حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.5/5 - (15 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات

 Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط9                                                                                                                   تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

دین اور راست روی کا تقاضا تھا کہ حضرت عثمانؓ کے جن عمال کی شکایات موصول ہو چکی ہیں ان کو فوراً معزول کیا جائے۔ اس تقاضے کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بہ مقتضائے الٰہی پورا کیا۔ آپ کو مشورہ دیا گیا کہ ابھی یہ کام نہ کریں ورنہ سب آپ کے مخالف ہو جائیں گے، بیعت کا انکار کر دیں گے اور آپ کی خلافت کو نہ مانیں گے۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یہ مشورہ دیا تھا بالکل ویسے ہی جیسے حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو منکرینِ زکوٰۃ کے متعلق مشورہ دیا تھا۔ طبری لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباسؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا اگر آپ حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کو معزول کردیں گے تو وہ یہ کہیں گے کہ خلافت بغیر مشورے کے قائم ہوئی ہے اور اسی خلیفہ نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے۔ اس طرح وہ آپؓ کی مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے اور اہلِ عراق آپ کے باغی بن جائیں گے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 33)

طبری نے اس مشورہ کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا:
جہاں تک بنو امیہ کا تعلق ہے وہ آپ کو اس خلافت پر متہم کرنے (تہمت لگانے) کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں گے اور لوگوں کو شبہات میں ڈالیں وہ بھی قصاص کا مطالبہ کریں گے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 32)

اس اہم معاملے کے متعلق ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھئے کہ جب شروع میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو حضرت مغیرہؓ نے آپ کو یہ رائے دی ’’حضرت زبیرؓ ، حضرت معاویہؓ اور حضرت طلحہؓ کو ان کے عہدوں پر بحال رکھا جائے۔ حتیٰ کہ تمام لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور مسلمانوں میں اتحاد باقی رہے اور ان کا شیرازہ نہ بکھرے۔ اس کے بعد آپؓ کو اختیار ہے جو چاہیں کریں۔‘‘

ملک کی سیاست کا بھی تقاضا تھا لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے (دھوکے سے بچنے کے لئے جو اسلام کے خلاف ہے) یہ رائے نہیں مانی تو پھر دوسرے دن صبح صبح حضرت مغیرہؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس جا کر عرض کی:
’’کل میں نے آپ کو جو رائے دی تھی اس پر میں نے رات کو غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری رائے خلافِ حق تھی۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’مجھے یقین ہے کہ تمہاری کل والی رائے خیر خواہی پر مبنی تھی اور آج کی رائے دھوکہ والی ہے لیکن تمہاری کل والی رائے پر عمل کرنے سے مجھے دین نے روک دیا ہے اگرچہ سیاست وہی چاہتی تھی۔ صحابہ کرامؓ کا قدم قدم پر یہی حال تھا کہ دین کی فکر ہے اگرچہ دنیاہاتھ سے جاتی رہے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، حصہ اول، 338)

عمال کو معزول کرنے کا ایک دوسرا پہلو بھی تھا۔ حضرت عثمانؓ کے خلاف جتنی بغاوت اٹھی ان سب کا مطالبہ یہ تھا کہ اپنے عمال کو معزول کریں کہ یہ نااہل ہیں۔ جیسا کہ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
لوگ حضرت عثمانؓ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ نے کبار صحابہ کرامؓ کو معزول کر کے ان سے کم درجہ یا نااہل لوگوں کو والی بنایا ہے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 172) 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باغیوں کا یہی اعتراض تھا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ عمال کی شکایات تو پہلے ہی آ چکی تھیں اور پھر باغی انہی شکایات کو بنیاد بنا کر معزولی کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس صورتحال میں بھی ضروری تھا کہ باغیوں کا زور ختم کرنے کے لئے ان عمال کو معزول کیا جائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جن عمال کی شکایات کو درست گردانا ان کو جید صحابہ کے مشورے سے معزول کر دیا۔ 

پھر ایک پہلو یہ بھی تھا کہ عمال کو بنیاد بنا کر باغی اس حد تک جا چکے تھے جو کسی نے سوچی بھی نہ تھی۔ اس لیے تقاضا بھی یہی تھا کہ انہی کی وجہ سے باغیوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا کہ ان کو معزول کیا جائے۔ 

یہی قصاص کا جذبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کی بنیاد بنا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب عاملین مقرر فرمائے تو پرانے عامل اس بات پر انکاری ہو گئے کہ پہلے قصاص لیا جائے۔ اس ضمن میں چند مثالیں بیان کی جا رہی ہیں۔

امیرِشام

ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
(حضرت علیؓ نے) شام پر حضرت معاویہؓ کی جگہ حضرت سہل بن حنیف کو امیر مقرر کیا، سہل بن حنیف شام کی طرف روانہ ہوئے، جب تبوک پہنچے تو حضرت معاویہؓ کے کچھ سوار آپ سے ملے، انہوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟
سہل بن حنیف نے کہا کہ میں امیر ہوں۔
انہوں نے پوچھا کہ کس چیز پرامیر ہیں؟
آپ نے کہا کہ شام پر امیر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو حضرت عثمانؓ بن عفان نے بھیجا ہے تو آپ کو سلام اور خوش آمدید لیکن اگر کسی اور نے بھیجا ہے تو واپس چلے جائیے۔
سہل بن حنیف نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے (یعنی حضرت عثمان شہید ہو چکے ہیں)۔
انہوں نے کہا کیوں نہیں، ہمیں معلوم ہے۔
پس سہل بن حنیف لوٹ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آ گئے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 229)

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت سہل بن حنیف جو امیر بن کر شام جا رہے تھے، تبوک پہنچے۔ چند سواروں سے ملاقات ہوئی۔ سواروں نے دریافت کیا تم کون ہو؟
حضرت سہل نے جواب دیا میں امیرِشام ہوں۔
سواروں نے کہا تم کو اگر حضرت عثمان کے سوا کسی نے امیر مقرر کر کے روانہ کیا ہے تو لوٹ جاؤ۔
حضرت سہل یہ سن کر مدینہ لوٹے۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد دوم، ص 380)

امیرِمصر

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امیرِمصر حضرت قیس بن سعد کو مقرر کیا۔ امیر مصر کے بارے میں ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت قیس بن سعد کے بارے میں اہلِ مصر نے اختلاف کیا۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 229)
جب نئے امیرِمصر منزل پر پہنچے تو اہلِ مصر تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
قیس بن سعد مصر جا رہے تھے، ایلہ میں سواروں کے دستے سے ملاقات ہوئی جو مصر سے آ رہا تھا، سواروں نے دریافت کیا:
آپ کون ہیں؟
جواب دیا میں قیس بن سعد ہوں، عثمانؓ کا خیر خواہ ہوں اور اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو فتنہ و حوادث کے زمانے میں امن کے ساتھ پناہ گزیں ہو، میں اس کی مدد کرنے پر تیار ہوں۔

حضرت قیسؓ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور رفتہ رفتہ مصر پہنچے۔ امیر المومنین کا فرمان دکھلایا، مصریوں کے چند گروہ ہو گئے (یعنی گروہوں میں تقسیم ہو گئے)۔ بعض نے حضرت قیسؓ کا ساتھ دیا، اطاعت قبول کی اور چند لوگوں نے بہ انتظارِ قصاصِ عثمانؓ سکوت اختیار کیا اور بعض نے کہا کہ جب تک ہمارے بھائی مدینہ سے نہ آئیں، اس وقت تک ہم کچھ نہ کریں گے نہ کسی کی اطاعت قبول کریں گے اور نہ کسی کی امارت سے منکر ہوں گے۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد دوم، ص 379)

امیرِبصرہ

ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
یہی حال اہلِ بصرہ کا رہا۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 330) 

امیرِکوفہ

ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عمارہؓ بن شہاب جنہیں کوفہ کا امیر بنا کر بھیجا گیا تھا، انہیں طلیحہؓ بن خویلد نے حضرت عثمانؓ کی شہادت پر غصہ کی وجہ سے کوفہ جانے سے روک دیا، پس وہ بھی لوٹ آئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خبر دی۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 330) 

ابنِ خلدون نے بھی لکھا ہے:
کوفہ کی طرف عمارہ بن شہاب روانہ کئے گئے تھے۔ مقام زبالہ میں پہنچے ہی تھے کہ طلیحہ بن خویلد سے ملاقات ہو گئی۔ صاحب سلامت ہونے کے بعد طلیحہ کو معلوم ہوا کہ یہ امیرِکوفہ جا رہے ہیں، طلیحہ نے کہا:
بہتر یہ ہے کہ تم واپس چلے جاؤ کیونکہ اہل ِکوفہ اپنے امیر ابو موسی اشعریؓ کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور اگر تم میرا کہا نہ مانو گے تو میں تمہاری گردن بھی اڑا دوں گا۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد دوم، ص 379)

ان تمام حالات سے واضح ہوتا ہے کہ عمال نے بغاوت کاعلم بلند کر دیا تھا۔

قصاص کا مطالبہ اور حضرت علیؓ پر الزام تراشی

قصاصِ حضرت عثمانؓ ایک نازک معاملہ تھا، جس کو نبٹانے کے لئے زِیرکی و سمجھداری بدرجہ اتم ضروری تھی۔ قصاص کا دعویٰ درست تھا لیکن بے ربط طریقے سے کیا گیا یعنی اس کے ذریعے انتشار (Anarchy) پھیلانے کی کوشش کی گئی یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مطالبہ ٹھیک تھا لیکن اس کے پیچھے سازشی تھے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے جو کہ انہوں نے اٹھایا۔
حالات کا تقاضا یہ تھا کہ جو بھی خلیفہ بنے گا الزام اس پر آئے گا۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا:
عوام کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ تاہم میری رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جو کوئی خلیفہ ہو گا اسے حضرت عثمانؓ کے خون کا ملزم گردانا جائے گا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص426)

ابنِ خلدون بھی لکھتے ہیں کہ حضرت عباسؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
کل آپ پر ہی خون کا الزام لگایا جائے گا۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد دوم، ص 378, 379)

اس سے واضح ہوتا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے خلافت کو قبول کر لیا تو ان پر حضرت عثمانؓ کے حوالے سے الزام آئے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس کے باوجود حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلافت پر کیوں رضامند ہو گئے؟ حالانکہ آپ کے لئے اس میں بہت مشکلات پوشیدہ تھیں۔

حضرت علیؓ اس پیشکش کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے مگر انہیں امتِ مسلمہ کا سفینہ منجدھار میں نظر آ رہا تھا۔ (سیدّنا حضرت علی المرتضی، ص 144)

اس سے واضح ہوتا ہے درحقیقت امتِ مسلمہ کو تفریق اور تباہی سے بچانے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلافت قبول فرمائی۔ قاضی ابوبکر ابن العربی لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں کو بلا امام چھوڑ دینا ممکن نہ تھا چنانچہ امامت ان باقی ماندہ صحابہ کے سامنے پیش کی گئی جن کا ذکر حضرت عمرؓ نے شوریٰ میں کیا تھا مگر انہوں نے اسے ردّ کر دیا اور حضرت علیؓ نے جو اس کے سب سے زیادہ حقدار اور اہل تھے اسے قبول کر لیا تاکہ امت کو خونریزی اور آپس کی پھوٹ سے بچایا جا سکے جس سے دین و ملت کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ تھا۔ (احکام القرآن)

حبیب الرحمن صدیقی فاصل دیوبند تاریخ طبری کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سیدّنا حضرت علیؓ نے امت کی خدمت سمجھ کر ان (امت مسلمہ) سے بیعت لے لی تا کہ لوگوں کو امن و امان میسر آ جائے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 3)

قصاص کا مطالبہ

قصاص کی تحریک کا آغاز حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ساتھ ہی شروع ہو گیا۔ یعنی ابھی تجہیز و تکفین بھی پوری طرح سے نہ ہوئی تھی کہ ساتھ ہی قصاص کا مطالبہ شروع کر دیا گیا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے دوران جتنی مشکلات پیش آئیں وہ زیادہ تر قصاصِ عثمانؓ کی تحریک کی وجہ سے تھیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ کیسے قصاص کے بے ربط دعویٰ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مشکلات میں ڈالا جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود بھی قصاص چاہتے تھے لیکن ان کی آواز کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس سلسلے میں خاطر خواہ کوششیں کی یا یوں کہنا چاہیے کہ جتنا ممکن تھا اتنا کام کیا۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جو اقدام کیے ان کی اہمیت و افادیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس سازش کی سنگینی کا اندازہ ہو جو حضرت عثمانؓ کے خلاف کی گئی۔ جب تک حالات کا بخوبی اندازہ نہ ہو اس وقت تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقدامات سمجھ نہیں آ سکتے۔ سازشی نظام کے اندر گھس چکے تھے۔ اس کا تفصیلی بیان پہلے لکھا جا چکا ہے اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان پیچیدہ اور دگرگوں حالات میں انکوائری کرانا یا قصاص کے اقدامات کرنا آسان نہ تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ممکن ہی نہ تھا کیونکہ نظام کے اندر اور باہر اور ہر سرکاری عہدہ پر کہیں نہ کہیں سازشی براجمان تھے۔ 

قصاص کی زیادہ زور دار تحریک حضرت امیر معاویہؓ کی زیر نگرانی شام سے اٹھی۔ اس تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ ابوبکر ابن العربی لکھتے ہیں:
جب حضرت علیؓ سے بیعت کر لی گئی تو شام کے لوگوں نے ان کی بیعت قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ پہلے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو گرفتار کر کے ان سے قصاص لیا جائے۔ حضرت علیؓ نے ان سے کہا پہلے بیعت میں داخل ہو جاؤ، پھر حق کا مطالبہ کرو، وہ تمہیں مل جائے گا۔ مگر انہوں نے کہا آپ بیعت کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ جبکہ ہم قاتلینِ عثمانؓ کو صبح و شام آپ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں حضرت علیؓ کی رائے زیادہ صحیح تھی اور ان کا قول زیادہ درست تھا کیونکہ اگر وہ اس وقت قاتلینِ عثمانؓ سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے تو قبائل ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے اور لڑائی کا ایک تیسرا محاذ کھل جاتا۔ اس لیے وہ انتظار کر رہے تھے کہ حکومت مضبوط ہو جائے اور تمام مملکت میں ان کی بیعت منعقد ہو لے۔ اس کے بعد باقاعدہ عدالت میں اولیا مقتول کی طرف سے دعویٰ پیش ہو اور حق کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے۔ (احکام القرآن بحوالہ خلافت و ملوکیت، ص 126)

جب حضرت عثمانؓ شہید ہو گئے تو نعمان بن بشیرؓ آپ کی خون آلود قمیض اور حضرت نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیاں جو حضرت عثمانؓ کے دفاع میں ہتھیلی سے کٹ گئی تھیں، لے کر حضرت معاویہؓ کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت معاویہؓ نے وہ قمیض منبر پر رکھ دی اور انگلیاں اس کی آستین میں لٹکا دیں تا کہ لوگ یہ منظر دیکھیں اور آپ نے انہیں انتقام لینے پر برانگیختہ کیا، لوگ منبر کے اردگرد روتے اور کبھی قمیض کو اٹھاتے اور کبھی رکھتے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 228) 

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
نعمان بن بشیرؓ حضرت نائلہؓ زوجہ حضرت عثمانؓ کی انگلیاں اور حضرت عثمانؓ کی خون آلود قمیض لے کر شام چلے گئے۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد دوم، ص 377)
ابنِ کثیر نے لکھا ہے:
’’جب حضرت علیؓ کی بیعت کا معاملہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو حضرت طلحہ و حضرت زبیرؓ آپ کے پاس آئے اور آپ سے حضرت عثمانؓ بن عفان کے خون کا قصاص لینے کا اورحد قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت علیؓ نے ان سے وجہ بیان کی کہ ابھی ان خوارج کے مددگار موجود ہیں اس لئے فی الوقت ان سے قصاص لینا ممکن نہیں۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 228, 229) 

(جاری ہے)


13 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

اپنا تبصرہ بھیجیں