بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
Bazm-e-Sultan-ul-Ashiqeen
قسط نمبر 5 مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
اہلِ سنت کے امام اور صوفیا
بات چل نکلی کہ اہلِ سنت کے امام صوفیا کو مانتے ہیں کہ نہیں، فرمایا: حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ پہلے اولیا کرام سے دور رہتے تھے۔ پھر حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کچھ عرصہ بیٹھے تو آپ کو ایمان کی حلاوت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد جو بندہ بھی آپ کے پاس آتا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں پوچھتا تو آپ اس کو حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھیجتے اور جو صرف علم سیکھنے آتا اسے اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ان کے شاگردوں کو غیرت آئی کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کا اتنا اعلیٰ مقام ہے۔ جواب دیا تمہیں کیا خبر! مغز تو انہی کے پاس ہے اور وہ ہے اللہ کی معرفت۔
یہ وہ عالم ہیں جو اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچتے تھے۔اپنی ذات سے اوپر اُٹھ چکے تھے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مشائخ کو دیکھا جائے تو پہلا نام حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کا آتا ہے۔ حضرت بہلولؒ دانا دریائے فرات کے کنارے پھرتے تھے، مجذوب تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے کہ اگر میں بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کے پاس دو سال نہ گزارتا تو تباہ ہو جاتا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے اگر میرا کوئی اجتہاد قرآن اور حدیث کے خلاف ہو تو اسے اٹھا کر دیوار پر پھینک دو۔
ایک صوفی اپنے مریدین کے ہمراہ مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے، ان کا ارادہ ایک دعوت میں شرکت کا تھا۔ ابوالمعالی امام الحرمین نمازِ فجر ادا کر کے مسجد میں بیٹھے اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے۔ صوفیا کو دعوت میں جاتے دیکھا تو اپنے دل میں کہا ’’ان لوگوں کو دعوتیں اڑانے اور حال و قال کے سوا اور کوئی کام نہیں۔‘‘ دعوت سے فارغ ہو کر شیخِ طریقت کا امام الحرمین کے پاس سے پھر گزر ہوا تو امام الحرمین سے کہا: جناب فقیہہ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو صبح کی نماز جنابت کی حالت میں پڑھے اور پھر اسی طرح مسجد میں بیٹھا درس دیتا رہے اور غیبت بھی کرے۔ ایک طرف جناب شیخ با تیں کرتے جاتے تھے دوسری طرف امام الحرمین پر اپنی حقیقت کھلتی جاتی تھی کیونکہ انہیں یاد آ گیا کہ ان پر غسل فرض تھا اور بے خیالی میں نماز بھی پڑھ لی اور درس بھی شروع کر دیا۔ شیخ نے ادھر بات پوری کی ادھر انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور صوفیا کے معتقد ہو گئے۔ عالم کو اپنے علم پر تکبر ہوتاہے جو کسی صوفی کی نگاہ اور توجہ سے ہی دور ہوتا ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ اور اللہ کا دیدار
فرمایا: امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ میں نے 100 مرتبہ اللہ تعالیٰ کا خواب میں دیدار کیا ہے۔ دیدار کے لغوی معنی لگاتار دیکھنے کے ہیں۔ اللہ کی پہچان، دیدار کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اور یہ ایسی لذت ہے کہ اس جیسی کوئی لذت نہیں۔سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا فرمان مبارک ہے :
جو اللہ کو پہچانے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرے وہ ریاکار ہے۔
عہدِ الست بھی اللہ کی پہچان کا عہد ہے۔ اسی عہد کو یاد کرانے انبیا کرامؑ آتے رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اب اولیااللہ کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔علما دیدار کا انکار اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو کبھی دیدار ہوتا ہی نہیں۔ یہ وہ امانت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے اور یہ لوگ صاحبِ امانت صوفیا کے پاس جانا شرک سمجھتے ہیں۔ جن کو دیدار ہو گیا وہ پھر سب کچھ چھوڑ کر اپنے مرشد کے پاس آ گئے۔
محفوظ دین
فرمایا: آج اگر دین محفوظ ہے تو انہی چار اماموں کی وجہ سے ہے۔ اب کوئی نیا فقہ ایجاد نہیں ہو سکتا۔ ہر فرقہ کو کسی نہ کسی امام کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ آجکل نظریات لوگوں کے اپنے ہوتے ہیں اور کوئی طریقہ کسی امام کا لے لیتے ہیں اور کوئی طریقہ کسی امام کا۔ حالانکہ یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ اس طرح تو انسان اپنے نفس ہی کی پیروی کرتا ہے کہ جس کی چیزاپنی طبیعت کے مطابق ہوئی اپنا لی۔ کسی ایک امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ چاروں آئمہ میں سے ہر ایک کا مذہب حق ہے۔
جاننا، پہچاننا اور ماننا
فرمایا: درجات کے لحاظ سے پہلے جاننا ہوتا ہے پھر پہچاننا ہوتا ہے اور تیسرا درجہ ماننا ہے۔ ماننا سے مراد ایمان ہے۔ جو پہچان کے ساتھ لگا رہتا ہے وہ مان جاتا ہے۔ اصل بات ہے مان لینا اور ماننے کے بعد ہی محبت کا سفر شروع ہوتا ہے اور محبت کے بعد پھر انسان عشق کے مقام پر پہنچتا ہے۔ اسی طرح ابو لہب تھا وہ جانتا تھا کہ حضورؐ سچے ہیں لیکن اس نے مانا نہیں۔ جان تو ہر کوئی لیتا ہے اور کچھ پہچان بھی لیتے ہیں لیکن ماننے والے بہت کم ہوتے ہیں اور وہی عاشق ہوتے ہیں۔
لوگ تو نبیوں کو نہیں مانتے تھے۔ ابوجہل کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی ہیں لیکن میں مانوں گا نہیں۔ اللہ فرماتا ہے۔
یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ (سورۃ الانعام ۔20)
ترجمہ: وہ اس (نبیؐ) کو ویسے ہی پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔
یعنی یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے یہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہچان بھی لیا لیکن پھر بھی نہیں مانا۔ اسی طرح اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے والد اور چچا یہ بات جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہی رسول ہیں جن کے بارے میں یہودی عالم ہمیشہ بتاتے رہے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہا کے والد نے کہا کہ ہم نے ان کو ماننا نہیں کیونکہ وہ ہم میں سے نہیں۔
ایسے ہی لوگ آجکل اولیا کو جانتے ہیں لیکن مانتے نہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مرشد اپنے مریدین میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی امت میں۔
اللہ کے کلام کا طریقہ
فرمایا: اللہ پاک تین طریقے سے بات کرتا ہے:
(۱) پہلا وحی کے ذریعے اللہ پاک خود کلام کرتا ہے
(۲) دوم فرشتے کے ذریعے
(۳)سوم پردے کے پیچھے سے
وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ (سورۃالشوری۔51)
ترجمہ: اور ہر بشر کی مجال نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اس کے اذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔
اللہ پاک جس سے کلام کرتا ہے وہ نبی یا رسول ہوتا ہے، رسول جس سے کلام کرتا ہے وہ صحابی ہوتا ہے اور صحابی جس سے کلام کرتا ہے وہ تابعی ہوتا ہے۔
وھم
فرمایا: وھم باطن میں اللہ سے ہم کلام ہونے کو کہتے ہیں۔ انسان کا جو بھی ظاہر و باطن میں سوال ہو اس کا جواب اللہ سے پاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے فقرا کا وجود ہی کوہِ طور ہے جدھر وہ اللہ سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’معرفت وھم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ جس ذات کا طالب سنتا رہتا ہے وھم سے وہی ذات اندر ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ کشف اور الہام سے اعلیٰ ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں یکطرفہ ہوتے ہیں جبکہ وھم دو طرفہ ہوتا ہے۔
صاحب
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَ مَا غَوٰی (سورۃ النجم۔2)
ترجمہ: تمہارے صاحب نہ بہکے نہ گمراہ ہوئے۔
اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو’’صاحب‘‘کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب معراج سے واپس تشریف لائے تو کفار نے اعتراض کیا۔ تب اللہ نے فرمایا تمہارے صاحب نہ بہکے اور نہ بھٹکے۔ بلکہ آپ تو میرے حکم سے بات کرتے ہیں اور جو میں کہتا ہوں وہی کہتے ہیں۔ اور جو دیکھتے ہیں وہی کہتے ہیں۔
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (سورۃ النجم۔ 3)
ترجمہ: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کلام فرماتے اس کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱)حدیث
(۲)حدیث ِقدسی
(۳)قرآن
قابَ قوسین
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ (سورۃ النجم8-9)
ترجمہ: پھر وہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
اللہ اور اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ عربی میں ’’قابَ قوسین‘‘ محاورے کے طور پر استعمال ہوتا تھا کہ اگر بتانا مقصود ہو کہ بہت کم مقدار میں۔ پھر اللہ نے فرمایا ’’اَوْ اَدْنٰی‘‘۔اس کا ترجمہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے ہیں یا اللہ جانتا ہے وہ کتنے قریب ہوئے۔ یہ قربت ایسی تھی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا:
یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ (سورۃ الفتح۔10)
ترجمہ: ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
’’اَوْ اَدْنٰی‘‘ میں جو قرب ہے وہ فاصلے سے نہیں بتایا جا سکتا۔ فاصلہ عالمِ خلق میں ہوتا ہے جبکہ یہ واقعہ عالم ِامر کا ہے، لامکان کا ہے۔
فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی (سورۃ النجم۔10)
ترجمہ:پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔
یعنی اللہ نے اپنے حبیبؐ کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ محب و محبوب کے درمیان ایسے راز ہوتے ہیںجن کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی، یہ وحی بے واسطہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیا ن کو ئی واسطہ نہ تھا اور یہ خدا اور رسولؐ کے درمیان کے اَسرار ہیں جن پر اُن کے سوا کسی کو اطلاع نہیں۔
حضور نے جو دیکھا اس کو جھٹلایا نہیں۔
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی (سورۃالنجم۔ 11)
ترجمہ: دل نے اسے جھوٹ نہ کہا جو (ان کی) آنکھ نے دیکھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اسی سنت پر طالبِ مولیٰ عمل کرتا ہے اور جو راز اللہ اس پر کھولتا ہے اُسے جھٹلاتا نہیں۔
صدیق کا لقب
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو معراج کے واقعے سے ہی صدیق کا لقب ملا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت جبرائیلؑ امین سے ارشاد فرمایا ’’اے جبرائیلؑ! میری قوم (واقعہ معراج میں) میری تصدیق نہیں کرے گی۔‘‘ جبرائیلؑ نے فرمایا ’’ابوبکرؓ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب معراج ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اہلِ مکہ سے بیان کیا تو سب مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور معراج کا واقعہ بیان کیا اور پوچھا اب بتائیں کیا یہ ممکن ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے جواب دیا ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بھی فرماتے کہ انہیں اہلِ خانہ سمیت معراج ہوئی تو میں پھر بھی تصدیق کرتا۔ ‘‘ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہٗ کو صدیق کا لقب عطا ہوا۔
معراج کی ایک حکمت
جو معراج کرائی گئی تھی اگر ظاہری طور پر نہ کرائی جاتی تو لوگوں نے تو دیدار سے انکار ہی کر دینا تھا۔ یہ اس لیے بھی کرائی گئی تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ دیدار ہو سکتا ہے۔معراج اللہ تعالیٰ کا راز ہے اللہ پاک خود کہہ رہا ہے کہ ابھی تک جھگڑ رہے ہیں:
اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی (سورۃالنجم۔ 12)
ترجمہ: تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور اللہ کا دیدار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بیہوش نہیں ہوئے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشریت سے باہر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام کو کوہِ طور پر جوتے اتارنے کا کہا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جوتوں سمیت تشریف لے گئے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے:
فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ (سورۃالبقرہ۔253)
ترجمہ: ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دعا مانگنی پڑی میری زبان کی گرہ کھول دے جبکہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ نے خود ہی کہہ دیا کہ آپ کا سینہ کھول دیا گیا:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (سورۃالم نشرح۔ ۱)
ترجمہ: کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ کشادہ نہ کردیا؟
شرح صدر سے مراد باطن کھولنا ہے۔ اللہ کی معرفت بیان کرنا مشکل ترین کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ باطن کھول دے تو اللہ کی ذات بلا حجاب نظر آنا شروع ہو جائے۔
نور اور بشر
صحابہ کرامؓ نے قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سیکھا۔ صحابہ کرامؓ کے دل پر قرآن اترا جبکہ علما کرام کے دماغ پر اترتا ہے۔ جب قرآن دل پر نہ اترے تو پھر جھگڑے جنم لیتے ہیں ۔ اسی لیے ملّا نور اور بشر کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہر انسان نور بھی ہے اور بشر بھی۔ بشریت کے متعلق اللہ فرماتا ہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ (سورۃالرحمن۔ 14)
ترجمہ:اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجنے والی سوکھی مٹی سے پیدا کیا۔
جہاں تک نور کی بات ہے تو اللہ نے فرمایا:
وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ (سورۃالحجر۔ 29)
ترجمہ: اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں۔
اسی کے متعلق اللہ فرماتا ہے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (سورۃالبقرہ۔ 156)
ترجمہ:ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
قرآن تو اللہ کا کلام ہے، ادھر تو لوگ اقبالؒ کے کلام کی شرح نہیں کر سکتے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی مثال لے لیں کہ ابتدا کے طالب کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کی علیحدہ سمجھ آتی ہے، متوسط پر علیحدہ معانی کھلتے ہیں جبکہ انتہا والے کو علیحدہ معنی سمجھ آتے ہیں۔ اس لیے قرآن سیکھنا ہے تو خود کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس تک پہنچانا پڑے گا۔ تبھی اصل معنی سمجھ آئیں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سایہ نہ تھا
حضور کی ذات مبارکہ مکمل نور ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسم ہی بہت لطیف تھا۔ جسد مبارک میں کثافت نہ تھی۔ اللہ کا نور کوئی برداشت نہیں کر سکتا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے انسان کو پیدا کیا۔ انسان میں یہ عنصر ہیں۔
صوفیا علم کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟
فرمایا: حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:
ہم نے علم حاصل کیا حی القیوم ذات سے۔
مولانا روم فرماتے ہیں:
ما ز قرآن مغز ہا برداشتیم
استخوان پیشِ سگاں انداختیم
یعنی ہم نے قرآن سے اسکا مغز یعنی اصل (essence) کھینچ لیا ہے اور ہڈی کتوں کے سامنے پھینک دی۔
(جاری ہے)
Very good blog
Behtareen Bohot khoob 🌹🌹
بہترین
انمول موتی
Bohat alla
حضور نے جو دیکھا اس کو جھٹلایا نہیں۔
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی (سورۃالنجم۔ 11)
ترجمہ: دل نے اسے جھوٹ نہ کہا جو (ان کی) آنکھ نے دیکھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اسی سنت پر طالبِ مولیٰ عمل کرتا ہے اور جو راز اللہ اس پر کھولتا ہے اُسے جھٹلاتا نہیں
شرح صدر سے مراد باطن کھولنا ہے۔ اللہ کی معرفت بیان کرنا مشکل ترین کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ باطن کھول دے تو اللہ کی ذات بلا حجاب نظر آنا شروع ہو جائے۔
سبحان اللہ
سبحان اللہ
صوفیا علم کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟
فرمایا: حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:
ہم نے علم حاصل کیا حی القیوم ذات سے۔
حضور کی ذات مبارکہ مکمل نور ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔
Sultan ul Ashiqeen murshid kamil akmal
🩷🩷