کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


5/5 - (6 votes)

کلید التوحید (کلاں)  ( Kaleed ul Tauheed Kalan )

قسط نمبر14                                                                                                                         مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

مجھے ان احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو طالبوں کے اصول اور ان کی اہمیت نہیں جانتے اور نہ ہی ابھی تک مرتبہ طالبی پر پہنچے ہوتے ہیں اور مرشد سے ہدایت پانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہیں خدا سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔ یہ احمق بیعت کی اہمیت نہیں جانتے کہ اس کا کیا مرتبہ ہے۔ جب کوئی شخص کسی مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے تو اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جو مرشد دستِ بیعت سے قدرتِ الٰہی کی معرفت تک نہیں پہنچاتا وہ دشمنِ خدا ہے جس کی دنیا و آخرت خراب ہے۔ وہ اٹھارہ ہزار عالموں میں شرمندہ اور روسیاہ ہوگا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (سورۃ الفتح۔10)
ترجمہ: ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

ذیل میں جن مقامات کی شرح بیان کی جا رہی ہے وہ یہ ہیں: مرشد کی رہنمائی میں خانہ کعبہ کی طرف سفر اور روضہ رسولؐ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت، داخلی طواف، دعائے حج اور جبلِ عرفات پر خطبہ سننا اور طواف کے دوران حجرِ اسود کو بوسہ دینا اور ختمِ طواف کے لیے دو رکعت نفل نماز ادا کرنا اور داخلی زنجیر کو توبہ کی نیت سے گلے میں ڈالناتاکہ برائیوں اور گناہوں سے نجات حاصل ہو۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (سورۃ آلِ عمران۔97)
ترجمہ: جو اس میں داخل ہو گیا امان پا گیا۔

اور خانہ کعبہ کے اندر موجود چاروں ستون جو کہ خانہ کعبہ کی دیواروں میں پوشیدہ ہیں‘ کو ادب سے بوسہ دینا ۔ مطلب یہ کہ جس کسی کو قدرتِ الٰہی سے بذریعہ خواب، مراقبہ یا قلبی الہام اشارہ دیا گیا ہو وہ حکمِ الٰہی سے اس سفر پر جاتا ہے یا وہ خواب یا مراقبہ یا الہام سے اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے تحقیق کرتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے حکم دے رہے ہیں کہ وہ زیارت و طوافِ خانہ کعبہ کرے یا پھر یہ کہ مرشد طالبِ مولیٰ کو اجازت دے اور وہ اس سفر پر روانہ ہو اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کرے جو کہ زندہ ہیں اور دنیا و آخرت میں شفاعت فرمانے والے ہیں‘ اور ہر منزل و مقام پر خانہ کعبہ کا طواف کرے اور جب اس مقام پر پہنچے تو اسے چاہیے کہ ذکر و فکر اور جمعیت سے نماز اور سجود ادا کرے اور عبادتِ معبود سے وجود کو پاک کرے اور جو قدم بھی اٹھائے وہ شوقِ دل اور محبتِ الٰہی میں اٹھائے تو اس کے لیے مبارک باد ہے۔

جان لو کہ بلاشبہ خانہ کعبہ اور حرمِ مدینہ روضۂ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دونوں مقامات حرمین شریفین اور پاک ہیں۔ جب تک طالب حرمین شریفین تک نہ پہنچے اسے چاہیے کہ رات دن استغفار کا ورد کرے اور کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے توبہ کر کے وجود کو پاک کرے اور پھر جب قبلہ کے سامنے پہنچے تو سجدہ کرے جس سے کافر نفس مسلمان ہو جائے گا اور کافر و یہود صفت خصلت سے آزادی حاصل کر کے اپنے مقصود تک پہنچ جائے گا۔ جو بھی طوافِ خانہ کعبہ کے دوران اس خوبی کا حامل ہو جاتا ہے وہ روشن ضمیر ہو جاتا ہے اور اس کے حجاب اور پردے ہٹ جاتے ہیں اور خانہ کعبہ اور تمام حرم میں نماز کے دوران اسے تجلیاتِ ذات دکھائی دیتی ہیں اور فرشتے اس کے گرد آواز دیتے ہیں کہ تیرا طواف قبول ہے اور نماز میں سجدہ کے دوران حرم میں اسے الہام ہوتا ہے:
لَبَّیْکَ یَا اَسْعَدَ عَبْدِیْ 
ترجمہ: اے میرے نیک بندے! میں حاضر ہوں۔
تو جو کچھ چاہتا ہے مجھ سے طلب کر تاکہ میں تجھے عطا کروں۔ یہ وہ مراتب ہیں جس کے متعلق فرمانِ الٰہی ہے:
مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (سورۃ آلِ عمران۔97)
ترجمہ: جو اس میں داخل ہو گیا امان پا گیا۔

یہ سب مرشد کی عطا ہے کہ وہ تصور اسمِ اللہ ذات سے حیاتِ قلب عطا فرماتا ہے اور جس وقت طالب میدان میں حاجیوں کی صفوں میں حبلِ عرفات پر خطبہ سنتا ہے اور جب وہ  لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ  دعا پڑھتا ہے تو فرشتے اسے واضح طور پر آواز دیتے ہیں کہ اے فلاں! تیرا حج قبول ہے اور تو اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور برگزیدہ ہے اور جب وہ حرمِ مدینہ میں داخل ہوتا ہے تو واضح طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات و مصافحہ کرتا ہے اور اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم سے ملتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے دستِ بیعت فرما کر تعلیم و تلقین سے سرفراز فرماتے ہیں اور اسے منصب اور مراتبِ ولایت و ہدایت سے ممتاز فرماتے ہیں۔ اس کا دل غنایت حاصل کر لیتا ہے اور تب حرمِ روضہ مبارک سے اُسے رخصت و اجازت حاصل ہوتی ہے کہ صدقِ ارادت سے جس وقت چاہے مراقبہ میں مستغرق ہو اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہو کر عرض و التماس کرے اور طریقِ تحقیق سے جواب باصواب حاصل کرے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے کہتا ہے نہ کہ اپنی خواہش سے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔  (سورۃ النجم۔3)
ترجمہ: اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔

اور جب وہ اپنے اصل وطن میں گھر واپس لوٹتا ہے تو یہ عظیم سنت ادا کرتا ہے کہ جو مال بھی اس کے گھر پر موجود ہوتا ہے سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آلِ عمران۔92)
ترجمہ: تم ہرگز  اَلْبِرّ (یعنی اللہ کی ذات) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کردو۔

ایسا حاجی مقبولِ حرم اور صاحبِ کرم ہوتا ہے۔ وہ غازیِ نفس ہوتا ہے اس کے وجود میں ہوا و ہوس باقی نہیں رہتی اور نہ اس کے پاس مالِ دنیا ہوتا ہے اور نہ وہ حشرگاہِ حساب گاہ کا رخ کرتا ہے۔ جس کا وجود ذکرِ اللہ سے پاک ہو چکا ہو اسے محاسبۂ قیامت کا کیا ڈر۔
اَلْمُفْلِسُ فِیْ اَمَانِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ: مفلس اللہ کی امان میں ہوتا ہے۔
اہلِ دنیا شیطان ملعون کی قید میں ہوتے ہیں۔
بیت:

حج بہرش از خدا حاضر رسولؐ
ایں مراتب حاجیان اہل الوصول

ترجمہ: حج اللہ اور اس کے رسول کے سامنے حاضر ہونے کا نام ہے اور ایسا حج صاحبِ وصال حاجیوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔

ایسا حج اور طواف اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف ہونا اہلِ دل کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ 
ابیات:

می خواستم کہ رفتہ کنم کعبہ را طواف
کعبہ جواب داد بما دل بیار صاف

ترجمہ: میں چاہتا تھا کہ طوافِ کعبہ کے لیے جاؤں۔ کعبہ نے جواب دیا کہ میری طرف آنے سے پہلے دل کو صاف کر۔ 

کعبہ دوام حاضر بازندہ دل طواف
آنست صاف دل کہ کند نفس را خلاف

ترجمہ: زندہ دل والوں کے سامنے کعبہ ہر دم حاضر ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کا طواف کرتے ہیں۔ صاف دل وہ ہوتا ہے جو نفس کے خلاف چلتا ہے۔ 

باھوؒ من غلام از نبیؐ حاضر نبیؐ
دم جدائی نیست مارا از نبیؐ

ترجمہ: اے باھوؒ! میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غلام ہوں اور ان کے سامنے حاضررہتا ہوں۔ میں ان سے ایک لمحہ کے لیے بھی جدا نہیں۔

برائے نام حاجی بہت ہیں جو صرف پیغام کی حد تک رہتے ہیں جبکہ بے حجاب حاجی وہ ہے جو (دیدار میں) کامل مکمل ہو چکا ہو۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

نیز شرح مرشد و طالب

جان لو کہ مرشد اِن عظیم مراتب کا حامل ہونا چاہیے تاکہ ظاہر و باطن میں طالب کے احوال سے غافل نہ ہو۔ مرشد اُسے کہتے ہیں کہ اگر طالب سے کوئی کوتاہی، خطا یا گناہِ صغیرہ یا کبیرہ سرزد ہو جائے تو مرشد کو بذریعہ کشف معلوم ہو جائے اور اسی وقت مرشد طالب کے وجود میں ظاہر ہو کر اسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کر کے طالب کے گناہ بخشوا لے۔ اس طریقے سے صاحب ِقوت و جامع مرشد سالہا سال دن رات اپنی توجہ، تصرف اور تصور سے طالب کے باطنی وجود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں لے جاتا ہے جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس طالب کو اپنی تعلیم و تلقین سے سرفراز فرماتے ہیں۔ اس کے بعد طالب تمام گناہوں سے تائب ہو جاتا ہے اور واصلانِ حق میں سے ایک ہو جاتا ہے۔ جان لو کہ جامع اور صاحبِ قوت و صاحبِ باطن مرشد کے لیے لازم ہے کہ طالبوں کو پہلے ہی روز تصور اسمِ اللہ  ذات اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی قوت و تاثیر سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جائے اور خود کو بھی درمیان سے نکال لے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دست ِ بیعت کروا کر تعلیم و تلقین کروائے۔ جس کو چاہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نواز دیں اور جس کو چاہیں نکال دیں۔ مطلب یہ کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسوٹی کی مثل ہے۔ بعض طالب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار سے صادق اور باصفا دل ہو جاتے ہیں اور اپنے چھوٹے بڑے تمام مطالب پا لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ترک و توکل اختیار کر کے غرق فی التوحید نور ہو جاتے ہیں اور ادب و یقین کے ساتھ مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری حاصل کر لیتے ہیں۔ بعض کاذب۱؎ (یہاں کاذب طالب سے مراد وہ طالب ہے جو اللہ کا طالب ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے۔ ایسا طالب مرشد کی مہربانی سے مجلسِ محمدیؐ میں پہنچ تو جاتا ہے لیکن چونکہ مجلسِ محمدیؐ ایک کسوٹی ہے اس لیے اس کا کذب ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کا دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے جس کے بعد اسے مجلسِ محمدیؐ سے نکال دیا جاتا ہے۔ سروری قادری مرشد سراپارحمت و سخاوت ہوتا ہے، وہ کاذب طالب کو اس لیے بھی مجلسِ محمدیؐ کی حضوری سے نوازتا ہے کہ شاید اس مجلس کی برکت سے اس کے اندر سے کذب و نفاق نکل جائے۔ اگر طالب اپنی طلب میں ناقص ہو لیکن مرشد سے مخلص ہو اور اس پر اور اس کی عطا کردہ حضوری پر یقین رکھتا ہو تو نہ صرف اس کے اندر سے کذب و نفاق نکل جاتا ہے بلکہ وہ اپنی طلب میں بھی کامل ہو جاتا ہے۔ )  جب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچتے ہیں جہاں آیاتِ قرآن و حدیث کا ذکر اور ورد ہو رہا ہوتا ہے لیکن نفاقِ دل کی بدولت انہیں اس پر یقین نہیں ہوتا اسی بنا پر وہ مرتبہ محمود سے گرد کر مردود اور مرتد ہو جاتے ہیں۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ 

ابیات:

مرشدی راہبر چنین باشد رفیق
طالبان را می کند وحدت غریق

ترجمہ: مرشد رفیق بن کر ایسی راہبری کرتا ہے کہ اپنے طالبوں کو وحدت میں غرق کر دیتا ہے۔

از وجودی غلط بیرون برکشد
باذکر جاروب در دل می کند

ترجمہ: مرشد طالب کے وجود سے غلاظت باہر نکال دیتا ہے اور ذکر کے ذریعے جھاڑو کی مثل دل کی صفائی کر دیتا ہے۔

علم بہر از معرفت ذکر خدا
عارفان را از علم جان و دل باشد صفا

ترجمہ: علم اللہ کے ذکر اور معرفت کی خاطر حاصل کرنا چاہیے۔ عارفین کے دل اور جان علم کی بدولت پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔

بے علم ہرگز نیابد راز راہ
جاہلان محروم از وحدت الٰہ

ترجمہ: بے علم ہرگز راہِ حق کا راز نہیں پاتا اسی لیے جاہل لوگ وحدتِ الٰہی سے محروم رہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ:
اَلْعِلْمُ نَتِیْجَۃُ الْحِلْمِ 
ترجمہ: علم وہ ہے جو حلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔

یہ نیک صفات اور احوال مجلسِ محمدیؐ کی برکت سے وجود میں پیدا ہوتے ہیں جو وجود کو اکسیر بنا دیتے ہیں جیسا کہ ذوق و شوقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، معرفت و وصالِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، جمعیت و جمالِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، جیسے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصاف طالب کے وجود میں ظاہر ہوتے ہیں (طالب کو) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رضا حاصل ہو جاتی ہے اور اس کا ہر کام ناشائستہ چیزوں سے فارغ ہو جاتا ہے۔ وہ ہر ظاہر و پوشیدہ مرتبہ سے بذریعہ کشف آگاہ ہو جاتا ہے۔ جب عارف باللہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہ دعا یا بددعا کے لیے لب نہیں کھولتا کیونکہ اسے شرم آتی ہے۔ اہل ِ حضور کو عرض سے کیا سروکار؟ دعا و بددعا کشف و کرامات کے اظہار کے لیے ہیں اور اہلِ حضور اس سے ہزار بار استغفار کرتے ہیں کہ ان کی نظر و نگاہ اسمِ اللہ  ذات پر ہوتی ہے ان کو کشف و کرامات سے کیا سروکار؟ مطلب یہ کہ اہلِ حضور کو مقامِ وحدانیت سے وھم ہوتا ہے چنانچہ جیسے ہی وہ وھم کی حالت میں داخل ہوتے ہیں ان کے مشکل کام وھم کی بدولت حل ہو جاتے ہیں اور ہر ظاہر و پوشیدہ شے انہیں دکھائی دینے لگتی ہے۔ معرفتِ الٰہی اور قرب و وصال کی بدولت اہلِ حضور کی سوچ اس قدر مکمل ہوتی ہے کہ جس کام کے متعلق وہ سوچتے ہیں وہ بغیر کسی رکاوٹ اور تاخیر کے اسی وقت مکمل ہو جاتا ہے۔ اہلِ حضور کی ہر دلیل دل سے ہوتی ہے ایسا دل جو نورِ ذکر میں غرق ہوتا ہے۔ دل اور حضوری سے حاصل ہونے والی دلیل دونوں ربّ جلیل کے ہمراہی ہوتے ہیں۔ جو بھی کام ان کی دلیل بن جاتا ہے وہ اسی وقت مکمل ہو جاتا ہے۔ صاحبِ باطن و صاحب ِ حضور عارف باللہ حضوری کے سلک سلوک کے ذریعے ہر لحظہ و ہر ساعت دائمی شوق و سرور سے اللہ کے ذکر اور اس سے ہم کلامی میں مشغول رہتا ہے۔ اس کے ابتدائی مراتب مومن کے ہیں جس کے متعلق کہا گیا ہے:
اَلْمُؤْمِنُ مِرْأَۃُ الْمُؤْمِنْ 
ترجمہ: مومن مومن کا آئینہ ہے۔

اس کے متوسط مراتب عاشق مومن کے ہیں۔
اَلْعِشْقُ نَارٌ یَحْرِقُ مَاسِوَی الْمَحْبُوْبِ 
ترجمہ: عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر شے کو جلادیتی ہے۔

اور اس کی انتہا عارف باللہ مومن ہوتی ہے۔ اور یہ سب مراتب مومن فقیر کے مراتب کی ابتدا کے برابر بھی نہیں کیونکہ فقیر کے مراتب ذکر سے حاصل ہونے والے مراتب سے بالاتر ہیں اور فقیر نورِ توحید میں غرق ہو کر نور بن چکا ہوتا ہے۔ یہ فنا فی اللہ اور حضوری میں غرق ہونے کے مراتب ہیں۔ ہر مراتبِ کبریٰ و صغریٰ، علوی و سفلی، ظاہری و باطنی، ادنیٰ و اعلیٰ سروری قادری فقیر کو حاصل ہوتے ہیں جو مقرب الحق ہوتا ہے اور سروری قادری اسے کہتے ہیں جو حق تعالیٰ سے علم سیکھتا ہے اور صاحبِ تقویٰ ہوتا ہے۔ اسے روزِ ازل سے ہی اصل تقویٰ و ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
لَا رَیْبَ ج گ فِیْہِ ج  ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ لا۔ (سورۃ البقرہ۔2)
ترجمہ: اس (کتاب یعنی قرآن) میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے۔

جو روزِ ازل سے ہی متقی ہو وہ اللہ کی رحمت، فیض اور فضل کا حق دار ہوتا ہے۔ جان لو کہ جن ارواح کو روزِ ازل حضور علیہ الصلوٰ ۃوالسلام نے تلقین فرمائی وہی اصل محمدی ہیں۔ دیگر ارواح وہ ہیں جب ماں کے پیٹ میں آتی ہیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انہیں ماں کے پیٹ میں ہی تعلیم و تلقین فرماتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلشَّقِیُّ مَا فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ وَ السَّعِیْدُ مَا فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ 
ترجمہ: شقی ماں کے پیٹ سے ہی شقی پیدا ہوتا ہے اور سعید ماں کے پیٹ سے ہی سعید پیدا ہوتا ہے۔

جب ماں کے پیٹ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے تلقین کر لیتے ہیں اور وہ اسعد اور سعید ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زبانِ مبارک سے اس کے کان میں پہلی اذان دیتے ہیں اور اس کے بعد مزید تعلیم و تلقین سے نوازتے ہیں۔ طالبِ مولیٰ وہ ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع کرنے والا اولیٰ ولی اللہ ہوتا ہے کہ اس سے نیک اعمال انجام پاتے ہیں اور اگر اس سے کوئی سہو، گناہ یا غلطی ہو جائے تو وہ اللہ سے خوفزدہ ہوتا اور استغفار کرتا ہے۔ جب وہ بالغ ہوتا ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے دوبارہ خواب میں تعلیم و تلقین فرماتے ہیں اور کمال مہربانی کرتے ہوئے اسے فرماتے ہیں کہ میرا ہاتھ تھام لو۔ پھر مزید فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ میرے دستِ مبارک پر بیعت کرو تاکہ مخلوقِ خدا کی مدد کر سکو۔ اس وقت منصب سے سرفراز فرمانے کے بعد اسے حضرت پیر شاہ محی الدینؓ کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور حضرت پیر دستگیرؓ اسے اپنا مرید بناتے ہیں اور نعمتِ الٰہی سے مزید نوازتے ہیں اور زندگی میں اور موت کے بعد بھی اپنی نظر سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ اسی وجہ سے اسے سروری قادری کا خطاب دیا جاتا ہے۔ میرا یہ قول میرے حال کے مطابق ہے۔ سروری قادری کو چار مراتب سے پہچانا جا سکتا ہے اوّل یہ کہ وہ شہسوارِ قبور ہوتا ہے اور ارواح سے ملاقات کرتا ہے، دوم یہ کہ وہ ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور ہوتا ہے، سوم یہ کہ وہ ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے اور اس کا وجود مغفور ہوتا ہے، چہارم یہ کہ اس کی زبان پر اللہ اور اس کے رسول کا کلام اور نص و حدیث اور تفسیر کی باتیں ہوتی ہیں۔ سروری قادری طالبِ مولیٰ بغیر ریاضت و محنت کے معرفت و وِصالِ الٰہی تک پہنچ جاتا ہے جو کہ رجعت اور زوال سے پاک ہے۔ اے ناقص و خام خیال! یہ سروری قادری کے مراتب ہیں۔ سروری قادری کے لیے اس کے حال کا علم ہی کافی ہے۔ میرا یہ قول میرے حال کے مطابق ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

(جاری ہے)

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں