امیر الکونین
قسط نمبر8
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلٰی دَارٍ۔
ترجمہ: بے شک اولیا اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔
مطلب یہ کہ فقیر اہلِ توحید اور فقیر اہلِ تقلید کو کن مراتب کی بنا پر پہچانا جا سکتا ہے؟ اوّل یہ کہ وہ طالبوں کو اسمِ اللہ ذات کے تصور، استغراق، مشاہدۂ نورِ ذات اور حضوری میں مشغول رکھتے ہیں، دوم عملِ دعوت‘ جس میں طالب اہلِ قبور کی ارواح سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے مراتب کا مشاہدہ کر کے فنا فی اللہ کی حضوری کے مراتب تک پہنچتے ہیں۔ مرشد کامل یہ دونوں مراتبِ فقرطالبِ صادق کو پہلے ہی روز علم سے تلقین کرتا ہے اور دیگر فقرا کو ان کے مراتبِ کن کی طاقت سے شناخت کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی شے کے لیے کن یعنی ’ہو جا‘ کہتے ہیں تو اللہ کے حکم سے بلاشبہ وہ ہو جاتی ہے خواہ دیر سے ہو خواہ جلدی۔ فقیر کا کلام حکیم یعنی اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہوگا۔ مطلب یہ کہ اگرچہ دنیاوی بادشاہ دن رات کثرت سے خزانہ خرچ کرے اور ہزارہا لشکر ایک جگہ جمع کرے اور دن رات ریاضت سے بے شمار مرتبہ دعوت پڑھتا رہے تب بھی ان سب سے فقیرِ کامل کی ایک بار کی توجہ بہتر ہے۔ فقیر کو یہ توجہ اللہ کے قرب اور معرفت کی تحقیق سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ توجہ روز بروز ترقی کی جانب رواں اور ہمیشہ قائم و سلامت رہتی ہے اور قیامت تک نہیں رکتی۔ فقیر جب تک دنیاوی بادشاہ کی طرف ظاہر و باطن میں توجہ نہ کرے بادشاہ کی مہم فتح و کامیابی سے انجام کو نہیں پہنچ سکتی اگرچہ وہ پتھر سے سر ٹکراتا رہے۔ بادشاہ فقیر کی نظر میں گدا ہے کیونکہ بادشاہ کو بادشاہی فقیر سے خیرات کی صورت میں ملتی ہے۔ فقر اللہ کے حکم سے بااعتبار ہوتا ہے۔ بیت
حمایت را کہن دامان درویش
بہ از سد سکندر مدد بیش
ترجمہ: حمایت کے لیے درویش کا پرانا دامن (لباس) سکندر (بادشاہ) کی تانبے کی دیوار سے زیادہ بہتر ہے۔
اگر دنیاوی بادشاہ فقیر ولی اللہ سے ملاقات کرنا چاہے تو وہ ہرگز نہیں مل سکتا لیکن اگر فقیر دنیاوی بادشاہ سے مجلس اور ملاقات کر نا چاہے تو ایک لمحہ میں بادشاہ غلام کی مثل ننگے پاؤں خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فقیر کو اس قدر قوت اور توفیق بخشی ہوئی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ لذت و جمعیت، معرفتِ توحید اور قربِ ربانی کے مراتب ملکِ سلیمانی ؑ کی بادشاہی سے بہتر ہیں۔ بیت:
بہ ز ہر لذت بود لذت لقا
لذت دنیا چہ باشد بی بقا
ترجمہ: ہر لذت سے بہتر لقائے الٰہی کی لذت ہے اور لذتِ دنیا بے بقا ہے لہٰذا بے فائدہ ہے۔
فقیر بادشاہ کی طرف ہرگز رجوع و التجا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی طرف جاتا ہے سوائے حکمِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے اجازت کے بعد۔ فقیر اگرچہ فقر و فاقہ کے باعث مر جائیں لیکن اپنے قدم بادشاہ کے دروازے تک نہیں لے جاتے اور فاقہ میں ہی لذت و ذائقہ پاتے ہیں اور اگر حکمِ الٰہی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے بادشاہ کے دروازے پر قدم رکھنا پڑے تو بادشاہ کی دنیاوی محبت کو تبدیل کر کے خدا کی طرف مبذول کر دیتے ہیں اور جمعیت عطا کر کے خدا کے سپرد کر دیتے ہیں تب دنیاوی بادشاہ اور ولی اللہ فقیر کو مراتبِ قرب‘ عین بعین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح حاصل ہوتے ہیں۔ فقیر ولی اللہ دنیاوی بادشاہ پر غالب ہوتا ہے۔
نہ بہر سر بود لائق بادشاہی
و نہ در ہر دل گنج اسرارِ الٰہی
ترجمہ: ہر سر بادشاہی کے لائق نہیں اور نہ ہی ہر دل میں اسرارِ الٰہی کے خزانے ہو سکتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کو دیکھنے سے فقیر ولی اللہ کی کلمہ کی حقیقت حاصل ہوتی ہے جس سے تمام مخلوق کو خیر اور جمعیت عطا ہوتی ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:
* خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسِ
ترجمہ: لوگوں میں بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے۔
اگر فقیر چاہے تو گدا، مفلس، عاجز اور محتاج پر توجہ کرتے ہوئے مسند و تختِ بادشاہی سے نواز دے اور اگر چاہے تو تمام عالم کی ملکیت رکھنے والے بادشاہ کو اس کی بادشاہی سے معزول کر دے۔ صاحبِ تصور فقیر جو مشاہدۂ پروردگار کرتا ہے وہ حکمِ الٰہی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رخصت و اجازت کی بدولت صاحبِ اختیار ہوتا ہے۔
لِسَانُ الْفُقَرَآءِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ۔
ترجمہ: فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔
فقیر لاھوت لامکان میں رہنے والا ہوتا ہے جو ہر شے کو اپنی آنکھوں سے عیاں دیکھتا اور بیان کرتا ہے۔ اور جو کوئی اولیا اللہ، فقیر ولی اللہ اور درویشوں کا منکر ہوتا ہے وہ ہمیشہ پریشان اور بے جمعیت رہتا ہے۔ اس طرح کی دعوتِ لطفِ کریم سے اللہ کا قرب، تصور، تصرف، نور، حضوری اور توجہ عطا ہوتی ہے جبکہ دعوتِ قہرِ عظیم زوال کا باعث بنتی ہے۔ دعوتِ لطفِ کریم سے روز بروز لازوال ترقی نصیب ہوتی ہے۔ فقیرِ کامل، ولی اللہ علما عامل عارف باللہ جو اللہ کی ذات سے مکمل واصل اور محقق اکمل بقا باللہ ہوتا ہے‘ وہ اپنے صادق و باصفا طالب مرید اور شاگرد کو ذکر، فکر اور ورد وظائف میں ہرگز مشغول نہیں کرتا بلکہ ایک ہی بار میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل کر کے حضوری سے مشرف کر دیتا ہے اور طالب کا مرتبہ اپنے مرتبہ کے برابرکر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے باطنی تعلیم و تلقین اور ہدایت و ولایت کے منصب و مراتب عطا کرواتا ہے۔ پیر و مرشد کامل جسے دائمی حضوری کے مراتب حاصل ہوں اس کے لیے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچانا کیا مشکل اور بعید ہے۔ جو پیر و مرشد حضوری کی کرامت کے متعلق نہیں جانتا اور طالب مرید کو حضوری میں نہیں پہنچا سکتا وہ پیر و مرشد ناقص و ناتمام ہے اور اس سے تلقین حاصل کرنا اور اس مرشد کا طالب مرید ہونا مطلق حرام ہے۔پیر و مرشد وہ ہے جو تصور اسمِ اللہ ذات کے طریقِ تحقیق اور توفیقِ الٰہی سے حضوری عطا کر دے نہ کہ بدعت و منافقت میں مصروف رکھے اور نہ ہی صدق و تصدیق کے بغیر راہ پر چلے۔ مرشد وہ ہے جو نگاہ سے اللہ کا قرب اور حضوری کے مراتب عطا کرنے سے آگاہ ہو۔ جو کوئی قربِ الٰہی کی راہ نہیں جانتا وہ گمراہ ہے۔ اس کے لیے طالبوں کو مرید بنانا گناہ ہے۔ صاحبِ دانش و باشعور عالم جو اللہ کے علم کا طالب ہو اور اللہ کی معرفت اور حضوری کے لائق ہو اس کے لیے علمِ ظاہر حاصل کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ معرفت اور قربِ الٰہی کا علمِ باطن جو کہ علمِ حضوری ہے‘ بھی ضروری ہے۔ جس کے پاس یہ دونوں علم ہیں وہ حق کی کسوٹی کی مثل ہے اور حق کی حق الیقین سے تحقیق کرنے والا ہے۔ طالب کو مرشد سے یا مرید کو پیر سے یا شاگرد کو استاد سے سب سے پہلے علمِ کیمیا اکسیر طلب کرنا چاہیے کیونکہ علمِ کیمیا اکسیرکے بغیر طالب دینی و دنیوی مطالب و مراتب تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ اور بغیر جمعیت حاصل کیے طالب حیران و پریشان رہتا ہے جبکہ جمعیت حاصل کر کے طالب اصل انسان بنتا ہے۔ علمِ کیمیا اکسیر کے بارہ طریق ہیں جن پر عمل سے عامل کو توفیقِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ جو مرشد نالائق طالب کو اور پیر ناقص مرید کو اور استاد بدبخت شاگرد کو علمِ کیمیا اکسیر نہ بتاتا ہے اور نہ ہی اس کا عمل عطا کرتا ہے کیونکہ اس کا وجود نفس مردود کی قید میں ہے اور وہ غلیظ، کم حوصلہ اور غلط ہے۔ خدا کا غضب ہو اس بے حیا پر جو پیر ،مرشد اور استاد سے (تلقین کے بعد بھی) خوار و خراب ہوتا ہے۔ اور جو مرشد لائق اور صادق و کامل طالب اور مرید لایرید کو علمِ کیمیا اکسیر بخشتا ہے تو یہ کارِ ثواب ہے اور کیمیااکسیرِ کے لائق طالب کا وجود بھی اکسیر ہوتا ہے جو ظاہراً دل سے غنی ہو اور باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہو اور دینِ محمدی پر قوی ہو۔ اسے کیمیا اعظم کہتے ہیں۔ جان لو کہ علمِ کیمیا اکسیر پر عمل کے لیے بارہ ہزار راستے ہیں جو عامل کامل کی نظر میں آسان کام ہیں لیکن ناقص کے لیے بہت مشکل اور دشوار کام ہے اگرچہ تمام عمر پتھر سے سر ٹکراتا رہے کیونکہ اس کا دل سیاہ ہوتا ہے۔
گر نبودے عمل ظاہر کیمیا
کے رسیدے از غنایت کیمیا
ترجمہ: اگر کیمیا سے عمل ظاہر نہ ہوتا تو غنایت تک کیسے پہنچا جا سکتا تھا۔
بہ بود از کیمیا صاحب نظر
نظر عارف بہ بود از سیم و زر
ترجمہ: صاحبِ نظر عارف کی نگاہ سیم و زر اور کیمیا سے بہتر ہے۔
کیمیا دو قسم کی ہے اوّل کیمیا جو ہنر سے حاصل کی جاتی ہے اور دوم کیمیا جو اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتی ہے اور سونا و چاندی سے بہتر ہے۔ ان دونوں کیمیا کو عمل و تصرف میں لانا طالب کے لیے ضروری اور فرضِ عین ہے۔ لہٰذا ہر کیمیا کو عمل و تصرف میں لایا جا سکتا ہے لیکن طالب ہنر والی کیمیا کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کا دل اس سے بیزار ہو جاتا ہے اور جمعیت و غنایت سے مرتبہ فقر اختیار کرتا ہے اور وہی مرد ہے۔ جس طرح کیمیا کے علم کو حاصل کرنا طالب پر فرضِ عین ہے اسی طرح عملِ کیمیا کو بھول جانا بھی فرضِ عین ہے۔ جب طالب معرفتِ وحدت میں غرق ہو جاتا ہے تو اسے عملِ کیمیا بالکل یاد نہیں رہتا۔ طالب جب لازم کیمیا ہنر کو مکمل کر لیتا ہے تو کیمیا جسم کی طرف آتا ہے جس میں تانبے جیسے وجود کے مردہ دل کو اللہ کی معرفت عطا کر کے قرب اور حضوری میں لے جاتا ہے جس سے وہ زندہ ہو کر خالص سونے کی مثل ہو جاتا ہے۔ کیمیا کی دوسری بہت سی قسمیں ہیں جیسا کہ کیمیا جسم، کیمیا نظر، کیمیا زبان، کیمیا روح، کیمیا سرّ، کیمیا ہاتھ، کیمیا پاؤں، کیمیا توجہ، کیمیا تصور، کیمیا تصرف، کیمیا وھم، کیمیا الہام، کیمیا خیال، کیمیا دلیل، کیمیا معرفت، کیمیا قرب، کیمیا نور، کیمیا حضور، کیمیا روشن ضمیر، کیمیا برنفس امیر اور جملہ کیمیا اکسیر اور جملہ دعوتِ تکثیر۔ ان سب کا مجموعہ اور دوسرے سب کیمیا فنا فی اللہ فقیر (مرشد کامل) سے حاصل ہوتے ہیں۔ مرشد کامل اگر طالبِ صادق کو پہلے ہی روزمرتبہ عمل عطا نہیں کرتا تو وہ طالب ہرگز معرفت جمالِ حق تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایسا طالب مرشد کی گردن پر وبال ہے۔ یہ مراتبِ کیمیا آسان کام ہیں۔ مرشد کامل وہ ہے جو سب سے پہلے طالبِ مولیٰ کو اسمِ اللہ ذات سے حضوری عطا کر دے اور پہاڑوں میں جو سنگِ پارس پوشیدہ ہو اسے طالب کے تصرف میں دے دے جو لوہے کو خالص تانبے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ (مرشد کامل) ہر علم، حکمت، گنج، جمعیت، ذکر فکر اور ورد وظائف، ہر تصور، تصرف، توجہ، علمِ کیمیا اکسیر، علمِ دعوتِ تکسیر، ہر دولت و مراتب اور نعمتِ کل و جز یا ان کا نعم البدل عطا کرتے ہوئے سنگِ پارس کے مراتب عطا کرتا ہے اور طالب کو ماضی، مستقبل اور حال کے احوال سے واقف کر تے ہوئے صاحبِ توفیقِ الٰہی بنا دیتا ہے اور جس طالب کو مرشد یہ سب مراتب اور علم عطا نہیں کرتا وہ امانتِ الٰہیہ کے لائق نہیں۔ جسے علمِ دعوت پڑھنے سے جمعیت حاصل ہوتی ہے وہ ازل کو ابد سے تبدیل کرنے اور دنیا کو عقبیٰ سے تبدیل کرنے کی طاقت رکھتاہے۔ وہ ان چاروں نعم البدل ابد، نعم البدل ازل، نعم البدل دنیا و ملکِ سلیمانی اور نعم البدل عقبیٰ پر تصرف رکھتا ہے۔ اگر تمام پوشیدہ و کھلے خزانوں کو تصور میں اپنے تصرف میں دیکھتا اور سمجھتا ہے لیکن خرچ کرنا نہیں جانتا تو کچھ فائدہ نہیں۔ اور جب حقیقی نعم البدل (وہ طالب جو مرشد کی ذات میں خود کو تبدیل کر لیتا ہے) یقیناًتمام خزانوں، نعمتوں اور ہر نعم البدل پر تصرف رکھتے ہوئے تمام مراتب کو ترک کر دیتا ہے اور ثابت قدم رہتا ہے تو وہ ہر شے سے لایحتاج ہو جاتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی صفت اختیار کر لیتا ہے۔حدیثِ قدسی:
عِبَادُ الَّذِیْنَ قُلُوْبُھُمْ عَرْشِیِّۃُ وَ اَبْدَانُھُمْ وَحْشِیَۃُ وَھِمَّتُھُمْ سَمَآوِیَّۃٌ وَثَمَرَۃُ الْمُحَبَّۃُ فِیْ قُلُوْبُھُمْ مُقَدَّسَۃٌ وَ خَوَاطِرُھُمْ بَیْن الْخَلْق جَاسُوْسَۃُ سَمَآئُ سَقْفُھُمْ وَالْاَرْضُ بَسَاطُھُمْ وَ ذِکْرُ اَنِیْسُھُمْ وَرَبُّ جَلِیْسُھُمْ۔
ترجمہ: اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں جن کے قلوب عرش پر او ر ان کے وجود پُرجوش اور ان کی ہمتیں بلند ہیں اور ان کے دلوں میں محبت کے مقدس پھل ہیں اور ان کے خیالات مخلوق کے درمیان جاسوس ہیں۔ آسمان ان کی چھت اور زمین ان کا بچھونا ہے۔ ذکر ان کا مددگار اور ربّ ان کا ساتھی ہوتاہے۔
حدیثِ قدسی:
عِبَادُ الَّذِیْنَ اِیْجَادُھُمْ فِی الدُّنْیَا کَمَثَلُ الْمَطْرِ اِذَا نَزَّلَ فِی الْبَرِّ اَنْبَتُ الْبَرِّ وَ اِذَا نَزَّلَ فِی الْبَحْرِ خَرَجَ الدُّرِ۔
ترجمہ: اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ جن کے وجود دنیا میں بارش کی مثل ہیں کہ جو خشکی پر برستی ہے تو (زمین پر) سبزہ اُگاتی ہے اور جب سمندر پر برستی ہے تو موتی نکالتی ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَ خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔(الفرقان۔63)
ترجمہ: اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ انہیں سلام کہتے ہیں۔
دانا اور آگاہ ہو جاؤ۔ سب سے پہلے اپنے دل سے غلط اور غلاظت کو نکال پھینک۔ اگر طالب حضرت پیر محی الدین قدس سرہُ العزیز کا صادق و صالح مریدہے تو وہ ہمیشہ حضرت پیر دستگیر کی آستین میں اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے اور اگر کوئی طالب مرید و اولاد بدکار ہے اور نیک نہیں تو حضرت پیر دستگیر اس طالب مرید و فرزند کی آستین میں ہوتے ہیں۔ جو کوئی ان سے دشمنی کرتا ہے یا تکلیف پہنچاتا ہے تو ناگہانی موت یا بیماری یا کم رزقی کی تیغِ برہنہ اسے قتل و خراب کر دیتی ہے۔ جو حضرت پیر دستگیر کے طالب مرید اور فرزند کو تکلیف پہنچاتا ہے وہ احمق ہے۔ پیر دستگیر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وزیر ہیں۔ عقل مند کے لیے ایک اشارہ ہی کافی ہے۔
جان لو کہ فقیرِ کامل عارف باللہ کو دو مراتب سے پہچانا جا سکتا ہے ظاہری طور پر وہ توفیقِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے اور باطنی طور پر اسے تحقیق کے مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ توفیقِ الٰہی کے ظاہری مراتب کونسے ہیں اور تحقیق کے باطنی مراتب کونسے ہیں۔توفیقِ الٰہی یہ ہے کہ جو کچھ دنیا کے تصرفات اور خزانے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے‘ سب اس کے قبضہ و قید میں آجائے۔ ان ظاہری مراتب کو اللہ کریم کی صفت لایحتاج کہتے ہیں کہ وہ دن رات اس خزانہ میں سے جس قدر خرچ کرتا ہے کم نہیں ہوتا۔ مشرق سے مغرب تک تمام عالم کو رزق پہنچانا اسی کے لائق ہے اور اس فقیر کے لیے ضروری ہے کہ اس خزانہ میں سے زکوٰۃ دے کہ اس کے تصرف میں اللہ کے بے شمار اور بے حساب خزانے ہیں۔ایسے کامل صاحبِ توفیق کا خطاب خازنِ الٰہی اور فوطہ دار ہے۔ جو فقیر ان مراتب کا حامل نہیں وہ اللہ کے قرب سے دور اور معرفتِ توحید سے بے خبر ہے۔ دوم مراتبِ تحقیق یہ ہیں کہ باطل توفیق کو چھوڑ دے اور معرفتِ حقیقتِ حق کو اختیار کر لے۔ صاحبِ مراتبِ تحقیق وہ ہے جو صادق، صدیق اور عارف باتصدیق ہوتا ہے اور جسے معرفتِ توحید، قرب، حضوری اور مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔، وہ توحید و دیدارِ الٰہی میں غرق انبیا و اولیا کی مجلس میں ان سے ملاقات کرتا ہے۔ وہ علمِ معرفت، علمِ توحید اور علمِ نظر کا عالم ہوتا ہے جس کی توجہ خضر علیہ السلام سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور وہ علمِ لدنی، علمِ توجہ، علمِ تفکر، علمِ وجود، علمِ فنا، علمِ بقا اور علمِ وصالِ الٰہی کا عالم ہوتا ہے۔ یہ ہیں مراتبِ تحقیق۔ مرشد تحقیق (بیعت کے) پہلے ہی روز ہر علم سے تحقیق کے مراتب تک پہنچاتا ہے اور علمِ ظاہر سے جدا کرتا ہے۔ جان لو اے عزیز! معلوم ہوا کہ لائقِ ارشاد مرشد وہ ہے جسے ظاہری طور پر توفیقِ الٰہی حاصل ہو اور اس کا باطن حق پر تحقیق کیا جا سکتا ہو۔ سب سے پہلے طالب پر فرضِ عین ہے کہ کسوٹی کی مثل مرشد کی مراتبِ تحقیق و توفیق سے آزمائش کرے۔ اگر مرشد درست اور صحیح ہے تو طالب کو نظر اور توجہ سے مراتبِ تحقیق اور توفیق تک پہنچا سکتا ہے تو ایسے مرشد سے تلقین و ارشاد حاصل کرے کیونکہ وہ مرشد کامل مکمل ہے اور اگر مرشد بے توفیق اور بے تحقیق ہے تو طالبِ صادق کے لیے مرشد ناقص و ناتمام سے تلقین حاصل کرنا حرام ہے۔ ابیات
طالبا! باخبر باشی دام دار
دام گردانے بود گشتن طیار
ترجمہ: اے طالب! تو خبردار ہے تو اپنا جال تیار رکھ کہ اگر جال میں دانے ہوں تو پرندوں کو پکڑا جا سکتا ہے (یعنی اپنا مطلب حاصل کیا جا سکتا ہے)۔
طالبا! گر عاقلی عارف شناس
میشناسد عارفان اہل از قیاس
ترجمہ: اے طالب! اگر تو عقلمند ہے تو اصل عارف کو پہچان۔ عارفین کو اہلِ قیاس ہی (ان کی نشانیوں سے) پہچانتے ہیں۔
کی بوند این عارفان دل صفا
از طالبان زر سیم گیرند بی حیا
ترجمہ: یہ بے حیا (نام نہاد) عارفین دل صفا کیسے ہو سکتے ہیں جو طالبوں سے مال و دولت بٹورتے ہیں۔
(جاری ہے)