مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi


4.8/5 - (21 votes)

مجلسِ محمدیؐ (Majlis e Mohammadi)

حصہ چہارم                                                                              تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کے احوال

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں ہر طالب کو اس کی طلب کے مطابق مختلف احوال پیش آسکتے ہیں۔ کسی کو باطنی بیعت کے لیے بلایا جاتا ہے تو کسی کو اعلیٰ منصب عطا کرنے کے لیے۔ کوئی اللہ تعالیٰ کی طلب لے کر حاضر ہوتا ہے تو کسی کے دل کے نہاں خانہ میں کہیں دنیا کی محبت کا شرر موجود ہوتاہے۔ کوئی روحانی ترقی کا طلبگار ہوتا ہے تو کوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قرآن و حدیث کا علم سیکھتا ہے،کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روشن و نورانی چہرہ مبارک کے دیدار سے اپنی روح کی پیاس بجھاتا ہے تو کسی کو خاص امور کی انجام دہی کا فریضہ سونپا جاتا ہے۔ ہر کسی کو اس کی طلب کے مطابق نوازا جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حقیقی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نشانی یہ ہے کہ اس مجلس میں ذکر مذکور ، نص وحدیث، تیغِ قاتل کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  اور درود شریف کا ورد جاری رہتاہے۔ پیشوائے امت شفیع المذنبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدارِ پرُانوار سے مشرف ہونے کی خواہش بھی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حاضری سے ہی پوری ہوتی ہے جہاں عارف باللہ کو چشمِ اعتبار اور دیدۂ یقین سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عین جمال کا دیدار، آپ سے وصال اور مشروحاً جواب باصواب کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو ہرگز خام خیال نہیں ہوتا۔ (نور الہدیٰ کلاں)

راہِ فقر کا طالب اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کے اندر اوصافِ حمیدہ پیدا ہو جائیں، اس کی اچھائیاں اس کی برائیوں پر غالب آجائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ مرشد کامل اکمل طالب کی تربیت بالکل اسی نہج پر کرتا ہے۔کچھ ظاہری تربیت مرشد کی بارگاہ میں کی جاتی ہے اور کچھ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو بھی طالبِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوتا ہے تو اس کے وجود پر چار نظروں کی تاثیر ہوتی ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نظر کی تاثیر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں صدق پیدا ہوتا ہے اور کذب اور نفاق اس کے وجود سے نکل جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی نظر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں عدل اور محاسبۂ نفس کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اور اس کے وجود سے خطرات اور نفسانی خواہشات مکمل طور پر نکل جاتی ہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ کی نظر کی تاثیر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں ادب اور حیا پیدا ہوتے ہیں اور اس کے وجود سے بے ادبی اور بے حیائی نکل جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کی نظر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں علم، ہدایت اور فقر پیدا ہوتا ہے اور اس کے وجود سے جہالت اور حبِ دنیا نکل جاتی ہے۔ اس کے بعد طالب تلقین کے لائق بنتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے بیعت فرماتے ہیں اور مرشدی کے لازوال، لاتخف و لا تحزن اور لارجعت مراتب تک پہنچاتے ہیں۔ جو مرشد طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل مجلسِ محمدیؐ میں داخل نہیں کرتا اور اصحابِ کبارؓ سے نعمت نہیں دلاتا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت سے سرفراز نہیں فرماتا اور تصور اسمِ اللہ ذات اور راہِ حضوری کے ذریعے بغیر ریاضت و طاعت کے ایک ساعت میں ولایت و ہدایت عطا نہیں کرتا اسے مرشد نہیں کہا جا سکتا۔ (کلید التوحید کلاں)

اگر کسی طالب کے اندر دنیا کی محبت موجود ہو یا کسی دوسرے کی مدد کے لیے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں دنیا کا سوال کرے تو ایسا کرنے پر وہ طالب رجعت خوردہ اور مردود ہو سکتا ہے اور اس کے تمام روحانی مراتب بھی سلب ہو سکتے ہیں کیونکہ جو کامل ہو چکے ہوں یا جو طلبِ مولیٰ میں صادق ہوں وہ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ نہ روحانی ترقی کا سوال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں اگرچہ وہ باطن سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جان لے کہ باطن میں حضورؐکی حضوری اور خدمت میں رہنے والا طالب اگرکسی دینی یا دنیوی کام کے لیے التماس کرتاہے اور حضورؐ اس کام کا حکمِ عالی فرمادیتے ہیں اور حکم دیتے وقت اپنے اصحاب کے ہمراہ اس کے لیے دعائے خیر بھی فرما دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ظاہر میں وہ کام نہیں ہوتا تو اس میں کیا حکمت ہے؟ اس طالبِ مولیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابھی وہ کمال کے مرتبہ پر نہیں پہنچا اور ابھی تک ترقی کے مراتب طے کر رہا ہے۔ ابھی وہ طالب طلب کے مشکل مقام پر ہے۔ اس لئے باطن میں اس کی درخواست کے موافق اسے بہتر نعم البدل عطا کر دیا جاتا ہے جس سے وہ خوش ہو جاتا ہے۔ اس مرتبے اور ترقیٔ قرب پر اسے مبارکباد ہو۔ اگر وہ طالب جاہل ہے یا دنیا مردار کا طالب ہے اور حضورؐکی مجلسِ خاص میں دنیا کی طلب کرتا ہے تو ایسے نالائق طالب کو مجلسِ محمدیؐ سے نکال دیا جاتا ہے یا اس کے اعلیٰ مراتب سلب کر لیے جاتے ہیں۔ اگر کسی طالب کا ظاہر اور باطن ایک ہو چکا ہو تو وہ اس مقام پر قدم رکھتا ہے جہاں اس کے مراتب ترقی سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔ جو صاحبِ توحید ہو جاتا ہے تو توحیدِالٰہی اس صاحبِ توحید پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دروازہ کھولتی ہے۔ (شمس العارفین)

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں طالب کو پہنچانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ طالب کو حق الیقین حاصل ہو جائے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ طالب پر حجت تمام ہو جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بالکل اسی طرح اس کی تربیت فرمائی جس طرح اپنی ظاہری حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے صحابہؓ کی فرمائی اور وہ قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکے کہ اگر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں پیدا ہوتا تو کامیاب ہوتا کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی قیامت تک طالبانِ مولیٰ کی تربیت فرمائیں گے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسوٹی کی مثل ہے۔ بعض طالب جب حضرت محمد رسول اللہؐ کے دیدار سے مشرف ہوتے ہیں تو ان کے صادق دل باصفا ہو جاتے ہیں اور انہیں کل اور جز کے تمام مطالب حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ ترک وتوکل اختیار کر کے نورِ توحید میں غرق ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ یقین کے ساتھ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں باادب حاضر رہتے ہیں۔ بعض جھوٹے طالب جب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچتے ہیں تو اس مجلس میں وردو وظائف اور نص و حدیث کا ذکر سنتے ہیں لیکن اپنے دِل میں موجود نفاق کی وجہ سے اس پر یقین نہیں کرتے اور انکار کی راہ اختیار کر کے مقامِ محمود سے گرِ کر مردوداور مرتد ہو جاتے ہیں۔ اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔(شمس العارفین)

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے دیگر مراتب یہ ہیں کہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ظاہری وجود کے ساتھ نفسانی لوگوں سے ہمکلام ہوتے ہیں اور باطن میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ روحانیوں سے ہمکلام ہوتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے دونوں لب ہلاتے ہیں تو اہلِ تحقیق عبرت و حیرت میں غرق ہو جاتے ہیں اور نفسانی لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے ہم کلام ہیں اور روحانی سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے ہمکلام ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ رحمن سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وجود میں نفس کو فنا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے نفس کا دوست شیطان بہت پریشان ہے۔ اسی طرح بایزید بسطامیؒ نے فرمایا ’’میں تیس سال اللہ سے ہمکلام رہا اور نفسانی لوگ سمجھتے رہے کہ میں ان سے ہمکلام ہوں اور روحانی لوگ یہ سمجھتے رہے کہ میں ان سے ہمکلام ہوں۔‘‘  (کلید التوحید کلاں)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اصل امتی کون؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور کے بعد سے قیامت تک جتنے بھی انسان پیدا ہوں گے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیگر انبیا کی امتوں کے مقابلہ میں اپنی امت کی کثرت پر خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ میری امت کے لوگ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے۔ لیکن امتی ہونے اور جہنمی نہ ہونے کے لیے کیا فقط اتنا کافی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں یا آپ کے بعد کے ادوار میں پیدا ہوا جائے؟ صرف مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا بخشش کے لیے کافی ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔

کامیابی صرف اور صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کے مطابق خود کو ڈھالا جائے، آپؐ کے اوصاف و اخلاق کو اپنایا جائے اور آپؐ کی عادات و اطوار کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے تب ہی ایک انسان اصل امتی کہلانے کا حقدار ہوگا۔ بصورتِ دیگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سے لوگوں کو اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے جیسا کہ آپؐ نے فرمایا:
جس نے ملاوٹ کی وہ میری امت میں سے نہیں۔
کذاب میری امت میں سے نہیں۔
نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں۔

اس طرح دیگر بیشمار اعمال ایسے ہیں جن کی انجام دہی سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع فرمایا تو کیا ان ممنوعہ اعمال کی انجام دہی کے باوجود ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں شامل ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟؟ اصل امتی تو وہ تھے جو دن رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت پر کمربستہ رہتے تھے، آپ کو راضی کرنے کی فکر میں گھلتے رہتے تھے، آپ کی ناراضی سے خوفزدہ رہتے تھے، آپ کے دیدار سے آنکھوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے، آپ کے کلام سے اپنی سماعتوں کو محظوظ کرتے تھے، آپ کی صحبت سے اپنی روح کو فرحت پہنچاتے تھے۔ آپ کی سنتوں پر عمل پیرا رہتے تھے۔ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت و رسالت قیامت تک کے لیے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات سے ہم بھی اسی طرح مستفید ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہرہ ور ہوتے تھے۔ اس کے لیے خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچانا ضروری ہے۔حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خاص امتی اسے کہتے ہیں جو قدم بہ قدم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کر کے رفتہ رفتہ خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود اپنی زبانِ مبارک سے اسے اپنا خاص امتی قرار دیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر جو خود تو راہِ باطن سے محروم ہونے کی وجہ سے اس مرتبے پر پہنچ نہیں سکتے لیکن اگرکوئی مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں پہنچ جائے تو یہ بدخصلت لوگ حسد کے مارے اسے برداشت نہیں کر پاتے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

جان لو کہ امت پیروی کرنے والے کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچایا جائے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو راہِ حضوری کے متعلق نہیں جانتے اور بے حیائی، تکبر، خواہشاتِ نفس، خود پرستی اور نفس پرستی کے باعث عارفانِ باللہ سے طلب بھی نہیں کرتے اور جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ جاتے ہیں حاسدین اپنے حسد کے باعث ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ وہ سراسر احمق اور حیوان ہیں۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر اور حضوری میں منظور نہیں وہ امت کے مومن و مسلمان اور فقیر درویش علما فقہا کیسے ہو سکتے ہیں اور امت ان کی پیروی کیسے کر سکتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

شریعت کی پیروی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر دن رات مسلسل چل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم پر قدم رکھتے ہوئے خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچایا جائے اور قرآن و حدیث کا ہر علم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، جو دونوں جہانوں میں حیات ہیں، کی مجلس کی حضوری سے حاصل کیا جائے۔ شریعت کی یہ حقیقت توفیقِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منکر ہے اور معرفتِ حق تعالیٰ کو پوشیدہ رکھتا ہے، وہ کافر و زندیق ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی ہی اصل راہ ہے، جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی نہیں کرتا وہ گمراہ ہے۔ اصل پیروی یہ ہے کہ طالب حبِ مولیٰ فرض اور ترکِ دنیا سنت سمجھے کیونکہ روایت ہدایت کے لیے ہے۔ (محکم الفقرا)
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنے میں خبردار رہے۔ (محکم الفقرا)

اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے ساتھ مشروط کیا اور ارشاد فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ (سورۃ النسا۔80)
ترجمہ: جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کی پس اس نے میری اطاعت کی۔

اگر کوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت نہیں کرتا وہ کیسے اللہ کو راضی کر سکتا ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کامل اتباع، پیروی یا اطاعت کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچنے اور آپ کی نگاہِ کامل سے تزکیہ نفس کروانے اور خود کو قرب و وصالِ الٰہی تک پہنچانے میں ہی کامیابی اور فلاح کا راز مضمر ہے۔حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کو جس مقام پر پہنچایا تھا اگر کوئی خود کو اس مرتبہ تک نہیں پہنچاتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی سے باز رہا لہٰذا وہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ عجیب حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کا کہتی ہے لیکن کرتی نہیں اور یہ سمجھتی ہے کہ پیروی صرف باتیں کرنے سے ہی ہو جاتی ہے اس کے لیے راہ چلنا ضروری نہیں۔ ان بے شعور لوگوں پر افسوس ہے جو اپنی بے ہمتی کے باعث خود بھی پیروی سے رکے رہتے ہیں، اگر کوئی پیروی کرتا ہے تو اسے حسد کی بنا پر دیکھ نہیں سکتے۔ (محکم الفقرا)

مجلسِ محمدیؐ سے محروم کون؟

جو لوگ دنیادار ہوں، جن کے دل میں دنیا کی اور مال و دولت کی محبت ہو،جو نفسانی خواہشات کے پیروکار ہوں، جن پر شہوات کا غلبہ ہو، جو نفسانی امراض میں مبتلا ہوں، جو شریعت پر عمل پیرا نہ ہوتے ہوں، جن کے دل میں عشقِ مصطفیؐ نہ ہو، جو اولیا اللہ کی مخالفت کرتے ہوں یا ان کے خلاف دل میں بغض رکھتے ہوں، جو لوگ حیات النبیؐ کے قائل نہ ہوں، جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم و بلند مقام و مرتبہ سے ناواقف ہوں جن کے اندر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کی تڑپ نہ ہو وہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ وہ تو اس قابل بھی نہیں کہ انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زیارت کروائیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ سات طرح کے لوگ دیدار اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے محروم ہوتے ہیں اوّل تارکِ نماز، دوم تارکِ جماعت، سوم شرابی، چہارم بدعتی، پنجم دشمنِ علمائے عامل، ششم دشمنِ فقیرِ کامل، ہفتم اہلِ سرود اور غیر مرد و عورت کا حسن پرست۔ (کلید التوحید کلاں)

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کسوٹی کی مثل ہے۔ جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور درست اعتقاد سے دیکھا اور حضور پرُنور کے دیدار سے مشرف ہونے پر شکر بجا لایا اس کا نفس پاک اور قلب زندہ ہو جاتا ہے اور اس کی روح ذکرِمحمود کرتی ہے لیکن جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا لیکن درست اعتقاد نہ رکھا وہ مرتد اور مردود ہو جاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

مجلسِ محمدیؐ اور عشقِ مصطفیؐ

جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک سے عشق نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت دیگر محبتوں پر غالب نہ آئے تب تک نہ دین کامل ہوتا ہے نہ ایمان۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ 

لیکن عشق کے لیے جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سامنے نہ ہو آپؐ کی کامل اتباع ہو سکتی ہے نہ آپؐ سے شدید عشق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جس ہستی کو قریب سے جاننے کا موقع نہ ملے، جن کے اوصاف و کمالات سے واقفیت نہ ہو، جن کے ساتھ وقت نہ گزارا جائے، جن کی صحبت سے استفادہ نہ کیا ہو ان سے عشق ہونا ناممکن ہے۔ اسی لیے تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
ہر کہ بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

یعنی تو خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو خود کو ان تک نہیں پہنچاتا تو تیرا دین ابولہب کا دین ہے۔

(جاری ہے)

استفادہ کتب
۱۔ نور الہدیٰ کلاں، تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔ کلید التوحید کلاں۔ ایضاً
۳۔ محکم الفقرا۔ ایضاً
۴۔ شمس العارفین۔ ایضاً


14 تبصرے “مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi

  1. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔

  2. بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
    ہر کہ بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
    یعنی تو خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو خود کو ان تک نہیں پہنچاتا تو تیرا دین ابولہب کا دین ہے۔

  3. علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

    بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
    ہر کہ بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
    یعنی تو خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو خود کو ان تک نہیں پہنچاتا تو تیرا دین ابولہب کا دین ہے۔

  4. حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    خاص امتی اسے کہتے ہیں جو قدم بہ قدم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کر کے رفتہ رفتہ خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچائے

  5. بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
    ہر کہ بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

  6. حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنے میں خبردار رہے۔ (محکم الفقرا)

اپنا تبصرہ بھیجیں