صراطِ مستقیم کیا ہے؟ (Sirat-e-Mustaqem kiya hai)
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری
’’صراطِ مستقیم کیا ہے؟ ‘‘ بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐ لنک ⇒ پر کلک کریں.
مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’اللہ سے ہمیشہ صراطِ مستقیم مانگو۔ صراطِ مستقیم انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے۔‘‘
صراط کے معنی راستہ کے ہیں اور مستقیم اس سیدھے راستے کو کہتے ہیں جو منزلِ مقصود کے قریب تر کر دے۔ منزلِ مقصود سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے اور اس کے حصول کا ذریعہ وہی راستہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے راہنمائی فرمائی ہے۔
صراطِ مستقیم سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جس پر تمام انبیا کرام ؑچلے یا اِس سے مراد اسلام کا وہ سیدھا راستہ ہے جس پرصحابہ کرامؓ،بزرگانِ دین اور اولیا عظام چلے۔ یہ راستہ اہلِ سنت والجماعت کا ہے کہ آج تک تمام اولیا کرامؒ صرف اِسی مسلک اہلِ سنت میں سے گزرے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے انہی کے راستے پر چلنے اور انہی کے ساتھ ہونے کا فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق(کی معیت ) میں شامل رہو۔ (سورۃ التوبہ۔119)
صراطِ مستقیم وہ چھوٹے سے چھوٹا خط ہے جو دو نقطوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ بندۂ مومن اور معبودِ حقیقی کے درمیان یہی ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔
یعنی دینِ اسلام اللہ پاک تک پہنچانے والا واضح، صاف اور سیدھا راستہ ہے۔ قرآنِ مجید، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، اسلام اور حق کی پیروی سبھی سے مراد ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔
صراطِ مستقیم اور قرآن
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر صراطِ مستقیم کا ذکر آیا ہے۔ ذیل میں قرآنِ پاک کی چند آیات کا مفہوم درج کیا جارہا ہے:
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔(سورۃ الفاتحہ۔5)
اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت فرماتے ہیں۔ (سورۃ الشوریٰ۔ 52)
جولوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اورکوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔(سورۃ العنکبوت۔ 69)
کیا وہ شخص جو منہ کے بل اوندھا چل رہا ہے زیادہ راہِ راست پرہے یا وہ شخص جو سیدھی حالت میں صحیح راہ (صراطِ مستقیم) پر گامزن ہے! (سورۃ الملک۔22)
بیشک میں نے اللہ پر توکل کرلیاہے جو میرا (بھی) ربّ ہے اور تمہارا (بھی)ربّ ہے، کوئی چلنے والا(جاندار)ایسا نہیں مگروہ اسے اس کی چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے(یعنی مکمل طور پراس کے قبضۂ قدرت میں ہے)۔بیشک میراربّ (حق و عدل میں)سیدھی راہ پر(چلنے سے ملتا) ہے۔ (سورۃھود۔56)
فرما دیجئے:بیشک مجھے میرے ربّ نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اللہ کی طرف یک سو اور ہر باطل سے جدا ابراہیمؑ کی ملت ہے اوروہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (سورۃ الانعام۔161)
صراطِ مستقیم احادیث کی روشنی میں
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک مرتبہ ہمارے درمیان موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زمین پر اپنے دستِ مبارک سے ایک خط (لکیر) کھینچا اور فرمایا ’’یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔‘‘ پھر اس کے دائیں بائیں کچھ خط کھینچے اور فرمایا ’’یہ اور راہیں ہیں اور ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی ’’اور بیشک یہی میرا سیدھاراستہ ہے،پس اس کی اتباع کرو۔‘‘ (سورۃ الانعام۔153) (مشکوٰۃ المصابیح۔166)
حضرت عبداللہ ابنِ مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں دروازے کھلے ہوئے ہیں، ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، سیدھے راستے کے سرے پر ایک داعی الی اللہ ہے اور کہہ رہا ہے ’’اے لوگو! سیدھے چلتے جاؤ، اِدھر اُدھر بھٹکو گے نہیں۔‘‘ اور اس کے اوپر ایک اور داعی ہے، جب کوئی شخص ان دوسرے دروازوں میں سے کسی دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’تجھ پر افسوس، اسے نہ کھول ! اگر اسے کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’راستہ اسلام ہے، کھلے ہوئے دروازے محارم اللہ (اللہ کی حرام کردہ اشیا) ہیں، لٹکے ہوئے پردے حدود اللہ ہیں، راستے کے سرے پر داعی قرآن ہے اوراس کے اوپرجو داعی ہے وہ ہر مومن کے دل میںاللہ کا واعظ ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح۔191)
پس صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جس کی طرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اس پر عمل کیا، جس کی صحابہ کرامؓ نے پیروی کی۔ حق کا راستہ صرف یہی سیدھا راستہ ہے اور یہی راستہ دیگر انبیا کرامؑ اور ان کے پیروکاروں کا راستہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب ’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں:
جب انسان دنیوی مشاغل سے بے نیاز ہو کر بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوتا ہے اور حالتِ نماز میں دست بستہ کھڑا ہوتا ہے تو ذاتِ حق کی حمد و ثنا اور اس سے نیاز مندانہ تعلق کے بیان کے بعد فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے: اھدنا الصراط المستقیم (اے ربّ! ہمیں سیدھی راہ پر چلا)۔ سورہ فاتحہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے ’’سیدھا راستہ‘‘ دکھانے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اے اللہ تعالیٰ! ہمیں وہ راہ دکھا جس پر چل کر ہم اپنی زندگی کے مقصد اور نصب العین کو پا سکیں۔ جب مقصد کا شعور اور منزلِ حیات متعین ہو کر سامنے آ جاتی ہے تو انسان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ پکار اُٹھتی ہے: اے ہدایت عطا کرنے والے! اب ہمیں اس مقصد کے حصول کی سبیل اور اس منزل تک پہنچنے کا سیدھا راستہ بھی دکھا دے۔
الصراط کی پکار کے ذریعے انسان بارگاہِ ایزدی سے راستے کے تعین کی ہدایت طلب کرتا ہے۔ خالق و مالک سے ایسی رہنمائی طلب کرتا ہے جس کے باعث اسے منزل تک پہنچانے والے راستے کی خبر ہو سکے۔ گویا وہ اللہ پاک سے التجا کر رہا ہے کہ اے راستہ دکھانے والے! مجھے معلوم نہیں کون سا راستہ اس منزل کو پانے کے لیے صحیح ہے اور کون سا غلط؟؟
المستقیم کی پکار کے ذریعے انسان ربّ تعالیٰ کی بارگاہ سے استقامت اور حصولِ مقصد کی ضمانت طلب کرتا ہے۔استقامت ہی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی اصل ضمانت ہے۔
لیکن ہدایت کا مقصد انہی دو تقاضوں سے پورا نہیں ہو جاتا کیونکہ منزل بتا دی جائے اور سیدھی راہ بھی دکھا دی جائے تو کیا اس سے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی ضمانت بھی میسر آجائے گی؟ ہرگز نہیں۔ کئی قوتیں انسان کو سیدھی راہ سے بھٹکانے پر لگی ہوئی ہیں۔ شیطان کا سب سے بڑا حملہ بھی صراطِ مستقیم پر ہی ہوتاہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(مجھے قسم ہے کہ) میں(بھی) ان (افراد ِبنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا(تاکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)۔ (سورۃ الاعراف۔16)
اس لیے منزل تک پہنچنے کے لیے اس راستے کی ضمانت کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسان امن و اطمینان سے منزل کو پا سکے۔ اس منزل کو پانے کے لیے ان لوگوں کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟؟
دنیوی اسباب جاہ و حشمت، سیم و زر، بنگلے اور کوٹھیاں انعام یافتہ ہونے کی دلیل نہیں بلکہ قرآنِ مجید نے نبوت و رسالت، صدیقیت، پرہیزگاری اور مقامِ شہادت چار چیزوں کو نعمت قرار دیا ہے۔ یہی لوگ انعام یافتہ اور صراطِ مستقیم کی راہ پر ہیں۔ ان لوگوں کی رفاقت و صحبت درحقیقت صراطِ مستقیم پر چلنے کا بنیادی سبب ہے۔ صراطِ مستقیم کے لیے ان لوگوں کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے جن پر اللہ پاک نے خاص انعام وا کرام کیا اور انہیں اپنے راستے کے لیے منتخب کیا اور جن کا تذکرہ قرآنِ مجید میں ہے:
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)ان(ہستیوں)کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ (سورۃالنساء ۔ 69)
ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں:
اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن پر اس نے خاص انعام کیا ہے اور وہ خاص انعام یافتہ لوگ چار قسم کے ہیں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ پہلا طبقہ انبیا کا ہے اورباقی تینوں طبقے اولیا کے ہیں۔ اس دنیا میں اللہ نے انبیا بھیجے اور انبیا کی پیروی کرنے والے صدیقین، شہدا اور صالحین بھی۔ خیر و سلامتی کے ساتھ منزل پانے کی ضمانت ان انعام یافتہ لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنے میں ہے اور ان انعام یافتہ لوگوں کا راستہ چھوڑنے کا مطلب ہے کہ راہزن کے ہاتھوں لٹ جانا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔(سورۃ فاتحہ۔7) (سورۃ فاتحہ اور تصورِ ہدایت )
صراط الذین انعمت علیہم، سیدھا راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا، تو سیدھے راستے کو سمجھاتے ہوئے اللہ پاک نے کچھ لوگوں کی نشاندہی فرما دی۔ اللہ کے یہ انعام یافتہ بندے وہ ہیں جنہیں شیطان نے بھی علامت ِ ہدایت تسلیم کیا۔ اللہ کے یہ برگزیدہ بندے تو علامتِ ہدایت، نورِ ہدایت، نشانِ ہدایت، پیکرِ ہدایت اور علمِ ہدایت ہیں جن کی پاک مجلس میں شیطان پھٹک بھی نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا مجھ سے ہدایت کا سوال کرنے والو سنو! تمہیں ایک بات سمجھا دوں کہ جو میرے برگزیدہ بندے ہیں انہیں شیطان بھی علامتِ ہدایت اور پیکرِ ہدایت تسلیم کر چکا ہے۔ لہٰذا وہاں وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ شیطان نے کہا کہ اے اللہ! میں سیدھی راہ میں جا کر بیٹھوں گا اور لوگوں کو گمراہ کروں گا لیکن جو تیرے انعام یافتہ بندے ہیں ان کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا۔ اگر سیدھے راستے کی ضمانت چاہتے ہو تو ان برگزیدہ بندوں کا دامن پکڑ لو۔
انعام یافتہ بندے کون ہیں؟
اللہ پاک نے اسلام کو قیامت تک کے لیے ذریعۂ ہدایت و رہنمائی بنایا ہے اور عقیدۂ ختمِ نبوت کی بنا پر اب کسی دوسرے نبی کے آنے کی گنجائش نہیں۔ اس بنا پر ہر دور میں ایسے کامل افراد منتخب ہوتے ہیں جن کے ذریعے صراطِ مستقیم کی نشاندہی ہوتی رہے اور ان کے پیروکاروں کی جماعت کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نجات یافتہ طبقے کا نمونہ پیش کیا جا سکے تاکہ اتمامِ حجت ہوسکے۔ ان بزرگانِ دین میں حضرت خواجہ حسن بصریؓ، سیّدناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت امام غزالیؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ، سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانیؒ ، سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفورشاہ ہاشمی قریشیؒ، شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدیؒ، سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیزؒ، سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں اور اُمت کی بڑی جماعت ان بزرگانِ دین کی پیروی کی وجہ سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہوئی۔ یہی اللہ پاک کے وہ انعام یافتہ بندے ہیں جو اُمت کو صراطِ مستقیم پر چلاتے ہیں۔
صراطِ مستقیم اوراسمِ اعظم( اسمِ اللہ ذات)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کی ان شخصیات میں سرِفہرست ہیں جن کو ربّ العالمین نے ترجمانِ اہلِ حق اور شارحِ صراطِ مستقیم کی حیثیت سے منتخب فرمایا۔ آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں جو بیعت کے پہلے روز ہی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرما کر انعام یافتہ لوگوں کا راستہ یعنی ہدایت کا راستہ اور منزل دکھا دیتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
تصور اسمِ اللہ ذات ہی صراطِ مستقیم ہے جس پر چل کر پاکیزہ لوگ انعام یافتہ کہلائے کیونکہ تصور اسمِ اللہ ذات ہی سے انسان کا سینہ اسلام کی روشنی سے صحیح منور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جس نے ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات سے روگردانی کی وہ نفسِ امارہ اور شیطان کے پھندوں میں پھنس گیا اور آخرکار گمراہ ہوا۔ دراصل نفس کا مرنا ہی دل کی حیات ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی اپنے بیت میں فرماتے ہیں :
سچا راہ محمدؐ والا باھوؒ، جیں وِچ ربّ لبھیوے ھوُ
صراطِ مستقیم ہی فقرِمحمدیؐ ہے جس سے معرفتِ حق تعالیٰ اور قرب و دیدارِ حق تعالیٰ نصیب ہوتا ہے۔ صراطِ مستقیم توآقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری ہے جس کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ علامہ محمد اقبالؒ مجلسِ محمدیؐ کے بارے میں فرماتے ہیں :
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
ترجمہ: تو محمد مصطفیؐ (مجلسِ محمدیؐ) تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر توُان (مجلسِ محمدیؐ) تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابولہب کا دین ہے۔ (ارمغانِ حجاز)
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے تصور سے حاصل ہوتی ہے جو مرشد کامل اکمل عطا فرماتا ہے۔ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
صحابہ کرامؓ کے لئے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری چہرہ مبارک تھا اور اسمِ محمدؐ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک تھی۔ موجودہ زمانے میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہوا ہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طور پر اجازت ہو۔ یہ بات طالب کو اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمدؐ کے تصور کے پہلے دن ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمدؐحاصل کیا ہے وہ مرشد کامل ہی کی بارگاہ ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا احسانِ عظیم ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے عوام الناس پر اسمِ اللہ ذات کا فیض عام فرما دیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ صراطِ مستقیم پر چل کر اللہ پاک کی ذات کو پا سکیں لیکن ہر طرح کے طالب کو صراطِ مستقیم پر چلانا اور سیدھی راہ پر رکھنا اتنا آسان نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانے میں صرف اصل اور ازلی طالبانِ مولیٰ کو ہی اسمِ اللہ ذات عطا کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ صرف آپ مدظلہ الاقدس کا ہی فیض اور کمال ہے کہ ہر طرح کا نفس اور فطرت رکھنے والا انسان آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں آتے ہی باادب طالبِ مولیٰ بن جاتا ہے اور پھر آپ مدظلہ الاقدس اسے اپنی شفیق ذات کے زیرِ سایہ اسمِ اللہ ذات کی حقیقی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کی حقیقت اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’حقیقت اسمِ اللہ ذات ‘‘ میں انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے تاکہ طالبانِ مولیٰ اس کے کمالات اور فیوض و برکات سے واقف ہوں اور اس کے ذکر و تصور کے ذریعے قرب ولقائے الٰہی حاصل کر سکیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔اسلام اور جدید سائنس: تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری
۳۔سورۃ فاتحہ اور تصورِ ہدایت: ایضاً
صراطِ مستقیم ہی فقرِمحمدیؐ ہے جس سے معرفتِ حق تعالیٰ اور قرب و دیدارِ حق تعالیٰ نصیب ہوتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Allah mujhe bhi sirat e mustaqeem pe chalne ki toufeeq ata farmaye
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔(سورۃ فاتحہ۔7) (سورۃ فاتحہ اور تصورِ ہدایت )
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے تصور سے حاصل ہوتی ہے
Great article
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا احسانِ عظیم ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے عوام الناس پر اسمِ اللہ ذات کا فیض عام فرما دیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ صراطِ مستقیم پر چل کر اللہ پاک کی ذات کو پا سکیں
Behtreen mazmoon
تصور اسمِ اللہ ذات ہی صراطِ مستقیم ہے جس پر چل کر پاکیزہ لوگ انعام یافتہ کہلائے کیونکہ تصور اسمِ اللہ ذات ہی سے انسان کا سینہ اسلام کی روشنی سے صحیح منور ہوتا ہے۔
❤️💓❤️💓
جولوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اورکوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔(سورۃ العنکبوت۔ 69)
مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’اللہ سے ہمیشہ صراطِ مستقیم مانگو۔ صراطِ مستقیم انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے۔‘‘
صراط کے معنی راستہ کے ہیں اور مستقیم اس سیدھے راستے کو کہتے ہیں جو منزلِ مقصود کے قریب تر کر دے۔ منزلِ مقصود سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے اور اس کے حصول کا ذریعہ وہی راستہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے راہنمائی فرمائی ہے۔