کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں)  | (Kaleed ul Tauheed Kalan) 

قسط نمبر23                                                                              مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

یا پھر ہر مقصود و مطلوب انبیا و اولیا اللہ کی ارواح سے طلب کر۔ جو اہلِ قبور کی ارواح سے ملاقات کرتا ہے تو وہ اسے کون و مکان سے باہر لامکان میں لے جاتے ہیں۔ جو طالب مرشد کی نگاہ کے باعث دیوانہ، مجنوں اور مجذوب ہو جائے یا مرشد کی نگاہ کے باعث سرود، حسن پرستی اور بدعت کو پسند کرنے لگے یا مرشد کی نگاہ کے باعث ظاہری علم بھول جائے یا مرشد کی توجہ کے باعث ظاہری عبادات سے دل بیزار ہو جائے یا مرشد جو باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے محروم اور ورد و وظائف اور دعوت سے باز رکھے یا پھر مرشد کی توجہ کے باوجود تلاوتِ قرآن سے لذت نہ ملے اور وہ علمِ فقہ کی طرف مائل نہ ہو تو ایسا مرشد ابتدا سے ہی قہر و جلال کا شکار، پریشان اور بے جمعیت ہوتا ہے۔ جو بھی ایسے طریقے کا حامل ہو وہ خام ہوگا۔ ایسے مرشد سے ہم کلام اور اس کا ہم نشین نہ ہو۔ مرشد کامل اور اس کے کامل طالب ہمیشہ شوقِ الٰہی میں مسرور رہتے ہیں وہ بزرگ ہی نہیں جو ظاہر و باطن میں بے قوت اور بے شریعت ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی کرامات پر مغرور رہتے ہیں۔ البتہ یہ یقین ہے کہ جو مرشد نہ سلک سلوک جانتا ہے نہ حضوری و دعوتِ قبور‘ وہ نفس پرست اور قہر کا شکار ہے۔ مرشد کامل مکمل جس طالب کو نوازنا چاہتا ہے ایک ہی بار میں بغیر ریاضت و تکلیف کے اس کا مرتبہ اپنے مرتبہ کے برابر بنا دیتا ہے کیونکہ کامل کی ایک ہی نظر کافی ہے۔ کامل کی توجہ حضرت خضر علیہ السلام کی توجہ سے بہتر ہوتی ہے کہ اس کی نظر سے خاک سونا اور چاندی بن جاتی ہے۔ جو فقیر مراتبِ حق الیقین پر ہو وہ منصف، حق شناس اور دونوں جہان کا امین ہوتا ہے کیونکہ فقیر اللہ کا امین، ولی اللہ اور اہلِ اللہ ہوتا ہے۔ عارف باللہ اس قدر قوت کا حامل ہوتا ہے کہ زمین کو کمان کی مثل اور مشرق اور مغرب کے کناروں کو قوس کی مثل بنا دے اور زمین کی قوس کو کمان بنا کر اس طرح کھینچے کہ اس میں قضا کا تیر اللہ کی قدرت سے تمام عالم کو نشانہ بنا کر مارے جس سے تمام عالم زخمی ہو جائے یا تمام عالم قحط کے تیر یا مرگِ مفاجات کے تیر سے مر جائے۔ فقیر اس لیے تمام عالم پر غالب ہوتا ہے کہ اس کے قبضہ میں مندرجہ ذیل کلیدیں ہوتی ہیں کلیدِ صحت، کلیدِ زحمت، کلیدِ کشائشِ رزق، کلیدِ تنگیٔ رزق،  ہفت اقلیم اور ملکِ سلیمانیؑ کی بادشاہی اور خشکی و تری اور ربع مسکون‘ اور جو کچھ زمین پر ہے سب کو اپنے تصرف میں لے آنے والی مہمات کی کلید، انبیا، اولیا اللہ، غوث قطب صاحبِ درجات، مومن و مسلمان کی ارواح، فرشتے، مؤکلات، کل مخلوق جن، دیو، جانور، پرندے سب کو اپنے تصرف میں لانے کی کلید، کلید ِ مقامِ ازل، کلید ِ مقامِ ابد، کلیدِ مقامِ عقبیٰ، کلیدِ مقامِ معرفتِ مولیٰ فنا فی اللہ اور کلیدِ لامکان۔ ان سب بارہ کلیدوں کے مجموعہ کے علاوہ اس کے پاس بارہ علوم، بارہ حکمتیں اور بارہ خاص علوم جن کے بارے میں کہا جاتا ہے اَلْعِلْمُ نَتِیْجَۃُ مِنَ الْحِلْمِ  ترجمہ: علم وہ ہے جو حلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، بارہ ذکر و فکر، بارہ قبض و بسط، بارہ سکر و سہو، بارہ (قسم کی) دعوت جو کہ پلک جھپکنے میں مطلوب تک پہنچا دیتی ہیں، بارہ حضورِ حق کے مشاہدات، بارہ سلک سلوک جو پلک جھپکنے میں انبیا اور اولیا اللہ کی مجلس تک پہنچا سکتے ہیں، بارہ مکاشفات، بارہ محاسبات، بارہ توجہ، بارہ دلیل، بارہ وھم و خیال، بارہ معرفتِ وصال، بارہ الہام، بارہ تجلیات، بارہ استغراق، بارہ فنا فی اللہ کی چابیاں اس کے پاس ہوتی ہیں جنہیں وہ تصور اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کے حاضرات سے حاصل کرتا ہے اور اللہ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے اپنے پاس رکھتا ہے۔ دعوتِ ختمِ قرآن اور اسمِ اعظم پڑھنے سے وہ ہر مقام کے قفل کو ہر کلید سے کھولتا ہے۔ فقیر اللہ کے خزانوں کی کلید کا حامل عارف باللہ صاحب ِ قربِ توحید ہوتا ہے ورنہ بے قوت و بے کلید فقیر نہیں ہو سکتا جو مقلد اور اہلِ تقلید ہو۔ فقیر ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ فقر میں مشاہدۂ معرفت اور پروردگار کے عظیم اسرار ہیں۔
ابیات: 

اندرون تو میبرآید ہر آواز
باآواز دل میرساند اہل راز

ترجمہ: تیرے اندر سے ہر آواز آتی ہے اور اس دل کی آواز تک اہل ِ راز ہی پہنچا سکتے ہیں۔

مرشد ناقص چہ داند آواز راز
ہر کہ آوازش رسد شد بی نیاز

ترجمہ: مرشد ناقص اس آواز کے راز کو کیا جانیں؟ جو اس آواز تک پہنچ جاتا ہے وہ ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔

باھوؒ آواز یک سرّیست در سرّ او مقام
ہر کہ اینجا میرسد ختم او تمام

ترجمہ: باھوُ آواز ایک راز ہے اور اس کا مقام سرّ ہے اور جو اس مقام (سرّ) تک پہنچ جائے وہ مکمل ہو جاتا ہے۔

جان لو کہ مقامِ آواز سر کے اندر ایک ہڈی میں ہے جو عرش تا تحت الثریٰ سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ ارواح کو اس مقام سے قبض کیا جاتا ہے اور وہ جگہ اسرار الارواح ہے۔ جو مرشد اس عظیم ملک الارواح تک طالبِ مولیٰ کو پہنچائے وہی مرشد لائقِ ارشاد ہے اور اس کا طالب موت سے آزاد ہوتا ہے اگرچہ مخلوق کی نظر میں وہ مر چکا ہو لیکن جان پرانا لباس اتار کر نیا لباس پہنتی رہتی ہے۔ یہ درست ہے کہ نفس پرست اور صاحبِ انا و ہوس پرست بہت زیادہ ہیں لیکن خدا پرست فقیر بہت کم ہیں۔ اہلِ اللہ فقرا کے پاس ایسی قوت ہوتی ہے کہ وہ منافق، کافر اور مشرک لوگوں کی ملامت، غیبت، ظلم و ستم، غصہ، قہر و غضب اور تکلیف برداشت کرتے ہیں اور مخلوق کو رنج نہیں پہنچاتے کیونکہ یہ سنتِ انبیا ہے جبکہ مخلوق کو تکلیف پہنچانا سراسر نفسانی خواہشات کی وجہ سے ہے۔ کامل فقیر کا حوصلہ وسیع ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے۔ فقیر کامل اگر طالب سے ریاضت کروانا چاہے تو سالہا سال تک کروا سکتا ہے اور طالب کو راز عطا کرنا چاہے تو لمحہ بھر میں معرفتِ الٰہی اور وصال تک پہنچا دے۔ فقیر کو ان دونوں مراتب پر تصرف حاصل ہے۔ سکر کے احوال محض خام خیالی ہیں اس سے مراد غرق فنا فی اللہ اور مشاہدۂ جمال نہیں۔  بیت:

اسم اعظم انتہا با ھوُ بود
ورد باھوؒ روز و شب یاھوُ بود

ترجمہ: اسمِ اعظم انتہا یعنی ھوُ تک لے جاتا ہے اسی لیے دن رات باھوؒ یاھوُ کا ورد کرتا ہے۔

اسمِ اعظم انبیا، اولیا اللہ اور مومن و مسلمان کو نصیب ہوتا ہے جب وہ اس کو تصدیق کے ساتھ پڑھتے اور اپنے عمل میں لاتے ہیں تو وہ ان پر تاثیر کرتا اور انہیں نفع دیتا ہے اور ان کے وجود میں جاری ہو کر انہیں لایحتاج بنا دیتا ہے جس سے ان کا دل باصفا ہو جاتا ہے۔ اسمِ اعظم اہلِ حرص و تکبر و خواہشاتِ نفسانی کے باعث مردہ ہونے والے دلوں پر اثر نہیں کرتا۔ اسمِ اعظم کا عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ دنیا ایک ساعت کی ہے اور عقلمند عارف وہ ہوتا ہے جو اس ایک ساعت میں اپنی عمر اطاعت میں صَرف کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا سَاعَۃٌ فَجَعَلَ فِیْہَا طَاعَۃٌ 
ترجمہ: دنیا ایک گھڑی کی ہے اور ہمیں اس میں طاعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

عوام کی طاعت دعا و پیغام ہے جو فرشتے حق تعالیٰ کے حضور لے جاتے ہیں جبکہ خواص کی طاعت ذکرِ الٰہی سے غرق فنا فی اللہ ہونا ہے اورہ وہ اہلِ حضور اس طرح فنا فی التوحید ہوتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرمت کی بدولت درمیان میں نہ کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہوتی ہے نہ پیغام کی ضرورت۔

فرشتہ گرچہ دارد قرب درگاہ
نہ  گنجد  در  مقام لِیْ  مَعَ  اللّٰہِ

ترجمہ: فرشتے کو اگر چہ بارگاہِ حق کا قرب حاصل ہوتا ہے لیکن وہ مقام لِیْ  مَعَ  اللّٰہِ  تک نہیں پہنچ سکتے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ 
ترجمہ: میرا اللہ کے ساتھ ایک وقت ایسا بھی ہے جس تک کسی مقرب فرشتے اور کسی نبی و رسول کی رسائی نہیں۔
بیت:

خلق را طاعت بود از کسب تن
عارفان را طاعتی از ترک تن

ترجمہ: مخلوق کے لیے طاعت وجود کے اعمال ہیں جبکہ عارفین کے لیے طاعت اپنے وجود (کی خواہشات) کو ترک کرنا ہے۔
پوشیدہ و بے ریا طاعت کو توفیقِ الٰہی حاصل ہوتی ہے جو فنا فی التوحید کر کے اللہ کی ذات میں استغراق عطا کرتی ہے۔ طاعت وہ نہیں جو مخلوق کے دکھاوے کے لیے ہو۔ وہ سراسر انانیت اور خواہشاتِ نفس پر مبنی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ  (سورۃ الاعراف۔12)
ترجمہ: (ابلیس نے انانیت کی بنا پر اللہ سے کہا) میں اس (آدمؑ) سے بہتر ہوں۔
بیت:

ہر کہ آمد در انا در نار شد
خاکی آدم لائقِ دیدار شد

ترجمہ: جو انانیت میں مبتلا ہوا وہ جہنم کا مستحق ٹھہرا جبکہ خاکی انسان (عاجزی کی بدولت) دیدار کے لائق قرار پایا۔
اے عزیز! باخبر رہو کہ سب کبیرہ گناہوں سے بڑا گناہ تکبر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ ذَرَّۃٌ  مِنَ الْکِبَرِ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ 
ترجمہ: جس کے قلب میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
ابیات:

از خود گزر کن طالبا رو غرق نور
احتیاجی نیست وصلش باحضور

ترجمہ: اے طالب! خود سے بھی نجات حاصل کر لے اور نور میں غرق ہو جا اور ایسی حضوری حاصل کر لے کہ تجھے اسکے وصل کی بھی حاجت نہ رہے۔

در حضوری وصل شرک و باہوا
زیں ہوائے شرک طالب باز آ

ترجمہ: حضوری میں وصل کی طلب خواہش کی وجہ سے ہے جو کہ شرک ہے۔ لہٰذا اے طالب! اس شرک اور خواہش سے بھی باز آ۔

غرق فی اللہ بامطالب رازِ حق
زیرِ پائش عرش و کرسی ہر طبق

ترجمہ: جو غرق فی اللہ ہو کر اپنا مقصود یعنی رازِ حق پا لے تو عرش و کرسی اور دیگر ہر طبق اس کے قدموں تلے ہوتا ہے۔

مرشد کامل بود راہبر خدا
طالبان را باز دارد از ہوا

ترجمہ: مرشد کامل اللہ کی طرف راہنمائی کرنے والا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے طالبوں کو خواہشاتِ نفسانی سے باز رکھتا ہے۔

ہر کہ طالب بامطالب خویشتن
ایں چنین طالب بود بس لافزن

ترجمہ: جو طالب بس اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہو ایسا طالب بس لافزن ہے۔

ہر کہ طالب حق بود من حاضرم
در مجالس مصطفیؐ حاضر برم

ترجمہ: جو حق کا طالب ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں اور اسے مجلسِ محمدی کی حضوری میں لے جائوں گا۔

باھوؒ خود مرشدم خود طالبم جانفشان
طالب حق را نہ یابم در جہان

ترجمہ: باھوؒخود ہی مرشد اور خود ہی جانفشاں طالب ہے کیونکہ اسے اِس جہان میں کوئی طالبِ حق نہیں ملا۔
جس طرح لوگ رات دن کامل مرشد کی تلاش میں ہوتے ہیں اس طرح میں کامل طالب کی تلاش میں ہوں۔ جان لو کہ دونوں جہان پر غالب آنا آسان کام ہے اور ہر ایک طالب کو مرتبہ عام جس سے دنیا کی عز و جاہ حاصل ہو جائے‘ اُس کمینہ مرتبہ تک پہنچانا بھی آسان کام ہے اور جاہل کو لوحِ محفوظ کا مطالعہ اور علم بخشنا بھی آسان کام ہے لیکن نفس کو علم اور رات دن کے محاسبہ سے قید میں لے آنا بہت مشکل اور دشوار کام ہے۔ جو یہ چاہے کہ وہ حق تعالیٰ کو پہچانے اور اس کی معرفت اور قرب حاصل کر کے شہ رگ سے بھی نزدیک ذات کو پا لے اور صاحبِ بصیرت ہو کر الہام کے ذریعے پیغام پائے اور بے حجاب ہو کر اللہ کے اسرار حاصل کرے اور علم ِ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی اور علمِ لدنیّ سے جواب باصواب پائے اور حق تعالیٰ سے ہم کلام ہو تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے مرشد کامل تلاش کرے اور اپنے وجود میں نفس کو ڈھونڈ کر پہچانے اور اس سے ہم کلام ہو اور نفس کی ہر حقیقت کی نفس کے ذریعے ہی تحقیق کرے۔پھر جو کام بھی کرے نفس کے مخالف کرے۔ تو جانتا نہیں کہ جب قدرتِ ازلی سے نفسِ امارہ پیدا ہوا تو اس نے اپنے سر پر سات رنگوں یعنی طمع، حرص، شرک، کفر، نفاق، تکبر اور خواہشاتِ نفسانی کا تاج سجایا اور جسم پر حسد و ریاکاری اور زینتِ دنیا کا لباس پہنا، شیطان کو بغل میں دبایا اور غرور سے بھری آنکھوں میں بے حیائی اور بے ادبی کا سرمہ لگایا اور شیطان کو اپنا وزیر بنایا اسی وجہ سے وہ معرفتِ الٰہی سے نابینا ہو گیا۔ اسی طریقے سے نفسِ امارہ کو بارگاہِ الٰہی میں لایا گیا تو وہ اللہ کی نظرِ رحمت سے مستفید نہ ہو سکا۔ جو کوئی رحمتِ الٰہی کی بدولت اللہ کی معرفت اور وصال پا لے وہ نفسِ امارہ سے الگ ہو جاتا ہے یہ ان عارفین کے مراتب ہیں جن کا حال یہ ہے کہ:
دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ 
ترجمہ: اپنے نفس کو چھوڑ دو اور (اللہ کی طرف) آ جاؤ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ   مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ 
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔

جو سب سے پہلے اپنے نفس کو درست نہیں کرتا اور اسے اپنے حکم اور فرمانبرداری میں نہیں لاتا تو (اس کے لیے) نفسِ امارہ او خواہشاتِ نفس سے نجات حاصل کیے بغیر اللہ کی معرفت اور وصال تک پہنچنا محال ہے۔ جو اس نفس خبیث ابلیس دیو سلیمانی کو الفتِ الٰہی کی زنجیر سے نہ جکڑ لے اور نفس کو فنا فی اللہ کے زندان میں قید نہ کرے وہ عارف باللہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو جانتا نہیں کہ نفسِ امارہ خونی ہے جو خونِ آدم پیتا ہے اور بالکل پشیمان نہیں ہوتا۔ جو ایک ہی بار میں نفسِ امارہ سے تعلق ختم نہیں کرتا وہ ہرگز قلبِ سلیم اور رضائے حق کو تسلیم کرنے کے مراتب حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف ہو سکتا ہے۔ مرشد کامل روزِ اوّل طالب کو یہ سبق دیتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو ختم کرو تاکہ انبیا و اولیا کی مجلس میں ہر ایک سے ملاقات کر سکو اور طالب کے وجود میں ہر مراتب یعنی مراتبِ نفس، مراتبِ روح، مراتبِ قلب اور مراتبِ سرّ کی الگ الگ پہچان کراتا ہے۔ جب یہ چاروں مراتب وجود کے اندر جمع ہو کر یکجا ہو جاتے ہیں تو اس سے نوری تجلی پیدا ہوتی ہے جسے توفیقِ الٰہی کی صورت کہا جاتاہے جو ہر ایک مرتبہ کو اس کی نشانی سے پہچاننے میں مدد کرتی ہے کہ صاحبِ نفسِ امارہ ترش رو اور بدخو ہوتا ہے جس کے وجود میں ریاکاری کی بو ہوتی ہے۔ وہ جاہل ہو یا عالم‘ جو بات بھی کرتا ہے اس کی ہر بات تکبر سے پرُ ہوتی ہے۔ صاحبِ قلب کی اس طرح شناخت کی جا سکتی ہے کہ اس کی ہر بات اخلاص، محبت اور ذکرِاللہ پر مبنی ہوتی ہے۔ صاحبِ روح کو اس طرح شناخت کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ہر بات نص و حدیث پر مبنی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے کلام سے لبریز ہوتی ہے۔ صاحبِ سرّ کو اس طرح شناخت کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ہر بات معرفتِ الٰہی اور تجلیاتِ ذات کے مشاہدہ اور دیدار پر مبنی ہوتی ہے اور توفیقِ الٰہی کی صورتِ نور کو اس طرح شناخت کیا جا سکتا کہ اس کے حامل کی ہر بات صورتِ توفیقِ الٰہی کے متعلق اور مشاہدئہ تجلیاتِ نورِ ذات اور قربِ حضور پر مبنی ہوتی ہے۔ ابیات:

چوں نفس و قلب و روح ہر یک نور شد
لائق مذکور حق مغفور شد

ترجمہ: جب نفس، قلب اور روح تینوں نور ہو جائیں تب طالب مغفور ہو کر بارگاہِ حق کے لائق بن جاتا ہے۔

ایں مراتب ابتدا طالب خدا
می برآئی از اربع عناصر و ز ہوا

ترجمہ: طالبِ مولیٰ کے ابتدائی مراتب یہ ہیں کہ وہ اربع عناصر سے بنے وجود اور خواہشاتِ نفس سے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔

دیدہ از دل می کشاید باحضور
اولیا اللہ غالب بر قبور

ترجمہ: جب اولیا کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے تو وہ حضوری میں پہنچ جاتے ہیں اور وہ اہلِ قبور پر غالب ہوتے ہیں۔

شہسوارِ شیر نر گردد سوار
ہر کہ روباہ کرد دعویٰ زیر بار

ترجمہ: وہ (اولیا) نر شیر پر سواری کرنے والے ہوتے ہیں اور جو لومڑی کی طرح اس بات کا دعویٰ کرے تو اس دعویٰ کا بار اسی پر ہوگا۔ 

سروریم قادریم قدردان
مدنظرش پیر باشم ہر زمان

ترجمہ: میں سروری قادری ہوں اور ان کی قدر بھی جانتا ہوں۔ میں ہر لمحہ اپنے مرشد کی نگاہ میں رہتا ہوں۔

لاتخف لاتحزن چو مارا شد مقام
با نظر ہر یک شناسم خاص و عام

ترجمہ: چونکہ میں لاتخف و لا تحزن کے مقام پر ہوں اس لیے ہر ایک خاص و عام کو ایک نگاہ میں پہچان سکتا ہوں۔

باھوؒ در شریعت باش دائم شوق گیر
ایں مراتب انتہا فی اللہ فقیر

ترجمہ: اے باھوؒ! دائمی شوق کے ساتھ شریعت پر قائم رہو۔ یہ مراتب فنا فی اللہ فقیر کے ہیں۔  (جاری ہے)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں