غزوۂ بدر
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و کامیابی کا حقدار صرف انہیں بنایا ہے جو صرف اور صرف اُس کے دیدار اور قرب کے لیے جستجو کرتے ہوئے اپنی تمام پسند و نا پسند کو بھول جاتے ہیں۔ یہی سچے طالبانِ مولیٰ ہوتے ہیںکیو نکہ طالب ِ مولیٰ کا ہر لمحہ نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے گزرتا ہے اور کامیاب و صادق طالب صرف وہی ہوتا ہے جو اپنے ہر فعل و عمل میں اپنے مرشد پر بھروسہ کرتا ہے اور صرف اسی کی راہنمائی کو اپنے لیے مشعل ِ راہ سمجھتا ہے ۔مرشد ہی وہ ذات ہوتی ہے جو صادق طالب کو ہردم نفس کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے، یہی پاک ذات طالب ِ مولیٰ کے دل سے تمام خصائل ِ رذیلہ مثلاً لالچ، بغض، حرص، تکبر، جھوٹ، فریب، خود پسندی، قبیلہ پرستی، قوم پرستی، نسل پرستی، فرقہ پرستی اور مسلک پرستی وغیرہ نکال کر اسے نفس کی پہچان عطا کرتی ہے، اس کے نفس کو نفس ِ امارہ سے نفس ِ مطمئنہ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جب طالب نفس کی پہچان حاصل کر لیتا ہے تو اس حدیث ِ قدسی کے عین مطابق اپنی مراد پا لیتا ہے :
مَنْ عَرَ فَ نَفْسَہٗ فَقَدْعَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ:’’جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقینااپنے ربّ کو پہچانا۔‘‘
سر ورِ کائنات، تاجدارِ مدینہ ، نورِ ھُو جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ پاک میں آپ کی غلامی اختیار کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہ کر تزکیۂ نفس، تصفیہ ٔ قلب اور تجلیۂ روح کی دولت پانے والے پاکیزہ اصحاب کے مقدس طرزِ عمل بھی ہر دور میں صادق طالبانِ مولیٰ کے لیے راہنمائی کا ذریعہ رہے ہیں۔اسی لیے حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کافرمان مبارکہ ہے’’ میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیںجس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے۔‘‘
اس حقیقت سے ہر مسلمان بخوبی آگاہ ہے کہ نبوت کے تیرہ سالہ مکی دور میں تمام اصحابؓ اور صحابیاتؓ نے کس طرح کفارِ مکہ و مشرکین کی طرف سے دی گئی اذیتیں اور تکالیف بر داشت کیں۔ یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی پاکیزہ صحبت و نگاہِ فیض کا کمال ہی تھا جس نے تمام اصحاب و صحابیات کی نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی حالت بھی بدل دی تھی اور ان کا رشتہ اللہ وحد ہٗ لاشریک کے ساتھ مضبوط فرما دیا تھااسی لیے تمام اصحاب پاکؓ اپنے مرشد، انسانِ کامل حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی جان، مال، گھر، بیوی بچوں غرض ہرچیزسے زیادہ عزیز سمجھتے تھے اور عملی طور پر ہر وقت اس کا اظہار کرنے کے لیے تیار بھی رہتے تھے۔تیرہ سالہ مکی دور کی آزمائشوں میں پور ا اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے صادق و مخلص ساتھیوں کے لیے سر زمین ِ مدینہ کو امن کی جگہ بناکر ہجرت کا حکم فرمایا۔
قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’(اور وہ وقت یاد کرو ) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیت میں) ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے)تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے ( یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرتِ مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرمادی تاکہ تم اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا شکر بجا لا سکو۔‘‘ (الانفال۔26)
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے پیروکاروں نے ہجرت فرمائی تو اس سر زمین کو بھی خیرو برکت عطا ہوئی اور ہر طرف توحید کی شمعیں روشن ہونے لگیںجس کی روشنی و تابناکی کو دیکھتے ہوئے بہت سے طالبانِ حق جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے ۔کفارِ مکہ اور اسلام دشمن عناصر سے اسلام کی یہ ابھرتی ہوئی ترقی برداشت نہیں ہو رہی تھی بلکہ یہ بات بھی ناگوار گزرتی تھی کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی ہے وہ مسلمانوں کی زد میں رہے کیونکہ اس شاہراہ سے اہل ِ مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔اسی لیے وہ ہر وقت مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی شیطانی چالیں سوچتے رہتے اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے۔ایک روزایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانو ں کی چراگاہ پر حملہ کر دیا اورکچھ مویشی لوٹ لئے۔ یہ ڈاکہ مسلمانو ں کے لیے ایک کھلا چیلنج تھا ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے70صحابہ کے ہمراہ کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ اس کے علاوہ کفارِ مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیے بھرپور جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اپنی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مکہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کئے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام جائے گا اس سے حاصل ہونے والا تمام تر منافع اسی غرض کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ابو سفیان کو اس قافلے کا امیر بنایا گیا اور کفارِمکہ کی عورتوں نے اس ناپاک مقصد کے لیے اپنے زیورات تک اس کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے اس خاتمے کے منصوبے نے مکہ اور مدینہ کے درمیان کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ کفارِ مکہ نے مدینہ منورہ کے یہودی قبائل اوس و خزرج کو پیغامات بھیجنا شروع کر دئیے ’’ تم (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور مسلمانوں کو اپنے درمیان سے نکال دو ورنہ ہم تمہارے شہر پر چڑھائی کر دیں گے اور مردوں کا قتل ِ عام کر کے عورتوں کو لونڈیاں بنائیں گے۔‘‘اوس و خزرج اپنے بھائیوں سے جو کہ مسلمان ہو چکے تھے‘ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہودیوں میں تو ویسے بھی لڑنے کی جرأت نہ تھی۔اس کے علاوہ کفارِ مکہ نے مدینہ منورہ کے گرد آباد مشرک قبائل سے بھی رابطے جاری رکھے۔بالآخر2ھ میں جہاد کا حکم نازل ہوا ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ـ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ آپ کے لیے کافی ہے اور وہ مومنین جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کی۔اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مومنین کو جہاد کی ترغیب دیں۔اگر آپ میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ اور اگر آپ میں سے سو (صبر کرنے والے) ہوں تو وہ ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ بے سمجھ قوم ہیں۔ (سورہ انفال64۔65)
سن2ھ میں جب ابو سفیان کا مذکورہ بالا قافلہ سامانِ تجارت فروخت کرنے کے بعد واپسی کے لیے روانہ ہوا تو اس نے یہ خطرہ محسوس کیا کہیں مسلمان اس پر حملہ نہ کر دیںتو اس نے اپنے ایک قاصد کو مکہ بھیج کر امداد طلب کی ۔ اس قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابو سفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور ان کی جماعت چلی آرہی ہے فوراً قافلے کی امداد کو پہنچو۔ ابوجہل لعین جو کہ پہلے سے ہی اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو قتل و غارت کر کے ان کی شناخت ختم کر دی جائے اور اپنا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ اہل ِمکہ کے ساتھ ساتھ اہل ِ مدینہ اور اس کے گردو نواح کو بھی دکھایا جائے۔اس لعین نے ایک ہزار کا لشکر‘ جو ہر طرح سے مسلح تھا‘ فوراً تیار کیا ۔ اس لشکر میں قریش کے پندرہ بڑے سرداروں کے علاوہ اہل ِ مکہ کے مانے ہوئے بڑے بہادر لڑاکا جنگجو (جن پر اہل ِ کفار کو بڑا ناز تھا)اور کچھ عورتیں (جو مردوں کو جنگ پر اُکسانے کے لیے دف پر گیت گاتی تھیں) شامل تھے۔ کفارِ مکہ کے اس لشکر نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ابو جہل لعین کو اطلاع دی گئی کہ ابوسفیان کی سربراہی میں تجارتی قافلہ بخیرو عافیت مکہ پہنچ گیا ہے۔ چونکہ ابو جہل اور اس کے پیروکاروں کا اصل مقصد تو صرف مسلمانوں اور دوسرے قبائل کو اپنی طاقت اور رعب دکھانا تھالہٰذا اس نے اس خبر کو راز رکھا اور دیگر اسلام دشمن سرداروں کو بھی اپنے ساتھ اس راز میں شامل کر لیااور لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھنے لگا۔جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کفارِ مکہ کے لشکر کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مہاجرین و انصار کی مجلس ِ شوریٰ طلب فرمائی۔ سب سے پہلے سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے محبوب مرشد پاک کی رضاو منشا کے مطابق رائے پیش کی۔ بعد ازاں سیّدنا حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی اس کی تائید فرمائی۔ ان مقدس اصحاب پاکؓ کی رائے جاننے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا رُخِ مبارک انصار کی طرف فرمایا کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ مدینہ منورہ پر حملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مہاجرین کو پناہ دینے کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔
بلاشبہ کامل مرشد یعنی انسانِ کامل کے سچے و صادق غلاموں کا یہ خاص وصف ہوتا ہے کہ وہ محبوب مرشد پاک کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ ہمارے ہادی و مرشد کی کیا رضا ہے۔کیونکہ رضائے مرشد ہی رضائے الٰہی ہوتی ہے ۔
آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت ِکامل کی برکت سے تمام اصحاب ؓ کے قلوب شیشے کی مانند صاف تھے اور اسی صدقِ قلوب کے باعث وہ اپنے مرشد و محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا و منشا کوسمجھ جاتے تھے۔انصا ر بھی سچے عاشقانِ رسول تھے وہ فوراً ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاموشی کو سمجھ گئے۔حضرت مقداد بن عمرو انصاریؓ فوراً ادب سے کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے ملا ہے اس کے لیے سوار ہو جائیے ہم لوگ بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ (حضرت موسیٰ علیہ السلام) اور آپ کا خدا جائیں اور لڑیںہم تو بیٹھیں ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم برک الغماد (یمن کے آخر کا ایک مقام ہے) تک جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ساتھ ہونگے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو درمیان میں لیتے ہوئے آگے پیچھے، دائیں بائیں جنگ کریں گے۔‘‘ حضرت مقدا دبن عمرو انصاریؓ کی تقریر منشائے مرشد کے عین مطابق تھی جسے سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک روشن ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اہل ِ انصار کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
بلاشبہ وہی مجلس ِ شوریٰ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا و خوشنودی کا باعث بنتی ہے جس میں تمام ارکانِ مجلس اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو بالاتر رکھ کر صرف اور صرف اپنے مرشد وہادی کی رضا کے مطابق فیصلہ کریں۔ مجلسِ شوریٰ کے متفقہ فیصلے میں یہ طے پایا کہ لشکر ِ کفار کومدینہ سے باہر ہی روکا جائے گا۔ اُم المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے مبارک دوپٹے سے لشکر ِ اسلام کا عَلم (جھنڈا) تیار کیا گیااور حضرت معصب بن عمیرؓ اس لشکر کے علمبردار مقرر ہوئے۔
کفارِ مکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ (313) تھی۔ ان کے پاس صرف ستر (70)اونٹ اور گھوڑے تھے۔لشکر ِاسلام کے پاس سامانِ جنگ نہ ہونے کے برابر تھا۔اگر کسی کے پاس زِرہ ہے تو تلوار نہیں ،تلوار ہے تو ڈھال نہیںغرض ہر طرح سے بے سرو سامانی کا عالم تھا لیکن دل میںاپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جان نثار کرنے کے جذبے نے انہیں تقویت عطا کر رکھی تھی۔بقول اقبال:
اِک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
یہ لشکر عشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اس قدر سر شار تھا کہ اس میں نو عمر وکمسن مجاہدین حضرت معاذؓ،حضرت معوذؓ اور حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓ بھی شامل تھے ۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓ کا تو یہ عالم تھا کہ لشکر میں ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے کہ کہیں دیکھ کر واپس نہ بھیج دئیے جائیں۔غرض سب کے سب اسلام کے شیدائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فدائی تھے ۔بقول حفیظ جالندھری:
یہ پہلا جیش تھا دنیا میں افواجِ الٰہی کا
جسے اعلان کرنا تھا خدا کی بادشاہی کا
یہ لشکر ساری دنیا سے انوکھا تھا نرالا تھا
کہ اس لشکر کا افسر آپؐ کالی کملی والا تھا
نہ تیغ و تیر پر تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا انہیں سادہ سی کملیؐ والے پر
تاہم کفارِ مکہ کا لشکر ہر طرح کے جنگی سازوسامان سے لیس، اپنی طاقت کے نشے میں دھت بد ر کے مقام پر پہنچااورانہوں نے نہ صرف وہاں موجودچشمہ پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ انہوں نے حوض بھی کھود لئے تھے تاکہ دوسرے چشموں سے پانی لا کر وہاں جمع کر لیںتاکہ خود بھی سیراب ہوں اور اپنے جانوروں کو بھی سیراب کریں۔لشکر ِ اسلام بدر کے مقام پر نرم و ریتلی زمین پر اترے جس میں مجاہدین کے پاؤںاورچوپایوں کے سُم دھنسے جاتے تھے ۔تاہم یہ جگہ اونچی تھی۔ وہاں سے ان کی پانی تک رسائی ناممکن تھی۔اللہ تعالیٰ نے ایسی بارانِ رحمت فرمائی کہ ہر فرد کو سیراب کر دیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: تم پر آسمان سے پانی اتارا کہ تمہیںپاک کر دے اور شیطانی نجاست تم سے دور کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تمہارے قدم مضبوطی سے جما دے۔ (الانفالـ۔11)
بدر میں جس مقام پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا اس سے پیچھے کی طرف ایک بلند ٹیلے پر حضرت سعد بن معاذ ؓنے چند اصحابؓ کی مدد سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جنگی قیادت و حفاظت کے لیے ایک عریش (کھجور کے پتوں کی چھوٹی جھونپڑی) جلدی سے تیار کی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عریش پر رونق افروز ہوئے اور سیّدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓ برہنہ شمشیرلیے باہرکھڑے نہ صرف حفا ظتی فرائض سر انجام دے رہے تھے بلکہ آپؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکامات کو لشکر ِاسلام تک پہنچانے کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ساری رات اللہ کے حضور عبادت میںمصروف رہے اور خشوع و خضوع کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کالی کملی (چادر مبارک) بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک کندھوںسے گر گئی۔سیّدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آگے بڑھ کر چادر مبارک اٹھائی اور عرض کیا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اپنے آپ کو اتنا ہلکان نہ کریں۔اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فتح و نصرت کا وعدہ فرما چکا ہے۔ اتنے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اونگھ سی طاری ہوئی۔جب بیدار ہوئے تو فرمایا ’’ اے ابو بکرؓ! نصرتِ الٰہی آ پہنچی ہے۔حضرت جبرائیل ؑ بھی آ گئے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی مدد فرماتا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے۔‘‘ (سورہ الانفال۔ 9)
دوسری طرف لشکر ِ کفار نے اپنی عارضی شان و شوکت کے نشے میں چور ساری رات عیاشی میں گزار دی ۔ان میں شیطان مردود ایک سردار سراقہ بن کنانہ کی صورت میں موجود تھا۔جب اس نے فرشتوں کی جماعت دیکھی تو ہیبت زدہ ہو کر یہ کہتا ہوا بھاگ گیاکہ
ترجمہ: ’’میں تم سے الگ ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا میں وہ دیکھتا ہوں۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوںاللہ سخت عذاب نازل کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ الانفال۔ 48)
اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی اس جنگ میں مسلمانوں کو نہ صرف بارانِ رحمت اور فرشتوں کی دستہ بند فوج سے نوازابلکہ لشکر ِ اسلام کو لشکر ِ کفار کم کر کے دکھایاتاکہ مسلمانوں کے حوصلے بلند رہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’اور جب لڑائی کے وقت تمہیں کافر تھوڑے کر کے دکھائے۔‘‘ (الانفال۔44)
جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلامی لشکر کی دستہ بندی کے لیے میدانِ جنگ میں تشریف لائے اور اصحاب ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اپنی جگہ پر قائم رہنا۔اگر دشمن آگے بڑھے تو اُسے آگے آنے دینا جب دشمن تیروں کی زد میں آئے تو خوب تیر چلاناجب دشمن مزید قریب آئے تو نیزوں کا استعمال کرنااور تلواروں کا استعمال آخر میں کرنا۔‘‘ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اصحابؓ کی صف بندی دائروی شکل میں فرمائی یعنی ایک صحابی ؓ کی پیٹھ کے پیچھے دوسرے صحابیؓ کی پیٹھ تھی اس طرح دشمن پیٹھ پیچھے وار نہیں کر سکتا تھا۔یہ لشکر ِ اسلام پر سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی خاندان والے ان کے سامنے کھڑے تھے یعنی سیّدناحضرت ابوبکر صدیقؓکو اپنے بیٹے عبدالرحمن سے اور سیّدنا حضرت حذیفہ ؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا ۔کیا اعلیٰ شان ہے اصحاب ؓ کی جن کا اوّلین مقصد صرف اور صرف اپنے مرشد پر قربان ہونا ہی تھا ۔لشکر ِ کفار کی جانب سے عتبہ بن ربیعہ بن عبد مناف خطاب کے لیے نکلا اسے دیکھ کر آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ یہ شخص سمجھ دار ہے اگر لوگوں نے اس کی بات مان لی تو سیدھی راہ پر ہو جائیں گے۔‘‘ عتبہ نے لشکر ِ قریش سے کہا اس لڑائی سے باز آجاؤ کیونکہ تمہارا مقابلہ تمہارے ہی خاندان کے لوگوں سے ہو رہا ہے،انہیں مارنے سے بہتر ہے کہ ہم واپس چلیں۔لیکن ابوجہل لعین کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے عتبہ کی ایک بھی نہ چلنے دی۔ کفار کی جانب سے اسود مخزومی بڑے تکبر سے یہ کہتا ہوا نکلا کہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پی کر آؤ نگا یا وہیں مر جاؤں گا۔سیّدنا حضرت حمزہ ؓ نے جب اسود مخزومی کو مسلمانوں کے حوض کی طرف بڑھتے دیکھا تو فوراً اس کا پیچھا کیا اُسے ایک ہی وار سے جہنم واصل کر دیا۔اسود مخزومی کے اس طرح قتل ہونے پر عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولیددشمن کی صف سے نکلے۔ان کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت معاذ ؓ، حضرت معوذ ؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاریؓ آئے۔ عتبہ نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟انہوں نے بتایا کہ ہم انصاری ہیں۔ عتبہ بولا ہاں آپ ذی عزت ہیں لیکن میں اپنی قوم کے افراد چاہتا ہوں۔جب جناب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ سنا تو حضرت عبیدہ ؓ بن حرث، حضرت حمزہ ؓ اور حضرت علی کر م اللہ وجہہ الکریم ( یہ تینوں متبرک ہستیاں ہاشمی ہیں) کو بھیجا۔چند ہی لمحے میں سیّدنا حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ، سیّدنا حضرت علی ؓ نے ولید اورسیّدنا حضرت عبیدہ ؓ نے عتبہ کو واصل ِ جہنم کر دیا۔
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
پھر گھمسان کی جنگ شروع ہوئی ۔ہر طرف کفار کی چیخیں اور مسلمانوں کے نعرہ تکبیر کی آوازیں بلند تھیں۔ سیّدنابلال حبشی ؓ نے امیہ بن خلف (جو آپؓ کو کلمہ حق کہنے پر مختلف قسم کی تکالیف دیا کرتا تھا) کو جہنم واصل کیا۔سیّدنا حضرت معاذؓ اور سیّدنا حضرت معوذؓ نے ابوجہل لعین کو قتل کیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب ابوجہل کے قتل کی اطلاع ملی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’ اس اُمت کا فرعون یہی ابوجہل تھا۔‘‘ اس کے قتل ہوتے ہی لشکر ِ کفار کے حوصلے پست ہوگئے اور سب اپنی جانیں بچانے لگے۔جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عاشقوں کو پروانہ وار لڑتے دیکھا توایک مٹھی کنکریاںلشکر ِ کفارکے سروں پر پھینک دی جو میدانِ جنگ میں موجود ہر کافر کے سر اور آنکھوں میں پڑی ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
ترجمہ:’’وہ کنکریاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھیں۔‘‘ (الانفال۔17)
جس سے لشکر ِ کفا ر بو کھلا کراپنا تمام تر سازوسامان اور لاشوں کو میدانِ بدر میں ہی بے آسرا چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ کفار کے بھاگ جانے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حکم کے مطابق دو گڑھے کھودے گئے جن میں سے ایک گڑھے میں24 کافر سرداروں کی لاشوں کو اور دوسرے گڑھے میں باقی بدبخت کفار کو ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی گئی۔معرکہ بدر میں14مسلمان شہید ہوئے اور70 کفار جہنم رسید ہوئے۔اہل ِبدر کی فضیلت بیا ن نہیں کی جا سکتی اللہ تعالیٰ نے انہیں سب مسلمانوں سے افضل اور ان کے مستقبل کی خطاؤں تک کو بخش دیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے اہل ِ بدر کو دیکھا اور فرمایا جو چاہو کرو ۔ میں تم کو بخش چکا ہوں۔‘‘(ابو داؤد)
17 رمضان المبارک 2ھبروز جمعتہ المبارک بدر کے اس معرکے میں حق کو فتح حاصل ہوئی جو تاقیامت تمام طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔غزوہ بدر ہمیں یہ بات سکھاتا ہے اگر طالب حق کے راستے پر اکیلا بھی ہو تو اسے ہر حال میں اپنے مرشد پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اپنے مرشد کو اپنے ہر آرام اور ہر رشتے سے زیادہ عزیز تر رکھنا چاہیے۔پھر ہی طالب اپنی مراد کو پا سکتا ہے ۔مرشد کامل اکمل کی ذات پاک قدمِ محمدی ؐ پر ہوتی ہے۔ یہی پاک ذات اپنے دور کی عبداللہ کہلاتی ہے اور انہی کی تلاش و اطاعت صادق طالبانِ مولیٰ پر فرض ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے رحم فرماکر ہمارے درمیان موجودہ دور کے عبداللہ، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو بھیجا۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سِرّہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کے مرشد کریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے 17 رمضان المبارک 1424ھ (12 نومبر2003ء) آپ مدظلہ الاقدس کواسمِ اللہ ذات کافیض پوری دنیا میں عام کرنے کا مشن سونپا جس کی تکمیل کے لیے آپ مدظلہ الاقدس بفضل ِ حق تعالیٰ تاحال مصروفِ عمل ہیںاور طالبانِ حق کے دلوں کو اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے فیض سے اور اپنی نگاہِ کامل و پاکیزہ صحبت سے نواز رہے ہیں۔ تمام طالبانِ حق کے لیے آپ مدظلہ الاقدس کی ذات پاک ایک ایسے روشن چراغ کی مانند ہے جس کی روشنی سے تمام اہل ِ حق کو اپنی منزل ملتی ہے۔
درّ نجیب پہ آکر خودی کا راز داں ہو جا
سلیم قلب حاصل کر کے حیاتِ جاوداں ہو جا
(تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قا دری۔ لاہور)