فقرا
رحمت اور نعمتِ خداوندی
تحریر: فائزہ گلزار سروری قادری۔ لاہور
اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات ہیں ان میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے محبوب کے ذریعے ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو بھی احسانات فرمائے ہیں انہیں کبھی جتلایا نہیں لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کی بعثت اور ان کے وسیلہ سے ملنے والی ہدایت کی نعمت کو بارہا جتلایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (آلِ عمران۔ 164 )
سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: ’’یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ۔فرمادیجیے! تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم (ایمان میں ) سچے ہو۔ (الحجرات۔17)
قرآنِ مجید میں مزید ارشاد فرمایا:
ترجمہ:اور اگر میرے ربّ کا احسان نہ ہوتا تو میں (بھی تمہارے ساتھ عذاب میں ) حاضر کیے جانے والوں میں شامل ہوجاتا ۔ (الصفٰت۔57)
سورۃ ابراہیم میں ایمان کی دولت کو اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت (ایمان) کو کفر سے بد ل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیا۔ (ابراہیم۔28 )
سورۃ الحجرات (آیت نمبر7-8) میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مومنوں کے درمیان موجودگی کو اپنے فضل اور نعمت سے تعبیر فرمایا جن کی بدولت مومنوں کے دلوں میں اللہ سے محبت اور غیر اللہ سے نفرت موجود ہے۔
ترجمہ: اور جان لو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) موجود ہیں ، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا اور کفر و نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفر کر دیا۔ ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت قدم اور گامزن ہیں۔ (یہ) اللہ کے فضل اور (اس کی) نعمت (یعنی تم میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت اور موجودگی) کے باعث ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔
کیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کا فیض اور ان کی موجودگی کے باعث نازل ہونے والی رحمتیں اور برکتیں صرف ان کی ظاہری حیات تک محدود تھیں اور بعد کے زمانے میں آنے والوں کے لیے اس میں کچھ حصہ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ سورۃ الجمعہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کی عالمگیریت کو یوں بیان فرمایا:
ترجمہ:وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) کو بھیجا ۔ وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر وباطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، بیشک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے)سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ اور ان میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے) بھیجا ہے جو ابھی ان لوگوں سے نہیں ملے(جو اس وقت موجود نہیں یعنی ان کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے) اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے ۔ یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد اورا ن کا فیض و ہدایت ) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (الجمعہ 2-4 )
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان’’ اور ان میں دوسرے لوگوں میں بھی (اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے) بھیجا ہے جو ابھی ان لوگوں سے نہیں ملے(جو اس وقت موجود نہیں یعنی ان کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے) اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما لینے کے بعد بھی اس دنیا میں موجود ہیں اور ہدایت کے طالبین کا تزکیہ فرما کر ان کے دلوں میں قرآنِ مجید کی حقیقی تعلیمات اُجاگر فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس کائنات میں ہمہ وقت موجودگی کے بارے میں شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* چونکہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ رسول‘ جو نئی شریعت لائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہر زمانہ میں ایک ایسا فردِ کامل ہوتا رہے گا جس میں حقیقتِ محمدیہ کا ظہور ہوگا اور وہ فنا فی رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام سے مشرف ہوگا۔ وہ فردِ کامل قطبِ زمان ہے اور ہر زمانہ میں ایک ولی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر آپ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
* حضور سرورِ کونین نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جملہ موجودات میں سرایت اس طرح ہے جس طرح اشجار میں پانی کی سرایت ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور کائنات میں ہر موجود کی بنیاد ہے) جس شجر کی جڑ سے پانی خشک ہو جاتا ہے وہ خشک ہو جاتا ہے۔
مزید فرمایا:
* ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے لیکر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔ (شرح فصوص الحکم و الایقان، فتوحاتِ مکیہ)
یہ تو صرف ایک برگزیدہ ہستی کے چند بیانات ہیں۔ تمام مشائخ سروری قادری اور دیگر نامور ہستیاں جن میں حضرت سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ، کیپٹن ڈبلیو بی سیال اور حضرت شاہ سیّد محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ کے نام قابلِ ذکر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دور میں ایک ہستی ایسی موجود ہوتی ہے جو حقیقتِ محمدیہ کی مظہر، فنا فی الرسول ہوتی ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا فرمانِ عالی شان ہے:
* ولی کامل (مرشد کامل اکمل ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوتِ باطن کا جزو ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اس (ولی کامل ) کے پاس ’’امانت ‘‘ ہوتی ہے۔ اس سے مراد علما ہرگز نہیں جنہوں نے محض علمِ ظاہر حاصل کر رکھا ہے کیونکہ اگر وہ ورثائے نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوں تو بھی ان کا رشتہ ذوی الارحام (وہ بہن بھائی جو ایک ماں اور مختلف باپوں سے پیدا ہوئے ہوں) کا سا ہے ۔ پس وارثِ کامل وہ ہوتا ہے جو حقیقی اولاد (روحانی وارث ) ہو کیونکہ باپ سے اس کا رشتہ تمام نسبی رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ علم کا ایک حصہ مخفی رکھا گیا ہے جسے علمائے ربانی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘( سرالاسرار۔فصل نمبر5 )
سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’ فقیرِ کامل (انسانِ کامل ) خلافتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے اس کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے جو کبھی سلب نہیں ہوتا اورفقیر ِ کامل دنیا میں صرف ایک ہوتا ہے جو طالبانِ مولیٰ کی راہِ فقر میں ظاہری اور باطنی راہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ شروع میں اس کی زیادہ شہرت نہیں ہوتی یہ خود کو دنیا سے چھپا کر رکھتا ہے لیکن چند سالوں کے اندر ہی اندر اس کی شہرت چار سُو پھیل جاتی ہے اور طالبانِ مولیٰ جوق در جوق اس کی طرف لپکتے چلے آتے ہیں اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ طالبانِ مولیٰ کو چلہ کشی، مشقت اور ورد و ظائف میں نہیں ڈالتا بلکہ تصور اسمِ اللہ ذات سے انہیں منزل پر پہنچا دیتا ہے۔‘‘(شمس الفقرا)
حدیثِ قدسی:
جَعَلْنَا الشَّےْخَ الْکَامِلَ مُنَافِعَ الْاِنْسَانِ کَمَاجَعَلْنَا النَّبِیَّ اٰخِرُالزَّمَانِ (ترجمہ: ہم نے شیخِ کامل کو انسان کے لیے ایسا نفع بخش بنایا جیسا کہ نبی آخرالزمان کو بنایا) میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
لیکن آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے اس احسان ، نعمت اور فضل (حقیقتِ محمدیہ کے مظہر فقیرِ کامل)کو طلب کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ’’ عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں :
* کوئی نعمت اور کوئی رحمت درویشوں کی صحبت کی نعمت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی ہر شخص جو خود کو درویش کہے یا جسے لوگ درویش کہنا شروع کردیں وہ درویش نہیں ہوتا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ’’نور الہدی کلاں‘‘ میں درویش کی پہچان بتاتے ہوتے فرماتے ہیں:
* درویش کی پہچان دو صفات سے ہوتی ہے ایک وہ اہلِ توحید ہوتا ہے اور دوسرا صاحبِ معرفت ہوتا ہے۔ درویش کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔
لیکن ہم نے دنیا کے پیچھے بھاگنا اور صرف اسی کو اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا اپنا پہلا اور آخری مقصد بنا لیا ہے اور ہمارے پاس اتنی فرصت بھی نہیں ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ہم جس چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے بھی یا نہیں۔ ہم ہدایت کو سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے طلب ہی نہیں کرتے اور صرف اس سوچ پر راضی ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ آج کل سچائی کہیں ہے ہی نہیں۔ یہی دنیا سب کچھ ہے اور اس دنیاوی زندگی کی کامیابیاں ہی حقیقی کامیابیاں ہیں، ظاہر پرستی ہی سب کچھ ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ اس صورتحال کی ایک وجہ مذہبی رہنما اور علما ہیں جنہوں نے صرف کتابیں پڑھ کر علم حاصل کر لیا ہوتا ہے۔ انہوں نے یا تو کسی فقیر ِ کامل سے تزکیہ نفس کروایا ہی نہیں ہوتا یا اگر کسی فقیر (انسانِ کامل) کے در سے جڑے بھی ہونگے تو اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے رہے ہوں گے ۔نتیجتاً اُن کے پاس وہ نگاہ ہی نہیں ہوتی جس سے وہ کسی دوسرے کا تزکیہ کر سکیں۔ وہ صرف ظاہر کو درست کرنے کے طریقے ہی بتاتے ہیں اور ایک مقام ایسا آجاتا ہے جب یہ ظاہر کی درستی خود غرضی، مفاد پرستی اور انتہا پسندی کی طرف چلی جاتی ہے اور دین کے حقیقی مقصد (اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کے قرب کی طرف بڑھنا )سے بھٹکا دیتی ہے۔ آج انسان انہی دو راستوں میں بھٹک رہا ہے۔ اسے اپنے باطن کی کچھ خبر ہی نہیں اور نہ یہ بات پتہ ہے کہ باطن کا بھی ڈاکٹر (فقیرِ کامل ) ہوتا ہے جس کے پاس جانا اور اس سے تلقین لینا بھی فرض ہے۔ یا جن لوگوں کو تھوڑا بہت باطن کے متعلق علم بھی ہے تو انہیں یہ نہیں پتہ کہ فقیرِ کامل کے اوصاف کیا ہیں؟ کون تلقین و ارشاد کرنے کا مجاز ہے اور کون نہیں؟ حقیقت میں کس حالت کو باطن کا درست ہونا کہا جا سکتا ہے؟یہی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر ہم اپنے اردگرداور اپنے درمیان ان کی موجودگی سے غافل ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا کہ کوئی بھی حق پر نہیں ہے تو پھر آسمان بارش برسانا بند کر چکا ہوتا زمین سے اناج اور سبزہ نہ اُگ رہا ہوتا اور قیامت قائم ہوچکی ہوتی ۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* دنیا کے طالب بہت ہیں اور عقبیٰ کے کم اور طالبِ مولیٰ بہت کم ہیں لیکن وہ اپنی کمی اور نایابی کے باوجود اکسیر کا حکم رکھتے ہیں ان میں تانبے کو زرِ خالص بنانے کی صلاحیت ہے۔ وہ بہت ہی شاذو نادر پائے جاتے ہیں ۔ وہ شہروں میں بسنے والوں پر کوتوال مقرر ہیں ان کی وجہ سے خلقِ خدا سے بلائیں دور ہوتی ہیں انہی کے طفیل اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے اور انہی کے سبب زمین قسم قسم کی اجناس اور پھل پیدا کرتی ہے۔(الفتح الربانی)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ’’محک الفقر کلاں‘‘میں فرماتے ہیں:
* ہر محلہ ہر شہر اور ہر بستی ان درویشوں کے قدموں کی برکت سے قائم ہے۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* فقر کی راہ پر چلنے والے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں اور انہی کی برکت کی وجہ سے دنیا پر عتاب نازل نہیں ہوتا، آسمان بارش برساتا اور زمین اجناس اگاتی ہے ۔ جیسے جیسے قیامت نزدیک آتی جائے گی ان کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی اور جب قیامت برپا ہوگی تو ان میں سے کوئی بھی زمین پر موجود نہ ہوگا ۔ اور جس خطہ پر اللہ تعالیٰ کا عذاب یا عتاب نازل ہونا ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ اس خطہ سے ان کو اٹھا لیتا ہے اور وہ خطہ ان کی وجود سے خالی ہوجاتا ہے۔ ان کا وجود دنیا کے لیے رحمت ہے۔ اے لوگو! ان کو تلاش کرلو اور پہچان لو اس وقت سے پہلے جب تو بہ کے دروازے وہ بے نیاز ذات بند کردے۔ یہ لوگ دنیا سے اپنے آپ کو بچائے اور چھپائے رکھتے ہیں اس لئے کہ تم ان کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو اور ان سے بے ادبی اور گستاخی تمہیں کہیں مصیبت میں نہ ڈال دے اور اب جو زمانہ گزر رہا ہے اس میں تو یہ مزید پوشیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ تمہارے دل میں ان کی طلب ہی نہیں ہے اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ (شمس الفقرا)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اپنی اُمت کو فقرا سے ملاقات کرنے اور ان کی خدمت کی تلقین فرمائی ہے۔روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاریؓ سے فرمایا:
’’اے ابوذرؓ ! فقرا وہ ہیں جن کا ہنسنا عبادت،جن کا مزاخ تسبیح اور جن کی نیند صدقہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی طرف ایک دن میں تین سومرتبہ دیکھتا ہے۔ جو کسی فقیر کے پاس ستر قدم چل کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ستر مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے اور جنہوں نے ان فقرا کو مصیبت میں کھانا کھلایا تو وہ کھانا قیامت کے دن ان کی دولت (اجر و ثواب ) میں نور کی مانند ہوگا۔‘‘
ایک اور روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: ’’(اپنے مال و دولت سے) فقرا کی خدمت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دولت فنا ہوجائے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’فقرا اور مساکین کی محبت رسولوں کے اخلاق میں سے ہے اور ان کی مجالس اخلاقِ متقین میں سے ہیں اور ان سے فرارمنافقین کی عادات میں سے ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں کہ ان کی بدولت تمام چیزوں کا وجود ہے۔ قدمِ محمدی پر ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے فقرا تمام اُمت کے لیے دونوں جہان میں رحمت بھی ہیں اور ایک نعمت بھی۔ اس دنیا میں ان کی موجودگی کے باعث ہی اللہ تعالیٰ گنہگاروں اور سر کشوں کو بھی رزق کے ساتھ ساتھ تمام نعمتوں سے نواز رہا ہے اور قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں یہ اختیار دے گا کہ جس کو چاہیں بخشوا لیں۔
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
’’جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فقرا اور مساکین کو جمع فرمائے گا تو ان سے کہا جائے گا کہ ان لوگوں کی بخشش کرا لو جنہوں نے دنیا میں آپ کو کھانا کھلایا یا پانی پلایا یا لباس پہنایا یا آپ سے کوئی مصیبت دور کی ۔پس ان کے ہاتھ پکڑو اور جنت میں داخل ہو جاؤ ۔
ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:
’’ اے عائشہؓ ! دنیا میں فقرا اور مساکین کی مجالس اختیار کرو کہ آخرت میں بھی تم ان کی مجالس میں ہوگی۔ بیشک آخرت میں ان کی دعائیں مستجاب ہوں گی اور وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میری بھی قیامت کے روز ان فقرا سے ملاقات ہوگی۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف فقرا کی فضیلت باقی اُمت پر بیان نہیں فرمائی بلکہ فقرا کے خادم کا بھی مرتبہ ہمیں بتایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت انسؓ سے فرمایا :
’’مومن(فقیر) کے خادم کے لیے دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے کے برابر اجر ہے نیز فقیر کے خادم کے لیے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں جتنا اجر ہے جن کی دعا رَدّ نہیں کی جاتی فقیر کے خادم کو حج و عمرہ کرنے والوں اور زاہدوں کے برابر اجر ملتا ہے اور ان کے لیے زمین پر ہر شہباز کے برابر اجر مقرر ہے۔ قیامت کے روز اس خادم کے لیے خوشخبری ہوگی اور اس کی شفاعت دیگر لوگوں (کے حق ) میں قبیلہ ربیع اور مضر کی بکریوں کی تعدادکے برابر قبول ہو گی۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر وہ خادم فاجر ہو تو ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ اے انسؓ ! ایسا گنہگار خادم اللہ کے نزدیک ہزار عابدوں اور مجتہدین اور حساب جاننے والوں سے افضل ہے اور خادم کے لے مخدوم کے برابر اجر ہے اور اس کے اجر میں کسی بھی چیز سے کوئی کمی نہ ہوگی۔‘‘
فقرا سے نفرت اور بغض رکھنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ان پر اللہ کی لعنت ہے جو اغنیا کی عزت ان کی غنایت (توانگری )کے باعث کرتے ہیں اور ان پر بھی اللہ کی لعنت ہے جو فقرا کی اہانت ان کے فقر کے باعث کرتے ہیں۔ ایسے شخص کو آسمانوں میں اللہ اور انبیا کا دشمن سمجھا جاتا ہے جس کی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی حاجت پوری کی جاتی ہے۔‘‘
درج بالا احادیث سے جو باتیں ہم پر واضح ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ فقرا کا مبارک وجود اس کائنات کے لیے ناگزیر ہے اور فقرا اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ہیں اور نعمت بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں اپنے بندوں پر نازل کرنے کے بعد ان عنایات کو بھول جاتا ہے اور اس کے متعلق بندوں سے کوئی سوال نہیں کرتا لیکن جب بھی وہ کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو پھر وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے اس کا شکر ادا کریں اور اس کے حضور سرِ تسلیم خم کریں تاکہ وہ انہیں مزید نوازے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’ یہ وہ لوگ ہیں جن پراللہ نے انعام فرمایا۔ انبیا میں سے آدم (علیہ السلام)کی اولاد سے ہیں اوران (مومنوں ) میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں (طوفان سے بچا کر )اٹھا لیا تھا۔اورابراہیم (علیہ السلام) کی اور اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں اوران( منتخب)لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ بنایا ۔ جب ان پر (خدائے) رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (زاروقطار) روتے ہوئے گر پڑتے ہیں۔‘‘(مریم۔58)
اسی طرح سورۃ النحل کی آیت نمبر 81 میں ارشاد فرمایا:
* کَذَالِکَ ےُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَےْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ
ترجمہ: اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمت پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کردو۔
سورۃ النحل کی ہی آیت نمبر 114 میں فرمایا:
* وَاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدْوْنَ
ترجمہ:اور اس کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس نے ہمیں موجودہ دور کے فقیر ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے در پر پہنچایا اور ان کے وسیلہ سے ہمارے زنگ آلود قلوب کو منور فرما کر اپنی پہچان اور معرفت عطا فرمائی۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ میں فقیرِ کامل کی وہ تمام صفات بدرجہ اُتّم پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ سلطان الفقر پنجم حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں فرمایا ہے۔ ہر نعمت کے شکر کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ فقیرِ کامل کی ادراکِ قلبی سے معرفت پالینے کے شکر کا بہترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کے مقام اور مرتبہ کو سمجھیں، آپ کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں اور آپ کے ہر حکم کی فوراً تعمیل کریں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذکروتصور اسمِ اللہ ذات کریں اور چاہے کچھ بھی ہو جائے شیطان، نفس کس قدر بھی زور لگا لیں اس بات کا یقین رکھیں کہ آپ مدظلہ الاقدس کی ذاتِ بابرکات ہی وہ واحد ہستی ہے جو ہمیں ہر نقصان دہ چیز کے شر سے بچا کر اللہ تعالیٰ تک پہنچا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ آپ مدظلہ الاقدس کی طرف سے عطا کردہ ڈیوٹیاں کشادہ دلی سے نبھائیں اور آپ مدظلہ الاقدس کے نورانی وجود کے آئینہ میں اپنے نفس کو پہچان کر اس کا علاج کروائیں اور راہِ فقر میں آنے والی ہر مصیبت ، مشکل اور رکاوٹ کو استقامت سے عبور کرتے چلے۔ اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے سب سے بڑی رحمت اور نعمتوں میں سے سب سے اہم نعمت کا تھوڑا سا شکر ادا کر پائیں گے ۔ یاد رکھیں اگر ہم ایسا کرنے میں خدانخواستہ ناکام ہوگئے تو روزِ قیامت ہمارے پاس اپنی کوتاہیوں کا کوئی جواب نہ ہوگا جب اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ میں نے تو تجھ تک ہدایت پہنچا دی تھی تو نے ہی اپنی انا،تکبر اور دنیا کی محبت میں ہدایت قبول نہیں کی اور خود کو ٹھیک اور میرے محبوبین(فقرا) کو برا بھلا کہتا رہا اور ان کا مذاق اڑاتا رہا۔ لہٰذا اب تیرے لیے میرے قرب میں کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی میرے دیدار کی نعمت تیرے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل فرمائے۔ (آمین)