عشقِ الٰہی نا یاب کیوں؟–Ishq e Elahi Nayab Kyun

Spread the love

Rate this post

عشقِ الٰہی نا یاب کیوں؟

تحریر: صوفیہ سلطان سروری قادری۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ اس دُنیامیں جس بھی شے سے محبت کرتا ہے اس کے قرب و دیدار کی طلب اور حصول کی جستجو کرتاہے۔ محبت بہت سے رشتوں اور اشیا سے ہو سکتی ہے لیکن جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جائے اور جو دیگر تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں ۔عشق مستی وجنون ہے، عشق و فاو قربانی ہے۔ عشق جانثا ری ہے، عشق مقامِ فناہے یعنی اپنی ہستی کو مٹاکرمعشوق کی ہستی میں اس طرح فنا ہو جانا جہاں میں اور تُو کا فرق بھی مٹ جائے ۔عشق کا خمیر انسان کی روح میں ازل سے شا مل ہے۔ کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہوئی۔ اللہ کی ذات مخفی و پوشیدہ تھی۔ پھر اس ذات میں پہچانے جانے کا جذبہ پیدا ہوا تو اس نے کائنات اور مخلوقات کو تخلیق کیا۔حدیثِ قدسی ہے ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچا نا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔‘‘ قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَا لْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن۔ (الذاریات۔56)
ترجمہ: اور ہم نے جن و انس کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
اللہ نے اللہ پاک سے عشق کومومنین کی صفت قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۔ ( البقرہ۔165)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔
کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہر ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات اس لیے کہلایا کہ ربّ کائنات کی لامحدود ذات اپنی تمام تر تجلیات کے ساتھ انسان کے اندر موجود ہے۔ اللہ پاک نے وحدت سے نکل کر کثرت میں ظہو رکا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے اپنی ذات سے نورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوظاہر فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورِ مبارک سے تمام اروا ح کو پیدا کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت سے عشقِ الٰہی کاجو ہرِ خاص انسانی ارواح کے حصے میں آیا ۔
ان ارواح نے ازل میں اللہ کا دیدار کیا اور اسے اپنا معبود تسلیم کیا ۔ پھر اللہ نے انہیں بشری لباس پہنا کر عالمِ خلق کی امتحان گاہ میں بھیجا۔ گویا انسان کاظاہر ایک عالم ہے جو اس ظاہری دُنیا سے منسلک ہے اور جس کی حقیقت دُنیا ہی کی طرح فانی ہے اور اس کا باطن ایک مکمل الگ جہان ہے جہاں اللہ پاک کی ذات موجود ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ لہٰذا بشری وجود میں رہ کر باطنی جہان میں روح پر پڑے تمام حجابات اُٹھاکرمعبودِ حقیقی کی پہچان، اس کا دیدار اور اس تک پہنچ جانا ہی واحد مقصدِ حیات ہے۔ روح کے اس سفر کا آغاز طلب اور عشقِ الٰہی سے ہوتا ہے۔ عشقِ الٰہی سے ہی دیدارِ الٰہی ممکن ہے اور عشقِ الٰہی ہی باطن کے بند قفل کو کھول کرروح کو معر فت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ آتشِ عشق غیر اللہ کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اوریہی دُنیا و آخرت میں نجات کا سبب بنتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اپنی  تصنیف مبارکہ محک فقر کلاں میں فرماتے ہیں :

 ہر کہ طالب ھُو بہ ھُو می رسید
ماسویٰ اللہ غیر را ہرگز نہ دید

ترجمہ: جو بھی اللہ تعا لیٰ کا طالب بنتا ہے وہ اس تک پہنچ جاتا ہے ۔ پھر وہ غیر ماسویٰ اللہ کی طر ف ہر گز نہیں دیکھتا ۔
اللہ پاک حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے :
* ’’جو میرا طالب بنتا ہے بے شک وہ مجھے پا لیتا ہے،جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتاہے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے ،جو مجھ سے محبت کرتاہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو مجھ سے عشق کرتا ہے میں اسے مار ڈالتاہوں اور جس کو میں مار ڈالتا ہوں اس کی دیت میرے ذمے ہو جاتی ہے اور اُس کی دیت میں خود ہوں ۔‘‘
ایسے ہی اولیا کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: اِجْسَامُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَقُلُوْبُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ الصَّلٰوۃَ الدَّائِمُوْنَ یُصَلُّوْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمo( اسرار قادری) ترجمہ:ان کے اجسام دُنیا میں اور ان کے دِل آخرت میں ہیں اور وہ دائمی نماز ادا کرتے ہیں ۔

کس قدر پُر کیف ہے یہ جذبۂ عشق ‘ اور کیسا با ہمت اور خوش نصیب ہے وہ طالبِ مولیٰ جو اس فانی مخلوق سے منہ موڑ کر باطن کی دُنیا میں طلبِ الٰہی کے چراغ کو روشن کرے۔ کہاں وہ ربِّ کائنات، خالق و مالکِ کُل جہاں اور کہاں انسان جیسی ایک عاجزو بے بس مخلوق۔ لیکن اس رحمٰن کی رحمانیت کی انتہا ہے کہ اس نے انسان کو اپنے لیے تخلیق فرمایا اور اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتے ہوئے کہتا ہے ’’جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم اُن کو اپنی طرف آنے والے راستے دکھا دیتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت۔69) لیکن افسوس کہ مخلوق کے طالب کثیر اور رازِ ربّ کے متلاشی لاکھوں کروڑوں میں صرف چند ایک۔ آخر کیوں؟ تو بات یہ ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کو شش کرے۔ جس دِل میں طلبِ دُنیا نے گھر کر لیا ہو وہاں تمنائے الٰہی کا کیا کام کہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ کمبخت شیطان اور ظالم نفس کی خواہشات اس قدر غالب آگئیں ہیں کہ اس ساٹھ ستر سالہ زندگی کو پُر آسائش بنانا ہی انسان نے اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔ دُنیا کی لذتو ں میں کھو کر انسان بھول چکا ہے کہ دُنیا اور اس کا نفع و نقصان عارضی ہیں۔ لمحہ بھر کا تفکر انسانی عقل کو جھنجو ڑنے کے لیے کافی ہے کہ دُنیا و عقبیٰ انسان کے لیے ہیں نہ کہ انسان دُنیا و عقبیٰ کے لیے۔ تو پھر دن رات دُنیا کے حصول کی کوشش اور عبادات میں خالق کی بجائے مخلوق کی تمنا کس قدر نادانی ہے۔
عشقِ الٰہی کہاں مشکل ہے ۔ دیدا ر اور معرفتِ الٰہی کہاں نا ممکن ہے ۔ اگر باغی ہے توانسان کی اپنی ذات ہے۔ جب طلب ہی نہیں تو روح کیونکر بیدار ہو۔ بقول اقبالؒ

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے‘ رہروِ منزل ہی نہیں

جہاں نیک اعمال اور عبادات کا مقصد ہی جزا اور اجر کی تمنا رہ جائے وہاں قرب و وصالِ الٰہی کے لیے بیقراری کیو نکر ہو۔ کیا اللہ پاک نے انسان کی تخلیق اس لیے کی کہ وہ دن رات ہر جائز و ناجائز طریقے سے دُنیاحاصل کرنے میں مگن رہے اور یہ وجود صبح شام زینتِ دُنیا کی تلاش میں پھرتا رہے؟ عبادت کا مقصد بھی یا تو دکھاوا ہے یا ان کے عو ض میں بھی دُنیا وی نعمتوں کی خواہش۔ کیا ہمارا خالق و ما لک جس نے ہمیں پیدا کیا اور یہ سب نعمتیں عطا کیں‘ اس با ت کا حق نہیں رکھتا کہ اسے دیکھنے اور اس کے قرب وصال کی خواہش کی جائے؟ ایک عاجز اور بے بس انسان کیوں دنیا و جنت جیسی کمتر چیزوں کی طلب میں اپنے مالکِ حقیقی سے منہ موڑنے کی بغاوت پر اتر آیا ہے؟ اسے دیدارِ الٰہی اور معرفتِ الٰہی کی طلب کیوں ناگوار لگتی ہے؟ انسان اللہ پاک کی بار گاہ میں اپنی بند گی کا اقرار کیوں نہیں کرتا؟ اس قدر سوال و جواب کیوں؟کیوں دنیاوی مفاد اور نفس کی تسکین کے لیے فر قوں میں بٹ کر اپنے اصل مقصد کو بھول گیا ہے۔ اللہ پاک کی ذات نایاب ہے۔ اس کی طلب رکھنے والے وہ بہادر بلند حوصلہ لوگ ہیں جو اس کی بار گاہ میں عاجزی اور بندگی کا اقرار کر تے ہیں اور نفس کی خواہشات اور دُنیا و عقبیٰ کی نعمتوں سے بے نیاز ہو کر اللہ سے صرف اور صرف اللہ کو مانگتے ہیں۔ جو اللہ کا طالب بن جاتاہے اللہ پاک اسے تھام لیتا ہے اور کبھی بھٹکنے نہیں دیتا یہ اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے۔ لیکن انسان اپنے دل میں اس ذاتِ حقیقی کی طلب کا دیا روشن تو کرے، اپنے اندر وہ لگن وہ تڑپ تو پیدا کرے جو اسے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر کے اپنے ربّ کی رضا کی طرف مائل کر دے۔ تب ہی انسان عشقِ حقیقی کی کامل راہ پر گامزن ہو تا ہے۔ یہی ابتدا ہے دیدارو معرفتِ الٰہی کے سفر کی۔ انہی راہوں پر چل کر حاصل ہوتا ہے مقامِ فنا فی اللہ بقا باللہ‘ جہاں انسان طالب اور عاشق سے مطلوب و معشوقِ الٰہی بنتا ہے۔ یہی ہے مقصدِ حیات اور نجا ت کا ذریعہ۔ رہی بات جذبۂ طلب و عشقِ الٰہی کو روح میں کیسے بیدار کیا جائے کہ انسان تو انہی چیزوں اور شکلوں سے عشق کر سکتا ہے جنہیں اس نے دیکھا ہو۔ اللہ تو غیر مجسم ہے اس کے ساتھ عشق کیسے ہو؟ تو بات یہ ہے کہ فقرا کا ملین عشقِ مجا زی (عشق مرشد) کو عشقِ الٰہی کا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جب انسان صدقِ دِل سے اللہ پاک کی ذات کا طالب بنتا ہے تو اللہ پاک ضرور اس زمانے کے مردِ کامل کی طرف اس کی رہنمائی فرماتا ہے جو اسے ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات عطا کر تا ہے ۔ جب طالب اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے تصورِ مرشدحاصل ہوتا ہے ۔ جب تصور اسمِ  اللہ ذات سے تصور مرشد حاصل ہو تا ہے تو طالب کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا مرشد کامل ہے۔ پھر یہ عشق مر شد سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی طرف اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عشق یعنی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور طالب فنا فی اللہ بقا باللہ کی منزل پرپہنچ جاتا ہے۔ اللہ پا ک ہمیں ان خوش بخت لوگوں میں شامل کرے جو عشق کے اس نرالے کھیل میں اپنی زندگی اپنا جینا مرنا محبوبِ حقیقی کے نام کر دیتے ہیں۔ جو عشق اور دیدار کا مزہ چکھ لیتا ہے وہ کائنات سے بے نیاز ہو جاتاہے۔ طالبِ مولیٰ اللہ کے عشق میں سر شار اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل سے ٹکراتا ہے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا اور آخر وہ اللہ کو پا لیتاہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صادق طالبِ مولیٰ بنائے اور عشقِ حقیقی کی دولت سے سرفراز فرمائے۔
استفادہ کتاب :
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں