نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
تحریر: عرشیہ خان سروری قادری۔ لاہور
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر میں ’’نگاہِ فقر ‘‘سے مراد ’’نگاہِ مردِ مومن‘‘ ہے۔ یہ اُس اکمل ہستی کی جانب اشارہ ہے جو اپنی ہستی فنا کر کے اللہ کی ذات سے وصال پا چکی ہو۔ ایسے انسانِ کامل یا فقیرِ کامل کی نظر میں حکومت یا سلطنت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے دنیوی تقاضوں سے غرض ہوتی ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ جو سرداری غیرت و حمیت اور عزتِ نفس کو کھو کر حاصل کی جائے وہ گداگری کی مانند ہے جبکہ فقیرِ کامل کا فقر ہی اس کو دنیا و آخرت میں بادشاہوں کا بادشاہ بنا دیتا ہے۔ وہ بادشاہوں کی طرح کسی خراج کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ اس کی نگاہِ کرم کے محتاج ہوتے ہیں۔
جن لوگوں کو چشمِ بینا حاصل ہو جائے وہ زندگی کی فانی لذتوں، جاہ وجلال اور مال و دولت سے بے پرواہ ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ فقیر اپنے خزانہ فقر کی بدولت دونوں جہانوں کا مالک ہوتا ہے اور دونوں جہان اس کے قدموں تلے ہوتے ہیں کیونکہ فقر عین ذات پاک ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ دنیاوی بادشاہوں کے مقابلے میں فقرا کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* اگر صاحبِ جذب مالک الملکی فقیر کسی بادشاہ کو جذب کر لے تو وہ تمام عمر پریشان اور سرگردان رہے گا اور ہرگز آرام نہیں پائے گا۔ اگر کوئی صاحبِ تصرف کامل فقیر ولی اللہ کسی بادشاہ کی طرف توجہ کر دے تو بادشاہ ایک حلقہ بگوش غلام کی مثل ننگے پاؤں اس کی بارگاہ میں دوڑا چلاآئے گا۔ پس بادشاہ ولی اللہ کے تابع ہوتا ہے اور مشرق و مغرب تک ہر ملک اور ہر بادشاہ اور ہر علاقہ فقیر کے تصرف میں ہوتا ہے۔ اگر ظاہر و باطن میں ولی اللہ فقیر کی توجہ شاملِ حال نہ ہوتو بادشاہ کوئی مہم سر نہیں کر سکتا چاہے اس کے پاس ہزاروں ہزار لشکر ہی کیوں نہ ہوں۔ رات دن بکثرت دعائیں مانگنے اور بے شمار دولت خرچ کرنے سے فقیرِ کامل کی ایک توجہ ہی کافی ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
* پس فقیر بننا چاہیے کیونکہ دونوں جہان فقیر کے حکم کے ماتحت اور اس کے قبضہ و تصرف میں ہوتے ہیں۔ فقیر مکمل فیض بخش ہوتا ہے۔ یہ گدا جو نفس سے مغلوب ہیں، فقیر نہیں ہو سکتے۔ فقیر حاکم اور امیر ہوتا ہے، اگر چاہے تو گدا کو ربع مسکون(زمین کا چوتھا حصہ) اور ہفت اقلیم(سات حصہ زمین یا سات براعظم) کا بادشاہ بنا دے اور اگر چاہے تو ہفت اقلیم کے بادشاہ کو معزول کر کے گدا کو اس کا قائم مقام بنا دے۔ یہ تصرفات کونین پر امیر صاحب مسمّٰی فقیر کے ہیں۔ حیران مت ہو۔ جس نے بھی عزت و شرف پایا فقیر ہی سے پایا۔ جو کوئی درویشوں کا منکر ہو وہ دنیا و آخرت میں خراب حال ہو کر ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ (امیر الکونین)
* کامل مرشد جس طالب مرید کو یاد کرتا ہے اسے ولی اللہ کے مرتبہ پر فائز کر دیتا ہے اور اس کا مرتبہ (دنیاوی) بادشاہ سے بھی فائق تر کر دیتا ہے کیونکہ اللہ کے فقیر کی نگاہ میں دنیاوی بادشاہ سائل، عاجز، مفلس اور گدا ہوتے ہیں۔ مرشد کامل جس طالب کو تصور اسمِ اللہ ذات بخشتا ہے اسے چشمِ عیاں عطا ہوتی ہے اور ملکِ سلیمانیؑ کی بادشاہی اس طالب کے قید و قبضہ میں آ جاتی ہے۔ مرشد کامل اپنے طالب مرید کو ہر عمل اور کیمیا میں کامل کرتا ہے اور اسے غنایت و سنگِ پارس سے ایسا تصرف عطا کرتا ہے کہ بادشاہ اس کی خدمت میں حلقہ بگوش و جاں فدا غلام کی مثل حاضر ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کے تمام ماہ و سال وہیں گزارتا ہے۔
من غنی ام بادشاہ ہم باخدا
بادشاہ در نظر من مفلس گدا
ترجمہ: میں خدا کے ساتھ وصال کی بدولت غنی بادشاہ ہوں اور یہ دنیاوی بادشاہ میری نظر میں مفلس اور گدا ہیں۔
احتیاجے نیست ما را سیم و زر
غالبم باموسیٰؑ غالب بر خضرؑ
ترجمہ:مجھے کسی مال و دولت کی ضرورت نہیں بلکہ میں موسیٰؑ اور خضرؑ سے بھی زیادہ روحانی طور پر طاقتور ہوں۔(امیرالکونین)
ہمارے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام، ان کے اصحابؓ اور تمام اولیا کرام کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے بادشاہت و سکندری پر اختیار رکھتے ہوئے بھی فقر کو ترجیح دی۔
ایک بار جب حضرت عمرؓ بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کھجور کی چھال سے بنی چارپائی یا چٹائی پر آرام فرمارہے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُٹھ کر بیٹھے تو جسم مبارک پر چھال کے نشان پڑچکے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ آبدیدہ ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا ’’ عمرؓ کیا ہوا؟ ‘‘تو انہوں نے کہا ’’یارسول اللہ! قیصرو کسریٰ توکیسی عشرت میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہو کر اس حالت میں۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ ان کے لیے صرف دنیا کی خوشیاں ہیں اور ہمارے لیے آخرت کی۔‘‘حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کائنات کی عظیم ترین خاتون، جنت میں عورتوں کی سردار، دولتِ فقر کی پہلی وارث اور سلطان ہیں، آپؓ نے ذاتِ حق تعالیٰ اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں خود کو فنا کردیا تھا۔ آپؓ نے اللہ کی خاطر تمام آسائشیں جو بآسانی آپؓ کے قدموں میں ڈھیر ہو سکتی تھیں‘ ٹھکرا دیں۔ آپؓ صبرورضا کی پیکر تھیں، چکّی پیستے پیستے آپؓ کے مبارک ہاتھوں میں زخم ہو جاتے۔ بے حد تکلیف کے باوجود آپؓ کے نازک ہاتھ چکّی پیستے رہتے اور زبان مبارک پر قرآنی آیات کا وِرد جاری رہتا۔ کئی کئی دن کی فاقہ کشی، سخت تنگی اور پریشانی کے عالم میں بھی کبھی آپ رضی اللہ عنہا کے دل میں دنیا کے آرام و آسائش حاصل کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
ایک مرتبہ ایک رومی سفیر مدینہ منورہ آیا اور اہلِ مدینہ سے دریافت کیا کہ تمہارے شہنشاہ کا محل کہاں ہے؟جواب ملاکہ ہمارے ہاں نہ تو شہنشاہ ہے اور نہ محل ہے البتہ خلیفۃ المسلمین ہیں۔وہ اس وقت سامنے مٹی گارا اٹھا کر مزدوری کر رہے ہیں جو ان کا ذریعۂ معاش ہے اور مسجد کی دیوار کے سائے میں آرام فرماتے ہیں۔رومی سفیر حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور کہنے لگا’’ کیا یہ وہ انسان ہیں جن کی کلاہ بادشاہوں کی نیندیں اُڑا چکی ہے۔اے عمرؓ! آپؓ نے انصاف کیا اس لیے آپؓ کو گرم ریت پر نیند آجاتی ہے۔ ہمارے شہنشاہ نے ظلم کیا انہیں ریشم اور کمخواب کے بستروں پر بھی نیند نہیں آتی۔‘‘
اللہ پاک کا بے حد فضل ہے کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی بنایا اور اسمِ g ذات کے وسیلہ سے اپنی پہچان اور دیدار کی نعمت عطا کی اور آج کے پُر فتن دور میں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی وارث، نائب اور فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ تک رسائی عطا فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقر کے بادشاہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ فقر خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ نے حاصل کیا۔ پھر یہ اُمتِ محمدی کے فقرا کو منتقل ہوا اور سلسلہ سروری قادری کے مشائخ سے منتقل ہوتے ہوتے آج کے دور میں فقر کے سلطان مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تک پہنچا۔ فقر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وراثت اور نور ہے، جو اس نور تک پہنچ گیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچ گیا اور جس نے فقر کو پا لیا وہی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا حقیقی وارث ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقیقی ورثا یعنی فقرا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی ہر شے اور خواہش کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیاحتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی۔ فقرا فقر کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور دونوں جہانوں سے منہ موڑ لیتے ہیں حالانکہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں: اَلْفَقِیْرُ الَّذِیْ لَہٗ اَمْرٌ فِیْ کُلِّ شَیْءٍ کُنْ فَیَکُوْنَ ترجمہ: ’’فقیر وہ ہے جسے ہر چیز میں کُنْ فَیَکُوْنَ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔‘‘(شمائل الاتقیاء)
ان فقرا کی یہ شان ہوتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ سے کچھ بھی طلب کریں اللہ ان کو فوری مہیا کر دیتا ہے اور انہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا لیکن فقر کی تمامیت پر پہنچ کر فقیرِ کامل کی نظر میں دنیا اور اس کی تمام نعمتیں خواہ مال و دولت ہو، رتبہ و پذیرائی ہو، عیش و عشرت ہو ہر چیز بے کار اور بے وقعت ہوجاتی ہے اور وہ صرف اپنے ربّ کے دیدار اور قرب کے طالب رہتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کی حیثیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان کے مطابق ہو جاتی ہے ’’اس دنیا کی نعمتیں میرے لیے بکری کی چھینک سے بھی کم تر ہیں۔‘‘ اگر فقرا کی نظر میں بادشاہت یا دنیاوی شان و شوکت کی کوئی حیثیت ہوتی تو ابراہیم بن ادھمؒ بادشاہت چھوڑ کر فقیری اختیار نہ کرتے۔
حضرت سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں ’’فقیر کے قدم کے نیچے لاتعداد خزانے ہیں۔ فقیر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔فقیر رازِ خداوندی ہے۔ (قربِ دیدار)
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
عالَم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
یہاں عالَم سے مراد تمام ظاہری و باطنی عالَم ہیں یعنی عالمِ ناسوت، ملکوت، جبروت، لاھُوت، وحدت اور احدیت۔ انسانِ کامل کو تمام ظاہری و باطنی عالموں پر تصرف اور اختیار حاصل ہوتا ہے۔یہ تصرف اسے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نائب ہونے کی بنا پر ان سے وراثت میں ملتا ہے۔
لہٰذا فقرا کبھی بھی کسی بادشاہ کے در پر نہیں جاتے البتہ فقرا کے در پر بادشاہوں کا آنا کوئی نئی بات نہیں۔ بادشاہ اپنے جاہ وجلال کی بھیک مانگنے فقرا کی طرف ہی رخ کرتے ہیں۔ شان و عظمت کے نشے میں چور بادشاہ اورنگزیب نے حضرت سخی سلطان باھوؒ سے فیض کی التجا کی، آپؒ نے اس پر توجہ کی اور خاص فیض تک پہنچایا۔ روانگی کے وقت اورنگزیب نے آپؒ سے یادگار کیلئے التجا کی تو آپؒ نے وہیں کھڑے کھڑے کتاب ’’اورنگ شاہی‘‘ تصنیف فرمائی جسے شاہی محرروں نے اسی وقت تحریر کر لیا۔سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کی بارگاہ میں ریاست بہاولپور کے نواب فیض اور امداد کے لیے باادب حاضر ہوا کرتے تھے لیکن آپؒ کبھی اپنے کسی بھی کام کے لیے نواب کے محل تشریف نہ لے گئے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ بھی دنیاداروں سے اجتناب فرماتے۔ اگر آپؒ کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے اور کسی امیر یا وزیر کی آمد ہوتی تو آپؒ وہاں سے تشریف لے جاتے۔ یہی سنتِ فقرا سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بھی شان ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس گمنامی اور خمول کو پسند فرماتے ہیں اور شہرت، پذیرائی، نمود و نمائش سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ نام نہاد عالم، صوفی و پیر میڈیا کے ذریعے اپنی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور کسی نہ کسی طرح امرا اور حکمرانوں سے تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جس عالم کو ذرا سی شہرت حاصل ہو سیاست کا رخ کر لیتا ہے اور اللہ کے عطا کردہ علم کو دنیاوی شہرت و اقتدار کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے لیکن آپ مدظلہ الاقدس علم و ولایت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز اور صاحبِ تصرف فقیر ہونے کے باوجود ہمیشہ میڈیا اور سیاست سے دور رہے۔ اللہ کی رضا کے سوا نہ آپ کو کسی شے کی طلب اور مددِ خدا کے سوا نہ کسی پر بھروسہ ہے۔ اس لیے آپ مدظلہ الاقدس نے کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت یا کسی سرکاری و غیر سرکاری تنظیم سے کبھی کوئی مالی مدد یا کسی بھی قسم کا کوئی مفاد حاصل نہیں کیا بلکہ تحریک دعوتِ فقر کی تشکیل مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر کی اور آپ اپنے مریدوں کو بھی ہمیشہ اسی بات کا سبق دیتے ہیں کہ صرف اور صرف اللہ کی ذات پر توکل کرنا چاہیے۔
فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خزانہ تمام اُمت میں تقسیم کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی عمر بھر کی پونجی صرف کر دی اور توکل و استغنا کا یہ عالم ہے کہ راہِ فقر اختیار کرنے سے پہلے جن امرا اور صاحبِ حیثیت لوگوں سے آپ کی دوستی اور تعلقات رہے ۔ ان کو بالکل خیر باد کہہ دیا اور دوبارہ کبھی پلٹ کر ان کی طرف نہ دیکھا۔ آپ چاہتے تو اپنی تحریک کی تشہیر کے لیے آج اس دوستی کا فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن آپ مدظلہ الاقدس کی نظر صرف اور صرف ذاتِ حق تعالیٰ پر ہے اور دنیاوی شہرت و عزت کی حیثیت مچھر کے پَر جیسی ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مردِ مومن اور معرفتِ حق تعالیٰ کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ اللہ کی تلاش میں بھٹکنے والے طالبانِ مولیٰ کو خودی کی پہچان عطا کر کے ان کے مردہ دلوں کو زندہ کرتے اور انہیں قرب و دیدارِ الٰہی کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ایسے کامل فقیر ہیں جن کی تعریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا ’’اے ابوذر! فقرا کی شان یہ ہے کہ ان کا ہنسنا عبادت ہے اور ان کا مزاح تسبیح ہے اور ان کی نیند صدقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فقرا کی طرف روزانہ تین سو مرتبہ نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے۔ جو شخص کسی فقیر کے پاس ستر قدم چل کر جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ستر مقبول حج لکھ دیتا ہے۔ جو شخص تنگی کے وقت فقرا کو کھانا کھلاتا ہے قیامت کے دن اس کو دولتِ نور سے نوازا جائے گا۔‘‘
سلطان العاشقین فقیر مالک الملکی مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہیں اور قدمِ محمدؐ پر ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس طالبوں کی تربیت بالکل آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرز پر فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ مبارک سے زنگ آلودہ قلوب کو پاک فرماتے ہیں اور بغیر ظاہری ورد و وظائف اور چلہ کشی کے اپنے نورانی وجود اور صحبت سے ہزاروں لاکھوں سالکوں کو ایک ہی نگاہ میں معرفتِ الٰہی میں غرق کر دیتے ہیں۔ سلطان العاشقین تاریکی و ظلمت میں وہ چاند ہیں جس کے طلوع ہوتے ہی نورِ الٰہی کی کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل پڑتے ہی طالب پر اسرارِ الٰہی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں، یہ آپ مدظلہ الاقدس کے اکمل اور صادق ہونے کی دلیل ہے جس کے اثرات آپ مدظلہ الاقدس کے ہر طالب پر عیاں ہیں اور وہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں اور اپنی ذات میں خود اس بات کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ جب عشقِ الٰہی کا وار چلتا ہے تو روح اپنی خوراک یعنی اللہ کے دیدار کے لیے تڑپتی اور بے قرار ہوتی ہے۔ دنیا کا نشہ جو ایک نیند کی گولی کی طرح چڑھا ہوتا ہے آپ مدظلہ الاقدس کی باطنی توجہ اور روحانی قوتوں کی وجہ سے اس کا خمار اتر جاتا ہے اور باطن کے سفر کا آغاز ہوجاتاہے۔
آپ مدظلہ الاقدس سیّدنا غوث الاعظمؓ کے روحانی وارث ہیں اس لیے انہی اوصاف کے مالک ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے طالب مسلمان سے مومن، ناقص سے خالص اور محب سے محبوب بن جاتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’فقرا کو پہچانو اور ان سے بھلائی کرو، ان کے پاس دولت ہے‘‘ اور وہ دولت قرب و دیدارِ الٰہی کی نعمت اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہے جو فقرا کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپ مدظلہ الاقدس اس دولت فقر کے وارث اور اُمتِ محمدی کو تقسیم کرنے والے غنی و سخی ہیں۔ کوئی بھی سائل جو فقر کو سچی نیت سے طلب کرے اور اس کا خواہشمند ہو آپ مدظلہ الاقدس کے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ لاقدس کا موجود ہونااس آنگن کے پھول کی طرح ہے جو اپنی خوشبو سے سارے باغ کو مہکا دیتا ہے، ایک ایسا چشمہ جو پیاسوں کی پیاس بجھاتا ہے، ایک ایسا درخت جو مسافروں کو سایہ و پناہ فراہم کرتا ہے، ایسا کامل وسیلہ جس سے لاکھوں فیض یاب ہوتے ہیں اور اللہ پاک کا دیدار اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس دورانِ تربیت طالبوں میں کوئی فرق نہیں فرماتے، آپ مدظلہ الاقدس کی نظر میں سب برابر ہیں چاہے غریب ہو یا امیر، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ یا کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو آپ مدظلہ الاقدس کی توجہ سب کے لیے یکساں ہے بس ہر کوئی اس فیض سے اپنی طلب کے مطابق سیراب ہوتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس ایک انمول ہیرے کی مثل ہیں۔ جو طالب قرب اور معرفتِ الٰہی پانا چاہتے ہیں انہی کے لیے آپ مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کا بازار گرم کیے بیٹھے ہیں۔
اعلیٰ ترین روحانی درجات کے حامل ہوتے ہوئے بھی آپ مدظلہ الاقدس خود کو ایک عام انسان ظاہر کرتے ہیں اور اپنے طالبوں کی بھی اس طرح تربیت فرماتے ہیں کہ ان میں عجز و انکساری پیدا ہو۔ آپ مدظلہ الاقدس اس بات کا درس دیتے ہیں کہ عاجزی شیطان کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ فقیر اپنی سلطنت خود بناتا ہے بغیر کسی نمود و نمائش کی نیت سے۔ بس وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر میں مقبول و معروف ہوتا ہے اور ان سالکوں میں بھی جو اس کی حقیقت تک پہنچ چکے ہوں کیونکہ وہی اس کے رتبے سے آگاہ ہوتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس نے خانقاہ سلسلہ سروری قادری کی صورت میں تمام طالبانِ مولیٰ کو اکٹھا کرنے اور تربیت فرمانے کے لیے فقر کا ادارہ قائم کیا ہے اور تحریک دعوتِ فقر کی ہر اینٹ دیدارِ الٰہی اور عشقِ الٰہی کے حصول کے لیے رکھی جس میں ہر عمل اسی کو فروغ دینے کے لیے ہوتا ہے۔ جہاں دن رات ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد جاری رہتا ہے، اللہ پاک کے دین کی تبلیغ کے لیے کتب شائع کی جاتی ہیں۔ شعبہ ملٹی میڈیا اینڈ ڈیزائن ڈویلپمنٹ کے ذریعے تعلیماتِ فقر کا انمول تحفہ دنیا بھر میں عام ہو رہا ہے۔ بہت سی ویب سائٹس ہیں جن کے ذریعے فقر کی عظیم نعمت کو طالبانِ مولیٰ میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اسلام کی حقیقی روح اور مسلمِ اُمّہ کی اصلاح کے لیے ایسے بے شمار کام سر انجام دے کر بھی مخفی اور پوشیدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا شمار ان اولیا اللہ میں ہوتا ہے جن کے بارے میں یہ حدیثِ قدسی ہے ’’میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے ہیں اور جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘ آپ مدظلہ الاقدس نے نسبتِ مرشدی اپنا کر حقیقی معنوں میں خلوت نشینی اختیار کر لی اور دل و جان سے اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور اپنے دنیاوی تعلقات ترک کر دیئے۔ پس ایسا کامل فقیر جہاں اپنا خیمہ لگاتا ہے وہاں لوگ جوق در جوق خود کھنچے چلے آتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’فقر کی خوشبو کستوری کی طرح چھپ نہیں سکتی اور فقیر کے رگ و پے سے ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے مخلوق اس کی طرف دوڑی آتی ہے۔‘‘ اس لیے فقیرِ کامل کا پتہ لگانا ہو توطالبوں کی کھنچی ہوئی کشش کو محسوس کرنا چاہیے۔ فقیر وحدت کے سمندر میں اس قدر ڈوبا ہوتا ہے کہ صرف دیدارِ الٰہی کا ذوق و شوق رکھنے والے ہی اسکی گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس تصرف کے حامل ہیں جس کا اندازہ عام مخلوق تو کیا خواص کے بس کی بھی بات نہیں لیکن آپ مدظلہ الاقدس ان تصرفات کا استعمال صرف اللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیغام پھیلانے اور طالبانِ مولیٰ کی تربیت اور اصلاح کے لیے کرتے ہیں نہ کہ کسی بھی قسم کے ذاتی مفاد یا شہرت کے لیے۔
آخر میں اللہ پاک سے یہی دعا ہے کہ ہمیں حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ کی حقیقت سے آشنا فرمائے اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین