عاجزی -Aajizi


4.7/5 - (51 votes)

عاجزی۔Aajizi

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری

’’عاجزی‘‘         بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐    لنک  ⇒ پر کلک کریں.

اللہ پاک نے انسان کو متکبر اور سرکش نہیں بنایا بلکہ عجز و انکسار اختیار کرنے والا بنایا ہے۔ اولادِ آدم اور اولادِ شیطان میں فرق کی بنیاد ہی عاجزی ہے۔ شیطان نے تکبر کیا تو وہ ملعون و مردود بنا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے عاجزی اختیار کرتے ہوئے توبہ کی اور اللہ کے مقرب بنے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہر کہ آمد در انا در نار شد
خاکی آدم لائق دیدار شد

ترجمہ: جو (شیطان) خود پرستی ، انا اور تکبر میں گرفتار ہوا وہ نارِ جہنم کا مستحق ٹھہرا لیکن آدم خاکی (جو انا سے محفوظ رہا اور گناہ کرنے کے بعد عاجزی سے معافی کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک گیا) سزاوارِ دیدار ہو گیا۔ (کلید التوحید کلاں)

عاجزی کیا ہے؟

حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں عاجزی یہ ہے کہ تم جسے دیکھو اپنے آپ سے افضل سمجھو۔ (کیمیائے سعادت)

حضرت شاہ محمد ذوقیؒ فرماتے ہیں:
جنابِ الٰہی میں بندہ کا پست ہو جانا عاجزی ہے۔(سردلبراں)

حضرت فضیل بن عیاضؓ سے پوچھا گیا عاجزی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حق کے سامنے جھک جاؤ اور اس کی پیروی کرو اور اگر کسی بچے یا کسی بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تواس کو قبول کرو۔ (احیا العلوم۔ جلد سوم)
عاجزی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھے اور دوسروں کے ساتھ معاملات اور برتاؤ میں تکبر اور غرور کی بجائے نرمی و تواضع کا رویہ اختیار کرے۔
یہاں یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ عاجزی و انکساری کا معاملہ صرف انہی کا حق ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے صاحبِ ایمان ہوں اور قربِ الٰہی کے لیے دن رات جدوجہد میں مصروفِ عمل رہیں۔ منافقین، کفار، مشرکین اور سرکش کے ساتھ عاجزی اختیار کرنا اُلٹا ان کو متکبر اور سرکش بنا دیتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
خوشخبری دے دو ان کو جو عاجزی اختیار کرنے والے ہیں۔ (سورۃالحج۔ 34)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا ’’ صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص ( صرف اور صرف ) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار ) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم6592)

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو وحی بھیجی ہے کہ تم تواضع یعنی عاجزی اختیار کرو حتیٰ کہ کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (سنن ابنِ ماجہ 4179)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
 تواضع (عاجزی) سے آدمی کا مرتبہ (اللہ کی بارگاہ) میں بلند ہوتا ہے اور تکبر سے انسان کے مرتبہ میں کمی ہوتی ہے۔ (اقوالِ حضرت علیؓ)
کثرتِ تواضع سے شرافت کمال کو پہنچتی ہے اور کثرتِ تکبر سے آدمی ہلاک ہو جاتا ہے۔ (اقوالِ حضرت علیؓ)

حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دن برسر منبر ارشاد فرمایا ’’لوگو! عاجزی اور خاکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے (یعنی اللہ کا حکم سمجھ کر اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے) خاکساری کا رویہ اختیار کیا اور بندگانِ خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو اونچا کرنے کی بجائے نیچا رکھنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہو گا لیکن بندگانِ خدا کی نگاہوں میں اونچا ہوگا اور جو کوئی تکبر اور بڑائی کا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو نیچے گرا دے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و حقیر ہو جائے گا اگرچہ وہ خود اپنے خیال میں بڑا ہوگا لیکن دوسروں کی نظر میں وہ کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بے وقت ہو جائے گا۔ (دینِ کامل)

میرے مرشد کریم رہبرِ انسانیت،امام الوقت،امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عاجزی کرنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور تکبر کرنے والا سب سے پہلے گمراہ ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

پس جب تک بندہ اللہ کے لیے اپنی تعریف کو ناپسند نہ کرے، اپنی عزت و تکریم کی خواہش کو دل سے مٹا نہ دے، اس وقت تک اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ نہیں کیونکہ بے شک عزت اور تعریف تو صرف اللہ کی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اور اللہ والوں(اہلِ بیتؓ،اصحاب پاک،فقرا کاملین اور متقی مومنین) ہی کی ہے۔

انسان کا اصل شرف اس بات پر ہے کہ وہ اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھے۔ اس کا دنیا میں آنے کا مقصد معرفت و قربِ الٰہی ہے اور وہی اس امتحان میں سرخرو ہے جو اپنے مقصدِحیات میں کامیاب ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ نے بندے کی آزمائش کے لیے دنیا بنائی۔ اس لیے آزمائش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں رہنا ضروری ہے لیکن بندہ دنیا میں یوں رہے کہ دنیا اس میں نہ رہے تو ہی وہ کامیاب ہوگا۔ (سلطان العاشقین)

جب بندہ اللہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے تو نفس، دنیا اور شیطان اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ طالبِ حق کو گمراہ کرنے کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں صرف وہی طالبِ حق کامیاب ہوتا ہے جو صدق،خلوصِ نیت اور عاجزی کے ساتھ مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں سر جھکائے رکھتا ہے۔اُم المومنین سیدّہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: تم لوگ افضل عبادت یعنی عاجزی سے غافل ہو۔ (احیاء العلوم جلد سوم)

الرسالۃ الغوثیہ میں سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ  فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا’’اے غوث الاعظمؓ! مجھ سے کوئی قریب ہے تو وہ گنہگار ہے کیونکہ وہ عاجزی اور ندامت والا ہے۔ اے غوث الاعظمؓ! عاجزی انوار کا سر چشمہ ہے۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

میرے ہادی مرشد کریم امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
شیطان عاجزی والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
انسان کا اصل ہتھیار عاجزی، اخلاصِ نیت اور صدق ہے۔ (سلطان العاشقین)

حضرت مالک بن دینارؓ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص مسجد کے دروازے میں کھڑا ہو کر اعلان کرے کہ جو شخص سب سے کم تر ہے وہ نکل جائے تو میں سب سے پہلے نکلوں گا۔ یہ بات جب حضرت عبداللہ بن مبارکؓ نے سنی تو فرمانے لگے یہی وجہ ہے کہ مالکؓ بزرگ اور قابلِ احترام ہیں۔ (کیمیائے سعادت)

اللہ پاک کے قرب و وصال کی راہ میں کامیابی صرف اور صرف عاجزی و انکساری کو اپنا کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ پاک حقیقی عزت و عظمت اور شان و کبریائی کا مالک ہے۔ بندہ جب صدق و خلوص سے خود کو اس کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش کرتاہے تو ہی قرب و وصالِ الٰہی کی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی طرف وحی فرمائی ’’میں اس شخص کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے عاجزی کرتاہے، میرے بندوں میں بڑائی کا اظہار نہیں کرتا، اپنے دل میں میرا خوف قائم رکھتا ہے، دن بھر میری یاد میں مشغول رہتا ہے اور میرے لیے اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم، جلد سوم)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو دنیا میں عاجزی اختیار کرتے ہیں بروز قیامت وہ منبروں پر بیٹھے ہوں گے۔ ‘‘ (احیاء العلوم)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ  وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصَّآئِمَاتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ  وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔   (سورۃ الاحزاب۔35)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔
وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ(سورۃ الحج۔34)
ترجمہ: اور(اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ 

حدیثِ مبارکہ میں درج ہے کہ چار چیزیں صرف ان لوگوں کو ملتی ہیں جنہیں اللہ محبوب رکھتا ہے:
۱) خاموشی جو عبادت کی ابتدا ہے
۲) اللہ پر توکل
۳) عاجزی
۴) دنیا سے بے رغبتی۔ (احیاء العلوم ۔جلد سوم)

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں: جس قدر بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے اسی قدر اللہ اُسے نوازتا ہے اور جس قدر اس کے سامنے عاجزی کرتا ہے اسی قدر اللہ اُس کو بلندی عطا کرتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس44)
امام سلسلہ سروری قادری امام الوقت مجددِ دین، آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: عاجزی اور نیت کا اخلاص جتنا زیادہ ہوتا ہے بندہ اتنا جلدی اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
پس جو شخص خلوصِ نیت و صدق سے رضا و معرفتِ الٰہی کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اسے معرفت و قربِ الٰہی سے سرفراز فرما دیتا ہے۔ امیر المومنین حضرت سیدّنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ہم نے عزت کو تقویٰ میں، مال داری کو یقین میں اور بزرگی کو عاجزی میں پایا۔ (احیائے العلوم)

عاجزی کے درجات

عاجزی کے تین درجے ہیں:
۱) ایک درجہ زیادتی و ظلم کی طرف مائل کرتا ہے اسے تکبر کہتے ہیں جو کہ شدید قابلِ مذمت اور ناپسندیدہ فعل ہے۔
۲) ایک درجہ کمی کی طرف مائل کرتا ہے اس کی خصلت خوشامد ہے اس درجہ کو کمینگی و ذلت کہتے ہیں۔
۳) درمیانی درجہ کو عاجزی کہتے ہیں یہی قربِ الٰہی کی طرف لے جاتا ہے۔

 چونکہ اسلام میانہ روی و اعتدال کا درس دیتا ہے اللہ پاک کو بھی اپنے بندے کا تمام امورِ زندگی میں میانہ روی و اعتدال کرنا پسند ہے۔ پس جو شخص اپنے ہم مجلس یا ہم پلہ گروہ میں خود کو مقدم و اعلیٰ رکھنے کی کوشش کرتا ہے وہ متکبر ہے،جو خود کو نہایت ہی پست کرلے وہ متواضع ہے جبکہ عاجزی یہ ہے کہ بندہ رضائے الٰہی کے لیے اپنی منزلت گھٹا دے جس کا وہ مستحق تھا۔

رشد و ہدایت کا منبع و محور آقا پاک جناب حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات بابرکات ہے اور تا قیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم و اجازت سے یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلفا و نائبین کے ذریعے جاری رہے گا۔ موجودہ دور میں بھی نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقرائے کاملین مرشد کامل اکمل موجود ہیں۔ مگر نفسانفسی کے اس دور میں لوگوں کی طلبِ حق سے دوری کی وجہ سے ان فقرا کاملین نے خود کو مخفی کر لیا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ آج بھی جوشخص خلوصِ دل سے حق کی طلب لے کر نکلتا ہے وہ ضرور حق کو پا لیتا ہے۔ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کے لیے وہ کوشش اور جدوجہد کرتا ہے پس جو اللہ کاقرب و معرفت پانے کے لیے کوشش کرتا ہے، اللہ پاک کا فضل اُسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور اس بندے کی رہنمائی اپنی جانب آنے والی راہ پر کر دیتا ہے۔

مرشد کامل اکمل کے بغیر اللہ جل شانہٗ کے قرب و معرفت کی راہ پر چلنا تو دور کی بات کوئی اس راہ کی مہک کو بھی نہیں پا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی اولیا اللہ کا منکر ہوتا ہے وہ دین کو فرقہ پرستی اور مسلک پرستی میں ہی تلاش کرتا رہتا ہے اور ساری زندگی اپنے باطن سے اندھا ہو کر اسی میں الجھا رہتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ چ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (سورۃالبقرۃ۔7)
ترجمہ: اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے۔ اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔ 

اللہ کی ذات پاک بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہے اور نفس (جب تک مقامِ مطمئنہ تک نہ پہنچ جائے) دنیا اور شیطان حجابات ہیں۔ ایسے میں اللہ تک پہنچنے کا راستہ مرشد کامل اکمل کی رہنمائی میں عاجزی، صدق اور خلوص اختیار کرنے میں ہی ہے۔ بندہ چاہے ساری زندگی عبادات اور ریاضات میں گزار دے وہ علمِ باطن تو حاصل کر لے گا مگر حالتِ باطن یا حالتِ حضوری اسے اس وقت تک نہ نصیب ہو پائے گی جب تک کہ وہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری اختیار نہ کر لے۔

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
 جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے متقی بندوں کے سامنے جھکتا ہے تو اللہ اسے دنیا اور آخرت میں بلند مقام عطا فرماتا ہے اور جب تو عام لوگوں کی تکالیف برداشت کرے گا تو تجھے اللہ تعالیٰ رفعت عطا کرے گا اور تجھے سرداری عطا کرے گا۔ پھر کیا کہنا ان کا جو مخلوق میں سے خواص اور اولیا اللہ کی خدمت کرے۔ (الفتح الربانی۔مجلس 54)

اللہ اور اس کے ولی (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ،فقیر کامل) کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ عصرِ حاضر کے صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ فقیر کامل آفتابِ فقرسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بابرکت ذات پاک ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے طالب کے دل پر اللہ تعالیٰ اپنے انوار کی ایسی تجلیات فرماتا ہے کہ طالب کے دل میں اللہ کی معرفت کے حصول کے سوا کوئی طلب نہیں رہتی۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ ایسا صیقل ہے جو بندے کے دل کو حسد، کینہ، جھوٹ، لالچ، حبِّ دنیا سے نجات بخش کر محبتِ الٰہی سے ایسا معمور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی عیوب کی تلاش اور ان سے نجات پانے کے لیے رات دن توبہ و تسبیح اورذکر و تصور اسمِ اللہ ذات میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ حالتِ توبہ بھی عاجزی کی حالت ہے۔ اللہ پاک کو اپنے بندے کی یہ حالتِ عاجزی بے حد پسند ہے اسی وجہ سے وہ مقربین میں شامل کر لیا جاتا ہے۔

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور توبہ کرو، اس کے سامنے گریہ زاری کرو، اپنی آنکھوں اور دل کے آنسوؤں سے اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرو۔ رونا عبادت ہے کیونکہ وہ کمال درجہ کی عاجزی اور ذلت ہے۔ (الفتح الربانی، مجلس۔19)

امام الوقت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس وہ واحد ہستی ہیں جو اپنی نگاہِ کامل، پاکیزہ و نورانی صحبت اور اسمِ اللہ ذات سے طالب کا تزکیۂ نفس فرما کر اور قلب کو نفسانی بیماریوں سے پاک کرکے معرفتِ الٰہی کے قابل بناتے ہیں۔ آئیں آپ بھی مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صحبت میں ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کر کے اپنے قلوب کو منور کریں۔

استفادہ کتب:
۱۔حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۳۔ احیاء العلوم۔ جلد سوم:  حضرت امام غزالیؒ
۴۔ دینِ کامل

 

34 تبصرے “عاجزی -Aajizi

  1. انسان کا اصل ہتھیار عاجزی، اخلاصِ نیت اور صدق ہے۔ (سلطان العاشقین)

  2. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اللہ نے بندے کی آزمائش کے لیے دنیا بنائی۔ اس لیے آزمائش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں رہنا ضروری ہے لیکن بندہ دنیا میں یوں رہے کہ دنیا اس میں نہ رہے تو ہی وہ کامیاب ہوگا۔ (سلطان العاشقین)

  3. میرے ہادی مرشد کریم امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    شیطان عاجزی والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
    انسان کا اصل ہتھیار عاجزی، اخلاصِ نیت اور صدق ہے۔ (سلطان العاشقین)

  4. حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں عاجزی یہ ہے کہ تم جسے دیکھو اپنے آپ سے افضل سمجھو۔ (کیمیائے سعادت)

  5. حضرت شاہ محمد ذوقیؒ فرماتے ہیں:
    جنابِ الٰہی میں بندہ کا پست ہو جانا عاجزی ہے۔(سردلبراں)

  6. شیطان نے تکبر کیا تو وہ ملعون و مردود بنا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے عاجزی اختیار کرتے ہوئے توبہ کی اور اللہ کے مقرب بنے۔

  7. اللہ پاک ہمیں حقیقی عاجزی عطا فرماۓ آمین 🥀🥀

  8. خوشخبری دے دو ان کو جو عاجزی اختیار کرنے والے ہیں۔ (سورۃالحج۔ 34)

  9. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    تواضع (عاجزی) سے آدمی کا مرتبہ (اللہ کی بارگاہ) میں بلند ہوتا ہے اور تکبر سے انسان کے مرتبہ میں کمی ہوتی ہے۔ (اقوالِ حضرت علیؓ)

  10. اللہ پاک ہمیں عاجزی کے ساتھ راہ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  11. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

    ہر کہ آمد در انا در نار شد
    خاکی آدم لائق دیدار شد
    ترجمہ: جو (شیطان) خود پرستی ، انا اور تکبر میں گرفتار ہوا وہ نارِ جہنم کا مستحق ٹھہرا لیکن آدم خاکی (جو انا سے محفوظ رہا اور گناہ کرنے کے بعد عاجزی سے معافی کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک گیا) سزاوارِ دیدار ہو گیا۔ (کلید التوحید کلاں)

  12. اسلام میانہ روی و اعتدال کا درس دیتا ہے اللہ پاک کو بھی اپنے بندے کا تمام امورِ زندگی میں میانہ روی و اعتدال کرنا پسند ہے

  13. عاجزی، صدق اور خلوص اختیار کرنے میں ہی ہے۔

  14. امام الوقت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس وہ واحد ہستی ہیں جو اپنی نگاہِ کامل، پاکیزہ و نورانی صحبت اور اسمِ اللہ ذات سے طالب کا تزکیۂ نفس فرما کر اور قلب کو نفسانی بیماریوں سے پاک کرکے معرفتِ الٰہی کے قابل بناتے ہیں۔ آئیں آپ بھی مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صحبت میں ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کر کے اپنے قلوب کو منور کریں۔

  15. سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
    تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور توبہ کرو، اس کے سامنے گریہ زاری کرو، اپنی آنکھوں اور دل کے آنسوؤں سے اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرو۔ رونا عبادت ہے کیونکہ وہ کمال درجہ کی عاجزی اور ذلت ہے۔ (الفتح الربانی، مجلس۔19)

  16. جو جتنا زیادہ اللہ کے قریب ہوتا ہے وہ اتنا ہی عاجز ہوتا ہے کیونکہ عاجزی انوار کا منبع ہے

  17. مرشد کامل اکمل کے بغیر اللہ جل شانہٗ کے قرب و معرفت کی راہ پر چلنا تو دور کی بات کوئی اس راہ کی مہک کو بھی نہیں پا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی اولیا اللہ کا منکر ہوتا ہے وہ دین کو فرقہ پرستی اور مسلک پرستی میں ہی تلاش کرتا رہتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں