غصہ Gussa


5/5 - (9 votes)

غصہ (Gussa)

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری

اللہ ربّ العزت نے جس طرح نظامِ کائنات میں کوئی بھی شے بے مقصد و بے فائدہ تخلیق نہیں فرمائی اسی طرح اشرف المخلوقات انسان کی طبیعت و مزاج میں احساسات اور جذبات کے تغیرات بھی بے معنی و بے مقصد نہیں ہیں۔ تاہم یہ صرف اسی وقت نقصان کا باعث بنتے ہیں جب (حبِّ دنیا میں) حدِافراط کو پہنچ جائیں۔

انسانی مزاج میں خوشی، غم، محبت، خلوص اور غصہّ کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ حالتِ غم میں انسان حقیقتِ دنیا کو سمجھ لیتاہے اور خالص اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ خوشی انسان کو فرحت دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ مثبت خواہشات انسان میں قربِ الٰہی کی راہ میں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح غصہ کے جذبات کا انسانی طبیعت میں پیدا ہو جانا بھی لایعنی، بیکار اور فالتو نہیں ہے کیونکہ یہ نہ صرف انسان کو بقائے دین بلکہ قربِ الٰہی کے حصول کے لیے نفس کے خلاف شدید جہاد کرنے اور قلب میں غیرتِ مرشد کو بھی زندہ رکھنے میں مددگار بنتا ہے۔ میرے ہادی رہبر و رہنما مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
غصہ انسان میں اس لیے پیدا کیا گیا کہ یہ اس کا ہتھیار بن جائے تاکہ وہ اس کے ذریعے باطن کے مضمرات اور خطرات کو دور کر سکے اور برائی کو کچل سکے۔ (نفس کے ناسور)

حضرت امام غزالیؒ غصے کی حقیقت کے متعلق فرماتے ہیں:
آدمی کی تخلیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ اس کی فنا اور بقا مقصود تھی لہٰذااس میں غصہ رکھ دیا گیا یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن میں پھوٹتی ہے۔(لباب الاحیائ)

اسی طرح والدین کا اپنی اولاد کی تربیت کے لیے غصہ اور سختی کرنا جائز ہے۔ مرشد کامل اکمل جو کہ مظہرِ الٰہی اور مجسمِ رحمت ہوتاہے اُن کا تزکیۂ نفس کے لیے مرید پر جلال و غصہ فرمانا جو کہ عارضی ہوتا ہے، جائز ہے اور استاد کا بھی اپنے شاگردوں پر تربیت کی غرض سے حدِ اعتدال میں رہتے ہوئے غصہ کرنا جائز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غصہ کی وہ کون سی حالت ہے جس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے؟

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
 انسانی فطرت میں غصے کے اعتبار سے لوگوں کے تین درجے ہیں:
پہلا درجہ تفریطِ غصہ: مطلب یہ کہ انسان میں غصے کا بالکل نہ پایا جانا یا اس کا کمزور ہونا ہے اور اس سے مراد حمیت و غیرت کا نہ ہونا ہے جو کہ مذموم ہے۔ (حضرت امام غزالیؒ کے اس قول سے یہی مراد ہے کہ جس شخص کو غیرت دلائی جائے اسے پھر بھی غصہّ نہ آئے وہ گدھا ہے۔)

دوسرا درجہ حالتِ اعتدال میں غصہّ: یہی وہ وصف ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کی تعریف فرمائی۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ  رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ (سورۃ الفتح۔ 29)
ترجمہ: (وہ)کافروں پر بہت سخت اور زورآورہیں آپس میں بہت نرم دل اورشفیق ہیں۔ 

تیسرا درجہ افراطِ غصہّ: مطلب یہ کہ بندہ حد سے نکل جائے اور اس پر غصہ اس قدر غالب آجائے کہ اس کی عقل دین کی طاعت میں نہ رہے۔ چنانچہ آدمی اس طرح ہو جائے جیسے مجبور ہوتا ہے اور یہ قابلِ مذمت ہے۔ اس کاظاہر تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے جو کہ بدصورت ہوتا ہے اور اس کے باطن کی شکل اس سے بھی زیادہ بدصورت ہوتی ہے۔ (لبابِ الاحیائ)

پس حدِ افراط کو پہنچ جانے والے غصّے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ایسی حالتِ غصہّ کی مماثلت آگ سے دی گئی ہے اور آگ کی نسبت شیطان سے ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا:
خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ (سورۃ الاعراف۔12)
تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے۔ 

اس لیے قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر غصہ کو قابو رکھنے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ جب غصہ انسانی اعصاب پر حاوی ہو جاتا ہے تو انسان کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں معذور ہو جاتی ہیں اور وہ شیطان کا ہم نسبت بن جاتا ہے۔ یہ نسبت غصیلے انسان کو درجۂ حیوانیت پر فائز کر دیتی ہے۔ نتیجتاً ایسا شخص نہ صرف دنیا میں رُسوا ہوتا ہے بلکہ دینِ اسلام سے بھی خارج ہو کر ازلی ذلت کا طوق اپنے گلے میں پہن لیتا ہے۔ چونکہ غصہ شیطان کا ایسا ہتھیار ہے جس سے وہ ملعون منفی خیالات اور منفی وساوس کی صورت میں انسانی قلب پر وار کرتا ہے پھر انسان اپنے اعمال و زبان سے اللہ ربّ العزت کی ناشکری میں کفریہ کلمات کا اظہار و اقرار کرنے لگتا ہے اور دولتِ ایمان کو غارت و برباد کر ڈالتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
غصہ ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا (یعنی معبر) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔5118 )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’غصہ مت کرو‘‘ وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپؐ ہر بار کہتے رہے ’’غصہ مت کرو۔‘‘ (سنن ترمذی۔2020)

کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں درج ہے کہ حضرت سیدّنا وَہب بن منبہؓ فرماتے ہیں:
بنی اسرائیل کے ایک بزرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک پتھر کی ایک چٹان اوپر کی جانب سے سرکے قریب آپہنچی،انہوں نے ذکر شروع کردیا تو وہ دور ہٹ گئی۔ پھر خوفناک شیر اور درندے ظاہر ہونے لگے مگر وہ بزرگ نہ گھبرائے اور ذکر میں مصروف رہے۔ جب وہ بزرگ نماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا یہاں تک کہ سارے بدن پر پھرتا ہوا سر تک پہنچ گیا۔وہ بزرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتے وہ چہرے سے لپٹ جاتا، سجدے کیلئے سرجھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سجدہ پر منہ کھول دیتا۔ مگر وہ بزرگ اسے ہٹا کرسجدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ جب نماز سے فارِغ ہوئے تو شیطان کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا: یہ ساری حرکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں، آپ بہت ہمت والے ہیں، میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں، لہٰذا اب میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا، مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کر لیجئے۔ اس بزرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا ’’میں تجھ سے ہرگز دوستی نہیں کروں گا۔‘‘ شیطان بولا: اچھا !اپنے اَہل وعیال کا اَحوال مجھ سے دریافت کرلیجئے کہ آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ بزرگ نے جواب دیا: مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان نے کہا: پھر یہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا: ہاں یہ بتادے۔ شیطان بولا: میرے تین جال ہیں: (۱)بخل (۲)غصہ (۳) نشہ۔ 

اپنے تینوں جالوں کی وضاحت کرتے ہوئے بولا جب کسی پر بخل کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے۔ اُس کا یہ ذہن بناتا رہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بہت قلیل ہے (اس طرح وہ بخل میں مبتلا ہو کر) حقوقِ واجبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہوجاتاہے۔ یوں مال کی محبت میں گرفتار ہو کر گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ جب کسی پر غصہّ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اچھالتے ہیں، میں اس غصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اچھالتا ہوں۔ غصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو، خواہ اپنی دعاؤں سے مردے تک زندہ کرسکتا ہو،میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے امید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غصہ میں بے قابو ہوکر کوئی ایساجملہ بک دے گا جس سے اس کی آخرت تباہ ہوجائے گی۔ رہا نشہ تو میرے اس جال کا شکاریعنی شرابی اس کو تومیں بکری کی طرح کان سے پکڑ کر جس برائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا ہوں۔ (گناہوں کا علاج)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
غصہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو پی گیا اس نے آگ بجھائی اور جو ضبط نہ کر سکا وہ پہلے خود اس میں جلتا ہے۔

امام الوقت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
راہِ فقر کے مسافروں کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ غصّے سے بچتے ہیں۔ (سلطان العاشقین)

غصہ کے انسانی جسم پر اثرات

امام غزالیؒ فرماتے ہیں غصے کے وقت صورت بگڑ کر بھیانک بن جاتی ہے۔ ایسی صورت بنتی ہے جیسے کاٹنے والا کتا ہو اور انسان اپنے مقام سے گر کر خونخوار درندہ بن جاتاہے، جبکہ جو لوگ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں ان کی صورت علما، اولیا اورصالحین سے ملتی ہے۔ (احیا العلوم)

انتقامی جذبات کا اظہار کرنے سےAnxiety اور  Depression جنم لیتے ہیں۔ ماہرینِ طب کے مطابق غصہ ہمارے دل و دماغ اور دیگر اعضا کے لیے سب سے زیادہ خطرناک جذبہ ہے۔ مستقل غصے میں رہنے سے یا اچانک شدید غصہ آنے سے ہمارے جسم میں درج ذیل نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
۱) افراطِ غصہ میں فشارِ خون تیز ہونے سے دل کو خون پمپ کرنے میں اضافی محنت کرنی پڑتی ہے جس سے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے اورہائی بلڈ پریشر موت کا سبب بن جاتا ہے۔
مستقل غصہ انسان کے مدافعتی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے جس سے جسم معمولی سی بیماری کو بھی روکنے میں ناکام رہتا ہے۔
۲) حالتِ غصہ میں جسم میں موجود نقصان دہ ہارمونز، تیزابیت اور کولیسٹرول کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے جو معدے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
۳) ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ انسانی خون میں بعض اوقات لوتھڑے بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کہ خون کا دباؤ تیز ہونے سے جسم کے کسی بھی حصے میں جا کر پھنس سکتے ہیں جس سے وہاں خون کی روانی رُک جاتی ہے اور وہ حصہ فالج زدہ ہو جاتا ہے۔
۴) ڈیوک یونیورسٹی امریکہ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر ریڈ فورڈبی ولیمز کے مطابق غصہ اور بغض رکھنے والے افراد جلد مر جاتے ہیں ان کے مطابق اس سے انسانی قلب کو وہی نقصان پہنچتا ہے جو تمباکو نوشی سے پہنچتا ہے۔
۵) امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق بہت سے لوگ وقت سے پہلے محض بغض اور کینہ کے جذبات کی شدت کی وجہ سے چل بستے ہیں، غصہ اور بغض قلبی دردوں کے اہم اسباب میں سے ایک ہیں۔ (گناہوں کا علاج)

غصے کا علاج 

انسان کی طبیعت میں سے غصّے کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے شیطانی و حیوانی اثرات سے محفوظ ضرور رہا جا سکتا ہے۔ احادیث میں علاجِ غصہ کے متعدد طریقے بیان ہوئے ہیں لہٰذا جب غصہ آئے تو ان میں سے کوئی بھی طریقۂ علاج اپنا کر اپنے ایمان کو بچایا جا سکتا ہے۔

حضرت عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتاہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے۔ سو جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کر لے۔‘‘  (سنن داؤد 4784)

دو آدمیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے آپس میں گالم گلوچ کیا۔ ان میں سے ایک کے چہرے سے غصہ عیاں ہو رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اس کلمے کو کہہ لے تو اس کا غصہ کافور ہو جائے، وہ کلمہ یہ ہے: اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم  یعنی میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے‘‘۔ (سنن ترمذی3452)

سیدّناحضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں’’خاموشی غصے کا بہترین علاج ہے۔‘‘

حکایت:

حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک جذباتی شخص کا کسی سے جھگڑا ہو گیا اور وہ اول فول بکنے لگا۔ اس کا مقابل غصے میں آگیا اور اس نے اسے خوب مارا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ اس جذباتی شخص کی یہ حالت دیکھ کر ایک دانا شخص نے کہا کہ اگر تو عقل سے کام لیتا اور اپنی زبان پر قابو رکھتا تو تیرا یہ حال ہرگز نہ ہوتا، اگر تو غنچے کی مانند اپنا منہ بند رکھتا تو پھول کی طرح تار تار نہ ہوتا۔ یاد رکھ! کہ ایک جاہل اور گھبرایا ہوا شخص ہی اپنی شیخی کی بدولت نقصان اٹھاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ زبان سر تا پا آگ ہے اور یہ بھڑکتی ہے، چٹختی ہے اور لپکتی ہے، لیکن پانی کی تھوڑی سی مقدار اس آگ کو بجھانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ (حکایاتِ سعدیؒ)

غصے سے بچنے والوں کی صفت کو قرانِ مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (سورۃ آلِ عمران۔ 134)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی ( دونوں حالتوں ) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنے غصے کو روک لیتا ہے، روزِ قیامت اللہ اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح۔ 5121)
جامع صغیر میں ہے جس شخص نے غصہ کو ضبط کر لیا باوجود اس کے کہ وہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو سکون و ایمان سے بھر دے گا۔ (گناہوں کا علاج)

 یعنی محض رضائے الٰہی کی خاطر غصہ پی جانے والوں کو ایسا سکونِ قلب عطا ہوگا کہ ان کے دل نورِ الٰہی سے منور ہو جائیں گے۔ پس یاد رکھیں افراطِ غصہ پر قابو پا لینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے کیونکہ اس سے انسان بیشتر روحانی بیماریوں (حسد، بغض، کینہ وغیرہ) سے بچ جاتا ہے۔ البتہ حدِ اعتدال میں غصہ کی صفت انسان کی فطرت میں ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اِسے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ مرشد کامل اکمل کی صحبت اختیار کرتے ہوئے اسے صحیح مقصد یعنی بقائے دین اور قربِ الٰہی کے لیے نفس، شیطان اور حبِ دنیا کے خلاف جہاد کرنے کے لیے ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ دنیا میں اپنے مقصدِ حیات میں کامیابی اور کامرانی حاصل ہوسکے۔

عصرِحاضر میں اُمتِ محمدیہ کے لیے باطنی اور روحانی بیماریوں سے نجات پانے اور تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے لیے مرشد کامل اکمل کی تلاش و صحبت ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ مرشد کامل اکمل ہی وہ روحانی طبیب ہوتا ہے جو کہ طالب ِ دنیا کو تمام روحانی بیماریوں غصہّ، تکبر، منافقت اور لالچ وغیرہ سے پاک کرکے اللہ کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ کیونکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔

اُمتِ مسلمہ کو دعوتِ خاص ہے کہ وہ امام الوقت، رہبرِانسانیت، نورِ ھوُ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی نورانی و روحانی صحبت سے مستفید ہوکر غصہّ اور دیگر تمام روحانی و باطنی بیماریوں سے نجات حاصل کرکے معراجِ انسانیت یعنی باطن میں قرب و دیدارِ الٰہی سے ہمکنار ہوں۔

لکھ نگاہ جے عالم ویکھے، کسے نہ کدھی چاہڑے ھوُ
اِک نگاہ جے عاشق ویکھے، لکھاں کروڑاں تارے ھوُ

استفادہ کتب:
۱۔ لبابِ الاحیائ:  تصنیف ِ لطیف امام محمد غزالی شافعیؒ
۲۔ حکایاتِ سعدیؒ :  شیخ سعدیؒ
۳۔ گناہوں کا علاج :  حکیم محمد اسلم شاہین

 
 

16 تبصرے “غصہ Gussa

  1. عصرِحاضر میں اُمتِ محمدیہ کے لیے باطنی اور روحانی بیماریوں سے نجات پانے اور تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے لیے مرشد کامل اکمل کی تلاش و صحبت ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ مرشد کامل اکمل ہی وہ روحانی طبیب ہوتا ہے جو کہ طالب ِ دنیا کو تمام روحانی بیماریوں غصہّ، تکبر، منافقت اور لالچ وغیرہ سے پاک کرکے اللہ کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے

  2. لکھ نگاہ جے عالم ویکھے، کسے نہ کدھی چاہڑے ھوُ
    اِک نگاہ جے عاشق ویکھے، لکھاں کروڑاں تارے ھوُ

  3. اُمتِ مسلمہ کو دعوتِ خاص ہے کہ وہ امام الوقت، رہبرِانسانیت، نورِ ھوُ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی نورانی و روحانی صحبت سے مستفید ہوکر غصہّ اور دیگر تمام روحانی و باطنی بیماریوں سے نجات حاصل کرکے معراجِ انسانیت یعنی باطن میں قرب و دیدارِ الٰہی سے ہمکنار ہوں۔

  4. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    غصہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو پی گیا اس نے آگ بجھائی اور جو ضبط نہ کر سکا وہ پہلے خود اس میں جلتا ہے۔

  5. احادیث اور اقوال کی روشنی میں بہترین طریقے سے غصہ کے نقصانات اور اس سے بچنے پر روشنی ڈالی گئی ہے

  6. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    غصہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو پی گیا اس نے آگ بجھائی اور جو ضبط نہ کر سکا وہ پہلے خود اس میں جلتا ہے۔

  7. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    غصہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو پی گیا اس نے آگ بجھائی اور جو ضبط نہ کر سکا وہ پہلے خود اس میں جلتا ہے۔

  8. لکھ نگاہ جے عالم ویکھے، کسے نہ کدھی چاہڑے ھوُ
    اِک نگاہ جے عاشق ویکھے، لکھاں کروڑاں تارے ھوُ

  9. اللہ ربّ العزت نے جس طرح نظامِ کائنات میں کوئی بھی شے بے مقصد و بے فائدہ تخلیق نہیں فرمائی اسی طرح اشرف المخلوقات انسان کی طبیعت و مزاج میں احساسات اور جذبات کے تغیرات بھی بے معنی و بے مقصد نہیں ہیں۔ تاہم یہ صرف اسی وقت نقصان کا باعث بنتے ہیں جب (حبِّ دنیا میں) حدِافراط کو پہنچ جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں