کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر35 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
ابیات:
مائل جیفہ کے شود جز سگے
کینہ وری بے خبری بدرگے
ترجمہ: کتوں کے سوا کون مردار کی طرف مائل ہوتا ہے جو کینہ پرور، غافل اور کمینہ ہوتا ہے۔
طالب دنیا کہ ز سگ کمتر است
ظاہر او گرچہ بجاہ و فراست
ترجمہ: طالبِ دنیا کتے سے بھی کمتر ہوتا ہے اگرچہ ظاہری طور پر وہ صاحبِ جاہ و فراست ہو۔
باطنش آلودہ بہ پندار او
خلقِ سگ ظاہر ز ادبار او
ترجمہ: اس کا باطن غرور کے باعث آلودہ رہتا ہے اور اس کتوں جیسے اوصاف سے ہی اس کی بدبختی ظاہر ہوتی ہے۔
بغضب و شہوت و حرص و ہوا
سیرت او چوں دد و آدم نما
ترجمہ: غضب، شہوت، حرص اور ہوس (جیسی برائیوں) کی بنا پر اس کی سیرت حیوانات کی مثل ہوتی ہے وہ محض دیکھنے میں ہی انسان ہوتا ہے۔
سیم و زرش قبلہ آرام او
گاؤ صفت خواب و خورش کام او
ترجمہ: اس کا قبلہ اور آرام گاہ مال و دولت ہوتی ہے اور جانوروں کی مثل اس کا کام محض کھانا اور سونا ہوتا ہے۔
روز و شبش صرف بغفلت مدام
با زن و بچہ دل او گشتہ رام
ترجمہ: اس کے شب و روز ہمیشہ غفلت میں گزرتے ہیں اور عورتوں اور بچوں سے ہی اس کا دل سکون پاتا ہے۔
رفت ز یادش غم نزع و ممات
غافل و مخذول ز راہِ نجات
ترجمہ: وہ موت اور نزع کی تکلیف کو بھول چکا ہوتا ہے اس لیے راہِ نجات سے غافل اور بے پرواہ ہوتا ہے۔
عام صفت ما و توئی را گرفت
رنگ دو بینی و دوئی را گرفت
ترجمہ: عام لوگوں کی طرح وہ ’میں اور تو‘ کے چکر میں پھنس کر دوئی اور منافقت میں گھرا ہوتا ہے۔
صاف دلی را نہ شنید و نہ دید
تیرہ دلی از رخ او شد پدید
ترجمہ: دل کو صاف کرنے کی بات نہ وہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے۔ دل کی سیاہی اس کے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے۔
خانۂ عمر تو بود بر دمے
بہر دمے می طلبی عالمے
ترجمہ: تیری زندگی تو محض لمحوں پر محیط ہے لیکن تو ہر لمحہ دنیا کی طلب میں ہے۔
بہر دمے کینہ و کبر و ریا
بہر دمے ایں ہمہ حرص و ہوا
ترجمہ: اس ایک لمحے کے لیے یہ کینہ، تکبر اور ریا؟ اور اسی ایک لمحے کے لیے یہ ساری حرص اور ہوس؟
بہر دمے غصہ و بد خوئی است
بہر دمے با ہمہ بے روئی است
ترجمہ: اس ایک لمحے کے لیے یہ غصہ اور بدخوئی؟ اور اس ایک لمحے کے لیے یہ بے روی؟
بہر دمے ایں ہمہ شر و فساد
ہفت ہزارے شدنت اجتہاد
ترجمہ: اس ایک لمحے کی خاطر یہ شر اور فساد؟ اور اس کی خاطر یہ ہزاروں اجتہاد؟
حیف بریں دانش و آئین تو
کور شدہ دیدئہ حق بین تو
ترجمہ:ـ تیرے اس اصول اور عقل پر افسوس جس کی وجہ سے تو حق دیکھنے سے اندھا ہو چکا ہے۔
دنیا خوار را جواب خوار تر
ملعونست در نظر عارفان بابصر
ترجمہ: دنیا خوار ہے اور یہ بدلے میں شدید خوار کرتی ہے۔ اس لیے صاحبِ بصیرت عارفین کی نظر میں یہ ملعون ہے۔
حرص دنیا دل گرفتہ از ریا
چوں ز دل دنیا رود محرم خدا
ترجمہ: دل کو دنیا کی حرص اور ریا نے جکڑا ہوا ہے۔ جیسے ہی دل ان سے نجات حاصل کرتا ہے وہ خدا کا محرم ہو جاتا ہے۔
جان لو کہ دنیا اپنے طالب کو انائے شیطانی کی شراب کا جام پلاتی ہے اور طالب اس مستیٔ خام میں تمام عمر گزار دیتا ہے اور کبھی خود پرستی اور ہوائے مستی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ یعنی دنیا اپنی ہر شے کو خوبصورت بنا کر طالب کے سامنے پیش کرتی ہے اور اسے مال و دولت پر فریفتہ کر دیتی ہے اور ہر کھانے سے نفس کو طرح طرح کی لذت دیتی ہے اور اس کا ایمان سلب کر لیتی ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ جو کوئی میری متاع کو حاصل کرتا ہے وہ شیطان کا بھائی بن جاتا ہے پھر وہ سب سے پہلے ایمان کو ترک کرتا ہے اور بعد میں قاتل، خونی اور شدید ظالم بن جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا یَاْکُلُ الْاِیْمَانَ کَمَا تَاْکُلُ النَّارَ الْحَطَبَ
ترجمہ: دنیا ایمان کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مَظْلُوْمًا وَ لَا تَجْعَلْنِیْ ظَالِمًا
ترجمہ: اے اللہ! مجھے مظلوم بنا نہ کہ ظالم۔
جُمُوْدُ الْعَیْنِ مِنْ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ وَ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ مِنْ اَکْلِ الْحَرَامِ وَ اَکْلِ الْحَرَامِ مِنْ کَثْرَۃِ الذُّنُوْبِ وَ کَثْرَۃِ الذُّنُوْبِ مِنْ طُوْلِ الْاَمَلِ وَ طُوْلِ الْاَمَلِ مِنْ نِّسْیَانِ الْمَوْتِ وَ نِسْیَانِ الْمَوْتِ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَ حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ وَ تَرْکُ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ عِبَادَۃٍ
ترجمہ: آنکھوں کا نہ رونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے اور دل کی سختی حرام رزق کی وجہ سے ہے اور حرام رزق گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے اور گناہوں کی کثرت طویل امیدوں کی وجہ سے ہے اور طویل امیدیں موت کو بھول جانے کی وجہ سے ہیں اور موت کو بھول جانا حبِ دنیا کی وجہ سے ہے اور حبِ دنیا ہر برائی کی بنیاد ہے اور ترکِ دنیا ہر عبادت کی بنیاد ہے۔
لہٰذا دنیا کی طلب وہی کرتا ہے جو بے اعتبار ہو۔ یہ درست ہے کہ یقین کی بنیاد معرفتِ الٰہی، فقرِ محمدیؐ اور قوی دین ہے جبکہ دنیا کی بنیاد فرعون اور ابلیس لعین ہیں۔ دین اسے کہتے ہیں کہ کسی کے پاس رات کے کھانے کے لیے کچھ نہ ہو اور کوئی اسے سونا و چاندی کے ایک لاکھ دینار دے اور کہے کہ اسلام کے خلاف بول یا میرے مذہبِ بدعت میں آ لیکن وہ دینِ محمدی کو دنیا لعین کے مال کی خاطر تبدیل نہ کرے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ وہ صاحب دین پر قوی ہیں اور بے دینی کو قبول نہیں کرتے۔ مطلب یہ کہ ہر آفت، رنج، ہر فتنہ و فساد اور ہر مصیبت شیطان کی متاع ہیں اگر ان کو ایک کمرے میں جمع کر دیا جائے تو اس کی کلید یہی دنیا ہے۔ فقیر اسے کہتے ہیں جو تمام دنیا کا سونا و چاندی اور مال و دولت ایک جگہ جمع کر کے اس کے قریب بیٹھ جائے اور لوگوں میں سے جو کوئی بھی اس کے پاس بیٹھے اسے کہے کہ یہ دنیا رکھی ہے آپ جس قدر چاہتے ہیں اس میں سے لے لیں تاکہ میں اس سے نجات پائوں۔ تاہم وہ فقیر بھی جھوٹا ہے کہ اس نے اسے اپنے پاس اس لیے جمع کر رکھا ہے کہ اس کے دل میں اس کی محبت ہے۔ اس لیے فقیر وہ ہوتا ہے کہ اگر اس سے کوئی کہے کہ دنیا اختیار کرو ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا تو پھر بھی وہ دنیا کو ہرگز اختیار نہ کرے اگرچہ اس کا سر گردن سے جدا کر دیا جائے۔ یہ بھی کامل فقیر نہیں بلکہ متوسط درجے پر ہیں۔ فقیرِ کامل وہ ہے کہ تمام دنیا کو ایک جگہ جمع کرے اور ایک ہی بار میں لوگوں میں فی سبیل اللہ تقسیم کر دے اور اس پر بھی اس کا نفس پریشان نہ ہو۔ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظیم سنت ہے۔ ابیات:
دنیا کہ دو روزہ کاخ و کوخ است
در راہِ محمدیؐ کلوخ است
ترجمہ: دنیا، اس کی بلند عمارتیں اور جھونپڑے محض دو دن کے ہیں اور راہِ محمدیؐ میں مٹی کے ڈھیلے کی مانند ہیں۔
او کہ آبِ حیات عشق خوردہ
استنجا ازیں کلوخ کردہ
ترجمہ:ـ جس نے عشق کا آبِ حیات پی لیا ہو وہ مٹی کے ان ڈھیلوں (یعنی بلند و بالا عمارتوں اور مال و دولت) سے استنجا کرتا ہے۔
جان لو کہ دنیا کی جڑ جہالت، تکبر، شرک اور کفر ہے کیونکہ دنیا کافروں کا ورثہ، فخر اور عزت ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا، شیطان اور نفسِ امارہ تینوں نے اخلاص کے ساتھ یکجا ہو کر اولادِ آدم کو گمراہ کرنے پر اتفاق کر رکھا ہے یہ تینوں مردود ہیں۔ دنیا اپنے نازک بدن کو آراستہ کر کے اور اپنے چہرے کو حسن و زینت سے سجا کر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے اور اکثر لوگوں کا دل قابو کر کے انہیں اپنی قید میں لے آتی ہے۔ جو بھی دنیا کی قید میں آجائے خطراتِ شیطانی، وسوسہ و وہماتِ نفسانی اور حرص، حسد، طمع، ہوس اور تکبر اس کے وجود کو جکڑ لیتے ہیں اور وہ انانیت کا شکار ہو کر راہِ راستی سے مکمل طور پر ہٹ جاتا ہے اور ہر علم سے ہمیشہ یہی حجت اور شیطانی حیلہ کرتا ہے کہ مرشد کے وسیلہ اور اس کی ہدایت کی کیا ضرورت؟ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (سورۃ المائدہ۔35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اس (اللہ) کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وسیلہ سے مراد علم ہے۔ جبکہ علم وسیلہ نہیں ہے۔ علم شریعت کی شاہراہ ہے اور مرشد اس شاہراہ کا وسیلہ اور راہبر ہوتا ہے جو اپنے لشکر کے ہمراہ شیطان سے حفاظت کرتا ہے اور اس کے پاس اتنی قوت ہوتی ہے کہ اس راہ سے سلامتی سے گزارتا ہے اور معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی کی حضوری تک امن و سکون سے پہنچا دیتا ہے۔ صاحبِ ارشاد مرشد بہت ہیں اور صاحبِ ولایت اور صاحبِ روایت بہت کم ہیں اور صاحبِ روایت کا علم اس کے مرشد و پیر کے فیضِ ہدایت کی بدولت ہوتا ہے۔ بے پیر و مرشد شیطان ہوتا ہے جس پر یومِ آخرت تک لعنت ہے اور وہ پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ اس لیے بے پیر و مرشد نہیں ہونا چاہیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَوْ کَانَ الْعِلْمُ بِدُوْنِ التَّقْوٰی لَکَانَ شَرْفُ عَلٰی خَلْقٍ اِبْلِیْسِ مَلْعُوْنٍ
ترجمہ: اگر تقویٰ کے بغیر علم کو بزرگی حاصل ہوتی تو ابلیس ملعون کو تمام مخلوق پر بزرگی حاصل ہوتی۔
لہٰذا ہدایت کے لائق صرف علما ہیں کیونکہ جاہلوں کے لیے ہدایت کسی کام کی نہیں۔ اِس زمانہ میں علم کتابوں میں (محدود) ہے اور علما عامل طالبانِ مولیٰ قبروں میں ہیں۔ یہ ظاہری علما نفسِ امارہ کی قید میں ہیں اور بادشاہ کے قرب اور حضوری کے خواہشمند ہیں یا روزی معاش اور لذیذ کھانے پینے کی فکر میں مبتلا ہیں اور دنیاوی درجات میں ترقی کی خاطر نمازِ استخارہ پڑھتے ہیں اور اپنا رُخ معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدیؐ کی طرف نہیں کرتے۔ وہ زمین، وظیفے، کھیتی اور ربیع و خریف کی فصل کے طلب گار ہوتے ہیں۔ افسوس اور ہزار آہ! کہ دنیا عالموں اور لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ اے گمراہ! طلبِ دنیا بدعت کی جڑ ہے اور طلبِ مولیٰ ہدایت کی جڑ ہے۔ اہلِ بدعت اور اہلِ ہدایت کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ’’شیطان تمہارا دشمن ہے اس سے خبردار رہو اور اپنے دل کو دنیا سے الگ کر لو اور نفسِ امارہ کی اتباع نہ کرو‘‘۔ جو شخص خلافِ قرآن شریف کام کرتا ہے وہ نہ تو عالم و عامل ہے اور نہ وارثِ انبیا و باطن صفا فقیرِ کامل۔ پس علما عامل کی کیا نشانی ہے؟ ان کی زبان پر ہمیشہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا کلام، علمِ تفسیر اور مسائلِ فقہ کا علم رہتا ہے۔ انبیا کے وارث صاحبِ د رد علما ہیں جن کی آنکھیں ہمیشہ خوفِ خدا سے روتی رہتی ہیں۔
بیت:
ذرہ درد خدا در دل ترا
بہتر از ہر دو جہان حاصل ترا
ترجمہ: تیرے دل میں خدا کے لیے درد کا ایک ذرہ بھی دونوں جہان کے حاصل ہونے سے بہتر ہے۔
بلاشبہ جو علما عامل ابتدا میں مرشد سے ہدایتِ الٰہی طلب کرتا ہے وہ انتہا میں فقیرِ کامل بن جاتا ہے۔ پس جو علما عامل نہیں وہ محض علم کے حامل ہیں جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (سورۃ الجمعہ۔5)
ترجمہ: ان کی مثال اُس گدھے سی ہے جس نے کتابوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔
فقیرِ کامل عارف باللہ کو سات چیزوں سے پہچانا جا سکتا ہے اوّل وہ صاحبِ تقلید نہیں بلکہ صاحبِ توحید ہوتا ہے اور ہر مشکل کام کے قفل کی کلید اس کے پاس ہوتی ہے جس سے ہر مشکل کام اللہ کے کرم سے آسان ہو جاتا ہے۔ دوم ہر مٹھی بھر غلے کو ڈھیر میں تبدیل کر سکتا ہے۔ سوم وہ صاحبِ نظر ہوتا ہے۔ چہارم وہ صاحبِ شریعت ہوتا ہے۔ پنجم وہ لایحتاج ہوتا ہے اگرچہ خود ضرورت مند ہو لیکن اپنے طالبوں کو لایحتاج بنا دیتا ہے۔ ششم وہ راست گو اور ثابت قدم ہوتا ہے، حق کی پیروی کرتا ہے اور باطل و بدعت سے بیزار ہوتا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا۔ اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔
ہفتم وہ صاحبِ خلق اور صاحبِ جمعیت ہوتا ہے اور باطن کی انتہا پر حق تعالیٰ کے ساتھ یکتا ہوتا ہے۔
وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
اگر توُ آئے تو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری تک پہنچ جائے گا جو کہ رحمت کا راز ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے۔
حکایت ہے کہ دو طالب اپنے مقاصد کی غرض سے ایک باصفا درویش کی خدمت میں گئے اور اس کے پاس رہنے لگے۔ ایک کا ماننا تھا کہ روزی وہی ملتی ہے جو ازلی تقدیر میں لکھ دی گئی ہو جبکہ دوسرا اسے درویش کی کرامت پر منحصر سمجھتا تھا۔ ایک روز اس درویش نے شفقت فرمائی اور اس طالب کے پاس گئے جو روزی کو ولی کی کرامت سمجھتا تھا اور خادموں میں سے ایک خادم سے فرمایا کہ ایک تربوز کو اندر سے خالی کر کے جواہرات سے پرُ کر دو۔ خادم نے تربوز کو خالی کیا اور قیمتی جواہرات سے پرُ کر کے جلدی سے درویش کی خدمت میں پیش کر دیا۔ درویش نے وہ تربوز اُسی وقت اس طالب کو عطا کر دیا جو کہ تربوز کی حقیقت سے ناواقف تھا۔ اس نے مفلسی و بدحالی کی بنا پر وہ تربوز ایک سبزی فروش کو ایک ٹکے میں فروخت کر دیا۔ دوسرا طالب جو ازلی نصیب کا قائل تھا وہ اسی وقت وہاں پہنچا اور وہی تربوز سبزی فروش سے خرید لیا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ خادم جو تربوز کی حقیقت سے واقف تھا پہلے طالب کے پاس گیا تاکہ درویش کی اس پوشیدہ عطا کی حقیقت اس پر عیاں کرے اور اس سے انعام لے لیکن طالب خادم کو تنہا دیکھ کر غصے سے بولا کہ درویش نے مجھے ایک تربوز عطا کیا جو میں نے ایک ٹکہ میں فروخت کر دیا۔ خادم یہ سنتے ہی حیرت زدہ رہ گیا اور تمام حقیقت بتا دی جس کا اب کوئی فائدہ نہ تھا۔ اس راز سے آگاہی پر طالب بہت زیادہ افسردہ ہوا اور سبزی فروش کے پاس گیا اور تربوز واپس مانگا۔ سبزی فروش نے کہا کہ تربوز امانت تو نہیں تھی کہ جس میں خیانت کا ڈر ہوتا۔ تم سے خریدا اور کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دیا۔ طالب اس خریدار یعنی دوسرے طالب کے پاس گیا اور تربوز طلب کیا۔ اس دوسرے طالب نے جواب دیا کہ یہ نعمت ازلی نصیبہ تھا جو مجھ تک پہنچ گیا۔ دونوں طالبوں کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا اور اس معاملہ کو درویش کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ واقعہ سن کر درویش کو تعجب ہوا اور اس تربوز کو خریدار طالب کے حوالے کر دیا جو اللہ کی عطا پر ایمان رکھتا تھا۔
ابیات:
رزق ہر چند باسباب تعلق دارد
روزِ میثاق اسباب ہائے مسبب انگیخت
ترجمہ: اگرچہ رزق اسباب سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان اسباب کو بھی روزِ میثاق مسبب نے پیدا فرمایا۔
ہمہ عالم ز دل و جان بسبب بستہ کمر
کمتر است آنکہ دل و جان بمسبب انگیخت
ترجمہ: تمام عالم دل و جان سے اسباب کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن دل و جان سے مسبب کی طرف جانے والے لوگ بہت کم ہیں۔
جوابِ مصنف:
ہیچ آفریدہ حق از رزق و منصب خالی نیست
می دانی کہ ہر تن انسان از سر خالی نیست
ترجمہ: جیسے توُ جانتا ہے کہ کسی بھی انسان کے وجود کو سر کے بغیر پیدا نہیں کیا گیا اسی طرح حق تعالیٰ نے کوئی بھی انسان ایسا پیدا نہیں فرمایا جسے رزق اور منصب سے محروم رکھا ہو۔
جو اپنے سر کو خواہشات سے خالی کرتا ہے اس کا سر خزائنِ الٰہی کے اسرار سے پرُ ہو جاتا ہے۔ وہ جس جگہ بیٹھتا ہے اور جس طرف دیکھتا ہے خاک کو اپنی نظر سے سونا بنا دیتا ہے جیسا کہ (اس فارسی ضرب المثل میں) کہا گیا:
خاک بردار از تودہ کلاں
ترجمہ: یعنی فقرا کی بڑی باتوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں لازمی سیکھ لیا کرو۔
(جاری ہے)