سولی یا دائمی حیات! منصور حلاجؒ | Soli ya Daimi Hayat Mansur Al-Hallaj


Rate this post

سولی یا دائمی حیات! منصور حلاجؒ (حصہ اوّل)
(Soli ya Daimi Hayat  Mansur Al-Hallaj -part one)

 تحریر: صاحبزادی منیزہ نجیب سروری قادری

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش
(علامہ اقبالؒ۔ ضربِ کلیم)

منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کی شہرت، پھانسی اور بقائے دوام آپ کے نعرہ ’’اَنَا الْحَقْ ‘‘ (Anal Haq) کی بدولت ہے۔ اکثر نے آپ کا انکار ہی کیا لیکن جیسے جیسے تحقیق ہو رہی ہے ویسے ویسے آپ کی شہرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

احوال و آثار

الحلاج 858ء میں صوبہ فارس میں البیضاء کے شمال مشرق میں ایک دُھنیا (روئی کا کام کرنے والے) کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد نے جب تستر نقل مکانی کی تب آپ نے قراء کے ایک اہم مدرسہ میں بارہ برس کی عمر سے پہلے ہی قرآنِ مجید حفظ کر لیا۔ آپ کمسنی سے ہی قرآنی سورتوں کے روحانی و باطنی معانی تلاش کر نے کی کوشش کرتے تھے اس لیے آپ سب سے پہلے سہل تستریؒ کے مدرسہ تصوف سے وابستہ ہوئے۔

سہل تستریؒ کی صحبت سے دو سال فیضیاب ہونے کے بعد بصرہ چلے گئے پھر آپ عمرو بن عثمان الملکیؒ کے سلسلہ طریقت سے منسلک ہوئے اور خرقہ سے مشرف ہوئے۔ منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj)  کی مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ جنید بغدادیؒ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj)  کو خلوت و سکوت کی تربیت سے مرصع کیا۔  یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری ہے جیسا کہ کچھ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ جب منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کو سولی پر لٹکایا گیا تب فتویٰ دینے والوں میں حضرت شیخ جنید بغدادیؒ بھی موجود تھے یہ سراسر غلط ہے اور حضرت شیخ جنید بغدادیؒ اور منصور حلاجؒ  (Mansur Al-Hallaj)کے چاہنے اور عزت و ادب کرنے والوں کے دلوں کو دکھ و تکلیف پہنچاتا ہے۔ ازالہ کرنے کے لیے یہ سادہ سی دلیل ہے کہ جب منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کو سولی پر لٹکایا گیا اس وقت حضرت شیخ جنید بغدادیؒ وفات پا چکے تھے۔

منصور حلاجؒ نے ابویعقوب الاقطع کی صاحبزادی سے شادی کی اور ان سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ مگر یہ شادی عمرو بن عثمان الملکی کی ناراضی کا باعث بنی۔ منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) جھگڑوں سے تنگ آکر بغداد تشریف لے گئے اور ایک سال قیام کے بعد مکہ مکرمہ جا کر پہلا حج کیا۔ خورستان واپس آ کر صوفیانہ لباس کو مخالفت کے باعث ترک کیا تاکہ آزادی سے تبلیغ کر سکیں۔

منصور حلاجؒ مختلف شہروں میں مختلف القابات سے مشہور ہوئے۔ البدایہ و النہایہ (جلد11) میں ابن ِ کثیر نے ان القابات کو درج کیا ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان والے مغیث، خراسان والے منبر، فارس والے ابوعبداللہ الذاہد اور خورستان والے ابوعبداللہ الذاہد حلاج الاسرار کہہ کر خطوط لکھتے تھے۔ بغداد کے لوگ المصطلم اور بصرہ والے المحیر کہتے تھے۔

ہر رات آپ چار سو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے اور اس فعل کو اپنے اوپر فرض قرار کر لیا تھا۔ جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ ایسے بلند مراتب حاصل ہونے کے بعد آپ اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ توآپ نے جواب دیا کہ دوستی کا مفہوم یہی ہے کہ مصائب پر صبر کیا جائے اور جو اس کی راہ میں فنا ہو جاتے ہیں انہیں راحت و غم کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔

آپؒ نے پچاس سال کی عمر میں یہ فرمایا کہ اب تک میرا کوئی مسلک نہیں لیکن تمام مذاہب میں جو مشکل ترین چیزیں ہیں انہیں میں نے اختیار کر لیا ہے، پچاس برس میں ایک ہزار سال کی نمازیں ادا کر چکا ہوں اور ہر نماز کے لیے غسل کو ضروری تصور کیا ہے۔ عبادت و ریاضت کے دور میں آپ مسلسل ایک ہی گدڑی میں زندگی بسر کرتے رہے اور جب لوگوں کے اصرار پر مجبور ہو کر اس گدڑی کو اتارا تو اس میں تین رَتی کے برابر جوئیں پڑ گئیں تھیں۔ ایک شخص نے آپ کے قریب ایک بچھو کو دیکھ کر مارنے کا خیال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کو مت مارنا کیونکہ بارہ (12) برس سے یہ میرے ساتھ ہے۔

آپ نے اپنے مریدین کے ساتھ دوسرا حج کیا اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا مگر آپ پر کئی طرح کے الزامات لگائے گئے اور آپ نے بیشمار اذیتیں برداشت کیں۔ تیسرے حج کے دوران آپ نے دعا کی ’’اے اللہ! مجھے فنا کر دے اور دنیا کی نظروں میں مجھے مردود بنا دے۔‘‘

جب بغداد واپس تشریف لائے تب گلیوں اور بازاروں میں اپنے عشق کا اظہار کرتے اور یہ بھی کہتے ’’اللہ نے میرے خون کو تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، مجھے مار دو۔‘‘

پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب آپ نے اَنَا الْحَقْ   (Anal Haq) کا نعرہ بلند کر دیا۔ یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ ایک صادق صوفی آئینہ کی مثل ہوتا ہے، اگر کوئی مرید یا دشمن اس میں کوئی برائی دیکھے تب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ اس مرید، دشمن یا شخص کا اپنا باطن ہے اور وہ صوفی ان کا مظہر اور آئینہ ہے۔ منصور حلاج کے دعویٰ اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq) کو خدائی دعویٰ کہا گیا لیکن اُس پرفتن دور کی تاریخ کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت سب ہی اپنے اوصاف و اعمال میں خدائی کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اس نعرہ کی وجہ سے آپ کو 9 سال قید میں رکھنے کے بعد شہید کر دیا گیا۔ اس عرصہ میں بعض بزرگوں نے آپ کے پاس دو افراد بھیج کر یہ کہلوایا کہ اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq)کہنے سے توبہ کر لو تاکہ قید سے رہا کر دئیے جاؤ۔ آپ نے جواب دیا کہ میں معذور ہوں۔ پھر ایک مرتبہ حضرت عطاؒ خود بھی آپ کے پاس گئے لیکن آپ نے انہیں جواب دیا کہ جس نے یہ کہا ہے اسی ہی سے کہو۔

فرید الدین عطارؒ ان کی موت کے مناظر کو یوں بیان کرتے ہیں:
جس دن آپؒ کو پھانسی کے پھندے کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے پہلے باب الطاق کو بوسہ دے کر سیڑھی پر قدم رکھا اور جب آپ سے حضرت شبلیؒ نے پوچھا کہ تصوف کس کو کہتے ہیں؟تو آپ نے فرمایا کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو یہ تو تصوف کا ادنیٰ ترین درجہ ہے کیونکہ اعلیٰ ترین درجہ سے تو کوئی بھی واقف نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ کو سنگسار کرنا شروع کر دیا جس کو آپ نہایت خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ پھر سیڑھی پر آپ کے ہاتھ قطع کئے گئے پھر پاؤں اور پھر آنکھیں نکال کر زبان قطع کی گئی۔ جب سر قلم ہوا تب آپ قہقہہ لگا کر انتقال کر گئے۔

فرید الدین عطارؒ مزید لکھتے ہیں:
آپ کے ہر ہر عضو سے اَنا الحق کی آواز آنے لگی پھر جس وقت ہر عضو کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور صرف گردن و پشت باقی رہ گئے تو ان دونوں حصوں سے بھی اَنا الحق (Anal Haq) کا ورد جاری تھا۔ آپ کو اگلے دن جلا دیا گیا اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔ (تذکرۃ الاولیا)

صوفیا کرام کا نکتہ نظر

حق میں غرق منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj)  کو اپنے دعویٰ اَنَا الْحَقْ   (Anal Haq) کی بنا پر سولی پر لٹکایا گیا تھا۔ اہل ِظاہر اگر آپ کو کافر کہتے ہیں تو اہلِ تصوف میں بھی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ بعض میں آپ مقبول تو بعض نے آپ کو رَدّ کیا اور اکثر و بیشتر نے آپؒ کے معاملہ میں خاموشی یا توقف سے کام لیا۔ مضمون میں چند بزرگانِ دین کے نظریات پیش کئے جا رہے ہیں۔ اگر ان نظریات کے بیان میں کوئی غلطی ہوئی تو اس راہِ تصوف کے سالک کی گستاخی معاف کردیجئے گا کیونکہ ان بزرگوں کے رتبہ تک پہنچنا ناممکن ہے، صرف اپنے حالِ فقر اور تجربہ کی حد تک مطالعہ کر کے ان کا معاملہ قلمبند کیا جا رہا ہے۔

سلطان العاشقین 
(Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)

میرے مرشد، میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں ایک طرف ’’اَنَا عَبْدُہٗ‘‘ اور دوسری جانب اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq)اور انا اللّٰہ  جیسے نعروں میں موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 منصورحلاجؒ نے مقامِ وحدت پر پہنچ کر اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq)، بایزید بسطامیؒ نے سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَانِیْ  اور ابوبکر شبلی ؒنے انا اللّٰہ  کہا لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) اپنے آپ کو اَنَا عَبْدُہٗ فرماتے ہیں۔ جو مزہ اَنَا عَبْدُہٗ میں ہے وہ اَنَا الْحَقْ (Anal Haq)، انا اللّٰہ اور سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَانِیْ  میں نہیں ہے۔ کامل اکمل افراد نے مقامِ عَبْدُہٗ پر ہی ٹھہرنا پسند فرمایا ہے کیونکہ عاشق مقامِ نیاز ہے اور معشوق مقامِ ناز ہے۔ حقیقت میں اَنَا اللّٰہ اور اَنَا الْحَقْ سے اَنَا عَبْدُہٗ افضل ہے۔ (شمس الفقرا)

قدمِ محمدیؐ پر رہنے والے میرے مرشد کے یہ الفاظ اس متنازع فیہ شخصیت کی غلطی کی طرف اشارہ ہیں اور ان کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ لکھنا ان کے مقام کی طرف اشارہ ہے۔
آقائے دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam)  کو جو مرتبہ معراج کی رات نصیب ہوا وہ کسی دوسرے کو قیامت تو کیا خواب و گمان میں بھی نہیں مل سکتا۔ اگر کوئی فنا کی بلندی کو پہنچتا ہے تب اس کے لیے ایک خطرہ ’خطرۂ یقین‘ بھی ہے مگر صوفیا کرام کو صد شکر بجا لانا چاہیے کہ اس خطرہ سے بچنے کی راہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے سکھا دی کہ معراج کی انتہا جس کی انتہا کی کوئی خبر نہیں صر ف اتنا معلوم ہو اکہ قابَ قوسین (دو کمان کا فاصلہ) یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا، پر پہنچ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے سوائے اللہ کے کسی طرف نگاہ نہ کی جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد مبارکہ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (سورۃ النجم۔ 17)
ترجمہ: ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔ 

کائنات سجا کر پیش کی گئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اگر اپنے لیے اور امت کے لیے کچھ پسند کیا تو وہ صرف اللہ کی ذات تھی یعنی آپ کی آنکھ کسی اور طرف مائل نہ ہو سکی۔ ’اور نہ حد سے بڑھی‘ سے کیا مراد ہوا۔۔۔ آپ قابَ قوسین سے بھی کم فاصلہ پر ہوتے ہوئے بھی اَنَا عَبْدُہٗ  ہی فرماتے رہے ہوں گے تب ہی تو آپ ھُو ے مظہر اور رازدان ہوئے۔
اس لیے انتہا کے مقام پر عاجزی ہی ایک سالک کو بچا سکتی ہے۔

سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo)  اپنی تصنیف ِ لطیف ’عین الفقر‘ میں اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq) کے عارضی مقام کے بارے میں لکھتے ہیں:
منصور حلاجؒ نے فرمایا:
اَنَا الْحَقْ (Anal Haq)
ترجمہ: میں حق ہوں۔
’’اَنَا‘‘ ایک راز ہے۔ جو اس راز کو جان لیتا ہے وہ سرِّ الٰہی کو حاصل کر لیتا ہے۔ جب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) اس مقام پر پہنچے تو فرمایا:
’’یا اللہ تیری ذات پاک ہے، میں تیری معرفت اس طرح حاصل نہیں کر سکا جس طرح تیری معرفت کا حق ہے اور میں تیری عبادت اس طرح نہیں کر سکا جس طرح تیری عبادت کا حق ہے۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ یہ مقام بھی خام ہے، اس مقام سے آگے بڑھ کر مقامِ لَا تَخَفْ  پر پہنچنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ
ترجمہ: بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔
عقلمند بن اور یاد رکھ کہ یہ مقامِ فقر ہے جس پر خاتم النبیین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) نے فخر فرمایا ہے۔ (عین الفقر)
یہ کون سے اولیا اللہ ہیں جن کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم؟ بے شک یہ اللہ کے محب سے اللہ کے محبوب کا رتبہ پانے والے رازدان ہیں اور یہی فقر۱ کی راہ ہے۔
یاد رہے کہ رسولِ عربیؐ جس معرفت کے مقام تک پہنچے اس مقام تک ان کی پیروی اور عشق کئے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا اور پہنچ کر بھی اپنی عاجزی کا اعتراف کرنا کہ بے شک اس ذات کی معرفت کا حق نہ ادا کر سکا، سنت ہے۔
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo) پنجابی ابیات میں لکھتے ہیں:

منصورؒ جہیے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھوُ

ترجمہ: منصور حلاجؒ کو رازِ حقیقی سے واقف ہونے پر ہی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)

یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ حضرت سلطان باھوؒ لطائف ستہ کی بجائے باطنی  ہفت اندام کا ذکر فرماتے ہیں اور باطنی لطائف میں یَخْفٰی  اور اَنَا  کو بھی شامل کرتے ہیں۔ عین الفقر میں درج ہے:
انا بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم   قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ   اور دوسری قسم   قُمْ بِاِذْنِیْ  چنانچہ بایزید بسطامیؒ نے فرمایا میں پاک ہوں میری شان بلند ہے اور منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) نے فرمایا میں حق ہوں۔ (عین الفقر)

امام غزالیؒ

آپؒ مشکوۃ الانوار میں اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq) اور وحدت الوجود کا براہِ راست مشاہدہ کرنے والی ہستیوں کے متعلق فرماتے ہیں:
عارفانِ خدا حقیقت پر پہنچنے کے بعد اس پر متفق ہیں کہ انہوں نے وجود میں سوائے ایک ذات کے کوئی نہیں دیکھا۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ان کی یہ حالت عرفانی اور علمی ہوتی ہے اور بعض کی یہ حالت ذوقی و حالی ہوتی ہے۔ ان سے کثرت یعنی دنیا بالکل جاتی رہتی ہے وہ محض فردانیت میں غرق ہوتے ہیں۔ ان کی عقلیں جاتی رہتی ہیں اور وہ مبہوت ہوجاتے ہیں۔ ان میں غیر اللہ کے ذکر کی گنجائش نہیں رہتی حتیٰ کہ اپنے ذکر کی بھی۔ ان کے نزدیک اللہ کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہتا۔ ان پر اتنا نشہ چھا جاتا ہے کہ ان کی عقلیں جواب دے جاتی ہیں حتیٰ کہ بعض نے اَنَا الْحَقْ  (Anal Haq) (یعنی میں حق ہوں) بھی کہہ دیا۔ اور ایک نے کہا سبحانی مااعظم شانی (میں پاک ہوں میری کیا ہی شان ہے)۔ (مشکوٰۃ الانوار)
ایک ہوتا ہے ’میں‘ کا فنا ہوجانا اور نفس کا پردہ چاک کر کے ھو کا ظاہر ہونا لیکن یہ ایک حال ہے منزل نہیں۔ اور اگر اس حال میں کامل مرشد کا ساتھ ہو تب زبان کو تالا لگا کر جذبات کو ٹھہراؤ دے کر سنبھال لیا جاتا ہے اور رضا کے مطابق بقا حاصل ہو جاتی ہے یعنی اب وہ ذات اس انسان کا کان بن جاتی ہے جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ بن جاتی ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتی ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتی ہے جس سے وہ چلتا ہے۔

یہاں عقلِ کلُ ہونے کے باوجود انسان عاجزی کی انتہا پر ہوتا ہے اور اس کا قول حکمِ اٹل ہے جبکہ فناکا قول بے شک حقیقت ہے مگر ناتمام ہے ادھورے انسان کی طرح۔
جیسا کہ حضرت سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے حکم ِ الٰہی سے فرمایا:
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ 
ترجمہ:میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔
آپؓ کا یہ قول ایک انسانِ کامل کا حکم ہے جبکہ اَنَا الْحَقْ   (Anal Haq) جیسے کلمات صرف ایک صوفی سالک کا قول ہے۔ اب فرق کیسے کیا جائے؟ یہ  تو فقر و تصوف کی چند سیڑھیاں ہی سکھا سکتی ہیں۔

داتا گنج بخشؒ

آپؒ اپنی کتاب کشف المحجوب میں گیارہویں باب کی فصل نمبر 53 میں منصور حلاجؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے قائل نظر آتے ہیں مگر ان کے نعرہ اَنَا الْحَقْ   (Anal Haq)کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ بات جان لو کہ ان کا کلام پیروی کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے حال میں مغلو ب تھے اور انہیں خود پر قابو نہیں تھا۔ (کشف المحجوب)

فرید الدین عطارؒ

آپؒ تذکرۃ الاولیا میں تحریر کرتے ہیں:
بعض کا خیال ہے کہ آپ (منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj)) اہل ِ حلول میں سے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ کا تکیہ اتحاد پر تھا لیکن حضرت مصنف فرماتے ہیں کہ توحید کا معمولی سا واقف بھی آپ کو حلول و اتحاد کا علمبردار نہیں کہہ سکتا بلکہ اس قسم کا اعتراض کرنے والا خود ناواقف ِ توحید ہے۔ (تذکرۃ الاولیا)
منصور حلاجؒ وحدت الوجود کو اپنے آئینہ میں دیکھ رہے تھے اور ان کی اس کیفیت کو حلول و اتحاد کہنا سراسر جہالت و ظلم ہے۔
فرید الدین عطارؒ مزید لکھتے ہیں:
مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کوہِ طور پر درخت سے آئی ’انا اللہ‘ کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی صدا آپؒ کی زبان سے نکل آئی تو خلافِ شرع بتاتے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیا)

طواسین ایک جائزہ

منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کی تصانیف میں سب سے زیادہ مقبولیت طواسین کو حاصل ہے جس کا باب وار خلاصہ بھی پیش کیا جارہا ہے تا کہ ان کے نظریات کا جائزہ لیا جا سکے۔

باب اوّل۔ طاسین السراج

اس باب میں منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) نے نورِ محمدی کی حقیقتِ ازلی سے پردہ اٹھاتے ہوئے اسرار و رموز کو جامع انداز میں بیان فرمایا ہے۔ منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے بے لوث محبت و الفت بدرجہ اتم نظر آتی ہے جو آپ کے عشق ِالٰہی و عشقِ رسولؐ کے عالیشان مقام کی خبر رساں ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں:
نبوت کے انوار آپؐ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں، اس کی تمام روشنیاں آپؐ ہی کی روشنی سے ظاہر ہوئی ہیں۔ روشنیوں میں سے کوئی روشنی بھی اس کرامت والے پیغمبر (محمدؐ) کی روشنی سے زیادہ تابناک، زیادہ واضح اور زیادہ قدیم نہیں ہے۔

آپؐ کی ہمت تمام ہمتوں پر سبقت لے گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا وجود عدم پر سبقت لے گیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کے وجود پر عدم کی پرچھائی ہرگز نہیں پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسم مبارک قلم تقدیر پر بھی سبقت لے گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہیں جو جن و انس کی تمام امتوں سے پہلے تھے۔کوئی بھی اس عالم کے علاوہ ہو یا اس عالم سے ماورا ہو، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے زیادہ خوش طبع، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے زیادہ بزرگ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے زیادہ شہرت والا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) سے زیادہ منصف و مہربان، ڈرنے والا اور رحم دل نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) معراجِ اکبر ہیں اورمخلوق کے سردار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تذکرہ کا سلسلہ ازل سے پہلے اور ابد تک جاری رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) ہی کے ذریعہ سے بھید اور پوشیدہ چیزیں پہچانی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام آپ ؐ کی زبان پر جاری کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کا کلام اللہ تعالیٰ کاکلام ہے۔
حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کو مخلوق میں سے کسی کے سپرد نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) مقامِ ھو کے رمز شناس ہیں اور وہ مقامِ ھو اور ذاتِ مطلق کہاں ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ جہاں ہے اور جیسا ہے ھُو ہے۔

باب دوم۔ طاسین الفہم

اس باب میں منصور حلاجؒ لکھتے ہیں کہ چونکہ انسان اپنے اوہام و افکار کے آئینہ میں رہتا ہے اس لیے اس کی حقیقت الحقیقتہ (ھاھویت) تک رسائی نا ممکن ہے البتہ پروانے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چراغ کے چاروں طرف چکر لگانے (فنا) کے بعد جب وہ لوٹ کر (بقا کی طرف) آتا ہے تب اس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں یعنی ہر انسان کسی نہ کسی صفت یا صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے اور وہ اپنے حال کی خبر لطیف ترین گفتگو کے ذریعے دیتا ہے ۔

مزید لکھتے ہیں کہ اس امتیاز و فضیلت (فنا و بقا) کے باوجود کمال (حقیقت الحقیقتہ یعنی ھاھویت) تک پہنچنے کی امید سینے میں ہوتی ہے اور وہ عالم میں بڑے ناز و مسرت کے ساتھ خوش رہتا ہے۔

جو پروانہ (انسان) چراغ کی روشنی اور اس کی گرمی پر راضی نہیں ہوا وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیتا ہے یعنی فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ تب وہ اس مقامِ نظر کی خبر اہلِ عشق کو دیتا ہے۔ بقول منصور حلاجؒ ’’جب وہ اس درجہ کو پہنچتا ہے تو لاشے ہو جاتا ہے اور حقیر و پست بن کر بکھر جاتا ہے۔ اب وہ بغیر کسی علامت کے، بغیر کسی جسم کے، بغیر کسی نام اور بغیر کسی نشان کے باقی رہتا ہے (ہمہ اوست در مغز و پوست)۔‘‘

یہ باتیں خواہشاتِ نفس کے پجاری پر پوری نہیں اتر سکتیں۔ جس عارف کی دوئی مٹ گئی تو اس سے اجتناب نہ کر۔
باب کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ جو مقام آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کو معراج پر نصیب ہوا وہ کسی دوسرے کا نصیب نہیں بن سکتا۔ انؐ صاحبِ معراج کی عظمت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ 

(جاری ہے)

استفادہ کتب
۱۔شمس الفقرا ؛ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)
۲۔ابیاتِ باھو کامل؛ تحقیق، ترتیب و شرح  ایضاً
۳۔عین الفقر ؛تصنیف حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo)
۴۔تذکرۃ الاولیا؛ تصنیف فرید الدین عطارؒ
۵۔تاریخ ابن ِکثیر (البدایہ والنہایۃ) جلد نمبر11؛ تصنیف علامہ حافظ الوالفداعماد الدین ابن ِکثیر
۶۔طواسین؛ تصنیف منصور حلاج، مترجم عتیق الرحمن
۷۔حسین بن منصور حلاجؒ۔ شہید عشق ؛ تصنیف محمد اکرام چغتائی
۸۔کشف المحجوب؛ تصنیف داتا گنج بخشؒ
۹۔مشکوۃ الانوار؛ تصنیف امام غزالیؒ
۱۰۔ ضربِ کلیم ؛ تصنیف علامہ اقبالؒ


34 تبصرے “سولی یا دائمی حیات! منصور حلاجؒ | Soli ya Daimi Hayat Mansur Al-Hallaj

  1. منصورؒ جہیے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھوُ

  2. منصورؒ جہیے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھوُ

  3. منصورؒ جہیے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھوُ
    ترجمہ: منصور حلاجؒ کو رازِ حقیقی سے واقف ہونے پر ہی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)

  4. منصورؒ جہیے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھوُ
    ترجمہ: منصور حلاجؒ کو رازِ حقیقی سے واقف ہونے پر ہی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)

  5. منصورحلاجؒ نے مقامِ وحدت پر پہنچ کر اَنَا الْحَقْ (Anal Haq)، بایزید بسطامیؒ نے سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَانِیْ اور ابوبکر شبلی ؒنے انا اللّٰہ کہا لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) اپنے آپ کو اَنَا عَبْدُہٗ فرماتے ہیں۔ جو مزہ اَنَا عَبْدُہٗ میں ہے وہ اَنَا الْحَقْ (Anal Haq)، انا اللّٰہ اور سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَانِیْ میں نہیں ہے۔ کامل اکمل افراد نے مقامِ عَبْدُہٗ پر ہی ٹھہرنا پسند فرمایا ہے کیونکہ عاشق مقامِ نیاز ہے اور معشوق مقامِ ناز ہے۔ حقیقت میں اَنَا اللّٰہ اور اَنَا الْحَقْ سے اَنَا عَبْدُہٗ افضل ہے۔ (شمس الفقرا)

  6. منصور جیہے چک سولی دتے جیہڑے واقف کل اسراراں ھو

  7. تحقیق شدہ بہترین اور انوکھامضمون ہے۔ بہت خوب۔

  8. ماشاء اللہ بہترین اور نہایت معلوماتی مضمون ہے

  9. راز پنہاں کو فاش کرنے کی سزا تو ہوتی ہے جو منصور حلاج کو ملی

  10. منصور حلاجؒ (Mansur Al-Hallaj) کی تصانیف میں سب سے زیادہ مقبولیت طواسین کو حاصل ہے

  11. عشقِ حقیقی سے بھرا مضمون ہے ماشاءاللہ❤❤❤🌹🌹🌹

  12. Haq Haq haq
    لوگ کوہِ طور پر درخت سے آئی ’انا اللہ‘ کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی صدا آپؒ کی زبان سے نکل آئی تو خلافِ شرع بتاتے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیا)

  13. باب کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ جو مقام آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad sallallahu alayhi wa alehi wa sallam) کو معراج پر نصیب ہوا وہ کسی دوسرے کا نصیب نہیں بن سکتا۔ انؐ صاحبِ معراج کی عظمت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں