرب عطا کر دیتا ہے اور اس کو صاحبِ اختیار بادشاہ بنا دیتا ہے اور اس سے ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے نزدیک قدرت والا اور امانت دار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ملک اور اپنے خدام اور اپنے ملک کے انتظام و اسباب میں اپنا خلیفہ بنا دیتا ہے اور اس کو اپنے خزائن کا امین بنا دیتا ہے۔ اسی طرح جب دل صحیح ہو جاتاہے اور اس کی شرافت اور طہارت ماسوا اللہ سے ظاہر ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی مخلوق کے دلوں پر قبضہ دے دیتا ہے اور اس کو اپنی سلطنت یعنی دنیا اور آخرت میں حکومت بخشتا ہے۔ پس وہ اپنے مریدین و قاصدین کا کعبہ بن جاتا ہے تو سب اسی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 22)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانہ ہے۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔ فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
اگر مشرق اور مغرب کا ہر ملک قیامت تک آفات سے محفوظ ہے تو یہ محض فقرا کے قدموں کی برکت سے ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
جان لے کہ فقیر کو قربِ الٰہی میں اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا رفیق باتوفیق اور صاحبِ دیدار ہوتا ہے۔ وہ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے) کے مرتبے کا حامل مالک الملکی فقیر ہوتا ہے۔ وہ عارف ولی اللہ، محقق عالم باللہ اور روشن ضمیر ہوتا ہے جو کونین پر امیر ہوتا ہے۔ کل و جز کی تمام مخلوق اس کی قیدی و اسیر ہوتی ہے۔ لوحِ محفوظ پوری تفسیر کے ساتھ اس کے مطالعہ میں رہتی ہے۔ وہ دائمی طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے اور اہلِ قبور کی روحانیت پر حاکم ہوتا ہے کیونکہ وہ صاحبِ بصارت اور صاحبِ قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
تو نہیں جانتا کہ عارف فقیر کی زبان اللہ تعالیٰ کی ننگی تلوار ہے۔تجھے نہیں معلوم کہ فقیر کی دلیل اور توجہ عیسیٰؑ کی مثل ہے جو ایک جان بلب آدمی کو حیاتِ جاوداں بخش دیتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقیر اگرچہ ظاہر میں محتاج معلوم ہوتا ہو لیکن اصل میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں پر قابض عارف ولی اللہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ (عقلِ بیدار)
فقیر ہمیشہ توحید میں غرق ہوتاہے۔ اس کے ہاتھ میں کلیدِ کلُ ہے جس سے ہر مشکل کا قفل کھل سکتا ہے۔ (توفیق الہدایت)
کامل فقیر کی ایک نظر تمام عمر کی عبادت سے بہتر ہے۔ (محبت الاسرار)
فقیر وہ ہے جو آنکھیں بند کرے تو کونین کے اٹھارہ ہزار عالموں کا مشاہدہ کرے۔ (عین الفقر)
آپؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
زبان تاں میری کن برابر، موڑاں کم قلم دے ھوُ
کچھ جاہل لوگ فقر سے تنگدستی و مفلسی مراد لیتے ہوئے تنگدست اور محتاج شخص کو فقیر کہتے ہیں اور گلی گلی گھومنے والے پیشہ ور گداگروں اور بھکاریوں کو فقیر سے منسوب کر دیتے ہیں جو در در پر جا کر بھیک مانگتے ہیں۔ گداگروں اور بھکاریوں کو فقیر کہنا اور سمجھنا سراسر غلط ہے۔
فقیر صاحبِ فقر ہوتاہے اور فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ ورثہ ہے جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فخر فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’اے عائشہؓ! دنیا میں فقرا اور مساکین کی مجالس اختیار کرو تاکہ آخرت میں بھی تمہیں ان کی مجلس نصیب ہو۔بے شک ان کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور وہ آخرت میں بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میری بھی قیامت کے روزان فقرا سے ملاقات ہوگی۔‘‘ (محکم الفقرا)
فقیرِکامل اس قدر کامل تصرف، اختیار اور قوت رکھنے کے باوجود عاجزی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی رضا کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ وہ ہر امر میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے نہ کہ اپنے اختیار و تصرف کو استعمال فرماتا ہے۔ وہ مقامِ تسلیم و رضا پر فائز ہوتا ہے۔ جس کے مدنظر اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ (سورۃ النسا۔125)
ترجمہ: اور اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا وہ محسن (اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا ) ہے۔
بَلٰی ژ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ ٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ص وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورۃ البقرہ۔112)
ترجمہ : ہاں جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا وہ محسن ( مرتبۂ احسان تک پہنچنے والا یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا) ہے اور اس کیلئے اپنے ربّ کی طرف سے اجر ہے اور اس کیلئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم۔
مندرجہ بالا آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول طرزِ عمل یہ ہے کہ ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم رکھا جائے، نعمت پر شکر اور مصیبت میں صبر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان صرف اس شخص کا مقبول اور منظور ہوتا ہے جو خلوصِ نیت سے اس کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتا ہے اور اس کی خوشنودی اور رضا کی خاطر اپنی مرضی، منشا اور اختیار سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں جو تکالیف اور مصائب اس پر وارد ہوتے ہیں انہیں خوش دلی سے قبول کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر قربان کر کے تسلیم و رضا کی راہ اختیار کرتا ہے۔
میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ارشاد فرماتے ہیں:
عارفانِ حق پر رضائے حق کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انہیں شدید سے شدید تر حالات میں بھی کوئی غم، دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی یعنی ’’سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔‘‘اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خاص نور یعنی لقائے الٰہی سے سرفراز کرتا ہے اور ان کو ایک نئی زندگی ہر لمحہ غیب سے عطا ہوتی ہے۔ (شمس الفقرا)
جن عارفین یا عاشقوں کی زندگی کا مقصد ہی رضائے الٰہی ہوتا ہے وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔
سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی قدر اور قضا پر راضی ہو کر صبر اختیار کرتا ہے اس کیلئے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مدد ہے اور آخرت میں بے شمار نعمت۔ (الفتح الربانی)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خود پرستان را نہ حاصل شد خدا
خود پرستان راہ خداوند شد ہوا
ہر کہ کردہ جان و از جاں تن جدا
باز دارد نفس را بہر از خدا
ترجمہ: خود پرستوں کو کبھی خدا نہیں ملتا کہ ان کا خدا تو ہوائے نفس ہوتا ہے۔ خدا انہیں ملتا ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر اپنی جان پر کھیل کر نفس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں ’’ہم نے اللہ تعالیٰ سے کبھی اس کے دیدار اور رضا کے سوا کچھ نہیں مانگا۔‘‘ (سلطان العاشقین)
تاہم تسلیم و رضا کے مقام تک رسائی اور استقامت ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہے جہاں بڑے بڑے اولیا کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ حضرت شاہ غوث گوالیاریؒ جو کہ کامل اولیا اللہ میں سے تھے اور مقامِ رضا پر فائز تھے، ان کے بارے میں منقول ہے کہ قلعہ گوالیار کے گورنر نے انہیں کہا کہ شام تک ریاست گوالیار کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ جب وہ اپنے خاندان کے افراد اور مریدین کو لے کر گوالیار سے نکلے تو ہندو لٹیروں نے یہ جان کر کہ ہمیں روکنے والا کوئی نہیں،پیچھے سے حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاریؒ کے گھوڑے پر ان کے پیچھے ان کی نو سالہ نواسی سوار تھی جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں۔ ڈاکو لوٹ مار کرتے ہوئے حضرت کے گھوڑے تک آ پہنچے اور ایک ڈاکو نے آپؒ کی نواسی کے کانوں سے بالیاں جو نوچیں تو معصوم بچی کے کان چِر گئے۔ درد کے مارے بچی کی چیخیں نکل گئیں تو حضرت شاہ محمد غوث گوالیاریؒ سے مقامِ رضا پر مزید ٹھہرے رہنا مشکل ہو گیا چنانچہ آپؒ نے بے اختیار اپنی چھڑی کو ہوا میں لہرایا تو تمام ڈاکوؤں کے سر قلم ہو کر زمین پر آ رہے۔
اگر وہ چاہتے تو ڈاکوؤں کے سر قلم کرنے کی کرامت پہلے بھی دکھا سکتے تھے۔ اگر چاہتے تو ڈاکوؤں کو پہلے ہی نیست و نابود کر سکتے تھے لیکن وہ رضا پر ثابت قدم رہے۔ مگر جب نواسی کی چیخیں سنیں اور اسے خون میں لت پت دیکھا تو مقامِ رضا پر سے ان کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے اپنی چھڑی لہرا کر ڈاکوؤں کے سر قلم کر دئیے۔ (فلسفۂ شہادت امام حسینؓ)
اسی طرح امام نبھانیؒ ’’جامع کرامات اولیا‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ شیخ احمد شربینیؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جو کہ مقامِ رضا پر فائز تھے۔ ان کا ایک چھوٹا سا اکلوتا بچہ تھا۔ جب وہ معصوم بچہ فوت ہونے لگا تو آپؒ کی بیوی آپ کی خدمت میں آ کر رونے لگی اور عرض کرنے لگی کہ آپ کی تو اللہ سے لو لگی ہوئی ہے مگر میرا اکلوتا بچہ میری محبت کا مرکز و محور ہے۔ اگر میری گود خالی ہو گئی تو میرا جینا محال ہو جائے گا لہٰذا آپ میرے بیٹے کی زندگی کے لیے اپنے مولیٰ کے حضور دعا کریں۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی ہوں اگر میرا مولیٰ میرے بیٹے کی جان لے کر خوش ہے تو میں بھی اس پر خوش ہوں۔ آپ کی بیوی روتی رہی، منت سماجت کرتی رہی مگر آپ کا دل اللہ کی رضا پر جما رہا۔ اسی دوران ملک الموت بچے کی روح قبض کرنے کے لیے آگیا۔ جب روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت نے ہاتھ بڑھایا، بچے پر حالتِ نزع طاری ہوئی تو بچے کی یہ حالت شفقتِ پدری سے دیکھی نہ گئی۔ آپؒ کے قدم مقامِ رضا سے لڑکھڑا گئے۔ اسی وقت نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔ تصرف کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی بارگاہ میں التجا کے انداز میں دیکھنے کی دیر تھی کہ لوحِ محفوظ پر تقدیر بدل گئی۔ آپؒ نے ملک الموت سے فرمایا ’’ارجع الی ربک فان حکم موتہ قد نسخ‘‘ ترجمہ: اے ملک الموت! اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا۔ بچے کی موت کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔ (بحوالہ فلسفۂ شہادت امام حسینؓ)
تسلیم و رضا کی سب سے اعلیٰ مثال امام عالی مقام سیدّنا حسین رضی اللہ عنہٗ نے میدانِ کربلا میں قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ جنہوں نے کامل تصرف رکھتے ہوئے بھی اللہ کی رضا کے سامنے سرجھکا دیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ بچپن سے جانتے تھے کہ مقامِ کربلا میں شہید کیے جائیں گے حتیٰ کہ وقت اور جائے شہادت بھی معلوم تھی۔ چاہتے تو یزید کی بیعت کر کے اپنی شہادت سے بچ سکتے تھے۔ یا پھر اللہ کی بارگاہ میں التجا کر کے قضا سے فرار حاصل کر لیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ صاحبِ فقر اور کامل تصرف کے حامل تھے اگر چاہتے تو دریائے فرات کو اشارہ کرتے تو وہ یزیدی لشکر کو بہا کر لے جاتا، اگر ریت کو اشارہ کرتے تو وہ طوفان کی صورت میں یزیدی لشکر کو تہس نہس کر دیتی لیکن آپ رضی اللہ عنہٗ نے اپنی نگاہوں کے سامنے اپنی اولاد اور عزیز و اقارب کو قربان کر دیا اور آخر میں اپنا بھی سر کٹاکر قربانی کی عظیم مثال قائم کر دی لیکن رضائے الٰہی سے سرمو انحراف نہ کیا۔ سبحان اللہ
حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
عاشق سوئی حقیقی جیہڑا، قتل معشوق دے منیّ ھوُ
عشق نہ چھوڑے مکھ نہ موڑے، توڑے سَے تلواراں کھنیّ ھوُ
جِت وَل ویکھے راز ماہی دے، لگے اُوسے بنھے ھوُ
سچا عشق حسین ؑ ابن علی ؑ دا باھوؒ، سر دِیوے راز نہ بھنیّ ھوُ
مفہوم:حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ امامِ وقت اور انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منصب پر فائز تھے اور انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کنُ کی زبان ہوتی ہے اگر آپؓ دریا ئے فرات کو اشارہ کرتے تو وہ چل کر خیموں تک آجاتا ۔ آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی۔ کربلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کر دیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا ۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اسی طرف اشارہ فر مارہے ہیں کہ عاشقِ حقیقی وہی ہوتا ہے جو معشوقِ حقیقی ( اللہ تعالیٰ) کے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کرلے، اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اور باوجود تکالیف اور مصائب کے، نہ تو راہ ِ عشق سے منہ موڑے اور نہ ہی تسلیم ورضا کی راہ میں اس کے قدم متزلزل ہوں خواہ سینکڑوں تلواریں اس کے جسم کو چھلنی کر دیں۔ اصولِ عشق تو یہی ہے کہ اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عشق اور تسلیم و رضاکے اس میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سر دے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں کیا۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
باھوؒ! رضا بر قضا غالب چو گردد
ز کردہ از خدا ہرگز نہ لرزد
چرا لرزد کہ قرب اُو تمام است
پر آں لرزد قضا کہ ناقص عام خام است
رضا قاضی قضا در حکم بہ اُو
بجز حکمش نہ گیرد جان از مو
ترجمہ: اے باھوؒ! جب قضا پر رضا غالب آتی ہے تو وہ (طالبِ مولیٰ) خدا کے امور سے ہرگز نہیں کانپتا۔ جسے اللہ کا کامل قرب حاصل ہو وہ کیوں (اس کے ڈر سے) کانپے بلکہ ناقص، عام اور خام اس (کے خوف) سے کانپتے ہیں۔ رضا قاضی (کی مثل) ہے اور قضا اس کے حکم کے ماتحت ہے اس لیے اس کے حکم کے بغیر قضا ایک بال کی بھی جان نہیں لے سکتی۔ (کلید التوحید کلاں)
پس فقیرِکامل کا تصرف و اختیار وسیع ہوتا ہے لیکن اس کے پیشِ نظر محض رضائے الٰہی ہوتی ہے اور وہ اس سے ذرہ برابر بھی نہیں لرزتا۔
تاہم ایسا بالکل نہیں ہے کہ فقیر ِکامل اپنا تصرف اور اختیار استعمال نہیں کرتا۔ وہ اپنا تصرف استعمال کرتا ہے تو محض رضائے الٰہی کی خاطر اس کے دین کے فروغ اور سربلندی کے لیے، طالبانِ مولیٰ کے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لیے، رضائے الٰہی کے مطابق انہیں حادثاتِ دنیا سے بچانے کے لیے، اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رکھنے کی خاطر گناہوں سے بچانے کے لیے۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
نفس کو گناہ کرتے وقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بلکہ تمام نبیوں، رسولوں، اولیا اللہ اور صالح لوگوں کے واسطے دے لو، آیات اور روایات سنا لو یاموت اور قبر کے حالات، منکر نکیر کے سوال و جواب، اعمالنامہ، مسائلِ فقہ، قیامت کے روز کی نفسا نفسی، پل صراط اور دوزخ کے حالات یاد دلاکر ڈراؤ یا جنت اور دیدارِ الٰہی کی نعمت کے بارے میں یاد کراؤ مگر نفس باز نہیں آتا اور گناہ کرنے سے نہیں رُکتا۔ لیکن صرف توفیقِ الٰہی اور مرشد کامل اکمل کی بیعت کا وسیلہ نفس کو گناہ سے روک سکتا ہے۔ جس وقت بھی طالب گناہ کرنے لگتا ہے بے شک مرشد کو آگاہی ہو جاتی ہے، وہ گناہ اور طالب کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے اور طالب کو الہام یا پیغام رسانی کے ذریعے یا (باطنی طور پر) ہاتھ پکڑ کر گناہ سے بچا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے وسیلت فضیلت سے بہتر ہے۔ (عین الفقر)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا فرمان سے بھی ثابت ہوتاہے کہ مرشد اپنا تصرف استعمال کرتے ہوئے اپنے طالب مرید کو گناہوں سے روک لیتا ہے۔ پس فقیر کامل و مرشد کامل اکمل کا تصرف اپنے ذاتی استعمال، ضروریات، اپنے نفسانی اغراض و مقاصد یا اپنی خوشی کی خاطر نہیں ہوتا بلکہ اس کا تصرف مخلوق کی بھلائی، انہیں راہِ حق پر چلانے اور انہیں معرفتِ الٰہی سے روشناس کرانے، پیغامِ فقر اور دعوتِ اسم اللہ ذات کو عام کرنے اور طالبانِ مولیٰ کو اللہ کا قرب و وِصال عطا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس دوران بھی وہ تسلیم و رضا کا دامن نہیں چھوڑتا بلکہ رضائے الٰہی کو مقدم رکھتے ہوئے تمام امور سرانجام دیتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا:
لَیْسَ الْفَقِیْرُ عِنْدِیْ مَنْ لَیْسَ لَہٗ شَیْئٌ بَلِ الْفَقِیْرُ الَّذِیْ لَہُ الْاَمْرِ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ اِذَا قَالَ لِیْ شَیْئٍ کُنْ فَیَکُوْن (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: میرے نزدیک فقیر وہ نہیں جس کے پاس کچھ نہیں بلکہ فقیر وہ ہے جس کا امر ہر شے پر نافذ ہو اور جب وہ کسی شے کے لیے کہے ’ہو جا‘ تو وہ ہو جائے۔
استفادہ کتب:
۱۔ الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ الفتح الربانی: ایضاً
۳۔ کلید التوحید کلاں: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ نور الہدیٰ کلاں: ایضاً
۵۔ محبت الاسرار: ایضاً
۶۔ قربِ دیدار: ایضاً
۷۔ عین الفقر: ایضاً
۸۔ محکم الفقرا: ایضاً
۹۔ توفیق الہدایت: ایضاً
۱۰۔ شمس الفقرا: تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۱۱۔ مجتبیٰ آخر زمانی: ایضاً
۱۲۔ ابیاتِ باھوؒ کامل: تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۱۳۔ فلسفۂ شہادتِ امام حسینؓ: تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانہ ہے۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔ فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
زبان تاں میری کن برابر،🥀
موڑاں کم قلم دے ھوُ🥀
خوبصورت
Aawliya Allah ki haqeeqat ko samjhna bohot zaroori hai
جب بندے کا دل اپنے پروردگار کی طرف پہنچ جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اپنا قرب عطا کر دیتا ہے اور اس کو صاحبِ اختیار بادشاہ بنا دیتا ہے
کامل فقیر کی ایک نظر تمام عمر کی عبادت سے بہتر ہے۔ (محبت الاسرار)
بہت ہی پیارا اور علمی مضمون ہے
اگر مشرق اور مغرب کا ہر ملک قیامت تک آفات سے محفوظ ہے تو یہ محض فقرا کے قدموں کی برکت سے ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’اے عائشہؓ! دنیا میں فقرا اور مساکین کی مجالس اختیار کرو تاکہ آخرت میں بھی تمہیں ان کی مجلس نصیب ہو۔بے شک ان کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور وہ آخرت میں بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میری بھی قیامت کے روزان فقرا سے ملاقات ہوگی۔‘‘ (محکم الفقرا)
جن عارفین یا عاشقوں کی زندگی کا مقصد ہی رضائے الٰہی ہوتا ہے وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔
Great 👍
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور امام الوقت ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس کی فیض بخش نگاہِ کامل کی تاثیر اور پاکیزہ و نورانی صحبت سے طالبوں کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔
Haq farmaia
Haq he . Mashallah
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تسلیم و رضا کی بہترین مثال قائم کی ہے
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانہ ہے۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔ فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
Very nice and informative
بلاگ 👍
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانہ ہے۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔ فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
Bohat alla
خوبصورت فرامین کی روشنی میں فقیرِکامل کا تصرف اور اس کے تسلیم و رضا پر قائم رہنے پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے
SubhanAllah
بہت خوب
بہت ہی خوبصورت مضمون
بہت بہترین مضمون ہے۔
بہترین آرٹیکل
فقیر کامل خدا کا راز ہے
Bht umdah
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانہ ہے۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔ فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
بہت خوب ❤️
بہت اچھا ارٹیکل ہے
Great article
بہت خوب تحریر ہے