مومنین کی صفات | Momineen Ki Sifaat


2.9/5 - (15 votes)

مومنین کی صفات

Momineen Ki Sifaat

تحریر: فائزہ سعید سروری قادری (سوئٹزر لینڈ)

قرآنِ پاک میں مومن (Momin) کی تعریف کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:
بے شک جو لوگ اپنے رب کی خشیّت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے ربّ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے ربّ کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں۔(سورۃ المومنون 57-61)

بے شک ایمان والے مراد پا گئے جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بے ہودہ باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر وہ شخص جو ان (حلال عورتوں) کے سوا کچھ اور کا خواہشمند ہوا تو ایسے لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرنے والے ہیں یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں۔ یہ لوگ فردوس کی میراث پائیں گے۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔(سورۃ المومنون1-11)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن (Momin) نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’مومن (Momin) کو جو بھی دکھ، بیماری اور جو بھی پریشانی، رنج وغم اور اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان آزمائشوں اور مصیبتوں کے بدلے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)

صبر مومن (Momin) کا خاص وصف ہے، وہ ہر حالت میں اللہ کا شکر کرنے والا ہوتا ہے اور اسی صبر اور شکر کے نتیجے میں اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتاہے:
حضرت صہیب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کو فرماتے ہوئے سنا کہ مومن (Momin) کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے لئے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات صرف مومن (Momin) کو حاصل ہے۔ اگر اس کوکوئی خوشی ملتی ہے اور وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لئے خیر کا سبب بنتاہے اور جب اس کو کوئی تکلیف آتی ہے تو اس پر وہ صبرکرتاہے اور یہ صبر اس کے لئے خیر کا باعث بنتاہے۔ (صحیح بخاری)

اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ حقیقتاً مومن (Momin) ہے کون؟ تو اس بارے میں بھی لوگوں نے غلط فہمیاں پال رکھیں ہیں۔ کچھ لوگ مومن (Momin) کہلانے کی خاطر اپنی وضع قطع بدل کر لوگوں سے کٹ کر حجروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور دن رات عبادات میں مصروف رہتے ہیں۔ جائز خوشیوں کو بھی خود پر حرام کر کے رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں اور خود کو دوسروں سے ممتاز تصور کرتے ہیں۔ اس سے دو بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ مخصوص مذہبی ہیئت اپنانے والا خود کو دوسروں سے اعلیٰ و برتر سمجھتا ہے اور انہیں دیکھ کر دیگر عام اور سادہ لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیداہوتا ہے کہ مذہب سے گہرا تعلق رکھنا صرف کسی خاص گروہ کا کام ہے، عام آدمی اس کو اختیار نہیں کر سکتا۔ پھر یہ سادہ لوح لوگ اسی قسم کے نام نہاد مومنوں کے پاس دعائیں اور تعویز دھاگے کرانے چل پڑتے ہیں۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی تمام تعلیمات، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سب احکامات مل کر اس تصور کا خاکہ بناتے ہیں جس کے مطابق مومن کو نظر آنا چاہیے۔ یہ خاکہ مومن (Momin) کا معیارومطلوب ہی نہیں بلکہ اس کی شناخت و پہچان کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ خاکہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کی زندگیوں سے اس قدر واضح تھا کہ اس کی گواہی خود اللہ پاک نے سورۃ الفتح میں اس طرح دی ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ٓاَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاچ  سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ  (سورۃ الفتح ۔29)
ترجمہ:محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو (مومن) لوگ آپ کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زورآور ہیں اور آپس میں بہت نرم اور شفیق ہیں۔آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہمہ وقت اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے حصول میں مصروف یہ جماعت جنگلوں میں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر لوگوں سے الگ نہیں رہتی تھی۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی وضع قطع نہیں بنائی تھی جس سے لوگ انہیں اپنے سے مختلف خیال کرتے۔ وہ اپنے ربّ کا فضل اور خوشنودی عام انسانوں کی طرح ظاہری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتے اور ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے حاصل کرتے رہے۔ ان میں کوئی بھی تارکِ دنیا نہ ہوا اور اگر کسی نے کوشش بھی کی تو اللہ نے اس کی اجازت نہ دی کیونکہ اس نمائشی دین داری کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شادی بھی کی، عام لوگوں کی طرح لباس زیب ِتن کیا اور وہ تمام افعالِ زندگی ادا کئے جو کہ ایک عام انسان ادا کرتا ہے تو پھر مومن بننے کے لئے وضع قطع بدلنا اور رہبانیت اختیار کرنا قطعاً غیر شرعی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کلمہ طیبہ پڑھنے والا ہر مسلمان مومن ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں کئی مقامات پر اللہ پاک نے اس فرق کو واضح طور پر بیان کر دیا مثلاً سورۃ الاحزاب میں اللہ پاک فرماتاہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ
ترجمہ: بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن (Momin) مرد اور مومن عورتیں۔
ان دومیں فرق ہے اسی لئے اللہ پا ک نے دونوں کو الگ الگ مخاطب کیا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے اور بلا ضرورت کسی بھی بات کو دہرانا کلامِ الٰہی کی شان نہیں۔
جو کوئی بھی کلمہ طیبہ پڑھ لے وہ دائرہ اسلام میں تو داخل ہو جاتا ہے اور مسلمان کہلانے کا حق دار بھی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دائرہ ایمان میں داخل ہو گیا اور مومن بن گیا ہے۔ اس کی وجہ قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط  قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ  (سورۃ الحجرات ۔14)
ترجمہ: دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہوہم اسلام لے آئے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔

اللہ پاک نے ایمان کو دل سے جوڑ دیا ہے یعنی اسلام ظاہری زبان سے اقرار کرنا ہے لیکن ایمان کا تعلق دل سے ہے جیسا کہ حدیثِ پاک سے بھی واضح ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
مومن (Momin) وہ ہے جس کے دل کو ایمان مزین کر دے۔ (مسلم و بخاری)
پس ایک عام مسلمان مومن (Momin) نہیں ہو سکتا۔ یہ ظاہر ہوگیا کہ جب تک ایمان دل میں داخل نہ ہو کوئی مومن (Momin) نہیں ہو سکتا، تو پھر وہ کون سے اعمال و افعال ہیں جن کو اپنا کر ایک عام مسلمان مومن (Momin) بن سکتا ہے۔سورۃ انفال میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے:
ایمان والے صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب اُن پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اسکی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (سورۃ الانفال 2-4)
اور پھر سورۃ المجادلۃ میں یوں بیان کیا:
آپ ان لوگوں کوجو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ ان کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ (سورۃ المجادلہ۔22)

اس آیت کے ذریعے اللہ نے مومنین (Momineen) کے ایک خاص وصف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب ایمان ان کے دلوں میں داخل ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh)  کی محبت کے سوا ان کے دل میں کوئی دوسری محبت نہیں ٹھہرتی اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کے مخالف ہوں مومنین (Momineen) ان کے دشمن ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے جنگِ اُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے روزِ بدر اپنے بیٹے عبد الرحمن کو مبارز کے لئے طلب کیا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو روزِ بدر قتل کیا اور حضرت علی ابن ابی طالب و حمزہ و ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو جنگِ بدر میں قتل کیا جو ان کے رشتہ دار تھے۔ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) پر ایمان لانے والوں کو ان کے مقابلے میں رشتہ داری اور قرابت داری کا کیا پاس اور اسی بابت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن (Momin) نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
مومن (Momin) وہ ہے جو ظاہری طور پر اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکات سے بہرہ ور ہو۔ گفتار میں صدق اور شرینی ہو، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کے عشق سے سرشار ہو، دیانت و امانت اس کا شعار ہو، صبر وشکر اس کی متاعِ گراں ہو، سخاوت و ایثار اس کی تربیت ہو اور باطنی طور پر تقویٰ، عشقِ الٰہی، صبر، توکل، رضا، صدق، عاجزی، شرم وحیا اور عمل کا مجموعہ ہو۔ وہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار صرف زبان سے ہی نہیں کرتا بلکہ دل سے اس کی تصدیق بھی کرتا ہے اور عمل سے اس تصدیق کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے وجود کی نفی کرتا ہے اور شہادت دیتاہے کہ ربّ تعالیٰ کے سوا کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ مومن (Momin) کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہر وقت نفس کے خلاف جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ اس نے اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہوتا ہے۔

پہلا حصہ: جس میں وہ اپنے پروردگار کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے۔
دوسرا حصہ: جس میں وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔
تیسرا حصہ: جس میں وہ حقوقِ انسانی کو حلال و مباح طریقوں سے پورا کرتا ہے۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’مومن نرم خو ہوتے ہیں جیسے ایک نکیل ڈالا اونٹ ہوتا ہے۔ اگر اسے روکا جائے تو رک جاتا ہے اور اگر اسے چٹانوں پر بھی بٹھایا جائے تو وہ بیٹھ جاتا ہے۔‘‘ (مسندِ احمد)
یعنی مومن (Momin) کو اللہ پاک جس حالت میں بھی رکھے وہ اس پر خوش اور راضی رہتا ہے۔ اس کا توکل اللہ پاک کی ذات پر کامل ہوتا ہے۔ اس کا یہ کامل یقین (Momin) ہوتا ہے کہ جس حال میں میرا مولا مجھے رکھے وہ بہتر ہے کیونکہ وہ میرے حال کو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیت پر اس کا کامل توکل ہوتا ہے:
وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ 
ترجمہ: اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے۔
میرے مرشد کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’تمہارے لیے وہ حال سب سے بہتر ہے جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں رکھے۔‘‘ 

حدیثِ قدسی ہے:
مومن (Momin) کا دل اللہ پاک کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جسے وہ الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔
یعنی اس کے دل کو اللہ پاک مختلف کیفیات سے گزارتا ہے۔ کبھی خوف و رجا کبھی خشیت ومحبت۔ کبھی بلاؤں اور شدائد میں رکھتا ہے تو کبھی رحمتوں کی برسات میں۔ لیکن بندۂ مومن (Momin) وہ ہے کہ سخت سے سخت آزمائش بھی اس کی حالتِ ایمان بدل نہیں سکتی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ معراج یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اللہ پاک سے ملاقات اور بلا حجاب دیدار کرنا۔ توکیا جس نماز میں دیدارِ الٰہی نصیب نہ ہو اس کو معراج کہہ سکتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ ایسی نماز صرف مومن (Momin) کو ہی نصیب ہوتی ہے کیونکہ وہی اپنے صبر اور استقامت کے باعث قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے اور اپنے عشق کی بنا پر اللہ سے نورِ بصیرت پاتا ہے جس سے وہ اللہ کا دیدار کرتا ہے، اللہ سے بات کرتا اور اس کی بات سنتا ہے اور پھر وہ دیدارِ الٰہی کرتے ہوئے نماز یوں ادا کرتا ہے جیسے اللہ سے ملاقات کر رہا ہو جیسا کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ اور پھر اللہ مومن (Momin) کے دل کو اپنے نور سے روشن اور پاکیزہ کر دیتا ہے اور خود اس میں آبستا ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ پاک نے فرمایا ہے ’’نہ میں زمینوں میں سماتا ہوں اور نہ ہی آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن (Momin) کے دل میں سماجا تا ہوں۔‘‘ (مسلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh)  نے فرمایا ’’مومن کا دل اللہ کا عرش ہے۔‘‘ (مسند ِاحمد)
مومن (Momin) جب چاہتا ہے اپنے ہی باطن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے اور اسی کیفیت کو ایمان کا دل پر ثبت ہونا بھی کہتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مومن (Momin) وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو، مومن (Momin) وہ ہے جس کی تنہائی پاک ہو۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا ربّ اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی ناراضگی کے خوف سے وہ کوئی بھی غلط کام تنہائی میں بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔ تنہائی ہو یا محفل، دیدارِ الٰہی کی کشش اس کو غلط کام کی طرف جانے ہی نہیں دیتی۔
مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتاہے اور مومن (Momin) وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔
مومن (Momin) کی مثال ترازو کے پلڑے جیسی ہے جس قدر اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمائش بڑھتی ہے۔
لیکن مومن (Momin) ان آزمائشوں پر صبر کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جو اس کو اتنی ہمت اورطاقت دیتی ہے؟ وہ ہے عشق ِ الٰہی، قربِ الٰہی اور دیدارِ الٰہی۔ جب تک دل عشق ِ الٰہی سے مزین نہ ہو مومن (Momin) بننا ناممکن ہے۔

سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
ہر مومن (Momin) کے لئے تمام حالات میں تین چیزوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ پہلے احکاماتِ خداوندی کی تعمیل کرے، دوسرے تمام ناپسندیدہ امور سے اجتناب کرے اور تیسرے جو کچھ بارگاہِ ربّ العزت سے مقدر ہے اس پر راضی رہے۔ ایک مومن کی ادنیٰ کیفیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی حال میں مذکورہ بالا تینوں امور کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ اپنے قلب کو پوری طرح اس طرف متوجہ رکھے، اپنے نفس سے انہی باتوں کی گفتگو کرے اور تمام حالات میں اپنے اعضا و جوارح کو انہی امور کی بجا آوری میں مشغول رکھے۔ (فتوح الغیب)
مومن (Momin) غیر اللہ سے نہیں ڈرتا اورنہ ہی غیر سے توقع اور اُمیدیں وابستہ رکھتا ہے کیونکہ اس کے دل اور باطن میں ایک خاص قوت عطا کی گئی ہے۔ مومن (Momin) اور صادقین کے دل اللہ کے ساتھ کیسے قوی نہ ہوں وہ تو اللہ کی طرف پہنچے ہوئے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کے پاس رہتے ہیں، صرف ان کا بد ن زمین پر ہوتا ہے۔ (الفتح الربانی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِن
ترجمہ:دنیا مومن (Momin) کے لئے قید خانہ ہے۔
بھلا قیدی اپنے قید خانہ میں کیونکر خوش ہو سکتا ہے؟ وہ کبھی خوش نہ ہو گا۔ خوشی اس کے چہرہ پرتو ظاہر ہوگی مگر خلوت، باطن اور معنی کے اعتبار سے مصائب اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہوں گے اور اس کے زخموں کے نیچے پٹیاں بندھی ہیں اور وہ اپنے زخموں کو اپنی مسکراہٹ کے کرتہ سے ڈھانپ کر رکھتا ہے کہ کہیں کوئی اس کی اصلی حالت کو پہچان نہ لے اس لئے اللہ ربّ العزت فرشتوں کے سامنے اس پر فخر فرماتا ہے اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کئے جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک دینِ خداوندی کی دولت کا اور اس کے اسرار کا محافظ ہے اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں اور تقدیر کی تلخیوں کو گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ (الفتح الربانی)
مومن (Momin) کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی چیز مقدرات سے آتی ہے وہ اس کو تقدیر کے ہاتھوں سے لیتاہے اور شریعت کی موافقت اور رضا مندی کے ساتھ اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ پھر نہ اس کے لئے نفس باقی رہتاہے نہ خواہش اورنہ اس کی طبیعت رہتی ہے اور نہ ہی شیطان ملعون۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ان کے مقابلہ پر مومن کی مدد کی جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل معدوم ہی ہوگئے۔ (الفتح الربانی) 

حضرت سخی سلطان باھوؒ مومن کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان کاکھانا نور ہے، ان کا دل بیت المعمور ہے۔ ان کی نیندحالتِ حضور ہے، ان کے نزدیک زاہد طالب بہشت کا مزدور ہے۔ اور ان کی عاقبت مغفور ہے قدرتِ توحید و دریائے وحدتِ الٰہی مومن (Momin) کے دل میں سمایا ہے۔ (عین الفقر)

دورِ حاضر کے انسانِ کامل اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس  (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)فرماتے ہیں:
 مومن (Momin) وہ ہے جس کے ظاہر اور باطن میں کوئی اختلاف نہ ہو اور جس کا دل عشقِ حقیقی کی لذتوں سے لبریز ہو۔
اور عشقِ حقیقی کی تعریف آپ مدظلہ الاقدس نے یوں فرمائی ہے :
محبوبِ حقیقی پر تمام پیاری اور محبوب چیزوں، رشتوں اور مال ومتاع کو نثار کردینے کا نام عشق ہے۔
جو بھی اس طرح کا حقیقی عشق دل میں بسالے وہ اعلیٰ مومن کا درجہ پاکر ہی رہتاہے۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ مومن کے بارے میں لکھتے ہیں:

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریلِ امین بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
 دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن

یعنی مومن (Momin) وہ ہے جس کا رہن سہن، گفتگو اور چال ڈھال سب اللہ کے احکام کے مطابق ہوں۔ جو اللہ کی صفات سے متصف ہو جائے اور قرآن اور حدیث میں دیئے گئے تمام احکام اس کے عمل سے ظاہر ہوں۔ اس کا اصل وطن یہ دنیا نہیں بلکہ عالمِ ھاھویت ہے جہاں لوٹ جانے کو وہ ہر وقت تڑپتا ہے۔ یہ دنیا اس کے لئے امتحان گاہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ دوسرے مومنوں کے لئے تو نرم خو ہے لیکن کافروں کے حق میں سخت ہے بالکل چٹانوں کی طرح اور سورۃ الرحمن کی اس آیت پر پورا اترتا ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ
ترجمہ:اور وہ جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ مومن (Momin)  کے آخری لمحات کا ذکر اس طرح فرماتاہے:
وہ پرہیزگار لوگ جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب فرشتے لینے آتے ہیں تو کہتے ہیں سلام ہوتم پر۔ جاؤ اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (سورۃ النمل 27-32)
حدیث مبارکہ میں بیان ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’مومن جب آخرت کی طرف جانے والا اور دنیا کو چھوڑنے والا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایسے فرشتے آتے ہیں گویا ان کے چہروں پر سورج ہوں (یعنی انتہائی چمکدار) ان میں سے ہر ایک کے پاس خوشبو اور سفید لباس ہوتا ہے، پھر اس مومن (Momin) کی جہاں تک نگاہ جاتی ہے فرشتے ہی فرشتے ہوتے ہیں وہ اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور پھر عزرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں ’اے پاکیزہ روح! اللہ کی بخشش اور رضا مندی کی طرف چل‘ پھر وہ نکلتی ہے تو فرشتے اس کو پکڑ لیتے ہیں اور ریشمی لباس اور خوشبوؤں میں رکھ کر ربّ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتاہے ’میرے بندے کا اعمال نامہ علیین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لوٹا دو کیونکہ میں نے اسی سے ان کو پیدا کیا اور اسی میں ان کو لوٹاؤں گا اور اسی زمین سے ہی انہیں دوسری مرتبہ اُٹھاؤں گا۔‘ پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے تب (قبرمیں) اس کے پاس دو فرشتے آکر بیٹھ جاتے ہیں اور اسے پوچھتے ہیں کہ تیرا ربّ کون ہے؟ وہ کہتاہے میرا ربّ اللہ ہے۔ پھر پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے’’ اسلام‘‘۔ پھر پوچھتے ہیں وہ شخص جو تم میں بھیجا گیا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے ’’اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh)۔‘‘ وہ پوچھتے ہیں تیرا علم کیا ہے؟ وہ کہتاہے ’’میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔‘‘ پھر آسمان سے آواز آتی ہے ’میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دو اورجنت سے لباس دواور جنت میں بستر لگا دو۔‘ پھر اس کے پاس حسین چہرے والا، عمدہ لباس اور خوشبوؤں میں بسا ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے ’تجھے خوشخبری ہے ان نعمتوں کی جنہوں نے آج مجھے خوش کر دیا، وہ کہ جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا‘۔ مومن کہتاہے توکون ہے؟ وہ کہتاہے ’تیرا نیک عمل‘۔ تب وہ مومن کہتاہے ’میرے ربّ! قیامت قائم کر قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے اہل و عیال کے پاس جاؤں۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد)

یہی وہ مومن (Momin) ہے جس سے اللہ تعالیٰ یوں کلام کرتا ہے:
 اے نفسِ مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اللہ سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی۔ پس میرے (کامل) بندوں میں شامل ہوجا اورمیری جنت (قرب و دیدار) میں داخل ہو جا۔ (سورۃ الفجر 27-30)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے والا خالص و صادق مومن (Momin) بنائے تاکہ دین و دنیا میں فلاح یاب ہو سکیں۔

استفادہ کتب:
۱۔الفتح الربانی؛ تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔فتوح الغیب؛ ایضاً
۳۔عین الفقر؛ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔شمس الفقرا؛ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس(Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)
۵۔کلیاتِ اقبالؒ

 
 

23 تبصرے “مومنین کی صفات | Momineen Ki Sifaat

  1. اللہ پاک سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے والا خالص و صادق مومن بنائے۔آمین۔

  2. بہترین مضمون ہے ماشاءاللّٰه ❣️❣️❣️

      1. حدیثِ قدسی ہے:
        مومن (Momin) کا دل اللہ پاک کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جسے وہ الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔

  3. بہت خوبصورت مضمون۔۔۔❤️ مومن (Momin) وہ ہے جس کا رہن سہن، گفتگو اور چال ڈھال سب اللہ کے احکام کے مطابق ہوں۔

  4. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے والا خالص و صادق مومن (Momin) بنائے تاکہ دین و دنیا میں فلاح یاب ہو سکیں۔

  5. ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
    گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

  6. مومن کی حقیقت اور اوصاف کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

  7. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے والا خالص و صادق مومن (Momin) بنائے تاکہ دین و دنیا میں فلاح یاب ہو سکیں۔

    1. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے والا خالص و صادق مومن  بنائے تاکہ دین و دنیا میں فلاح یاب ہو سکیں

  8. علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
    مسلمان اللہ کا منتظر رہتا ہے اور اللہ مومن کا منتظر رہتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں