حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.4/5 - (110 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات

 Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط نمبر 3                                                                              تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

 حضرت عثمانؓ کا حضرت علیؓ سے تعلق اوران پر مکمل اعتماد 

 چند واقعات بیان کئے جائیں گے جن کا مقصد یہ واضح کرناہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کس قدر اعتماد کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی مدد کے لئے کوشاں رہتے تھے اور کس طرح باغیوں کے آگے دیوار بن کر کھڑے رہے۔ مزید واقعات و احادیث سے یہ ثابت کیا جائے گاکہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ یعنی دو بھائیوں کا ذکر کیا جائے گا جن کا رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ مضبوط تھاکیونکہ وہ رشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کے قدموں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ اور ان کی جوتیاں ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ یہ دوبھائی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ہیں۔ 

خلافت سے پہلے کا تعلق

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے تعلق حضرت عثمانؓ کو خلافت ملنے سے بھی پہلے کاہے۔ دونوں کے گھر ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کیا، پھر حضرت رقیہؓ کے وصال کے بعد دوسری صاحبزادی حضرت اُمِ کلثومؓ سے ان کا نکاح کیا۔ علامہ سیوطیؒ نے لکھاہے کہ اولادِ آدم میں صرف حضرت عثمانؓ کو ہی یہ فضیلت حاصل ہے کہ جن کے گھر نبی کی دو صاحبزادیاں ہیں۔ جبکہ حضرت علیؓ کے گھر سیدۂ کائنات حضرت فاطمہؓ تھیں۔ 

جب حضرت علیؓ کا نکاح طے پایا تو حق مہر ادا کرنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس کچھ نہ تھا۔ آپؓ اپنی زرّہ بیچنے بازار چلے گئے۔ حضرت عثمانؓ کو جب پتا چلا تو آپؓ فوراً بازار گئے اور حضرت علیؓ سے زرّہ اس قیمت پر خرید لی جتنی کہ آپ کرم اللہ وجہہ کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ پھر حضرت علیؓ کو وہی زرّہ تحفہ میں دے دی۔ یہ واقعہ سیدّنا حضرت علیؓ یوں بیان فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے مطابق میں بازار گیا کہ اپنی زرّہ بیچ سکوں۔ میں بازار میں ابھی گھوم ہی رہا تھا کہ حضرت عثمانؓ آ گئے اور انہوں نے مجھ سے بازار آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے بتایا کہ زرّہ بیچنی ہے تا کہ شادی کے اخراجات پورے ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے اصرار کیا کہ زرّہ انہیں بیچ دوں۔ میں نے وہ زرّہ چار سو درہم میں حضرت عثمانؓ بن عفان کے ہاتھ فروخت کر دی۔ میں نے جب درہم لے لیے تو عثمانؓ نے مجھ سے زرّہ لے لی اور کہا:
’’اے علیؓ! زرّہ اب میری ہو گئی ہے اور درہم آپ کے ہو گئے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’جی بالکل آپ نے حق فرمایا۔ ‘‘
حضرت عثمانؓ نے کہا ’’چونکہ اب میں اس زرّہ کا مالک ہوں اس لئے یہ زرّہ اب میری طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہے۔ ‘‘

سیدّنا علیؓ فرماتے ہیں ’’میں نے درہم اور زرّہ لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ زرّہ اور درہم آپؐ کو پیش کر دیئے اور حضرت عثمانؓ نے جو حسنِ سلوک میرے ساتھ کیا تھا یعنی رقم بھی مجھے دے دی اور زرّہ بھی، اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دی۔ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے لیے دعا ئے خیر فرمائی۔جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نکاح حضرت فاطمتہ الزہراؓ سے ہوا تو حضرت عثمانؓ گواہ بنے۔ 
 حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ کو ویسے بھی تحائف دیتے رہتے تھے جس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا تعلق بہت گہرا اور مضبوط تھا۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک اونٹنی بطور سواری ہدیہ دی۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے، آپ رضی اللہ عنہٗ کے پاس ایک اونٹنی تھی، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا یہ اونٹنی کہاں سے آئی؟آپ کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا یہ مجھے حضرت عثمانؓ نے دی ہے۔

دورِ خلافت میں حضرت عثمانؓ کا حضرت علیؓ سے تعلق

دونوں ہستیاں عشرہ مبشرہ میں شامل، دونوں نے ہجرت کی، دونوں کو شہادت کا رتبہ ملا، ایک کی شہادت مدینہ میں ہوئی تو دوسری ہستی کی شہادت کوفہ میں ہوئی اگرچہ قتل کرنے والا گروہ ایک ہی ہے، دونوں کا شمار خلفائے راشدین میں ہوتا ہے، ایک حیا و سخاوت کے علمبردار تو دوسرے بابِ فقر اور شجاعت کے تاجدار، ایک نے قرآن کی حفاظت کی تو دوسری ہستی نے اشاعت و طبع کر کے امت کے حوالے کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’بخدا! حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے مخلص اور سچے دوست تھے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 463)

سچے دوست کی نشانی اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے تو سب سے پہلے بیعت کرنے والے حضرت علیؓ تھے اور بعد میں باقی صحابہؓ نے بیعت کی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد شوریٰ نے نئے خلیفہ کا فیصلہ کرنا تھا۔ شوریٰ نے فیصلہ کی ذمہ داری حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے سپرد کر دی۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے مجمع میں حضرت عثمانؓ سے فرمایاکہ ہاتھ بڑھائیے آپ ہمارے خلیفہ ہوں گے۔ اس طرح انہوں نے فوراً بیعت کر لی۔ جب حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا نام سنا تو فوراً مجمع کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور باقی سب سے پہلے بیعت کر لی۔ 

ایک طرح سے تو حضرت علیؓ نے ہی پہلے بیعت کی تھی کیونکہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف توانتخاب کرنے والے تھے۔ اس سلسلہ میں بخاری شریف میں روایت درج ہے:
 حضرت عبدالرحمنؓ نے فرمایا : اے عثمانؓ! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی کرم اللہ وجہہ نے بھی ان سے بیعت کی،پھر اہلِ مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔ (بخاری 3700)

اس سلسلہ میں ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
لوگ حضرت عثمانؓ کی طرف بیعت کی غرض سے بڑھنے لگے اور سب سے پہلے آپؓ کے ہاتھ پر سیدّنا علیؓ نے بیعت کی۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد4، حصہ ہفتم، ص 149) 

حکیم محمود احمد ظفر لکھتے ہیں:
سیدّناعبدالرحمنؓ اس وقت منبر کی اس سیڑھی پر تھے جہاں جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف فرماہوا کرتے تھے اور عثمانؓ اس سے نچلے درجے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سیدّنا عبدالرحمنؓ کے منہ سے یہ بات سن کر لوگوں کے ایک اژدھام نے سیدّناعثمانؓ کو گھیر لیا اور باری باری ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے لگے۔ سب سے پہلے جس ہستی نے سیدّنا عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی وہ سیدّنا علیؓ بن ابی طالب تھے۔ (امیر المومنین سیدّنا علیؓ) 

ابنِ سعد نے ایک روایت لکھی ہے:
عمرو بن عمیرۃ بن ہنی مولائے عمرؓ بن خطاب نے روایت کی ہے کہ میں نے لوگوں میں سب سے پہلے علیؓ کو دیکھا کہ انہوں نے عثمانؓ سے بیعت کی، پھر پے در پے لوگ آئے اور انہوں نے بیعت کی۔ (بحوالہ طبقات ابن سعد، جلد دوم، حصہ سوم ص 136)

تاریخ الخلفا میں ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے پوچھا کہ آپ مجھے کن کی بیعت کا مشورہ دیتے ہیں (یعنی خلیفہ کسے چنا جائے) تو حضرت علیؓ نے فرمایا ’’حضرت عثمانؓ‘‘۔ 

حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں حضرت علیؓ ان کے مشیرِ خاص تھے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کو احکام اور حدود کے نفاذ کے علاوہ خلافت کے دیگر امور کی انجام دہی کی ذمہ داری سونپی۔ پروفیسر محمد جاوید اکرم حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت عثمان غنیؓ کسی شخص کو شرعی سزا دینے کا فیصلہ کرتے تو اکثر یہ سزا حضرت علیؓ کے ذریعے اور مشورے سے دیتے۔ (حضرت علی شیرِ خدا، ص 109) 

اس سلسلہ میں ایک روایت درج کی جا رہی ہے۔
ابو ساسان الرقاشی خصین بن المنذر کہتے ہیں: میں حضرت عثمانؓ بن عفان کی بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوا۔ وہاں ولید بن عقبہ کو لایا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی اور حمران بن ابان اور ایک دوسرے آدمی نے اس کی شہادت دی تھی۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’اس پر حد جاری کرو‘‘۔ حضرت علیؓ نے عبداللہ بن جعفرؓ کو ولید کو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ عبداللہ نے کوڑے مارنے شروع کر دیئے اور حضرت علیؓ شمار کرتے رہے حتیٰ کہ حضرت علیؓ نے چالیس تک شمار کیا پھر فرمایا ’’رک جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے (شراب نوشی کی سزا کے طور پر) چالیس کوڑے مارے، ابوبکرؓ نے چالیس کوڑے مارے، عمرؓ نے اپنے دورِخلافت میں چالیس کوڑے مارے پھر اس کی تعداد پوری اَسی(80) فرمادی۔ اور یہ سب سنت ہیں اور مجھے یہ تعداد (چالیس) زیادہ پسند ہے۔‘‘ (کنزالعمال 13686)
اس کے ساتھ ساتھ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے دور میں اپنے بیٹوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ مل کرجہاد میں شرکت کی۔ 
 ارمان سرحدی لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں بھی حضرت علیؓ نے اپنے آپ کو خدمتِ اسلام کے لیے وقف رکھا۔ (سیدّنا حضرت علی المرتضی)

حکیم محمود احمد ظفر لکھتے ہیں:
تاریخ کے رپورٹر اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ سیدّنا علیؓ بن ابی طالب سیدّنا عثمانؓ کے ایامِ خلافت میں ان کے مشیرِخاص رہے اور ایامِ فتنہ میں ان کے مددگارِ خاص تھے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ (معاذاللہ) آپ کرم اللہ وجہہ یہ سب کچھ منافقت سے کر رہے ہوں کیونکہ آپ تو للہیت اور خلوص کا ایک مینار تھے اور خوف و ڈر کی وجہ سے بھی آپ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ آپ ’’اسداللہ‘‘ (اللہ کے شیر) تھے اور اللہ کا شیر کبھی کسی سے نہیں ڈرتا۔ (امیر المومنین سیدّنا علیؓ، ص 248)

حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ کو ہر اچھے موقع پر یاد رکھتے جیسا کہ ایک عام انسان بھی اپنے بھائی یا بہترین دوست کو یاد رکھتاہے۔ اسحاق بن عبداللہ بن حارث اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جناب حارث حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی جانب سے طائف کے گورنر تھے۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے لیے کھانے کا اہتمام کیا اور اس میں چکوروں، جنگلی چڑیوں اور نیل گائے کا گوشت تیار کروایا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلوا بھیجا کہ وہ بھی دعوت میں شریک ہوں۔ قاصد جب ان کے پاس پہنچا تو وہ اپنے اونٹوں کے لیے پتے جھاڑ رہے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے ہاتھ ( پتوں کے گرد و غبار سے)جھاڑتے ہوئے تشریف لائے۔ حضرت عثمانؓ نے ان سے کہا : کھائیے ! تو حضرت  علیؓ نے فرمایا کہ وہ احرام میں ہیں اس لئے نہیں کھا سکتے۔ (سنن ابی داؤد 1849)

عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہٗ کسی علاقے سے فاتح ہوکر مدینہ منورہ آئے تو آپؓ نے سب مدینہ والوں کو تین ہزار درہم بھجوائے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھی تین ہزار درہم بھیجے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ حضرت عبداللہ بن عامر سے ناراض ہوئے اور فرمایا ’’علیؓ کے ساتھ یہ سلوک۔‘‘ آپؓ نے پھر حضرت علیؓ کو بیس ہزار درہم اور کچھ دیگر تحائف بھیجے (جن کو حضرت علیؓ نے قبول فرما لیا) اور ساتھ ہی حضرت عثمانؓ نے معذرت بھی کی۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت عثمانؓ کے محاصرہ کے دوران حضرت علیؓ کا کردار

چالیس دن کے محاصرے کے دوران باغیوں نے کھانے پینے کی رسد بند کر دی تو حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کی تمام اشیا ختم ہو گئیں۔ اس سلسلہ میں امام طبریؒ لکھتے ہیں:
ان کے گھر کی ہر چیز بند کر دی گئی۔ البتہ حضرت علیؓ کچھ ضرورت کی چیزیں لے کر آتے جاتے تھے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص 440)

حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ ان لوگوں نے ہم پر پانی بند کر دیا ہے اگر آپ کرم اللہ وجہہ کے لیے ممکن ہو تو تھوڑا پانی بھیج دیں۔ حضرت عثمانؓ نے دیگر صحابہؓ اور ازواجِ مطہرات کی طرف بھی اسی قسم کے پیغامات بھیجے۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت علیؓ اور اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ مدد کے لئے آئے۔ 

باغیوں نے حضرت امِ حبیبہؓ کی شان میں سخت گستاخی کی اور ان کی سواری کے خچر کو گرا کر زخمی کر دیا جب حضرت علیؓ پہنچے تو انہوں نے باغیوں سے فرمایا:
’’اے لوگو !تم جو حرکتیں کر رہے ہو وہ نہ مومنوں جیسی ہیں اور نہ کافروں جیسی۔ تم امیر المومنین کی ضروریات تو بند نہ کرو کیونکہ روم و فارس کے بھی جو لوگ گرفتار کئے جاتے ہیں ان کو بھی کھانا پینا مہیا کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین نے تمہارا کوئی مقابلہ نہیں کیا پھر تم کس وجہ سے ان کو محصور کرنا اور قتل کرنا روا رکھتے ہو؟‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص441)

جب حضرت عثمانؓ کو قتل کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے اپنے خیرخواہوں اور گھر والوں سے مشورہ طلب کیا اور فرمایا ’’ان لوگوں نے جو کیا وہ تم دیکھ رہے ہو ، اب اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟‘‘ ان سب نے مشور دیا کہ آپ حضرت علیؓ کو بلوائیں اور ان سے کہیں کہ وہ انہیں واپس بھیج دیں اور جو وہ چاہتے ہیں وہ مطالبہ پورا کر دیں۔‘‘

چنانچہ حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کو بلایا،جب وہ آئے تو آپؓ نے ان سے فرمایا ’’اے ابوالحسن! آپ نے ان لوگوں کی باتیں سن لیں اور میری باتیں بھی آپ کو معلوم ہیں۔ اب مجھے ان سے قتل کا اندیشہ ہوا ہے اس لئے آپ انہیں میرے پاس سے لوٹا دیں۔ میں ان کی تمام شکایات دور کر دوں گا اور اپنی طرف سے اور دوسروں کی طرف سے ان کے مطالبات پورے کروں گا خواہ اس میں میری جان کا اندیشہ کیوں نہ ہو۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان لوگوں کے پاس گئے اور فرمایا:
’’اے لوگو! تم نے حقوق کا مطالبہ کیا تھا وہ پورے کئے جاتے ہیں کیونکہ امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے اور دوسروں کی طرف سے تمہارے ساتھ انصاف کریں گے اور جو باتیں تمہیں ناپسند ہیں انہیں چھوڑ دیں گے۔‘‘

اس کے بعد باغیوں نے حضرت عثمانؓ سے معاہدہ لکھوایا کہ وہ تین دن کے اندر ہر شکایت دور کریں گے۔اس طرح وہ مقابلہ سے باز آئے اور لوٹ گئے تا کہ وہ اپنے معاہدے کو پورا کر سکیں۔ (تاریخ طبری)

علامہ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ دورانِ محاصرہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس 500 زرّہ پوش جوان ہیں آپؓ اجازت دیں تا کہ میں ان باغیوں کے مقابلے میں آپؓ کا دفاع کروں ! حضرت عثمان نے جواباً فرمایا’’اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہے۔‘‘ (تاریخ دمشق ص 304)

اس بات کا انکار کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی حاکم و فرما نروا سخت مصیبت و آزمائش کے وقت صرف خاص احباب سے ہی مشورہ کرتاہے۔ جب حضرت عثمانؓ کے خلاف باغی مکمل طاقت سے جمع ہو کر آئے اور مقام ذی المروہ پرپڑاؤ ڈالا تو ان باغیوں سے مذاکرات کے لیے حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہی بھیجا۔آپ نے ان سے ملاقات میں فرمایا اللہ کی کتاب کو سامنے رکھو۔ حضرت علیؓ نے خلیفۃ المسلمین کے نمائندہ کی حیثیت سے ان سے مصالحتی معاہدہ فرمایا۔ (سیدّنا علیؓ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی)

ایک روز جب حضرت عثمانؓ منبر پر موجود تھے تو ان پر سنگباری کی گئی جس سے آپؓ زخمی اور بیہوش ہو گئے۔ اس وقت تمام اہلِ مدینہ میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا اور سب گھروں کو چلے گئے۔ اس وقت بھی حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ تاریخ طبری میں درج ہے:
جب حضرت عثمانؓ گھر میں بیہوش تھے توحضرت علیؓ وہاں گئے۔ اس وقت ان کے چاروں طرف بنو اُمیہ تھے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا ’’اے امیرالمومنین! آپؓ کا کیا حال ہے؟‘‘ (تاریخ طبری)

حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے سے پہلے باغی حضرت عثمانؓ کے گھر گھس آئے۔ باغیوں کا مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہوں۔ وہ شرا ور فساد کی نیت سے آئے تھے اور حضرت عثمانؓ کے گھر سے نہیں نکل رہے تھے تو ان کو وہاں سے نکالنے والے حضرت علیؓ ہی تھے۔ 

شہادتِ عثمانؓ اور حضرت علیؓ

جب حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا اس وقت حضرت علیؓ شدید صدمہ کی حالت میں تھے۔ 

 ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
شہادت کے بعد حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ بن عفان کے گھر آئے اور (حالتِ صدمہ میں) ان پر گر پڑے اور اتنا روئے کہ لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ بھی انہی کے ساتھ جا ملیں گے۔ (تاریخ ابن کثیر)

ابوجعفرؓ انصاری فرماتے ہیں کہ سیدّنا عثمانؓ شہید ہو گئے تو میں سیدّنا علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ نے سر پر سیاہ عمامہ باندھا ہوا تھا۔ میں نے آپ کو بتایا کہ سیدّناعثمانؓ شہید کر دیے گئے ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا:ہمیشہ ہمیشہ تک قاتلوں پر ہلاکت ہو۔ (تاریخ ابن کثیر)

ابنِ قتیبہ کے مطابق:
اس موقع پر حضرت علیؓ پر غشی کی حالت طاری ہو گئی۔ (الامامتہ والسیاستہ) 

آپ مزید لکھتے ہیں:
سیدّنا علیؓ قصر خلافت سے باہر نکلے توآپ کے ہوش و حواس گم تھے۔ (الامامتہ والسیاستہ) 

حکیم محمود احمد ظفر لکھتے ہیں:
سیدّنا علیؓ کو امیر المومنین کی شہادت کا صدمہ اس قدر ہوا کہ آپ روتے ہوئے سیدّنا عثمانؓ کی نعش مبارک پر گر پڑے۔ (امیر المومنین سیدّنا علیؓ)

حالات یہ تھے کہ باغی جنازہ پڑھنے اور کفن دفن کی اجازت نہ دے رہے تھے اور مدینہ کے لوگ بھی خوف و ہراس کی وجہ سے باہر نہ نکل رہے تھے۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے کلیدی کردار ادا کیا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر حضرت عثمانؓ کے کفن دفن اور جنازہ کا بندوبست فرمایا۔ اس وقت آپؓ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی بہت چھوٹی جماعت تھی۔

 ابنِ کثیر نے لکھا ہے:
صحابہ کرامؓ کی ایک چھوٹی سی جماعت جنازہ کے ساتھ چلی جن میں حضرت علیؓ بن ابی طالب، حکیم بن حزام، حویطب بن عبدالعزیٰ، ابوجہم بن حذیفہ، نیار بن مکرم اسلمی، جبیر بن معطم، زید بن ثابت، کعب بن مالک، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم اور حضرت عثمانؓ کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ تھے۔ (تاریخ ابنِ کثیر )

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے باغیوں کو برا بھلا کہا اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ مل کر حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے کفن دفن کا انتظام کروایا۔ صرف سترہ آدمیوں کی جماعت نے خفیہ نمازِ جنازہ ادا کر کے جنت البقیع کے نزدیک’’ حش کوکب‘‘ میں دفن کیا اور باغیوں کے خوف سے قبر کا نشان تک چھپا دیا۔ (خلفائے راشدین)

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے اس حصہ میں تشریف لے گئے جو ’’حش کوکب’’کہلاتاہے توآپ نے وہاں کھڑے ہوکر ایک جگہ پر یہ فرمایا کہ عنقریب یہاں ایک مردِ صالح دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی آپ کی شہادت ہوگئی اور باغیوں نے آپ کے جنازہ کے ساتھ اس قدر ہلڑبازی کی کہ آپ کونہ روضہ منورہ کے قریب دفن کیا جاسکا نہ جنت البقیع کے اس حصہ میں مدفون کیا جاسکا جو کبارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دورالگ تھلگ ’’حش کوکب‘‘میں آپ سپردِ خا ک کئے گئے جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی قبر مبارک بنے گی کیونکہ اس وقت تک وہاں کوئی قبر تھی ہی نہیں۔ (ازالتہ الخفا)

سیدّنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا’’اگر لوگ چاہیں تو میں ان کے سامنے بیت اللہ میں مقامِ ابراہیم کے پاس اللہ کی قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا،نہ اس کا حکم دیا بلکہ میں نے تو مفسدین کو منع کیا تھا لیکن انہوں نے میری نافرمانی کی۔‘‘ (تاریخ ابن کثیر)

ابنِ کثیر حضرت عثمانؓ کے قتل سے حضرت علیؓ کی بریت کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ بات اتنے طریق سے ثابت ہے کہ آئمہ حدیث کے نزدیک یقین و قطعیت کا فائدہ دیتا ہے۔ (تاریخ ابن کثیر)

طبری نے روایت کی ہے:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’خدا جانتا ہے کہ میں نے حضرت علیؓ کے اندر انکساری اور حضرت عثمانؓ کے لئے خیر خواہی دیکھی۔ اس کے باوجود ان پر بڑا الزام لگایا جاتا ہے۔‘‘  (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص 463)

حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا رشتہ

جو واقعات و روایات بیان کی گئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا اتنا مضبوط تعلق تھا کہ شاید ہی دو بھائیوں کا بھی ایسا تعلق ہو۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ میں ویسے بھی رشتہ داری تھی۔ حضرت عثمانؓ کی نانی اُمّ حکیم البیضاحضرت علیؓ کی خالہ تھیں یعنی والدہ کی ہمشیرہ۔ دونوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دامادی کا شرف حاصل تھا یعنی دونوں آپس میں ہم زلف بھی تھے۔ مزید برآں حضرت علیؓ کی پوتی حضرت فاطمہؓ بنتِ حسینؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ سے ہوا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کی حیات کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہا۔
بہت سے مواقع پر حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کی شان بیان کی۔نزال بن سبرہ کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے متعلق بتائیں۔ فرمایا ’’اس ہستی کو آسمانوں میں ذوالنورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں جنت کی ضمانت دی ہوئی تھی۔(کنزالعمال 36698)

حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد سب سے افضل سمجھتے تھے۔
عمروؓ بن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے سیدّنا علیؓ کو منبر رسولؐ پر یہ کہتے سنا:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اس اُمت میں سب سے افضل اور بہتر ابوبکرؓ تھے، پھر عمرؓ اور پھر عثمانؓ تھے۔
پروفیسر محمد جاوید اکرم حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ ہر سال حج کے لئے جاتے تو حضرت علیؓ کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ (حضرت علی شیر ِ خدا، ص 109) 

حضرت علیؓ کا حضرت عثمانؓ کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حضرت عثمانؓ کے نام پر رکھا۔ اب آپ خود سوچیں انسان جب اپنے بچے کا نام کسی کے نام پر رکھتا ہے تو اصل میں یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ نام رکھنے والے کو اس سے کس قدر پیار ہے جس کی وجہ سے اس کے نام کی نسبت پر نام رکھا جا رہا ہے۔ 

(جاری ہے)

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Hazrat Ali ra k Dor-e-Khilafat | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات | Urdu / Hindi Podcast

 
 
 

27 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. حضرت علیؓ نے باغیوں کو برا بھلا کہا اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ مل کر حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے کفن دفن کا انتظام کروایا۔ صرف سترہ آدمیوں کی جماعت نے خفیہ نمازِ جنازہ ادا کر کے جنت البقیع کے نزدیک’’ حش کوکب‘‘ میں دفن کیا اور باغیوں کے خوف سے قبر کا نشان تک چھپا دیا۔ (خلفائے راشدین)

  2. اللہ پاک ہمیں ان مبارک ہستیوں کے نقش قدم پر چلائے آمین

  3. نزال بن سبرہ کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے متعلق بتائیں۔ فرمایا ’’اس ہستی کو آسمانوں میں ذوالنورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں جنت کی ضمانت دی ہوئی تھی۔(کنزالعمال 36698)

  4. سچے دوست کی نشانی اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے تو سب سے پہلے بیعت کرنے والے حضرت علیؓ تھے اور بعد میں باقی صحابہؓ نے بیعت کی۔

  5. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
    حضرت علیؓ نے باغیوں کو برا بھلا کہا اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ مل کر حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے کفن دفن کا انتظام کروایا۔ صرف سترہ آدمیوں کی جماعت نے خفیہ نمازِ جنازہ ادا کر کے جنت البقیع کے نزدیک’’ حش کوکب‘‘ میں دفن کیا اور باغیوں کے خوف سے قبر کا نشان تک چھپا دیا۔ (خلفائے راشدین)

  6. حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد سب سے افضل سمجھتے تھے۔

  7. بڑی تحقیق کے ساتھ ترتیب دیا گیا مضمون ہے۔ اگلے پارٹ کا انتظار رہے گا

  8. حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’بخدا! حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے مخلص اور سچے دوست تھے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اوّل، ص 463)

  9. عمروؓ بن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے سیدّنا علیؓ کو منبر رسولؐ پر یہ کہتے سنا:
    جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اس اُمت میں سب سے افضل اور بہتر ابوبکرؓ تھے، پھر عمرؓ اور پھر عثمانؓ تھے۔

  10. سچے دوست کی نشانی اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے تو سب سے پہلے بیعت کرنے والے حضرت علیؓ تھے

  11. تاریخ الخلفا میں ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے پوچھا کہ آپ مجھے کن کی بیعت کا مشورہ دیتے ہیں (یعنی خلیفہ کسے چنا جائے) تو حضرت علیؓ نے فرمایا ’’حضرت عثمانؓ‘‘۔

  12. حضرت علیؓ کا حضرت عثمانؓ کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حضرت عثمانؓ کے نام پر رکھا

  13. بہت سی ایسے باتیں تھیں جن کا پہلے علم نہ تھا۔ بہترین مضمون ہے۔

  14. حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد سب سے افضل سمجھتے تھے۔

  15. حضرت علیؓ کا حضرت عثمانؓ کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حضرت عثمانؓ کے نام پر رکھا۔

  16. حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کس قدر اعتماد کرتے تھے۔

  17. حضرت عثمانؓ کا حضرت علیؓ سے تعلق اوران پر مکمل اعتماد
    چند واقعات بیان کئے جائیں گے جن کا مقصد یہ واضح کرناہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کس قدر اعتماد کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی مدد کے لئے کوشاں رہتے تھے اور کس طرح باغیوں کے آگے دیوار بن کر کھڑے رہے۔ مزید واقعات و احادیث سے یہ ثابت کیا جائے گاکہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ یعنی دو بھائیوں کا ذکر کیا جائے گا جن کا رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ مضبوط تھاکیونکہ وہ رشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔

  18. دل موہ لینے والے انداز میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے اس مضمون میں۔ بہت خوب

اپنا تبصرہ بھیجیں