محکم الفقرا–Mohkim-ul-Fuqara

Spread the love

Rate this post

محکم الفقرا

  ترجمہ: احسن علی سروری قادری

* ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ یا اَبا ذَرٍّ غَفَارِیْ تَمْشِیْ وَحْدَکَ فَاللّٰہُ تَعَالٰی فِی السَّمَآءِ فَرْدٌ وَّ اَنْتَ فِی الْاَرْضِ فَرْدٌ کُنْ فَرْدًا ےَا اَبَا ذَرٍّ اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ وَ ےُحِبُّ الْجَمَالُ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ےَا اَبَا ذَرٍّ اَتَدْرِیْ مَا غَمِّیْ وَ فِکْرِیْ وَ لِاَیِّ شَیْءٍ اِشْتِیَاقِیْ فَقَالَ اَصْحَابَہٌ اَخْبَرْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ بِغَمِّکَ وَ فِکْرِکَ وَ اِشْتِیَاقِکَ ثُمَّ قَالَ آہْ آہْ آہْ وَ اَشَوْقَاہُ اِلٰی لِقَآءِ اِخْوَانِیْ تَکُوْنُ مِنْ بَعْدِیْ شَأْنُھُمْ کَشَانِ الْاَنْبِیَآءِ وَ ھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بِمَنْزِلَۃِ الشُّھَدَآءِ ےَفِرُّوْنَ مِنَ الْاٰبَآءِ وَ الْاُمَّھَاتِ وَ الْاِخْوَانِ وَ الْاَخْوَاتِ وَ الْاَبْنَآءِ ابْتِغَآءِ لِمَرْضَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ ھُمْ ےَتْرُکُوْنَ الْاَمْوَالَ لِلّٰہِ وَ ےُبَدِّلُوْنَ اَنْفُسَھُمْ بِالتَّوَاضُعْ وَ لَا ےَرْغَبُوْنَ فِی الشَّھْوَاتِ وَ حَصُوْلِ الدُّنْیَا ےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ مَغْمُوْمِیْنَ وَ مَحْزُوْنِیْنَ مِنْ حُبِّ اللّٰہِ وَ قُلُوْبُھُمْ اِلَی اللّٰہِ وَ اَرْوَاحُھُمْ مِنَ اللّٰہِ وَ عَمَلُھُمْ لِلّٰہِ اِذَا مَرَضَ وَاحِدٌ مِّنْھُمْ ھُوَ اَفْضَلُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ عِبَادَۃِ اَلْفِ سَنَۃٍ وَ اِنْ شِءْتَ اَزِیْدُکَ ےَا اَبَاذَرٍّ ؓ ! قَالَ قُلْتُ بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ ےَمُوْتُ فَھُوَ کَمَنْ مَاتَ فِی السَّمَآءِ لِکَرَامَتِھِمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اِنْ شِءْتَ اَنْ اَزِیْدَکَ ےَا اَبَاذَرٍّؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ ےُؤْذِیْہِ قُمْلَۃٌ فِیْ ثِیَابِہٖ فَلَہٗ عِنْدَ اللّٰہِ اَجْرَ سَبْعِیْنَ حَجَّۃٍ وَّ عُمْرَۃٍ وَّ کَانَ لَہٗ اَجْرٌ مَنْ اَعْتَقَ اَرْبَعِیْنَ رَقَبَۃً مِنْ اَوْلَادِ اِسْمَاعِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ بِاَثْنٰی عَشْرَ اَلْفَ دِیْنَارٍ وَّ اِنْ شِءْتَ اَزِیْدُکَ ےَا اَبَاذَرٍّؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ ےَذْکُرُ اَھْلُ الْوُدِّ ثُمَّ ےَخْتِمُ ےُکْتَبُ لَہٗ بِکُلِّ نَفَسٍ اَلْفَ دَرَجَۃٍ اِنْ شِءْتَ اَنْ اَزِےْدُکَ ےَا اَبَاذَرٍّؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ ےُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ےَعْبُدُ اللّٰہَ فِیْ جَبْلِ الْعَرَفَاتِ لَہٗ ثَوَابُ مِثْلِ عُمْرِ نُوْحٍ اَلْفَ سَنَۃٍ وَ اِنْ شِءْتَ اَنْ اَزِےْدُکَ ےَا اَبَاذَرٍّؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ مِنْھُمْ لَہٗ تَسْبِیْحَۃٌ خَیْرٌ لَّہٗ ےَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ اَنْ یَّصِیْرَ مَعَہٗ جِبَالِ الدُّنْیَا ذَھَبًا وَّ فِضَّۃً وَّ ھَبَھَا وَ اِنْ شِءْتَ اَزِیْدُکَ یَا اَبَاذَرٍؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ یَنْظُرُ اِلٰی اَحَدِھِمْ اَحَبُّ اِلَّی اللّٰہِ مَنْ یَنْظُرُ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ نَّظَرَ اِلَیْہِ فَکَاَنَّمَا یَنْظُرُ اللّٰہِ وَمَنْ سَتَرَہٗ فَکَانَّمَا سَتَرَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ اَطْعَمَہٗ فَکَانَّمَا اَطْعَمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ اِنْ شِءْتَ اَزِیْدُکَ یَا اَبَاذَرٍؓ قَالَ قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَاحِدُ یَجْلِسُ اِلَیْھِمْ قَوْمٌ مُّعِزِّیْنَ مُثْقِلِیْنَ مِنَ الذُّنُوْبِ یُغْفَرُ مَا یَقُوْمُوْنَ مِنْ اَحَدٍ عِنْدَھُمْ اِلَّا الْمُخَفِّفِیْنَ فَاعْلَمْ اَنَّ اَرْبَابَ الْقُلُوْبِ یُکَاشِفُوْنَ بِاَسْرَارِ الْمَلَکُوْتِ تَارَۃً عَلٰی سَبِیْلِ الرُّؤْیَاءِ الصَّالِحَۃِ وَ تَارَۃً فِی الْیَقْظَۃِ عَلٰی سَبِیْلِ کَشَفِ الْمَعَانِیْ بِمُشَاہِدَۃِ اْلَامْثَلَۃِ کَمَا یَکُوْنَ فِی الْمَنَامِ وَ ھٰذَا مِنْ اَعْلَی الدَّرَجَاتِ وَ ھِیَ دَرَجَاتِ النُّبُوَّۃِ الْعَالِیَۃِ کَمَا اَنَّ الرُّؤْیَآءِ الصَّالِحَۃِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّۃِ اَرْبَعِیْنَ وَھِیَ مِنَ النُّبُوَّۃِ فَاِیَّاکَ وَ اِنْ کَانَ خَطَاءُکَ یَکُوْنُ مِنَ الْعِلْمِ وَ اِنْ کَانَ کُلُّ مَا جَاوَزَ حَدَّ قَصُوْرِکَ قَضِیَّۃٌ ھَلَکَ الْمُتَّخِذَ بَعِیْنٍ وَالْجَھْلُ خَیْرُ مِّنْ عَقْلٍ یَدْعُوْنَ بِہٖ اِلَی الْاِنْکَارِ مِنْ ھٰذَہِ الْاُمُوْرِ الْاَوْلِیَآءِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ اَنْکَرَ ذَالِکَ الْاَوْلِیَاءِ لَزِمَہٗ اِنْکَارُ الْاَنْبِیَآءِ وَکَانَ خَارِجًا مِّنَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔‘‘
ترجمہ: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے ابوذرؓ اکیلے چلا کرو۔ اللہ آسمانوں میں تنہا ہے اور تم زمین پر تنہا ہو لہٰذا تنہا ہی رہو۔ اے ابوذرؓ! بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے ابوذرؓ! کیا تمہیں میرے غم و فکر سے آگاہی ہے کہ میں کس چیز کے لیے مشتاق ہوں۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ہمیں اپنے غم و فکر اور اشتیاق سے آگاہ فرمائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’آہ آہ آہ! میرا اشتیاق میرے ان بھائیوں سے ملاقات کے لیے ہے جو میرے بعد آئیں گے۔ وہ انبیاء جیسی شان کے مالک ہوں گے اور اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ شہدا جیسا ہوگا۔ وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور بیٹوں سے دور رہیں گے اور اللہ کی خاطر اپنا مال و دولت ترک کریں گے اور اپنے نفسوں کو تواضع سے بدل دیں گے اور شہوات اور حصولِ دنیا کی طرف راغب نہیں ہوں گے اور حبِ الٰہی کے باعث اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر میں مغموم و محزون جمع ہوں گے۔ ان کے قلوب اللہ کی طرف راغب ہوں گے، ان کی ارواح اللہ کی جانب سے ہوں گی اور ان کے اعمال اللہ کی خاطر ہوں گے۔ جب کوئی ان میں سے بیمار ہوگا تو وہ بیماری اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہوگی۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے نزدیک ان کی بزرگی اس قدر ہے کہ اگر ان میں سے کوئی فوت ہو جائے گا تو گویا آسمان والوں میں سے کوئی فوت ہو گیا ہو۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’کیوں نہیں‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی جوں ان کے لباس میں گھس کر انہیں کاٹے گی تو اللہ کے نزدیک اس (تکلیف) کا اجر ستر حج اور عمرہ کے برابر ہوگا اور ان کے لیے اولادِ اسماعیل سے چالیس غلام آزاد کرانے جتنا اجر ہوگا اور ہر غلام کی قیمت بارہ ہزار دینار ہوگی۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’کیوں نہیں‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جب ان میں کوئی اہلِ محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے جو سانس لے گا تو ہر سانس کے بدلے اس کے لیے ہزار درجات لکھے جائیں گے۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ حضرت ابوذرؓ نے عرض کی ’’کیوں نہیں‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر ان میں سے کوئی جبلِ عرفات پر عبادتِ حق کی غرض سے دو رکعات نماز ادا کرے گا تو اس کے لیے حضرت نوح ؑ کی ایک ہزار سالہ عمر جتنا ثواب ہوگا۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر ان میں سے کوئی تسبیح کرے گا تو وہ تسبیح قیامت کے روز اس بات سے بہتر ہوگی کہ دنیا کے پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر ان کے ساتھ چلا کرتے۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی ان کی طرف دیکھے گا تو اللہ پاک کو یہ بات بیت اللہ کی طرف دیکھنے سے زیادہ پسند ہوگی اور جس نے انہیں دیکھا اس نے گویا اللہ پاک کو دیکھا۔ جس نے انہیں لباس پہنایا گویا اس نے اللہ پاک کو لباس پہنایا اور جس نے انہیں کھانا کھلایا گویا اس نے اللہ پاک کو کھانا کھلایا۔ اے ابوذرؓ اگر تم چاہو تو میں مزید بیان کروں۔‘‘ عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مزید ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی ایسا شخص ان کے ساتھ بیٹھے گا جو انتہائی گنہگار اور گناہوں پر بضد ہو تو اس شخص کے اُٹھنے سے پہلے اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ پس جان لو کہ اربابِ قلوب کبھی سچے خوابوں میں اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کبھی بیداری میں مشاہدہ سے ان پر معانی منکشف ہوتے ہیں جیسے کہ نیند کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اور یہ ان اعلیٰ درجات میں سے ہے جو عالی درجاتِ نبوت ہیں کیونکہ بے شک سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔ پس اگر تم کوئی خطا کرو تو وہ تمہارے اپنے علم کے (ناقص ہونے کے) باعث ہوگی اور اگر تمہارے قصور کی حد تجاوز کر جائے تو تمہارے لیے قضا(یعنی توبہ کا دروازہ کھلا ہے)ہے جبکہ اس میں پڑے رہنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ایسی عقل سے جہالت بہتر ہے جو ان اولیاء اللہ کے امور سے انکار کی طرف لے جائے اور جس نے ان اولیاء کا انکار کیا تو وہ لازمًا انبیاء کا منکر ہوگااور وہ دین سے مکمل طور پر خارج ہو جائے گا۔‘‘
فرد:

رَبِّ اَرِنِیْ نعرہ می زدان کلیم اللہ بطور
رَبِّ اَرِنِیْ یافتم من در کنارِ خود حضور
ترجمہ: موسیٰ ؑ کلیم اللہ کوہِ طور پر جا کر رَبِّ اَرِنِیْ (ترجمہ: اے ربّ ! مجھے اپنا جلوہ دکھا۔ (الاعراف۔143)کا نعرہ لگاتے تھے جبکہ میں اپنے پہلو میں ہی رَبِّ اَرِنِیْ کا نعرہ لگا کر حضورِ حق میں پہنچ گیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
ز سَافِرُوْا فَاِنَّ الْمَآءَ اِذَا وَقَفَ تَعَفَّنَ ط
ترجمہ: (راہ) چلتے رہو! بے شک پانی جب کھڑا رہتا ہے تو متعفن (بدبودار) ہو جاتا ہے۔

باب چہارم
ذکر اسم اللہ، حقیقت فقر عاشق فنا فی اللہ
جاننا چاہیے کہ جو کوئی اسمِ اللہ کے برزخ کو تصور سے اپنے دماغ پر نقش کرتا ہے وہ ہر جگہ اسمِ اللہ ہی دیکھتا ہے،اس کی آنکھ بالکل نہیں سوتی اور اسے ہر لمحہ نئی زندگی ملتی ہے اور ہر گھڑی وہ پہلے سے بہتر مقام پر ہوتا ہے۔ اس کا کھانا مجاہدہ اور اس کی نیند مشاہدہ ہوتی ہے۔ اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ قدرت سے چاہا کہ اہلِ عشق کو عالمِ موجودات میں پیدا کرے تو زمین بنائی اور اس زمین کی مٹی پر شوق اور اشتیاق کی نظر سے دیکھا۔اس نگاہ کی تجلی اور اسرارِ عشق سے وہ مٹی جنبش میں آگئی اور آغاز میں ہی عالمِ مستی میں آکر فریاد کرنے لگی:
ز اَنَا الْمُشْتَاقُ فِیْ لِقَآءِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ترجمہ: میں ربّ العالمین کے دیدارکی مشتاق ہوں۔
تب ہی اللہ نے اس زمین سے عاشق پیدا فرمائے جو آخر تک عالمِ مستی اور دریائے محبت میں غرق ہیں۔ اگر انہیں آگ میں بھی ڈالا جائے تو ایسی صد ہزار آتشِ دوزخ ان کی محبت کے باعث سرد ہو جائیں گی کیونکہ صاحبِ عشق کے سینہ سے اس قدر تیز اثر آہ نکلتی ہے کہ اس کے سامنے دوزخ کی تمام آگ بھی کچھ نہیں اور اس آتشِ محبت کے مقابلے میں کوئی بھی آگ اور سوز برتر نہیں ہے۔
جوابِ مصنف:
اس بنا پر اہلِ محبت کی عبادت خالص، بے ریا اور ربوبیت کا باطنی راز ہے اور ان کی دعا، دلیل، وھم اور مستی مقبول ہے اور اہلِ محبت کی نیند عین وصال ہے۔ جو دل محبتِ الٰہی کے باعث گرم اور پُرسوز رہتا ہے وہ جمعیت کی بنا پر دنیا اور اہلِ دنیا سے سرد رہتا ہے۔ جمعیت کسے کہتے ہیں۔ جمعیت یہ ہے کہ کُل و جز میں جو بھی ظاہری باطنی مستغرقات ہیں‘ ان کو ترک کر دے اور اپنا رُخ مولیٰ کی جانب کر کے اللہ کا جمال دیکھے۔جیسے ہی طالبِ مولیٰ کو اللہ سے جمعیت حاصل ہو جاتی ہے‘وہ دنیا سے غسل اور آخرت سے وضو کر لیتا ہے اور ماسویٰ اللہ کی تکبیرِ تحریمہ سے تمام عمر ’اللہ اکبر اسمِ اللہ ذاتی اور اسمِ اکبر صفاتی سے پڑھتا رہتاہے اور غیر اللہ کو طلاق دے دیتا ہے۔ پس صاحبِ جمعیت خالص و مخلص فقراء کی جماعت ہے وہ جس جگہ بھی ہوتے ہیں خدا کے ساتھ مشغول رہتے ہیں خواہ خشکی پر ہوں یا تری پر، خواہ نشیب میں ہوں یا فراز میں۔ پس جان کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دولتِ دنیا، عزتِ دنیا اور جاہ و حکومتِ دنیا اس کے حوالے کرتا ہے جو دنیا میں احمق، بے عقل اور بے دانش ہوتا ہے کیونکہ ہر لمحہ خود کو گناہوں میں مشغول رکھنا بے عقلوں کا ہی کام ہے جو آخرت اور روزِ حشر پر نگاہ نہیں رکھتے۔ جس کسی کو اللہ تعالیٰ فقر کے حوالے کر دیتا ہے وہ دنیا میں عقل مند اور ہوشیار ہو جاتا ہے۔ وہ طالبِ مولیٰ ہوتا ہے جو (مخلوق کو) تنگ نہ کرنے والا، پروردگار کا پرستار ہوتا ہے اور جس کا دل ذکرِ اللہ سے بیدار اور ہوشیار ہوتا ہے۔ طالبِ مولیٰ کی مراد صرف اللہ ہی ہے اس لیے اسے ہر نیک عبادت سے تمام عمر محبتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے جس سے اس کے وجود میں درد و سوزش دانۂ اسپند کی مقدار برابر پیدا ہوتی ہے۔ اگر مرشد سے ظاہر و باطن میں کوئی خطا یا غلطی سرزد ہو جائے تو طالب اسے نیک عبادت ہی سمجھے کیونکہ مرشد صاحبِ عیاں ہے اور جہاں سب کچھ عیاں ہو وہاں بیان کی کیا حاجت۔ جو طالب مرشد سے بدگمان ہوتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْھَا
جو کوئی اسمِ j کے برزخ کو تصور سے اپنے دل پر نقش کرتا ہے تو اس کے دل میں نور اور نارِ الٰہی کا ایسا شعلہ پیدا ہوتا ہے جس سے ماسویٰ اللہ ہر شے جل جاتی ہے۔ جو کوئی تصور سے اسمِ اللہ کو آنکھ پر نقش کرتا ہے وہ دل کی آنکھ سے دیکھتا اور سیر کرتا ہے، وہ جس طرف بھی دیکھتا ہے اور جو کچھ بھی جاننا چاہتا ہے اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہتا۔
چلہ تین قسم کا ہے: چلہ زنانہ‘ جس میں چلہ کرنے والا بارہ سال ایک ہی روزہ میں گزاریں اور اس کے بعد افطار کریں اور چلہ مردانہ یہ ہے کہ ہر روز بارہ سال تک ایک مادہ گائے کا گوشت بغیر فضلہ، ہڈیوں اور کھال کے‘ اور چالیس کلو گھی اور چالیس کلو آٹا‘ یہ سب چیزیں پکاکر کھائے اور پھر بھی اس کے وجود سے کسی طرح کی غلاظت خارج نہ ہو۔
بیت:
دلی پُر ز خطرہ شکم بی طعام
ریاضت بناموس کفر است تمام
ترجمہ: اگر پیٹ خالی ہو اور دل پھر بھی خطرات سے پُر ہو تو ایسی ریاضت نام اور شہرت کی خاطر ہے جو کہ مکمل طور پر کفر ہے۔
تیسرا چلہ ربانی ہے جو حق کے ساتھ یگانہ ہے جس میں باطن فقر اور اسمِ اللہ میں مکمل طور پر غرق ہوتا ہے جبکہ ظاہر عوام کی صحبت میں گزرتا ہے۔ اگر کسی کو قربِ حق ریاضت سے عطا ہوتا تو پیرانِ یہود کو حاصل ہوتا اور اگر علم سے حاصل ہوتا تو بلعم باعور کو حاصل ہوتا اور اگر طاعت سے حاصل ہوتا تو ابلیس مقہور کو حاصل ہوتا مگر یہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صرف ایک ہی لمحہ میں عطا ہونے والا فیضِ الٰہی ہے، جس کسی کو بھی اللہ چاہے عطا کرے۔ (جاری ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں