الف
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے تحریر کردہ ابیات کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جے کر دِین عِلم وِچ ہوندا‘ تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھُو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا‘ اگے حسینؓ دے مَردے ھُو
جے کجھ ملاحظہ سرورؐ دا کردے‘ تاں تمبو خیمے کیوں سڑدے ھُو
جے کر مندے بیعت رسولیؐ، پانی کیوں بند کردے ھُو
پر صادق دین تنہاں دا باھو،ؒ جو سر قربانی کردے ھُو
سانحہ کربلا کے وقت بہت سے عالم اور فاضل یزید کی فوج میں موجود تھے جنہوں نے صرف دنیاوی جاہ و جلال اور مال و متاع کے لیے اہلِ بیتؓ کے ساتھ جنگ کی۔ آپؒ اس کائنات کے بھی اٹھارہ ہزار عالم (جہان) بیان فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائے۔ آپؒ کا اشارہ اُن اٹھارہ ہزارعالم (جہان) کی مخلوق کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔
آپؒ سانحہ کربلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر دین ظاہری علوم (علمِ شریعت‘علمِ فقہ اورعلمِ حدیث) میں ہی پنہاں ہوتا تو اہلِ بیتؓ کے مقدس سروں کو نیزوں پر نہ چڑھایا جاتا بلکہ تمام کے تمام اٹھارہ ہزار عالم حضرت امام حسینؓ کے سامنے جان قربان کر دیتے ۔اگر اِس زمانہ کے علماء اپنے دِلوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذرا سا بھی ادب اور احترام رکھتے تو اہلِ بیتؓ کے خیمے کیوں جلتے؟ اگر یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا ذرا سا بھی خیال کرتے تو پانی کبھی بند نہ کرتے۔ مگر سچا دین تو عاشقوں کا ہوتا ہے جو سر قربان کر دیتے ہیں مگر اپنے عشق پر حرف نہیں آنے دیتے۔
عاشق سوئی حقیقی جیہڑا‘ قتل معشوق دے مَنَّے ھُو
عشق نہ چھوڑے مُکھ نہ موڑے‘ توڑے سَے تلواراں کَھنّے ھُو
جِت وَل ویکھے راز ماہی دے‘ لگے اُسے بَنھے ھُو
سچا عشق حسینؓ ابن علیؓ دا باھوؒ ، سر دیوے راز نہ بَھنّے ھُو
اس بیت میں آپ ؒ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے عشقِ حقیقی کی بلندیوں کا ذکر فر مارہے ہیں :حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ امامِ وقت اور انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منصب پر فائز تھے اور انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کُن کی زبان ہوتی ہے اگر آپؓ دریا ئے فرات کو اشارہ کرتے تو وہ چل کر خیموں تک آجاتا ۔ آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی۔ کر بلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کر دیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا ۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ اسی طرف اشارہ فر مارہے ہیں کہ عاشقِ حقیقی وہی ہوتا ہے جو معشوقِ حقیقی ( اللہ تعالیٰ) کے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کرلے، اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اور باوجود تکالیف اور مصائب کے‘ نہ تو راہِ عشق سے منہ موڑے اور نہ ہی تسلیم ورضا کی راہ میں اس کے قدم متزلزل ہوں خواہ سینکڑوں تلواریں اس کے جسم کو چھلنی کر دیں۔ اصولِ عشق تو یہی ہے کہ اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :عشق اور تسلیم و رضاکے اس میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سر دے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں کیا۔