انسانِ کامل (مرتبہ انسانیت)
تحریر: ڈاکٹر عبدالحسیب سرفراز سروری قادری۔ ساہیوال
اللہ پاک کی ذات مخفی و پوشیدہ تھی جب اللہ پاک نے اپنے آپ کو کائنات میں ظاہر کرنا چاہا یعنی جب وحدت سے کثرت میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو تعینات میں نزول فرمایا جن کو ’’تنزلاتِ ستہ یا مراتبِ ستہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
رسالہ روحی شریف میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
کُنْتُ ھَاھُوِیَّتْ کَنْزًا یَاھُوْت، مَخْفِیًّا لَاھُوْت، فَاَرَدْتُ مَلَکُوْت، اَن اُعْرَفَ جَبَرُوْت فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ نَاسُوْت ذاتِ سر چشمہءِ چشمانِ حقیقتِ ھا ھویت۔
ترجمہ: میں تھا ھاھویت میں‘ خزانہ یاھوت کا‘ مخفی لاھُوت میں، ارادہ کیا ملکوت میں، پہچانا جاؤں جبروت میں، خلق کیا مخلوق کو ناسوت میں، ظہور میرا مکمل ہوا اس ذات (انسانِ کامل) میں جو حقیقتِ ھاھویت کی آنکھوں کا سرچشمہ ہے۔
ظہور کے ان مراتب کو قرآنِ مجید میں یوں بیان کیاگیا:
ترجمہ: بیشک تمہارا ربّ اللہ ہے ۔جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام (یعنی چھ ادوار) میں بنایا پھر عرش پر استویٰ فرمایا۔ (الاعراف۔54 )
یہاں چھ مدتوں سے مراد تنزلاتِ ستہ ہیں اور عرش سے مراد انسانِ کامل کا قلب ہے ۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے :
قَلْبُُ الْمُؤْمِنْ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
پس مرتبہ انسانیت تمام مراتب کا مجموعہ ہے اور یہی وہ مرتبہ ہے جو مسجودِ ملائکہ بنا۔
مسجودِ ملائکہ کے اس واقعہ کو قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا:
* وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۔ 30)
ترجمہ: اور (یاد کریں وہ وقت) جب آپ کے ربّ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں تو وہ بولے کیا تو ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا۔ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ (اللہ نے) فرمایا مجھے وہ کچھ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْ الِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا (البقرہ۔34)
ترجمہ: اور (یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا۔
* فَاِذَا سَوَّےْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِےْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْلَہٗ سٰجِدِےْنَ(الحجر۔ 29 )
ترجمہ: تو جب میں اسے(آدمؑ کے پیکرِ بشری کو) تیار کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کیلئے سجدے میں گِر پڑنا۔
ان آیات میں حق تعالیٰ نے انسان کی شان بیان فرمائی ہے اور اس کے مرتبہ و منزلت کی وضاحت فرمائی ہے۔
جب خداتعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں اپنا نائب یا خلیفہ بنانے لگا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ یہ مٹی کا پتلا خونریزی کرے گا لیکن اللہ پاک نے فرمایا کہ اس مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کرنا۔جب میں اس میں اپنی روح داخل کروں تب اس کے لئے سجدہ میں گِر پڑنا۔ پس یہ خاکی جسم انسان نہ تھا اور نہ ہی اس فانی جسم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا بلکہ اصل انسان تو روح ہے جو اَمرِ رَبیّ ہے۔جس کا اصل وطن عالمِ لاھُوت ہے جو کہ فرشتوں سے بھی افضل ہے۔ اور یہی انسان کی شان ہے اسی کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا :
فرشتہ کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
* اَنَا مِنْ نُّوْر اللّٰہِ تَعَالٰی کُلُّ خَلَاءِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
یہ نورِ محمدی دیگر مخلوقات کی نسبت انسان میں کامل طور پر جلوہ گر ہے۔
صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ انسان کائناتِ کبیر ہیں اوراس کے اندر یعنی باطن میں ہی تمام عالم موجود ہیں ذاتِ حق تعالیٰ نے وحدت سے کثرت میں ظہور کیلئے مرتبہ بمرتبہ نزول فرمایا اور پھر انسان میں آکر اپنا ظہور مکمل فرمایا جب بندہ اللہ پاک کو پانے اور اس کی معرفت کے حصول کیلئے سرگرداں ہوتا ہے تو وہ وجود کے باطنی مقامات اور مراتب طے کرتا ہے عالمِ ناسوت سے عالمِ ملکوت‘ پھر عالمِ جبروت اور پھر اپنے اصل وطن عالمِ لاھوت تک پہنچ جاتا ہے۔اور جو انسان ان مقامات کو طے کر کے وحدت تک پہنچ جائے اور توحید میں غرق ہو کر عین وحدت ہو جائے تو اسے انسانِ کامل کہتے ہیں۔ اسے ہی اللہ اپنا نائب اور خلیفہ منتخب فرماتا ہے اور یہی مرتبہ انسانیت ہے۔ مرتبہ انسانیت کی شان اور قدرو منزلت کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے قرآن میں مزید فرمایا:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَےْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشَفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ (الاحزاب۔ 72 )
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا پس سب نے اس کو اُٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ (اپنے نفس کیلئے) ظالم اور نادان ہے۔
صوفیا کرام اور اولیا کرام کے نزدیک یہ امانت اسمِ g ذات ہے۔ جو قلبِ انسانی میں پوشیدہ ہے۔ انسان نے اللہ پاک سے عشق کی بدولت اس امانت کے بارِ گراں کو اُٹھا لیا اور یہ عشق ہی تھا جس کی بدولت اللہ پاک نے سب سے قیمتی خزانہ انسان کے سپرد کیا۔ تمام انسانوں سے اکمل اور ان تمام کمالات و مقامات کا مظہرِ اُتّم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارکہ ہے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جس کسی کو بھی یہ مرتبہ یا مقام نصیب ہوا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے ہی نصیب ہوا۔ وہ انسانِ کامل اپنے زمانہ کا امام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نائب ہوتا ہے۔ وہ حقیقتِ محمدیہ کا اظہار ہوتا ہے۔
علامہ ابنِ عربی فصوص الحکم میں فرماتے ہیں:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی جلوہ نما ہوتے ہیں ۔
سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ اپنی کتاب مراۃ العارفین میں فرماتے ہیں کہ جو کچھ قرآن میں موجود ہے وہ سب کچھ اُم الکتاب یعنی سورۃ فاتحہ میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ سورۃ فاتحہ میں ہے وہ سب کچھ بسم اللہ میں مخفی و پوشیدہ ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ بسم اللہ کی ’’ب‘‘ میں ہے اور جو کچھ’’ب‘‘ میں ہے اس ایک نقطہ (ب کے نیچے) میں مبہم و پوشیدہ کیا۔یہاں نقطہ سے مراد انسانِ کامل یعنی مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کی ذات مراد ہے۔اسی نقطہ (انسانِ کامل / مرشد کامل اکمل) کے متعلق حضرت بلھے شاہؒ فرماتے ہیں:
پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں
کر دور کفر دیاں باباں نوں
چھڈ دوزخ گور عذاباں نوں
کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں
گل ایسے گھر وِچ ڈھکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مکدی اے
میرے ہادی و مرشد اور آقا و مولیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے انسانِ کامل اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نائب اور خلیفہ ہیں آپ مدظلہ الاقدس کی ذاتِ مبارکہ اللہ پاک کی مظہر ہے اور آپ مدظلہ الاقدس ہی موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل وہ ہے جو بیعت کے پہلے دن ہی ذکر کے لئے سلطان الاذکار ’’ اسمِ ھُو‘‘ اور تصور کے لئے اسمِ اللہ ذات کا نقش عطا کرے اور جسم کی پاکیزگی کے لئے مشقِ مرقومِ وجودیہ عطا کرے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی صاحبِ مسمّٰی مرشد ہیں کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے دن ہی ذکر کے لیے سلطان الاذکار یعنی اسمِ ھو اور تصور کے لئے نقش اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے لاکھوں دلوں کا تزکیہ کر کے اور طالبانِ مولیٰ کو ذکرو تصوراسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر ان کے دل میں عشقِ الٰہی جیسے لازوال جذبے کو پروان چڑھا چکے ہیں کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو راہِ فقر میں درپیش مشکلات و مصائب سے چھٹکارا دلاتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت اور غلامی میں زندگی بسر کرنے کے قابل بنائے اور سچا و خالص طالبِ مولیٰ بنائے ۔ آمین