توبہ Touba


5/5 - (12 votes)

توبہ-Touba

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری ۔لاہور

جب جسدِآدمؑ تیار ہوگیا تو شیطان لعین نے حسد و تکبر کی وجہ سے اس پر تھوک دیا۔ یہ تھوک حضرت آدمؑ کے مقامِ ناف پر پڑنے سے وجودِ آدمؑ میں نفس کی بنیاد پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کو احکاماتِ الٰہی کی نافرمانی و سرکشی پر اُبھارنے کے لیے شیطان اِسی نفس کو اپنا ہتھیار بناتا ہے اور انہیں معرفتِ الٰہی کی راہ سے غافل کرکے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔ 

گناہ کیا ہے؟ گناہ کے لفظی معانی خطا، قصور اور لغزش کے ہیں۔ مذہب میں ایسے تمام غیر اخلاقی و غیر شرعی افعال (جھوٹ، بددیانتی، حسد، کینہ، بغض، زنا اور قتل و غارت وغیرہ) جن کا تعلق احکامِ الٰہی کی نافرمانی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے ہو، وہ سب’’ گناہ‘‘ کے کام ہیں۔

یاد رکھیں! گناہ بندے اور معبودِ برحق کے درمیان اس وقت تک حجاب بنا رہتا ہے جب تک انسان اس پر ہٹ دھرمی اور ضد سے قائم رہتا ہے اور توبہ کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ توبہ ہی گناہوں کی دلدل سے نکلنے اور قربِ الٰہی کی جانب سفر جاری رکھنے کا اوّلین زینہ ہے۔ گناہوں پر شرمسار ہونا اور خالص توبہ کے ساتھ اللہ ربّ العزت کی جانب رجوع کرنا حقیقی معنوں میں انسان کے لیے باعثِ خیر و برکت ہوتا ہے کیونکہ گناہ انسان میں متعدد نفسانی و روحانی بیماریوں کا موجب بنتا ہے اور خالص توبہ ان بیماریوں کی دوا ہے۔

گناہوں کی نفسانی و روحانی بیماریاں

گناہوں کے غلبہ سے انسان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر میں ذلت کا باعث بنتا ہے۔
گناہ سے بدن اور رُوح کمزور ہو جاتے ہیں۔
دل سیاہ و سخت ہو جاتاہے نتیجتاً معرفتِ الٰہی سے اندھا رہتا ہے۔
گناہوں کی لذّت انسان کی دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔
گناہ سے خواہشاتِ نفس کا غلبہ رہتا ہے۔
گناہ سے رزق، مال اور عمر میں کمی ہو جاتی ہے ۔
گناہوں سے پرُامن و پرُآسائش زندگی کی جگہ بھوک، افلاس اور تنگدستی لے لیتی ہے نتیجتاًانسان ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر اور دیگر جسمانی و ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

مومن کی اصل خوشی قرب و دیدارِ حق تعالیٰ ہے۔ اس کے لیے وہ ہمہ وقت نفس اور شیطان کے خلاف مجاہدات کرتا رہتا ہے، مگر گنہگار کو یہ دیدار اس وقت تک نصیب نہیں ہو گا جب تک وہ اللہ کی بارگاہ میں خالص توبہ نہ کر لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے پس ایسے لوگوں کے برُے اعمال کو اللہ تعالیٰ نیک اعمال سے بدل دے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ الفرقان۔70)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول کریمؐ نے فرمایا:
گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (ہوجاتا) ہے جس کا کوئی گناہ نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ 4250 )

توبہ سے کیا مرادہے؟ 

حضرت شاہ محمد ذوقیؒ توبہ کے متعلق فرماتے ہیں:
نقص(گناہ) سے کمال کی جانب بازگشت کرنا، خدائے تعالیٰ کی جانب رجوع ہونا اور سیرِرجوعی پہلا مقام ہے۔اصطلاحِ تصوف میں اسے باب الابواب بھی کہتے ہیں کیونکہ تمام دروازے اس دروازہ کے کھلنے کے بعد کھلتے ہیں۔ (سِرّ دلبراں)

امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں :
توبہ گناہ کو اس کی برائی کی وجہ سے ترک کرنے ، اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس پر ندامت اختیار کرنے اور آئندہ کے لیے ایسا نہ کرنے کے پختہ عزم کا نام ہے اور اس کے ساتھ جس قدر ہو سکے سابقہ اعمال کا تدارک کیاجائے ۔ (توبہ و تقویٰ)

انسان کے لیے باعثِ عزت و تکریم صرف یہی عمل ہے کہ وہ اپنے تمام دانستہ و غیر دانستہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ جلّ جلالہٗ کی بارگاہ میں انتہائی حقیر و مسکین بن کر معافی کی التجا کرتا رہے اور اللہ سے اس کی حقیقی محبت، قرب و دیدارکے لیے جدوجہد کی توفیق کا طلبگار رہے۔ جبکہ اس کی ذلت و رسوائی کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ متکبرو سرکش بن کر ہٹ دھرمی سے اپنی غلطیوں پر قائم رہے۔ بے شک اللہ متکبر و سرکش کو ہدایت نہیں دیتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
توبہ کرنے والا اللہ کا حبیب ہے اور توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ نمازِعشاء پڑھ کر باہر نکلا۔ راہ میں مجھے ایک عورت ملی جس نے مجھ سے پوچھا ’’میں نے ایک گناہ کیا ہے کیا میں اس پر اللہ سے توبہ کر سکتی ہوں؟‘‘پوچھا :کونسا؟
بولی ’’میں نے زنا کیا پھر اس سے بچہ پیدا ہوا، میں نے اسے قتل کردیا۔‘‘
 میں نے کہا’ ’توُ تباہ ہوگئی، تیرے لیے کوئی توبہ نہیں ۔‘‘ 

اس پر وہ عورت بیہوش ہو کر گِرپڑی اور میں اپنی راہ چل پڑا۔ آپؓ فرماتے ہیں کچھ دنوں بعد مجھے خیال آیا کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھے بغیر یہ بات کیوں کہہ دی۔ میں نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا بیان کیا۔نبی کریمؐ نے فرمایا’ ’تم نے بہت برا کیا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ (سورۃالفرقان۔68) ترجمہ:’’اور جو اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے‘‘ فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ۔۔(سورۃ الفرقان۔70 ) ترجمہ:’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ ‘‘  

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں یہ سنتے ہی میں اس عورت کی تلاش میں نکلا اور ہر کسی سے یہ کہتا پھرتا’’مجھے اس عورت کا پتہ بتائے جس نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تھا۔‘‘ (اس کیفیت کے باعث) بچے مجھے مجنون کہنے لگ گئے۔ بالآخر میں نے اسے پالیا تو یہ آیت سنائی۔جب میں آیت مبارکہ فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ تک سنا چکا تو وہ خوشی سے دیوانی ہو گئی اور کہنے لگی میرا ایک باغ ہے میں نے اپنا سارا باغ اللہ اور اُس کے رسولؐ کے لیے صدقہ کر دیا۔ (مکاشفتہ القلوب)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ نفس ہی شیطان کا ہتھیار ہے جسے وہ انسان کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ یاد رکھیں! جب انسان گناہوں سے توبہ کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو اس وقت بھی شیطان لعین ہی ہے جو قلب میں ربّ کی رحمت سے نااُمیدی کے وساوس ڈالتا ہے۔ جیسا کہ انسان کی سوچ وقلب میں یہ وساوس آنا شروع ہو جاتے ہیں ’’کیا میں توبہ کے لائق ہوں یا نہیں، میں نے اللہ سے کئی بار توبہ کی پھر دوبارہ وہی گناہ کیا، اب تو میری توبہ کسی بھی حالت میں قبول ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘ بسا اوقات توبہ توڑنے کے خوف سے توبہ ہی نہ کرنا جیسے وساوس شامل ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کسی انسان نے گناہ کیااور وہ کہتاہے اے اللہ! میرے گناہ کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی ربّ ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔‘‘

 پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر دوبارہ وہی گناہ کرتاہے اور کہتا ہے ’’اے میرے ربّ! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بخش دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’ ’میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ربّ ضرور ہے جو اس کے گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔‘‘

 پھر جب اللہ نے چاہا بندہ رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیااور اللہ کے حضورمیں عرض کیا’’ اے میرے ربّ! میں نے پھر گناہ کر لیاتو مجھے بخش دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ربّ ضرور ہے جو اس کے گناہ معاف کرتا ہے ورنہ اس کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے، میں نے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔‘‘ (بخاری۔7507)

بے شک اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ بخشنے والا رحیم و کریم ہے۔جو شخص خالص توبہ کے ساتھ عاجزی و ندامت کے آنسو لئے اس کی بارگاہ میں سرجھکا دیتا ہے، وہ رحمن و رحیم ربّ اس کے تمام سابقہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اوراپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ حدیثِ قدسی ہے:
اے ابنِ آدم! جب تک تو نے مجھے پکارا اور مجھ سے اُمید رکھی، میں تیرے سب گناہ معاف کرتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں اور پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا ہ نہیں ہوگی۔ اے ابنِ آدم !اگر تم میرے پاس زمین بھر گناہ لاؤ اور تم نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، میں تمہارے لیے اتنی ہی مغفرتیں لے آؤں گا۔ (توبہ و تقویٰ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے نبیؐ)میرے بندوں سے کہہ دو کہ جنہوں نے (گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہونا۔۔۔اور تم اپنے ربّ کی طرف توبہ و انابت اختیار کرواور اس کے اطاعت گزار بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (سورۃ الزمر۔53,54 )

فضائلِ توبہ

توبہ کے بیشمار دنیوی واُخروی فوائد ہیں۔ذیل میں آیاتِ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں کچھ فوائددرج کیے جا رہے ہیں۔
صدقِ قلب سے توبہ کرنے والوں کے لیے اللہ ربّ العزت جنت کی بشارت عطا فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مگر جو کوئی توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے، وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔(سورۃ المریم۔60)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
اور یہ کہ تم اپنے ربّ سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدقِ دل سے) توبہ کرووہ تمہیں وقتِ معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گااور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا۔ (سورۃ ھود۔3)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا:
جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے، باز آجائے اور (اللہ سے) بخشش کی درخواست کرے تو اس کا دِل صاف ہو جاتا ہے۔ (ابنِ ماجہ۔ 4244)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:
جو شخص استغفار کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات دیتاہے ، اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان نہیں ہوتا۔  (ابنِ ماجہ۔3819)

سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں :
استغفار بندے کے حالات میں بہترین حالت اور اس کے معاملات کے لحاظ سے احسن ہے،اس لیے کہ توبہ بندے کی طرف سے اعترافِ گناہ اور اعترافِ قصور ہوتا ہے ۔ توبہ و استغفار بندے کی وہ صفات ہیں جو اسے ابو البشر آدمؑ سے ورثے میں ملی ہیں۔ (فتوح الغیب، مقالہ۔7)
توبہ قلب کے نوراور تزکیۂ نفس کا باعث بنتی ہے۔
گناہوں کی آلودگی انسان کی خوشگوار اور پر سکون زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ توبہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے انسان کو ہر پریشانی و آفت سے نجات اور پرُ سکون زندگی کی بشارت ملتی ہے۔

الغرض توبہ انسان کے ظاہر و باطن کو لایعنی آلائشوں سے پاک کرکے معرفتِ الٰہی کی راہ پر گامزن کرنے کا بنیادی زینہ ہے۔

 توبہ کی اقسام

امام المتقین سیدّناحضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
تعجب ہے اس انسان پر جو نجات کا سامان رکھتے ہوئے ہلاک ہورہا ہو۔ پوچھا گیا ’’وہ سامان کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’توبہ و استغفار کرنا۔‘‘ (توبہ و تقویٰ)

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
توبہ دو قسم کی ہے ، توبہ ظاہر اورتوبہ باطن۔توبہ ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضائے ظاہری کو قولاً و فعلاً گناہ اور معصیت سے طاعت کی طرف اور مخالفات سے موافقات کی طرف موڑ دے اور توبہ باطن یہ ہے کہ انسان تصفیہ ٔقلب کی طرف رجوع کرے۔ (سرّالاسرار۔ فصل6)

ظاہری توبہ میں آنکھ، زبان، کان، ہاتھ اور پاؤں سے کئے جانے والے گناہوں سے توبہ شامل ہے لیکن جب تک باطنی توبہ حاصل نہ ہو ظاہری توبہ بھی فائدہ مند نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطنی توبہ سے ہی انسانی قلب حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اقرار کر کے خود کو اس کی بارگاہ میں عاجز و حقیر تسلیم کرتے ہوئے تمام سابقہ گناہوں سے مکمل طور پر معافی کا طلبگار رہتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۔  (سورۃ التحریم۔8)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو۔

حضرت شاہ محمدذوقیؒ اپنی تصنیف ’’سِرّدلبراں‘‘ میں باطنی توبہ کے چند لوازمات یوں تحریر فرماتے ہیں:
صرف زبان سے توبہ و استغفار کا رَٹنا اور دل کا اس سے غافل رہنا اس باب الابواب کو کھلوانے کے لیے کافی نہیں ۔
عزمِ مصمم کہ اب کبھی عمر بھر اس گناہ کا اعادہ نہ کیا جائے گا۔ اس عزم کی پختگی کے ساتھ جو توبہ کی جاتی ہے اسے ’’توبۃ النصوح‘‘ کہتے ہیں۔
آپؒ توبہ کی مزید اقسام تحریر فرماتے ہیں:
۱) ایسی توبہ جس میں ایسی قلبی ندامت ہو، جو رغبت سے پیدا ہوتی ہے اس توبہ کو ’’اَنابت‘‘کہتے ہیں۔یعنی صغیرہ گناہوں کے بعد اللہ کی رحمت پر یقین رکھتے ہوئے محبت و عاجزی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنا اَنابت ہے۔

۲) وہ توبہ جس میں ایسی ندامت ہو جو عظمت و جبروت سے پیدا ہو، اُسے ’’اوبہ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ایسی توبہ جس میں نفس تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرے۔ (سِرّدلبراں)

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
جب تک تو اپنے باطن سے توبہ نہ کرے اور باطنی صدق و اخلاص پیدا نہ کرے اس وقت تک تیرے ظاہر کا اعتبار نہیں ۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

کن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی ؟

امام الوقت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرتا جو:
۱) کلمہ گو کو کافر کہے
۲) صراطِ مستقیم پر چلنے والے کو گمراہ کرے
۳) گناہ کو جان بوجھ کر کرے۔ (سلطان العاشقین)

جو جانتے بوجھتے انبیا و فقراکاملین کی مخالفت کرے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے، ایسا شخص اللہ اور اللہ کے رسول ؐ اور فرشتوں کی جانب سے لعنت و رسوائی کا مستحق بنتاہے ۔ ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ ان کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اللہ نے ان کے اپنے انتخاب کے نتیجے میں ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذابِ عظیم ہے۔ (سورۃ البقرہ۔7)
غافل دل سے مانگی ہوئی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔
جس شخص کا خاتمہ بالخیر یعنی حالتِ ایمان میں نہ ہوا ہو،ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ سے عناد کے ساتھ گناہ کرے، اس کی توبہ قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی۔
حضرت اغرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو! اللہ کی طرف تائب ہو جاؤ اور اس سے بخشش طلب کرو ، میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔(مسلم6859)

سیدّنا غوث الاعظمؓ اپنے الہامی کلام ’’الرسالۃ الغوثیہ ‘‘ میں رقمطراز ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا’’اے غوث الاعظمؓ! کوئی شخص مجھ سے اپنے گناہ کے باعث دور نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اپنی طاعت کے باعث مجھ سے قریب ہوتا ہے۔ اے غوث الاعظمؓ! اگر کوئی مجھ سے قریب ہوتا ہے تو وہ اُن گناہگاروں میں سے ہوتا ہے جو عاجزی اور ندامت والے ہیں۔ اے غوث الاعظمؓ! عاجزی انوار کا منبع ہے اور عجب، تکبر، گناہوں کے غلبہ اور تاریکیوں کا منبع ہے۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

انسان کا اپنے گناہوں پر نادم ہونااور توبہ کے ذریعے رجوع اِلی اللہ کرنا قلب کو معرفتِ الٰہی کی راہ پر گامزن کرتاہے تاہم اس کا حصول مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی رہبری و رہنمائی کے بغیر ناممکنات میں سے ہے کیونکہ راہِ معرفتِ الٰہی کے راہزن نفس اور شیطان ہیں۔ نفس انسان کے لیے صالح اس وقت بنتاہے جب اس کا تزکیہ ہو جائے اور تزکیۂ نفس کے لیے مرشد کامل اکمل کی تلاش و اطاعت ازحد ضروری ہے۔ ظاہری عبادات سے نہ تو تزکیۂ نفس حاصل ہوتاہے اور نہ ہی حقیقی توبہ پر قائم رہا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتاتوبعد از حضور نبی مکرمؐ، تابعین کو( اصلاحِ نفس کے لیے) صحابہ کرامؓ کی اور تبع تابعین کو تابعین کی صحبت و اطاعت کی حاجت نہ ہوتی اور اللہ پاک اپنے جلیل القدر فقرا کو اصلاحِ انسانیت کے لیے یکے بعد دیگر ے منتخب نہ فرماتا اور نہ ہی ان اولیا وفقراکاملین کا شہرہ ہر زبان زَدِ عام ہوتا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
پیروی کرو اللہ کی اور پیروی کرو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اور اس کی جو تم میں ’’اُولی الامر‘‘ ہو۔ (سورۃ النسا۔59 ) 

اس آیت مبارکہ میں ’’اُولی الامر‘‘سے مراد دنیادارحکمران،بے عمل علما، امرا یا دیندار لوگ ہر گز نہیں ہیں۔اس کے متعلق امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’اولی الامر‘‘سے مراد وہ صدیق بندہ ہے جو نائبِ رسولؐ کے مرتبہ پر فائز ہوکیونکہ صرف اس کی پیروی حقیقتاً اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی ہو گی نہ کہ دنیاوی حکمرانوں کی۔(شمس الفقرا)
عصرِحاضر میں قلب کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کرنے اور توبۃ النصوح سے معرفتِ الٰہی کا حصول امام الوقت ،مجددِ دین مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صحبت و نگاہِ فیض اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ہی ممکن ہے۔ 

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

خواص و عوام کے لیے دعوتِ عام ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوکرصحبتِ مرشد سے قربِ الٰہی کی منازل طے کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی سے قبل اس کی رضا کا حصول ممکن ہو سکے جو کہ دائمی کامیابی کی کنجی ہے۔

استفادہ کتب:
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
مکاشفتہ القلوب :  امام محمد غزالیؒ
سِرّدلبراں:  حضرت شاہ محمدذوقیؒ
 توبہ و تقویٰ :  ابوشرجیل شفیق الرحمن الدراوی

 

16 تبصرے “توبہ Touba

  1. توبہ انسان کے ظاہر و باطن کو لایعنی آلائشوں سے پاک کرکے معرفتِ الٰہی کی راہ پر گامزن کرنے کا بنیادی زینہ ہے۔

  2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    توبہ کرنے والا اللہ کا حبیب ہے اور توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔

  3. سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
    جب تک تو اپنے باطن سے توبہ نہ کرے اور باطنی صدق و اخلاص پیدا نہ کرے اس وقت تک تیرے ظاہر کا اعتبار نہیں ۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

  4. حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول کریمؐ نے فرمایا:
    گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (ہوجاتا) ہے جس کا کوئی گناہ نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ 4250 )

  5. حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول کریمؐ نے فرمایا:
    گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (ہوجاتا) ہے جس کا کوئی گناہ نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ 4250 )

  6. توبہ قلب کے نوراور تزکیۂ نفس کا باعث بنتی ہے۔

  7. اللہ پاک ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  8. توبہ انسان کے ظاہر و باطن کو لایعنی آلائشوں سے پاک کرکے معرفتِ الٰہی کی راہ پر گامزن کرنے کا بنیادی زینہ ہے۔

  9. گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (ہوجاتا) ہے جس کا کوئی گناہ نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ 4250 )

  10. جب جسدِآدمؑ تیار ہوگیا تو شیطان لعین نے حسد و تکبر کی وجہ سے اس پر تھوک دیا۔ یہ تھوک حضرت آدمؑ کے مقامِ ناف پر پڑنے سے وجودِ آدمؑ میں نفس کی بنیاد پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کو احکاماتِ الٰہی کی نافرمانی و سرکشی پر اُبھارنے کے لیے شیطان اِسی نفس کو اپنا ہتھیار بناتا ہے اور انہیں معرفتِ الٰہی کی راہ سے غافل کرکے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔ اللّٰه ہمیں شیطان کی چالوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں