Alif | الف

Spread the love

Rate this post

  الف۔Alif 

کربلا ۔ داستانِ عشق و وفا

راہِ فقر دراصل راہِ عشق ہے اور اس راہ میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک طالب اپنی ہر شے کو راہِ حق میں قربان نہیں کر دیتا۔ راہِ عشق میں ’’وفا اور قربانی‘‘ کا تقاضا ہے کہ وفا میں کبھی لغزش نہ آئے اور جب قربانی کا وقت آئے تو منہ نہ موڑا جائے ۔اللہ ربّ العزت قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:
تم اس وقت تک بِرَّ (اللہ تعالیٰ)کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔(سورۃ آلِ عمران۔ 92)

سب سے بڑی سنت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔ اللہ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست) نہ بنائیں جب تک کہ وہ راہِ خدا میں اپنا گھر بار نہ چھوڑدیں۔ (سورۃ النسا۔ 89)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ ان کے دلوں سے محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا ہر محبت کو ختم کر ڈالا ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کی راہ میں جو بھی چیز حائل ہوئی، صحابہ کرامؓ نے کمالِ بے نیازی سے اُسے اللہ کی راہ میں قربان کر ڈالا اور جب بھی اسلام کو قربانی کی ضرورت پڑی تو صحابہ کرامؓ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔عشق، وفا اور قربانی کی سب سے بڑی مثال واقعۂ کربلا ہے:
سب کو معلوم ہے کہ امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے ساتھ موت ہے تو یزید کے پاس دنیا اور زندگی کا آرام ہے۔
امامؓ کا ساتھ دے کر شہادت ملتی ہے تو یزید کا ساتھ دے کر آسائشاتِ دنیا اور زندگی ملتی ہے۔
عقل کہتی ہے کہ امام حسینؓ کے ساتھ رہ کر بے بسی کی موت ہے، عشق کہتا ہے کہ یہ ’’جاودانی زندگی‘‘ کی ابتدا ہے۔

امام عالی مقامؓ کے تمام ساتھی ، راہِ عشق کے راہی ، وفا کا حق ادا کرنے اور وقتِ قربانی ’’قربانی ‘‘ کے لیے تیار ہیں۔ عشق کا یہی تقاضا ہے اور انہوں نے اس تقاضے کو کمال خوبی سے پورا کیا۔ واہ امامؓ آپ کو کیا عاشق ملے! ایسے عاشق تو کسی مرشد کو نہ ملے۔ ان کی شان، وفا اور قربانی ہی نرالی ہے۔ عشق کی اس بچھی ہوئی بساط پر عقل ہار گئی۔ عشق قربان ہو کر بھی جیت گیا۔ عشق شہادت پا کر جاوداں ہو گیا اور قید ہو کر بھی سربلند اور سرفراز رہا۔ عقل بظاہر فتح یاب نظر آئی لیکن عشق نے اپنے دستور کے مطابق عقل کی اس فتح کے اندر ہی اپنی فتح رکھی ہوئی تھی۔ دل کے اندھے، نورِ بصیرت سے محروم اس فتح کا ادراک نہ کرسکے۔ عشق کی یہ فتح وفا اور قربانی ہی کی بدولت تھی۔ کربلامیں عشق کا ایک مستقل باب تحریر کر دیا گیا اور عشق و کربلا کا چولی دامن کا ساتھ ہو گیا۔

؎جہاں عشق ہو وہیں کربلا

جو حالات اہلِ عشق کے لیے اس وقت تھے ویسے ہی آج بھی ہیں۔

(اقباس: شمس الفقرا،باب : وفا و قربانی۔  تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس)

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں