اسلامی حکومت اور اولیا اللہ کا کردار Islami Hukoomat Aur Auliya Allah Ka Kirdar


4.7/5 - (16 votes)

اسلامی حکومت اور اولیا اللہ کا کردار

  Islami Hukoomat Aur Auliya Allah Ka Kirdar

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

اللہ تعالیٰ کا انتہائی لطف و کرم ہے کہ اس نے انسانیت کی فلاح و بہبود، دنیوی و اخروی کامیابی، تہذیب و تمد ن کے فروغ اور تبلیغ و اشاعتِ دین کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے انبیا کرامؑ کو مبعوث فرمایا اور خصوصاًبالخصوص خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا منبع اور رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا۔ بعثتِ نبیؐ سے قبل دنیاکا بیشتر حصہ گمراہی اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ گویا ایک وحشی معاشرے کی تصویر پیش کر رہا تھا۔ سر زمینِ عرب طرح طرح کی برائیوں، گناہوں اور کدورتوں سے پامال تھی۔ شراب نوشی، بدکاری، قمار بازی ، سود خوری اور بردہ فروشی عروج پر تھی لیکن جس وقت آفتابِ رسالتؐ طلوع ہوا گمراہی اور تاریکی کے بادل چھٹ گئے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیغامِ حق دینے کے لیے دعوت و تبلیغ کے سلسلہ کا آغاز فرمایا، اللہ کی کتا ب قرآنِ مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دی اورلوگوں کے دل نورِ ایمان سے منور فرما د ئیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یکسر بگڑے ہوئے معاشرے کے غیر مہذب اور تمدن سے بے بہرہ افراد کی تربیت اس طور سے کی اور دینِ اسلام کے قوانین اس خوبی سے رائج فرمائے کہ پوری دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔ ایک وحشی صفت قوم تعلیم و تہذیب اور دین کے سنہری اصول سیکھ کر انسانیت کی معراج کو پہنچ گئی اورپو ری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 

نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد انسانوں کی اصلاح کا فریضہ بزر گانِ دین اور صوفیا کرام نے سر انجام دیا۔ ایک طرف مسلمان حکمرانوں نے اسلام کا پرچم دنیا میں بلند کیا، سلطنتیں قائم کیں تو دوسری طرف اولیا اللہ مینارۂ نور بن کر لوگوں کی اصلاح و تربیت اور ہدایت کی شمع سے دلوں کوروشن کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ جب تک مسلمان اولیا اللہ کے در سے وابستہ رہے ، باطنی اصلاح پر توجہ دیتے رہے ، دلوں میں حقیقی معنوں میں اولیااللہ سے محبت و عقیدت کا جذبہ موجود رہا اس وقت تک مسلمان ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
بادشاہ اہلِ فقر کے تابع ہوتا ہے ۔ جس نے بھی فتح و نصرت و بادشاہی پائی نگاہِ درویش سے پائی ۔ (محک الفقر کلاں )

اسلامی حکومت کی تاریخ 

خلافتِ راشدہ :

محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت (632ء ) سارے جزیرۂ عرب پر اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی۔حضور نبی اکرمؐ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا ۔ آپؓ نے دو سال حکومت کی۔ آپؓ کے دورِ حکومت میں کئی بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ آپؓ نے نہ صرف فتنہ ارتداد اور بغاوتوں پر قابو پایابلکہ عرب کی سرحدوں کے باہر بھی فوج بھیجی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد حضرت عمرؓ (634-44ء ) خلیفہ بنے۔ آپؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے حیرت انگیز فتوحات حاصل کیں ۔ 

حضرت عمرؓ  کے دور میں عراق ، الجزیرہ، آرمینیا، آذربائیجان، کرمان، خراسان، ہرات، ہمدان، دیلم، رَے، طبرستان، سیستان، فارس اور مکران اسلامی حکومت کا حصہ بن گئے۔ اس طرح غزوۂ بدر کے صرف 20برس کے بعد مسلمان ایک وسیع سلطنت کے مالک بن گئے جو 22لاکھ مربع میل پر محیط تھی۔ اس دور میں ایران اور روم دو سپر پاورز تھیں، مسلمانوں نے قیصرِ روم اور ایران کے کسریٰ دونوں کو شکستِ فاش دی۔ (مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج )

بنو اُمیہ اور بنو عباس :

بنو اُمیہ کے دور میں بھی مسلمانوں کی فتوحات کا عظیم سلسلہ جاری رہا۔ عقبہ بن نافع نے683 ء میں الجزائر اور مراکش فتح کیے۔ ولید اوّل کے عہد میں (705-15ء ) میں قتیبہ بن مسلم نے سارے وسط ایشیا کو کاشغر (چین)تک مسخر کر لیا۔ اسی اسلامی دور میں محمد بن قاسم نے بلوچستان، سندھ، ملتان تک کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل کر لیا ۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دور میں ایشیا ئے کوچک کا بڑا حصہ مسلمانوں کے زیرِنگین رہا۔

مشہور جرنیل طارق بن زیاد کا سپین کو فتح کرنا مسلمانوں کے عظیم کارناموں میں شامل ہوتا ہے۔ سپین کی فتح اور یہاں اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت اور فکر عطا کی۔ سپین پر مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی۔ اسی دور میں مسلمانوں نے پرتگال کو فتح کیا۔ مسلمانوں نے سسلی پر 264 سال، کریٹ پر485 سال اور جنوبی فرانس پر 200سال حکومت کی۔ (مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج)

سلطنتِ عثمانیہ :

تیرھویں صدی عیسوی میں اناطولیہ میں سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی۔ پھر ایک صدی کے اندر عثمانی فوجوں نے ایشیا اور افریقہ کی طرح جنوب مشرقی اور وسطی یورپ میں دور دور تک مسیحی ممالک روند ڈالے۔ 1360ء میں سلطان مراد اوّل نے یورپ کے بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔ 1402ء میں یونان عثمانی سلطنت میں شامل ہوا۔ سلطان محمد فاتح کے دور میں مسلمان یورپ کے 17 لاکھ 3 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقہ پر حکمران تھے۔ عثمانیوں کے آخری دور میں یورپ کا 35,43,662 مربع کلو میٹر رقبہ عثمانی سلطنت کے زیرِ نگیں تھا۔ (مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج)

برصغیر پر حکومت:

ولید اوّل(705-15ء ) کے دور میں محمد بن قاسم کو مکران کا گورنر تسلیم کیا گیا۔ آپ نے مکران کی حکومت کو مضبوط کرنے کے بعد پیش قدمی کرتے ہوئے پہلے ارمن بیلہ اور پھر دیبل فتح کیا۔ 712ء میں محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو عبرت ناک شکست دی اور پھر مزید آگے بڑھتے گئے اور شہر پر شہر فتح کر تے چلے گئے۔ اسی طرح یہ سارا علاقہ مسلم سلطنت کا حصہ بن گیا۔یوں ہندوستان میں پہلا مسلم خطہ وجود میں آیا۔ سلطان محمود غزنوی(971-1030ء ) غزنی(افغانستان) اور خراسان کا حکمران تھا۔ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ ہر حملے میں ہندوؤں کو عبرت ناک شکست ہوئی۔1021ء میں محمود غزنوی نے پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ شہاب الدین غوری نے 1192ء میں دہلی پر قبضہ کر کے ہندوستان میں مستقل حکومت کی بنیاد رکھی۔ غوری سلطنت میں موجودہ پاکستان، شمالی بھارت،بہار اور بنگال شامل تھے۔ غوری کے بعد ہندوستان کے اہم حکمرانوں میں قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، غیاث الدین بلبن، علاؤ الدین خلجی، محمد تغلق، ابراہیم لودھی اور شیر شاہ سوری کے نام شامل ہیں۔ (مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج )

1526ء میں بابر نے مغلیہ خاندان کی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے دور کی عظیم الشان سلطنت تھی۔ بابر کے بعد ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہان، اورنگزیب مغلیہ سلطنت کے عظیم حکمران تھے۔ اورنگزیب کے بعد مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی۔اسکا آخری حکمران بہادر شاہ ظفر تھا۔ ستمبر 1857ء میں انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہو گئی۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔

اسلامی حکومت اور اولیا اللہ کا کردار

ہندوستان میں مسلمانوں کے ابتدائی دورِ حکومت میں بڑے بڑے صوفیا گزرے جنہوں نے مذہبی، روحانی اور معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام فاتحین اور بادشاہوں کی تلواروں کی بدولت پھیلا لیکن ان فاتحین اور بادشاہوں کے معاصر صوفیا کے حالاتِ زندگی سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ صوفیا کرام نے پہلے اپنے قلوب کو انوارِ ربانی کا محل بنایا پھر لوگوں کو مادی نجاستوں اور آلائشوں سے پاک صاف کیا۔ صوفیا کرام نے لوگوں کی ظاہری و باطنی تربیت کی، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ کر برائیوں سے بچایا، بھلائی کے راستہ پر لگایا، اخلاص و محبت کا سبق پڑھایا اور خدمتِ خلق کے جذبہ سے سر شار کیا۔ اس تربیت کی بدولت وہ لوگوں کے دلوں پر ایسا چھائے کہ شاہ و گدا ، امرا و غربا، مسلم و غیر مسلم سب ان کی تعظیم کرنے لگے اور دینِ اسلام کی حقیقی روح ہر خاص و عام تک پہنچنے لگی۔

قارئین کے لیے چند اولیا اللہ کی اشاعتِ دین کے حوالے سے کی گئی خدمات کو پیش کیا جا رہا ہے ۔

سیدّنا شیخ عبد القادر جیلانیؓ 

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانیؓ جس دور میں پیدا ہوئے اس وقت یورپ کی عیسائی حکومتیں مسلمانوں کے اقتدار کو ختم کرنے کے درپے تھیں۔ عالمِ اسلام انتشار اور خلفشار کا شکار تھا۔ بہت سی اسلامی حکومتیں ختم ہو چکی تھیں اور جو باقی تھیں وہ اندرونی خلفشار اور اغیار کا نشانۂ ستم بنی ہوئی تھیں۔ مسلمان اپنی طاقت اور وقار کھو رہے تھے ، ان کے عقائد کو کمزور کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی تھیں ۔

488ھ جب سیدّنا غوث الاعظمؓ بغداد تشریف لائے دنیائے اسلام طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ فتنہ خلقِ قرآن، اعتزال اور باطنیت کی تحریکیں مسلمانوں کے لیے خطرۂ ایمان بنی ہوئی تھیں۔خلافتِ بغداد روزبروز زوال پذیر ہورہی تھی۔ سلجوقی آپس میں لڑ رہے تھے۔ جس سلطان کی طاقت بڑھ جاتی، بغداد میں اُسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ عباسی خلیفہ دم نہ مار سکتاتھا۔ ایک طرف باطنیہ تحریک کے پیروکاروں نے ملک میں اودھم مچا رکھا تھاتو دوسری طرف پہلی صلیبی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا ۔ یہ خلیفہ مستنصر باللہ کا دورِ حکومت تھا جو 487ھ سے 512ھ تک رہا۔ 

 مسلمانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو پار لگانے اور دینِ اسلام کو حیاتِ نو بخشنے کے لیے قدرت نے مجددِدین و محی الدین حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانیؓ کی صورت میں امتِ مسلمہ کو ایک عظیم مصلح عطا فرمایا۔ آپؓ فقر و طریقت سے آراستہ، مزاجِ شریعت سے آشنا اور کتاب و سنت کے علوم سے مسلح ہو کر میدانِ جہاد میں اترے اور مجالسِ تلقین و ارشاد اور اجتماعاتِ اصلاح و ہدایت کے ذریعے باطل کے خلاف جنگ کا آغازکر دیا۔ آپ ؓکی سب سے بڑی کرامت ’’احیائے دین ‘‘ یعنی دین کو زندہ کرناہے اسی لیے آپؓ کو محی الدین کے لقب سے نوازا گیا ہے ۔ (حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ)

حضرت داتا گنج بخشؒ

حضرت علی ہجویریؒ نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے اور گمراہوں کو راہ ِراست دکھانے کی عظیم خدمات سر انجام دیں۔  

حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخشؒ حضرت ابراہیم غزنوی کے والد مسعود غزنوی کے دورِ حکومت میں لاہور تشریف لائے اور اپنی بقیہ زندگی یہیں بسر کی۔ لاہور اور اس کے اطراف میں اسلام کا پیغام آپؒ کی کوششوں سے پھیلا۔ حضرت علی ہجویری ؒ جب لاہور تشریف لائے توآپ کی دلنشین تلقین سے متاثر ہو کر پنجاب کے نائب حاکم رائے راجو بھی مسلمان ہو ئے ، ان کا نام شیخ ہندی رکھا گیا ۔(عظیم مسلم شخصیات )

 حضرت علی ہجویریؒ نہایت با عمل مسلمان تھے۔ آپؒ دل کی پاکیزگی اور باطنی صفائی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپؒ کی شاہکار تصنیف ’’کشف المحجوب ‘‘ ہے۔ یہ فارسی زبان میں علم تصوف پرایک منفرد کتاب ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے معرفت اور دانائی کے موتی بکھیر رہی ہے اور تشنگانِ راہِ حق کی پیاس بجھا رہی ہے ۔ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا امتِ مسلمہ پر یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے برصغیر میں آکر کفر و ظلمت کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن فرمائی ۔ آپؒ نے تبلیغِ اسلام کا عظیم کارنامہ سر انجام د یا اور اپنے خلفاکو ہندوستان کے مختلف گوشوں میں تبلیغ کی ذمہ داری سونپی۔

آپؒ کے خلفامیں شیخ قطب الدین بختیار کاکیؒ، شیخ حمیدالدین ناگوریؒ جیسے جلیل القدر صوفیا بھی شامل ہیں۔خواجہ صاحبؒ نے صرف مردوں ہی میں نہیں بلکہ خواتین میں بھی تبلیغِ اسلام کے لیے کوششیں فرمائیں۔ اس غرض سے آپؒ نے اپنی بیٹی حافظہ جمال کی تربیت فرمائی۔ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے جس شہر کو تبلیغِ دین کا مرکز بنانے کا ارادہ فرمایا وہ اجمیر تھا۔ اس زمانے میں اجمیر سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں ہندوؤں کے مشہور اور طاقتورراجاپرتھوی راج کی حکومت تھی۔ ان حالات میں اجمیر کو اپنی تبلیغ واشاعت کا مرکز بنانا آپؒ کی غیر معمولی جرأت اور حوصلے کا مظہر تھا ۔ آپؒ جانتے تھے کہ اس خطے میں بسنے والوں کو اسلام کے نورِ ہدایت کی ضرورت ہے۔ آپؒ کی پرکشش شخصیت، دلکش اندازِ گفتگو اور منفرد اندازِ دعوت و تبلیغ کی بدولت لوگ دور دور سے آپؒ کے پاس کھنچے چلے آتے اور آپؒ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیتے۔ آپؒ کی تحریک اور بڑھتی ہوئی شہرت راجا پرتھوی راج کو ایک آنکھ نہ بھا تی تھی۔ اس نے آپؒ کے مریدین کو پریشان کرناشروع کر دیا ۔ اس نے آپؒ کو دھمکی دی کہ وہ آپ کو اجمیر سے نکلوا دے گا۔ اس پر آپؒ نے فرمایا ’’ہم نے پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے مسلمانوں کو دے دیا۔ ‘‘آپ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ 588ھ میں شہاب الدین غوری نے ترائن کے مقام پر پرتھوی راج کی فوج پر حملہ کیا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ پرتھوی راج گرفتار ہوا اور مارا گیا۔(عظیم مسلمان شخصیات)  

حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ

حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ نے اپنی طویل عمر میں کئی حکمرانوں کے ادوار دیکھے۔ان میں شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک، آرام شاہ، شمس الدین التمش ، ناصر الدین قباچہ ، رکن الدین، رضیہ سلطانہ، معز الدین، بہرام شاہ ، ملک اعزالدین ، علاؤ الدین مسعود اور ناصر الدین محمود شامل ہیں۔ شمس الدین التمش نے تو آپ کو مملکت کا شیخ الاسلام مقرر کر دیا تھا۔یہ بہت بڑا عہدہ تھا جس کا تعلق قاضیوں کے تقرر اورشریعت کے نفاذ سے تھا۔ 

حضرت بہا ؤ الدین زکریا ملتانیؒ کو جنوبی ایشیا میں دعوت و اصلاح  اور تبلیغِ دین کی منظم تحریک کا بانی کہا جاتا ہے۔ آپؒ کی تحریک کی بدولت سندھ، ملتان اور بلوچستان کے علاقوں میں ہزاروں افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ نے ملحدوں کے خلاف جہاد اور اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے اور پاکیزہ معاشرے کو وجود میں لانے کی غرض سے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ آپ ؒ کی تحریک بڑی ہمہ گیر تھی۔ آپؒ اور آپؒ کے خلفا کی انتھک جدوجہد کی بدولت سندھ و ہند کے کئی علاقے اسلام کی برکتوں اور سعادتوں سے مہک اٹھے تھے۔  (عظیم مسلمان شخصیات)

حضر ت فرید الدین گنج شکرؒ 

حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلام کی اشاعت ہے جس کے نتیجے میں مغربی پنجاب کے بہت سے غیر مسلم قبائل اور خاندانوں نے اسلام کی نعمت پائی۔ ان علاقوں میں بسنے والے قبائل راجپوت، سیال، وٹو، کھوکھر ، مرہنگووالیان، بہلیان جکر والیان، بکان، سیان وغیرہ حضرت فرید الدین ہی کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ (عظیم مسلمان شخصیات)

حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کا دوسرا بڑا کارنامہ تبلیغ واصلاح کی تحریک کو منظم کرناہے۔ آپؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جو شخص بھی آپؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونا چاہتا آپؒ اسے بیعت فرماتے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒفرماتے ہیں :
جب بھی کوئی شخص حضرت فرید الدینؒ کی خدمت میں ارادت کی نیت لے کر آتا تو آپؒ اسے ہدایت کرتے کہ پہلے ایک بار سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھو ۔ پھر سورۃ البقرہ کا آخری رکوع تلاوت فرماتے اس کے بعد دیگر چند آیات تلاوت کرتے۔ اس مرید سے وعدہ لیتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ ، پاؤں اور آنکھوں کی حفاظت کرے گااور شریعت کے راستہ پر قائم رہے گا۔ (سیر الاولیا)

حضرت فرید الدینؒ کی مسلسل محنت کا نتیجہ یہ نکلاکہ آپؒ نے صوفیا کرام کی ایک بڑی جماعت تیار کی۔ آپؒ نے اپنے کئی خلفا کو تبلیغِ دین کی ذمہ داری دے کر برصغیر کے مختلف علاقوں میں بھیجا۔ آپؒ کے نامور خلفامیں حضرت نظام الدین اولیاؒ، شیخ جمال الدین ہانسوی، مخدوم علاؤ الدّین صابر شامل ہیں ۔ 

حضرت فرید الدین گنج شکرؒ حکومت کے اہلکاروں اور عہدیداروں سے زیادہ میل جول تو نہ رکھتے تھے لیکن جہاں ضرورت پڑتی وہاں سرکاری عہدیداروں سے رابطہ قائم کرتے تھے اور غلطی پر انہیں ٹوکتے بھی تھے ۔ ایک بار کسی نے آپ سے درخواست کی کہ برصغیر کے حکمران غیاث الدین بلبن کو ایک معاملہ پر ہدایت کر دیں ۔ آپ ؒ نے بلبن کو یہ خط تحریر فرمایا:
میں اس شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بعد آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، اگر آپ اس کو کچھ دے دیں گے تو حقیقی طور پر عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہو گا اور آپ مشکور ہوں گے اور اگر آپ نہ دیں گے تو اس کا مانع اللہ تعالیٰ ہو گا اور آپ معذور ہوں گے۔(عظیم مسلم شخصیات)

حضرت نظام الدین اولیاؒ

چشتیہ سلسلے کی وہ تحریک جس کا بیج برصغیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے بویا تھا اورحضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے اسے منظم کیا، اس کے بعداس تحریک کومزیدپھیلانے اور مستحکم بنانے کا فریضہ حضرت نظام الدین اولیاؒنے سر انجام دیا۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے تصوف کے بارے میں پھیلے ہوئے نظریات کی اصلاح فرمائی اور وقتاً فوقتاً تنبیہ کے ذریعے درست اورحقیقی اسلامی نقطۂ نظر اپنے شاگردوں پر واضح کیا۔ آپؒ اپنے مریدوں کو خلافت عطا کرتے ہوئے فرماتے :
’’تارک الدنیا ہو جاؤ اور اہلِ دنیا کی طرف میلان نہ رکھو۔ گاؤں جاگیر قبول نہ کرو اور بادشاہوں سے صلہ نہ لو۔‘‘

آپؒ نے ’’تارکِ دنیا ‘‘کے بارے میں وضاحت یوں فرمائی ’’ترکِ دنیا کے یہ معنی نہیں کہ خود کو برہنہ کر دے مثلاً لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائے۔ صحیح معنی میں ترکِ دنیا یہ ہے کہ لباس پہنے ، کھانے کھائے، جو کچھ میسر آئے استعمال کرے لیکن اسے جمع کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو اور اپنے دل کو کسی دنیاوی شے میں الجھا نہ لے۔‘‘ (عظیم مسلم شخصیات )

حضرت نظام الدین اولیاؒ  کی اصلاحی تحریک بڑی ثمربار ثابت ہوئی ۔ اس کے اثرات ہر شعبہ ہائے زندگی تک پہنچے ۔ مشہور مؤرخ مولانا ضیا الدین برنی جو کہ آپؒ کے مرید بھی تھے اپنی کتاب ’’تاریخ فیروز شاہی ‘‘میں لکھتے ہیں :
علاؤالدین خلجی کے زمانے میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے توبہ کی اور وہ نماز کے پابند ہو گئے۔ آپؒ نے بیعت کا دروازہ ہر خاص وعام پرکھول رکھا تھا۔ حکمران علاؤ الدین خلجی کے محل میں بہت سے افسران اور ملازم ، حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مرید تھے۔ طالب علموں میں تصوف اور دینی کتب کے مطالعہ کا رجحان پیدا ہو گیا تھااور دینی کتب کی نقول تیار کرنے اور ان کی فروخت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ (عظیم مسلم شخصیات)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒیکم جمادی الثانی 1039 ھ (17 جنوری 1630ھ) بروز جمعرات شاہجہان کے عہدِحکومت میں قصبہ شور کوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ مادر زاد وَلی کامل تھے۔ آپؒ کی آنکھوں میں ازلی نور چمکتا تھا اور آپؒ کی پیشانی نورِ حق سے منور تھی ۔ بچپن میں ہی آپؒ میں نورِ حق اس قدر جلوہ افروز تھا کہ آپؒ جس پر بھی نظر ڈالتے تھے اسے واصل باللہ کر دیتے۔ اگر کسی کافر پر نظر ڈالتے تو وہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ۔

طالبانِ مولیٰ کے قلوب نورِ ایمان سے منور کرنے اور دینِ محمدیؐ کی اصل روح سے لوگوں کو واقف کروانے کے لیے آپؒ نے140 تصانیف مرتب فرمائیں جن میں سے ایک پنجابی ابیات کی صورت میں ہے اور دیگر تمام کتب فارسی میں ہیں۔ آپؒ کی یہ تصانیف علمِ لدنیّ کا شاہکار ہیں۔ آپؒ کے ظاہری وصال کے بعد بھی آپؒ کی کتب طالبانِ مولیٰ کی باطنی رہنمائی کا سامان میسر کر رہی ہیں ۔آپؒ کی تصانیف مبارکہ میں اورنگزیب عالمگیر کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔ آپؒ اپنی تصنیف مبارکہ ’’قربِ دیدار ‘‘میں فرماتے ہیں :

عمل شاہی عبیداللہ الٰہ است
کہ اورنگزیب غازی بادشاہ است

ترجمہ:فرمانبرداربادشاہ کا عمل منجانب اللہ تعالیٰ ہے۔اورنگزیب  عالمگیر غازی بادشاہ ہے ۔  

حضرت شاہ ولی اللہؒ

اورنگزیب کے بعد مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوئی۔اسلامی تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں اصلاحِ نفس اور تربیتِ انسانی کے لیے اولیا اللہ کا کردار انتہائی اہم رہا۔ ہر دور میں دینِ محمدیؐ کی اشاعت اور مسلمانوں کو ان کے حقیقی مقصد سے آشنا کروانے کے لیے اولیااللہ اپنا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔  برصغیر میں جب اسلامی حکومت زوال کا شکار ہوئی تو اس سقوط اور تنزل کے زمانے میں حضرت شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کے انحطاط کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد قلمی جہاد کیااور قرآنِ مجید کا فارسی میں ترجمہ کیااور اس کے تشریحی فوائد لکھ کر عام مسلمانوں کے ذہن کو اس کی تعلیمات سے قریب تر کر دیا۔ اسی طرح حدیث کی اہم ترین کتاب ’’موطا‘‘کی فارسی اور عربی میں مجتہدانہ شرحیں لکھیں، صحیح بخاری کے تراجم کی شرح کی اور مدارس میں فقہ و منطق کی بجائے حدیث کے درس و تدریس پر زور دیا ۔ آپ نے تحقیقی فقہ کی اہمیت بتا کر فقہی جمود کو توڑا اور حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی کو ایک دوسرے کے قریب تر کرنے کی کوشش کی۔(ہندوستان کے سلاطین، علما اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر )

مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟

فرمان سلطان العاشقین :

دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے ۔

 تحریک دعوتِ فقر کے اس نعرے (Slogan) پر غور و فکر کیا جائے تو یہ نکتہ عیاں ہو تاہے کہ آج اُمتِ مسلمہ جس پستی اور زوال کا شکار ہے اس سے نکلنے کاواحد حل اس نعرہ میں پوشیدہ ہے۔ سیاسی اقتدار یا سیاسی داؤ پیچ یا سیاسی و منفی سوچ میں اُلجھنے کی بجائے اگر ہم اپنی توجہ اخلاقیات، روحانی ترقی اور دین داری پر مرکوز کریں تو وہ قافلہ جس پر بداخلاقی، سست روی، دنیاداری اور ظاہر پرستی کی وجہ سے ظاہری و باطنی ترقی کی راہیں منجمد ہیں وہ بلا شبہ بحال ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی مثال بنی اسرائیل کی سی ہے جنہوں نے اپنا کھویا وقار حاصل کرنے کی بجائے خود کو دیگر اخلاقی عوارض اور سیاسی ہتھکنڈوں میں ملوث کر لیا تھا نتیجتاً اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ٹھہرے اور اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوا۔ بنی اسرائیل کے اس واقعہ کو مصنف ابو یحییٰ نے اپنی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہو گی ‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ لکھتے ہیں:
حضرت یرمیاہ علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے نبی بناکر بھیجاگیا اور ان پر وحی نازل کی گئی کہ اپنی قوم کی اصلاح کرو۔ انہیں سیاست سے نکال کر ہدایت کی طرف لاؤ۔ ایک بار سچی خدا پرستی قائم ہو گئی تو سیاست میں بھی غالب ہوں گے ۔ مگر جب یرمیا ہ علیہ السلام یہ پیغام لے کر اُٹھے تو ہر طرف ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔ (جب زندگی شروع ہو گی)

اس نعرے میں بیان کیا گیا دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنا کھویا وقار حاصل کرنے کے لیے روحانی تربیت کی طرف متوجہ ہونا ہو گا۔ روحانی تربیت کے لیے اولیا اللہ کے درسے وابستگی ضروری ہے۔ مسلمانوں کے سنہرے ماضی کے ابواب کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو یہ نقطہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے پسِ منظر میں ان کی روحانی تربیت شاملِ حال تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دورِ حیات میں آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی اس طرزپر روحانی تربیت فرمائی کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔ آپؐ کے بعد تزکیۂ نفس اور اصلاحِ انسانی کا فریضہ صحابہ کرامؓ، تابعین،تبع تابعین اورپھر اولیا اللہ نے سر انجام دیا ۔ تزکیۂ نفس کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح آپؐ کے دورِ حیات میں جاری و ساری تھا۔ تزکیۂ نفس کا یہ سلسلہ آپؐ کے منتخب شدہ جانشینوں کے ذریعہ سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

موجودہ دور میں یہ فریضۂ حق حضرت سخی سلطان باھوؒ کے روحانی وارث مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سر انجام دے رہے ہیں ۔ تمام طالبانِ مولیٰ کواصلاحِ نفس اور روحانی تربیت کے لیے آپ مدظلہ اقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہوکرمعرفتِ الٰہی کے حصول کی دعوت دی جاتی ہے۔ 

استفادہ کتب:
۱۔محک الفقر کلاں: تصنیفِ لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ 
۲۔قربِ دیدار :ایضاً
۳۔حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ: مرتب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۴۔عظیم مسلم شخصیات : مؤلف کلیم چغتائی
۵۔ ہندوستان کے سلاطین، علما اور مشایخ کے تعلقات پر ایک نظر :سید صباح الدین عبد الرحمن ایم اے
۶۔جب زندگی شروع ہو گی: مصنف ابو یحییٰ
۷۔مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج : مصنف پروفیسر ارشد جاوید

 

18 تبصرے “اسلامی حکومت اور اولیا اللہ کا کردار Islami Hukoomat Aur Auliya Allah Ka Kirdar

  1. حضرت سخی سلطان باھوؒ کے روحانی وارث مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں ۔ تمام طالبانِ مولیٰ کواصلاحِ نفس اور روحانی تربیت کے لیے آپ مدظلہ اقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہوکرمعرفتِ الٰہی کے حصول کی دعوت دی جاتی ہے۔

  2. حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
    بادشاہ اہلِ فقر کے تابع ہوتا ہے ۔ جس نے بھی فتح و نصرت و بادشاہی پائی نگاہِ درویش سے پائی ۔ (محک الفقر کلاں )

  3. مسلمانوں کو اپنا کھویا وقار حاصل کرنے کے لیے روحانی تربیت کی طرف متوجہ ہونا ہو گا۔ روحانی تربیت کے لیے اولیا اللہ کے درسے وابستگی ضروری ہے۔ مسلمانوں کے سنہرے ماضی کے ابواب کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو یہ نقطہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے پسِ منظر میں ان کی روحانی تربیت شاملِ حال تھی۔

  4. دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے.

  5. دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے ۔

  6. دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست کی نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے ۔

  7. حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
    بادشاہ اہلِ فقر کے تابع ہوتا ہے ۔ جس نے بھی فتح و نصرت و بادشاہی پائی نگاہِ درویش سے پائی ۔ (محک الفقر کلاں )

اپنا تبصرہ بھیجیں