قربِ دیدار | Qurb e Deedar


Rate this post

قربِ دیدار  

 Qurb e Deedar

حدیث قدسی:
اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ فَلْیَظُنَّ مَا یَشَآئُ وَ اَنَا مَعَ حِیْنٍ یَّذْکُرْ فِیْ نَفْسِیْ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ وَ اِذَا ذَکَرْنِیْ فِی الْمَلَائِ ذَکَرَتُہٗ فِی الْمَلَائِ خَیْرٌ مِّنْھُمْ وَ مَنْ تَقَرَّبْتَ اِلَیَّ شِبْرًا فَقَدْ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَّ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا فَقَدْ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَّ مَنْ جَآئَ اِلَیَّ یَمْشِیْ جِئْتُ اِلَیْہِ ہَرْوَلَۃًط
ترجمہ: میں اپنے بندے کے ظن اور گمان کے مطابق ہوتا ہے جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کا ذکر اپنے دل میں کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کسی مجلس میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجلس میں کرتا ہوں۔ اور جو میری طرف ایک بالشت چل کر آتا ہے میں اس کی طرف ایک گز چلتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
بیت

ہر کہ فی اللہ گشت فانی باخدا
نور نور ذات فی اللہ شد بقا

ترجمہ: جب طالب اللہ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے تو گویا نور نور سے مل کر بقا حاصل کر لیتا ہے۔

جو فقیر فقر کے مرتبۂ سلطان الوھم تک مکمل رسائی حاصل کر لیتا ہے اس پر قربِ اللہ سے تمام علوم نازل ہوتے ہیں۔ قدرتِ الٰہی کے مرسل سے اس پر ہزارہا ہزار بلکہ بے شمار پیغامات علمِ لدنی اور وارداتِ غیبی کی صورت میں وارد ہوتے ہیں۔ اسم اللہ  ذات (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے تصور سے عارف باللہ ایک لحظہ میں ہزار ہا بلکہ لاکھوں کروڑوں مقامات طے کر لیتا ہے اور ہر طرح کاغل و غش، غلط، غلاظت، کدورت، زنگار، خطرات و وہمات، خناس، خرطوم سب اس کے وجود سے نکل جاتے ہیں۔ سوائے اسم اللہ ذات (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے اس کے پُرنور اور دائم حضور دل میں اور کچھ نہیں رہتا۔ اس مقام پراس کے دل کو جمعیت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ روشن ضمیر ہو کر نفس پر حاکم بن جاتا ہے۔ یہ مراتب فنا فی اللہ فقیر کے ہیں جو اپنی باتاثیر نظر کے ساتھ طالب کو کسی بھی مقام کی حضوری تک پہنچا سکتا ہے۔ ایسا فنا فی اللہ ذاکر اگر کسی کو تاثیر بھری نظروں سے دیکھ لے تو یہ تاثیر اس کے وجود میں رواں ہو جاتی ہے۔ نگاہ کے تفکر کے ساتھ جسم پر ہاتھ سے اسمِ اللہ (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے نقش کی خوشخطی کرنے سے اسمِ اللہ پورے وجود پر مرقوم ہو جاتا ہے اور قلب و قالب میں اسم اللہ ذات (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کا نور سرایت کر جاتا ہے۔ اگرچہ تصور اسم اللہ ذات (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) اور مرشد کامل کی نگاہ سے مردہ دل میں بھی ذکر کی گرمی پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ مراتب تب تک ناقص ہوں گے اور ان پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ طالب کو مشاہدۂ حضوری، معرفتِ الٰہی کا استغراق اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly | Spiritual State) کی حضوری نہ حاصل ہو جائے۔ یہ مبتدی کے مراتب ہیں جن کا تعلق انائے نفس سے ہے اور جو فقرِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Faqr-e-Mohammadi) اور معرفتِ الٰہی سے بہت دور ہیں۔

وہ کونسی دعوت ہے جس سے دونوں جہان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں؟ وہ کونسی دعوت ہے جس سے کافر، کاذب، راہزن، منافق اور زندیق دشمنوں کے ہزارہا لشکر دعوتِ قرآن پڑھنے سے حیرت اور عبرت میں آ جاتے ہیں، ان کے دل ان کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور وہ بے خود ہو کر حاضر ہو جاتے ہیں اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبول کر لیتے ہیں۔ وہ کونسی دعوت ہے جس میں قرآنِ مجید اور اسمائے حسنیٰ پڑھنے سے تمام دشمن اندھے ہو جاتے ہیں اور صلح کر کے حضوری میں آ جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ وہ کونسی دعوت ہے کہ جس میں قرآن شریف پڑھنے سے دشمن کا تمام لشکر بے خود، مجنون اور دیوانہ ہو جاتاہے، انہیں نہ ہتھیار یاد رہتے ہیں نہ گھر اور نہ ہی وہ زبان کھول سکتے ہیں، بلکہ حیران و پریشان اور خراب رہتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اس عاملِ دعوت کو دیکھ نہ لیں تب تک انہیں جمعیت، صحت اور ہوشیاری حاصل نہیں ہوتی۔ وہ کونسی دعوت ہے جس میں قرآن شریف پڑھنے سے شروع میں ہی جن و انس، فرشتے اور مؤکل مسخر ہو کر قید میں آجاتے ہیں۔ وہ دعوت حرمِ مدینہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روضہ مبارک پر پڑھی جاتی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ دعوت خواں پہلے قبر مبارک پر انگلی سے ’محمد ابن عبداللہ‘ لکھے اور پھر یہ آیت لکھے:
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ  عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا  (سورۃ الاحزاب۔56)
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجا کرو۔

اس کے بعد قبر مبارک کے گرد سورۃ مزمل یا سورۃ فتح پڑھے اور متوجہ ہو کر مراقبہ کرے۔ اس عمل سے انشا اللہ مقصد میں جلد کامیابی حاصل ہوتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روضہ مبارک پر پڑھی جانے والی اس دعوتِ عظیم سے ایک ہی لمحہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے سب مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔
وہ کون سی دعوت ہے جس کے پڑھنے سے تمام گنج و خزائنِ الٰہی غیب الغیب سے زمین سے باہر آ جاتے ہیں اور دعوت خوان کو ان پر تصرف حاصل ہو جاتا ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہفت اقلیم کے سب بادشاہ اس کے حکم اور قید و قبضہ میں آکر طالب، مرید، فرمانبردار اور تابع دار غلام بن جاتے ہیں۔وہ کون سی دعوت ہے جس میں اگر اسم اعظم (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) پڑھ کر مٹی کے ڈھیلوں اور سنگریزوں پردم کیا جائے تو وہ سونا اور چاندی بن جاتے ہیں۔ وہ کونسی دعوت ہے جس سے طالب کا دل دنیا اور عاقبت سے سرد ہو جاتا ہے اور ہدایت اور غنایت پا کر ہمیشہ سیر رہتا ہے۔ استغراق فی اللہ اور معرفت دیدار کی وجہ سے نہ وہ ملکِ سلیمانی کی طرف نظر کرتا ہے اور نہ ہی دنیا و عقبیٰ کو اختیار کرتا ہے۔ فقر و فاقہ میں گدائی کرنے سے رستگاری بہتر ہے تاکہ باطن باصفا ہو کر روح سے متفق اور نفس کے خلاف اور اس سے علیحدہ ہو جائے۔
 حدیث
اَلدُّنْیَا قَوْسٌ وَّحَوَادِثُھَا سِہَامٌ وَ لْاِنْسَانَ فِیْھَا ھَدْفٌ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ حَتّٰی نِجَاتُ النَّاسِ
ترجمہ: دنیا کمان کی طرح ہے، اس کے حادثات تیر اور انسان ان کا نشانہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو حتیٰ کہ تم ان سے نجات حاصل کر لو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ  (سورۃ الانعام۔94)
ترجمہ: اور بے شک تم روزِ قیامت ہمارے پاس اسی طرح تنہا آؤ گے جیسے ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔

کامل دعوت صرف زندہ دم پڑھتا ہے۔ دعوتِ کامل میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید کی برکت سے مہمات میں پیش آنے والی تمام مشکلات ایک ہی لمحہ میں حل ہو جاتی ہیں اور مہم انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ جب زندہ قلب طالب دعوتِ مکمل پڑھتا ہے تو دعوت شروع کرتے ہی اس کے زندہ دل پر دلیل اور الہام وارد ہونے لگ جاتے ہیں اور تمام کارِ مہمات اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور طالب اپنے مقصود کو پا لیتا ہے۔ روحِ کلُ والا صاحبِ وھم فقیر جب دعوت پڑھتا ہے تو واحدانیتِ واحد سے اسے آواز آتی ہے۔ یہ دعوت کل الکلید اور مشکل کشا ہے جو آنکھ جھپکنے میں تمام کارِ مہمات کو انجام تک پہنچا دیتی ہے اور اللہ کے جمال کا وصال عطا کر کے ہر حال کی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے۔ دعوتِ جذب وہ ہوتی ہے جس میں قربِ الٰہی عطا کرنے والی دعوت کے تصور سے تمام مہمات کے امور اپنے مطلب و مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دعوت مقصود تک پہنچانے میں دیر کر سکتی ہے۔ عامل کی دعوت ہوا میں اڑنے والے تیز پرندے کی طرح ہے۔ مطالب کا تیر ان کی زبان کی کمان سے نکلتے ہی نشانے پر بیٹھتا ہے اور ارواح کی مدد اور قوت و توفیق سے ان کا ہر کام مکمل ہو جاتا ہے اور تمام مطالب حاصل ہو جاتے ہیں۔ البتہ اس دعوت میں بھی دیر ممکن ہے۔ کامل عاملِ دعوتِ کلُ وہ ہے جو کارِ مہمات کو اپنی توجہ، تصور، تفکر، اشتغالِ قرب اور توحید اللہ کی معرفت و وصال سے سرانجام دیتا ہے۔ ایسا صاحب ِ دعوت ناظرِ کل ہوتا ہے اور دونوں جہان اس کے سامنے حاضر رہتے ہیں اور ان کا نظارہ اس کے مدنظر رہتا ہے۔ یا یہ کہ منتہی عامل کامل صاحبِ دعوت قربِ حضوری کی بدولت ہر بات اور ہر حقیقت سے آگاہ رہتا ہے۔ قربِ الٰہی کے باعث اس کی نظر و نگاہ کو قوت و جمعیت حاصل ہوتی ہے۔ کامل صاحبِ دعوت جب کسی کام کو اپنی توجہ کے قبضہ و قید میں لاتا ہے تو جان لو کہ اس کا توجہ کرنا درحقیقت اللہ کا توجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے کام سرانجام دینے کے لیے لب ہلانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہے وہ دعوت جو توجہ کے عمل سے پڑھی جاتی ہے۔ اگر کسی کو دعوت پڑھنے، نقش و دائرہ پُر کرنے یا مؤکل اور جنونیت اور آسیب سے رجعت لاحق ہو جائے تو اسے کسی اور علاج کی ضرورت نہیں، صرف تصورِ اسم اللہ ذات (Personal Name of Allah | Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) سے ہی رجعت سے نجات مل جائے گی۔ معرفت و معراج کا حامل ہی دعوت پڑھنے کے لائق ہے۔ اہلِ دیدار کی ایسی کامل دعوت ناسوتی اہلِ مردار لوگوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔   ابیات

دل بیدار حق دیدار جوید
بہر سخنی ز حق دیدار گوید

ترجمہ: بیدار دل اللہ کے دیدار کا متلاشی ہوتا ہے اور اس کی ہر بات دیدارِ حق سے متعلق ہوتی ہے۔ 

بہ زندگی دل روا باشد گواہی
کشش از وی کشش با دل آگاہی

ترجمہ: زندہ دل اللہ کی پہچان کے لیے کشش رکھتا ہے، یہ کشش دل کے زندہ ہونے کی گواہی کے لیے کافی ہے۔

دلم را راز شد از راز اللہ
خطی برکش بگرد ماسویٰ اللہ

ترجمہ: میرے دل پر اللہ کے رازوں میں سے ایک راز منکشف ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے پر خط تنسیخ پھیر دے۔

کسی از خود فنا شد آنچہ تام است
فنا فی اللہ تعالیٰ باتمام است

ترجمہ:جو اپنی ذات کو فنا کر کے مکمل طور پر فنا فی اللہ ہو گیا وہی کامل ہے۔

چنان حباب بر آبش نمودن
شود با آب در آبش ربودن

ترجمہ: جیسے بلبلہ پانی کی سطح پر نمودار ہوتا ہے اور پانی میں غرق ہو کر پانی ہی بن جاتا ہے۔

چو اخگر آتش یک رنگ نام است
ولی گردی بخاکستر تمام است

ترجمہ: جب چنگاری آگ میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے تو پھر چنگاری اور آگ دونوں کا رنگ اور نام ایک ہی ہو جاتا ہے۔ 

جسم فی اللہ نور گردد بحر نوش
ذکر نورش نور ازو بالا عرش

ترجمہ:جسم اللہ کے نور میں فنا ہو کر بحر نوش ہو گیا۔ ذکر کا نور‘ ذاکر کو بھی نور بنا کر بالائے عرش لے گیا۔ 

منم بیدل کہ دل بامن نماندہ
کہ ورد روز و شب دیدار خواندہ

ترجمہ: میں بے دل ہوں کہ میرا دل مجھ میں نہ رہا۔ میں روز و شب دیدار کا ورد پڑھتا رہتا ہوں۔ 

بپرسیدم ز دل دیدار دیدہ
بگفت دیدہ ولی دیگر ندیدہ

ترجمہ: میں نے دل سے پوچھا کیا تو نے (اللہ) کا دیدار کیا؟ اس نے کہا اللہ کو اس نے دیکھا جس نے اس کے غیر سے نگاہ ہٹا لی۔ 

کسی بیند ز دل دیدار دائم
روا باشد کہ دل با روح قائم

ترجمہ: جس طالب کا دل ہمیشہ دیدار میں مشغول رہتا ہے اس کے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ اس کا دل روح کے ساتھ قائم ہو گیا ہے۔

کہ نفسی شد فنا با قرب اللہ
دلش شد روح و روحش غرق فی اللہ

ترجمہ: قربِ الٰہی سے جس کا نفس فنا ہو گیا، اس کا دل روح کے ساتھ ایک ہو کر اللہ میں غرق ہو گیا۔

دو عین یک نظر عینک نماید
حضوری معرفت از دل کشاید

ترجمہ: جب (دیدارِ الٰہی کی) عینک نصیب ہوتی ہے تو (ظاہری و باطنی) دونوں آنکھوں کی نظر ایک ہو جاتی ہے۔ معرفت اور حضوری کی راہ دل سے کھلتی ہے۔

ازل تا ابد بادیدار بودم
ز ابد دیدہ با دیدار بودم

ترجمہ: ازل سے ابد تک مجھے اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہے۔ ابد تک میری آنکھیں اللہ کے دیدار میں مشغول رہیں گی۔ 

دویم یک گشتہ در یک روز بینم
ز حق منکر نیم ہر روز بینم

ترجمہ: میں ایک ہی دن میں دوئی سے گزر کر اللہ سے یکتا ہو گیا۔ مَیں حق کا منکر نہیں ہوں، مَیں تو ہر روز اللہ کا دیدار کرتا ہوں۔

از ہزاران کسی بود آنجا رسیدہ
کہ غرق ماسویٰ مطلق بریدہ

ترجمہ: ہزاروں میں سے کوئی ایک طالب ہی ہوتا ہے جو غیر ماسویٰ سے مکمل کٹ کر یکتائی کے مرتبہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

ز دیدہ نور نوری نور راز است
کہ چشم معرفت او را چو باز است

ترجمہ: نور کے دیدار سے جب چشمِ معرفت کھل گئی تو نور کا نوری راز بھی ظاہر ہو گیا۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی(سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ:ـاور جو شخص اس دنیا میں (دیدارِ الٰہی سے) اندھا رہا پس وہ قیامت کے روز بھی اندھا ہی رہے گا۔

پس معلوم ہوا کہ دعوت کی ہر قسم، علمِ دعوت، حکمتِ دعوت، جمعیتِ دعوت، حکمِ دعوت، اجازتِ دعوت، رجعتِ دعوت اور روحانیتِ دعوت کو جاننا ضروری ہے۔ دعوت کی پانچ کلیدیں ہیں جن کا تصرف توحید اور حکم حضوری سے حاصل ہوتا ہے۔ جو ان کلیدوں سے بے خبر ہے وہ ناقص اور اہلِ تقلید ہے۔ جس قفل میں بھی ان کلیدوں کو ڈال دیا جائے، وہ ان کی برکت سے کھل جائے گا۔
 اوّل کلید فیض الفضل
دوم کلید لوحِ محفوظ کے مطالعہ سے ازلی نصیبہ معلوم کرنا
سوم کلید نعم البدل
چہارم کلید جس سے رجعت، خطرات اور خلل دور ہوتے ہیں
پنجم کلید جس سے عامل کی ایک ہی نگاہ سے ہر دعوت عمل میں آ جاتی ہے۔

یہ ہیں دعوت کی مجموعۂ کلیدیں‘ جن کی اصل توحید ِ الٰہی ہے۔ دعوت کو پڑھنا اور مؤکلوں کو مسخر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ دعوت پڑھنے میں ایک لاکھ تئیس ہزار رجعتیں ہیں جن سے بعض کے وجود میں علم و وظائف کے غلبات سے دیوانگی، جنون، فقر، ہلاکت اور بے اعتباری پیدا ہوجاتی ہے اور بعض کو انانیت، ہوا و ہوس، رجوعات و مسخراتِ خلق کی رجعت لاحق ہو جاتی ہے۔ لیکن کامل اور عامل مرشد صاحب ِ دعوت وہ ہے جس کا طالب ہر مرتبے، ہر رجعت اور ہر مقام پر غالب ہوتا ہے۔ دعوت میں انتہا اور کاملیت قربِ دیدار سے حاصل اور رواں ہوتی ہے جس سے دل بیدار، روح نظّار اور طالب مشاہدۂ سرّاسرار بین بن جاتا ہے۔ رجعت کے معنی غیر حق کی طرف رجوع کرنا ہے جو (حق کی بجائے) باطل تک پہنچا دیتا ہے۔
 رباعی

دعوتِ کامل بود کامل کرم
کامل سرشت با ادب و شرم

ترجمہ:کامل کی دعوت مکمل کرم ہوتی ہے۔ کامل فطرتًا باادب اور باحیا ہوتا ہے۔

ناقصی خوانی بود خانہ خراب
بہر اللہ دعوتش خواندن ثواب

ترجمہ: ناقص دعوت پڑھے تو صرف بربادی و خانہ خرابی ہے۔ لیکن جو اللہ کی خاطر دعوت پڑھے گا اس کا عمل اس کے لیے باعثِ ثواب ہو گا۔

(جاری ہے) 


اپنا تبصرہ بھیجیں