Ameer ul kunain

امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

اہل ِ ناسوت کے قلب مردہ اور وجود افسردہ ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی خواب یا مراقبہ میں دیکھتے ہیں وہ مردار دنیا اور خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتا ہے اور محض وہم و خیال ہوتا ہے جبکہ زندہ قلب اور باطنی حیات والے جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ لاھوت لامکان سے تعلق رکھتا ہے جو اللہ کے قرب کی بدولت ہے۔ ان کو نیند میں اللہ کے دیدار کی تجلیات کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اہل ِ تقویٰ جو کچھ خواب یا مراقبہ میں دیکھتے ہیں وہ جنت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ حوریں اور محلات اور دیگر احوال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب قیامت قائم ہوگی اور ارواح قبروں سے باہر نکلیں گی تو اہل ِ دنیا میں سے کسی کا چہرہ بھی قبلہ کی جانب نہ ہوگا بلکہ ان کی پشت قبلہ کی جانب ہوگی۔ اہل ِ محبت اور اہل ِ دیدار کا چہرہ اللہ کا قرب حاصل ہونے کے بدولت قبلہ کی جانب ہوگا۔ جو اہل ِ دنیا‘ دنیا میں فقرا سے منہ موڑ لیتے ہیں ان کا چہرہ ہرگز قبلہ کی جانب نہ ہوگا۔ ابیات:

قبلہ را از قبلہ قبل از یافتم
قبلہ را باسجدہ قبلہ ساختم

ترجمہ: میں نے اصل قبلہ کو قبلہ سے اسکے ظہور سے پہلے پایا اور اس قبلہ کو سجدہ کر کے اپنا قبلہ بنایا۔ 

دو خدا را کشتہ بایک یک شود
معرفت توحید از یک میشود

ترجمہ: دو خداؤں میں سے ایک خدا کو (اپنے وجود میں سے) ختم کر دے اور یکتا خدا کے ساتھ یکتا ہو جا کیونکہ معرفت و وحدت یکتا ہونے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

بند نقش بند آنچہ زین قائم مقام
سہروردی را نباشد زین مقام

ترجمہ: نقشبندی سلسلہ کے طالبوں کو دیدار و معرفت حاصل نہیں ہوتی کہ یہ ان کے لیے نہیں ہے اور سہروردی سلسلے والوں کو اس چیز کی خبر ہی نہیں۔

ہر کہ دنیا دوست دارد دور تر
خواہ باشد غوث قطب بانظر

ترجمہ: جو دنیا کو محبوب رکھتا ہے وہ دیدار سے دور ہوتا ہے چاہے وہ ظاہری طور پر غوث و قطب ہی کیوں نہ ہو۔

قادری را قرب قدرت با خدا
قادری را امید باشد بالقا

ترجمہ: قادری سلسلے کے طالبوں کو قدرتِ الٰہی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور صرف قادری طالب ہی لقا کی امید رکھتے ہیں۔
جو یہ کہتا ہے کہ مجھے دین و دنیا دونوں عطا ہوئے ہیں وہ قومِ فرعون میں سے ہوتا ہے اور یہ حیلہ ٔ شیطانی ہے جو سراسر غلط ہے۔ بیت:

دوست دارد دنیا را ازان سگ سرشت
ترک دادہ دنیا را اہل از بہشت

ترجمہ: دنیا کو وہی محبوب رکھتے ہیں جو کتوں کی مثل ہوتے ہیں جبکہ جو دنیا کو ترک کرتے ہیں وہ اہل ِ بہشت ہیں۔
دنیا ہمیشہ ہمارے پیچھے خوار ہوتی ہے۔ قادری طالب دنیا پر نظر نہیں ڈالتا اور ہمیشہ دنیا کو ترک کرنے والا ہوتا ہے کیونکہ اس کی نظر دیدارِ الٰہی پر ہوتی ہے۔ وہ سب عجیب و احمق لوگ ہیں جو دن رات مردار دنیا کو طلب کرنا اپنے لیے فخر و عزت کا باعث سمجھتے ہیں اور اپنا رخ اللہ کی معرفت کی طرف نہیں کرتے۔ یہ سب لوگ مومن و مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں کہ یہ تو حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔ بیت:

گر بگویم شرح دیدار از خدا
باستماع زندہ شود عالم بابقا

ترجمہ: اگر میں اللہ کے دیدار کی شرح بیان کرنا شروع کروں تو اسے سنتے ہی سارا عالم حیاتِ ابدی حاصل کر کے بقا پا جائے گا۔
علم ِ دیدار درسِ دیدار سے حاصل ہوتا ہے۔ دیدار کی صلاحیت دیدار کی تلقین اور اس علم پر یقین سے حاصل ہوتی ہے۔ دیدار پر یقین اصل دیدار کی طرف لے جاتا ہے۔ دیدار کا علم اور حلم دیدار سے حاصل ہونے والی حکمت میں ہے اور دیدار کے ارشاد کا علم اس مرشد سے حاصل ہوتا ہے جسے دیدار حاصل ہو۔ ابیات:

در صورتے مخلوق راہ دیدار نیست
علم دیدارش بخطرہ خوار نیست

ترجمہ: اللہ کے دیدار کی راہ مخلوق کے وجود سے بالاتر ہے اور دیدار کے علم میں خوار ہونے کے خطرات نہیں ہیں۔

صورتے مخلوق خاک از خاک خاک
و ز نور دیدارش شود دل پاک پاک

ترجمہ: مخلوق کے وجود مٹی سے تخلیق کیے گئے ہیں اور یہ مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے جبکہ اللہ کے نور کے دیدار سے دل پاک ہو جاتا ہے۔

آن گلی دیگر بود گل باگلاب
خوردنے آن گل شوی تو بے حجاب

ترجمہ: گلاب (دیدار) کا پھول دیگر پھولوں سے مختلف ہوتا ہے اور اس پھول کے حاصل ہونے سے تو بے حجاب ہو جائے گا۔

آن گلی کز بود تہی کف نبیؐ المرسلان
خوردنے آن گل شوی عارف عیان

ترجمہ: دیدار کا وہ پھول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھوں سے حاصل ہو سکتا ہے جس کے حصول کے بعد تو صاحب ِ عیاں عارف ہو جائے گا۔
فقر ِ قدیم کی یہ امداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کرم سے حاصل کی جا سکتی ہے اور بلاشبہ صراطِ مستقیم ہے۔ لقائے الٰہی عطا ہونے پر بہت سے طالبانِ مولیٰ فقر ِ مکب کا شکار ہو جاتے ہیں اور بہت سے اللہ کے محب بن جاتے ہیں۔ اگر طالب (دیدار کا) پھول حاصل کر لے تو آیاتِ قرآن و حدیث سے بھی وسیع علم منکشف ہو جاتا ہے جس کی بدولت طالب شیطان پر غالب آ جاتا ہے۔ اور اگر طالب وہ پھول حاصل نہیں کرتا تو وہ احمق و جاہل تارکِ نماز بن جاتا ہے۔ ظاہری علما کے ظاہری علم اور علما حق کے باطنی و غیبی علم میں فرق یہ ہے کہ باطنی علم غلطی اور زوال سے پاک ہے اور اللہ کی معرفت، قرب اور وصال بخشتا ہے جسے رجعت اور سلب نہیں اور زندہ قلب کو توفیق اور تحقیق عطا کرتا ہے۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ   (ھود۔88)
ترجمہ: اور میری توفیق اللہ سے ہی ہے۔
اولیا اللہ‘ عالم باللہ اور فقیر ولی اللہ بلاشبہ اسے کہتے ہیں جس کے عمل و تصرف میں کیمیا اکسیر کے تمام خزانے ہوں اور دنیا سے اپنے نفس کے لیے ایک پیسہ بھی جائز نہ سمجھے۔ یہ بالکل درست ہے کہ اللہ کے قرب کے طالب بہت کم ہیں جو اللہ کی طلب رکھتے اور لقا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا جو معرفت و قرب کی خاطر یا دیدار اور روشن ضمیری و قلب کی بیداری کی خاطر علم سیکھتا ہو۔ ہر کوئی صرف دنیا اور روزی کمانے کی خاطر علم پڑھتے ہیں۔ ابیات: 

خود پسند آن عالم است مغرور تر
عالم آن باشد بود بر حق نظر

ترجمہ: ایسے عالم خود پسند اور نہایت مغرور ہوتے ہیں۔ اصل عالم وہ ہے جس کی حق پر نظر ہو۔

ہر کہ مطالعہ علم بہر از معرفت
بے معرفت عالم بود شیطان صفت

ترجمہ: عالم کو معرفت کی خاطر مطالعہ ٔ علم کرنا چاہیے کیونکہ معرفت کے بغیر عالم شیطان کی مثل ہوتا ہے۔

طلب کن وصلت وسیلہ پیشوا
تا ترا حاصل شود وحدت خدا

ترجمہ: وصال کی خاطر وسیلہ ٔ مرشد طلب کر تاکہ تجھے حق تعالیٰ کی وحدت حاصل ہو جائے۔
اللہ کی بارگاہ میں منظور قلب اللہ کی دو انگلیوں کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ ایک انگلی سے مراد جلال ہے فقیر اور مومن کے وجود میں جلالیت کے باعث سکر و صحو، قبض و بسط کے احوال پیدا ہوتے ہیں جو فقیر کے ذکر، فکر، مراقبہ اور کشف و کرامات کو طاقت کو بڑھا دیتے ہیں۔ دوسری انگلی سے مراد جمال ہے جس سے فقیر مومن یقین و اعتبار سے اللہ کا مشاہدہ اور دیدار کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقر کا یہ فخر فقیر کی جذبِ نظر سے حاصل ہو سکتا ہے۔ کل و جز کی ہر شے اس کے حکم کے تحت ہوتی ہے اور وہ روشن ضمیر اور نفس پر حکمران ہوتا ہے۔ وہ علم ِ آیاتِ قرآن و حدیث اور تفسیر بیان کرتا ہے اور ان کی تاثیر سے نوازتا ہے۔ مردہ دل شیطان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ایک انگلی طمع و حرص کی ہے جس سے انسان حلال و حرام کے درمیان فرق نہیں کرتا اور مکمل طور کافر ہو جاتا ہے اور دوسری انگلی خواہشاتِ نفس اور تکبر کی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
 وَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبَہٗ ذَرَّۃٍ مِّنَ الْکِبْرِ لَا یُدْخِلُ الْجَنَّۃَ
ترجمہ: اور جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
مرشد کامل اپنی نظر سے طالب کے مردہ دل کو شیطان کی ان دو انگلیوں سے نجات دلاتا ہے اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا کر غرق فی التوحید کرتا ہے جس سے طالب ظاہر و باطن میں بے نیاز ہو جاتا ہے اور اسم ِاللہ ذات کے تصور سے اسے اللہ کی توفیق اور تصدیق کے تمام خزانوں اور اللہ کے قرب کے خزانوں پر تصرف حاصل ہوتا ہے۔ بلاشبہ ایسا طالب ِ مولیٰ صاحب ِ تصدیق ہوتا ہے جس پر ہر شے عیاں ہوتی ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
ابیات: 

چون از مرشد حاصل شود توحید ربّ
معرفت توحید از مرشد طلب

ترجمہ: مرشد سے توحید کی معرفت طلب کر کیونکہ توحید ِ ربّ تعالیٰ مرشد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

ہر کہ آن بے مرشد آن بے نصیب
نفس عالم پیشوائے شد رقیب

ترجمہ: جس کا مرشد نہ ہو وہ بے نصیب ہوتا ہے اور نفس جو کہ اس کا دشمن ہے‘ عالم بن کر اس کی رہنمائی کرنے لگتا ہے۔ 

گر بخوانی علم تفسیر و حدیث
اندرونش نفس جاہل دیو خبیث

ترجمہ: (مرشد کے بغیر) اگرچہ تو علم ِ تفسیر و حدیث بھی پڑھتا رہے لیکن تیرے اندر تیرا نفس جاہل و خبیث ہی رہے گا۔

مرشدے باشد سلیمانیؑ مثل
دیو در زندان شود بعد از وصل

ترجمہ: مرشد سلیمان ؑ کی مثل طاقتور ہوتا ہے جو نفس کے دیو کو زندان میں ڈالنے کے بعد وصال عطا کرتا ہے۔

در وجودے تو شود دارالامن
عالمان را بس بود این یک سخن

ترجمہ: عالموں کے لیے بس یہی ایک حرف کافی ہے کہ ان کا وجود (دوسروں کے لیے) دار الامن ہونا چاہیے۔

علم گوید ترک حرص و باہوا
نفس را بگذار شد عالم خدا

ترجمہ: اصل علم یہی سکھاتا ہے کہ حرص و ہوا کو ترک کر دو اور نفس کو چھوڑ کر حق تعالیٰ کے علم کا عالم بن جاؤ۔

علم حق غیب است بایمان بود
بر غیب گر عیبش کند ایمان رود

ترجمہ: علم ِ حق غیب ہے جس پر ایمان رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی غیب میں عیب نکالے تو اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

الٓمٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ج ھُدًی الِّلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ  (البقرہ۔1-3)
ترجمہ:ـ الٓمٓ۔ اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
بہت سے علم حاصل کرنا فرض نہیں لیکن فرض، واجب، سنت اور مستحب کا علم حاصل کرنا، گناہوں سے نجات حاصل کرنا اور اللہ کا خوف رکھنا، اس کی معرفت اور محبت حاصل کرنا اور ہدایت کی تلاش کرنا اور غیبت و شکایت کو ترک کر دینا فرض ہے۔ حدیث:

اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَآئِ
ترجمہ: غیبت زنا سے بھی شدید گناہ ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اس پر سلامتی ہو جس نے حق کے راستے کی پیروی کی۔
معرفت و فقر، جمعیت و ہدایت کا تعلق اللہ رحمن کے دیدار سے ہے جبکہ نفس ِ امارہ، دنیا اور خواہشات کا تعلق شیطان سے ہے۔ ان میں سے تجھے کونسا پسند ہے؟ ابیات:

علم بہر از سجدہ وے صوم و صلوٰۃ
علم بہر حج کلمہ بازکوٰۃ

ترجمہ: علم بندگی اور عبادات کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے لیے سیکھنا چاہیے۔

ہر کہ خواند علم از بہر درم
بے نصیب از معرفت جود و کرم

ترجمہ: جو علم کو دولت کی خاطر سیکھتا ہے وہ اللہ کی معرفت اور جود و کرم سے بے نصیب ہوتا ہے۔

در طلب شہوت بود از سر ریا
این علم را کے خدا دارد روا

ترجمہ: جو علم خواہش یا دکھاوے کی خاطر سیکھا جائے وہ اللہ کے نزدیک کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف۔2)
ترجمہ: اے ایمان والو! تو وہ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔
ہر علم کو سیکھنا اور اپنے عمل میں لے آنا آسان کام ہے جبکہ عالم و عامل بننا بہت مشکل اور دشوار کام ہے۔ ابیات:

علم سہ حرف است عالم سہ طلب
علم، عمل و معرفت از بہر ربّ

ترجمہ: علم کے تین حروف ہیں ان تین حروف کی نسبت سے عالم کو تین چیزیں علم، عمل اور معرفت حق تعالیٰ سے طلب کرنی چاہیے۔

علم سہ حرف است عالم سہ طلب
باحیا و باوفا و باادب

ترجمہ: علم کے تین حروف ہیں ان تین حروف کی نسبت سے عالم (اللہ سے)تین صفات طلب کرتا ہے یعنی حیا، وفا اور ادب۔

علم ہمچو شجر بر او معرفت
ہر کہ علم از بر خورد عارف صفت

ترجمہ: علم درخت کی مثل ہے اور اس پر معرفت کا پھل لگتا ہے اور جو کوئی علم کے درخت کا یہ پھل کھا لیتا ہے وہ عارف ہو جاتا ہے۔
علم مکمل طور پر منصب، درجات، گفتگو، مطالعہ اور بیان سے متعلق ہے اور معرفت کا راز، مشاہدہ و دیدارِ الٰہی میں مشغول رہنے اور اللہ کے قرب اور حضوری سے متعلق ہے۔ اگر تُو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے۔ جس طالب ِ مولیٰ کی طلب محض حق تعالیٰ کادیدار ہو اسے جنت کا لالچ اور دوزخ کے خوف سے کیا سروکار۔ کیونکہ وہ تو ہمیشہ دیدار کی طرف متوجہ ہو کر مشاہدہ کرنے والا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ شَیْئٍ وَّجَہَدَ فَقَدْ وَجَدَ
ترجمہ: جس کسی شے کی طلب کرتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے تحقیق وہ اسے پا لیتا ہے۔
بیت:

اولیا را کیست راہبر پیشوا
باجذب وحدت میکشد طالب ِ خدا

ترجمہ: اولیا کا راہبر اور پیشوا کون ہے؟ یہ وحدتِ حق تعالیٰ ہے جو جذب (توجہ) سے طالب کو خدا کی طرف لے جاتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْجَذْبُ جَذْبَاتُ الْحَقِّ مِنْ جَذْبِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: جذب اللہ تعالیٰ کے جذبات میں سے ایک جذبہ ہے۔
ابیات:

اللہ ہر کرا خواہد کند باخود حضور
ہر کرا خواہد براند خود ز دور

ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کسی کو چاہتا ہے اپنی حضوری عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے خود سے دور کر دیتا ہے۔

رفت کوشش چون رسد کشش از خدا
رفت کوشش کشش چون بیند لقا

ترجمہ: جب اللہ کی طرف سے قرب و دیدار کی کشش پیدا ہو جائے تو طالب کو کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔

در حقیقت معرفت فرحت مجو
ہر یکے را ترک بدنامش مگو

ترجمہ: حقیقت اور معرفت کی راہ میں فرحت تلاش نہ کرو بلکہ اللہ کی خاطر ہر لذت کو ترک کر دو کہیں اللہ کی بارگاہ میں بدنام نہ ہو جاؤ۔

و ز چہار بگذرد یکتا صفا
زان ہر چہار بگذرد واصل خدا

ترجمہ: اور (وجود کے) چار عناصر کو چھوڑ دے تاکہ تو یکتا اور پاکیزہ ہو جائے۔ جو ان چاروں کی لذات کو ترک کر دیتا ہے وہ حق تعالیٰ سے واصل ہو جاتا ہے۔

ہر مقامے ناتمامے راہزن
واصلان را بس بود این یک سخن

ترجمہ: واصلین کے لیے بس یہی ایک نصیحت کافی ہے کہ ہر مقام نامکمل اور راہزن ہے۔

(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں