حسنِ ظن سوئے ظن Husn-e-Zan Suu-e-Zan


4.2/5 - (43 votes)

حسنِ ظن سوئے ظن  (Husn-e-Zan Suu-e-Zan)

فقیہہ صابر سروری قادری(رائیونڈ)

اسلام دو چیزوں پر مشتمل ہے:
۱۔  عبادات
۲۔  معاملات 

 عبادات مخصوص ہیں مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ،ذکرو اذکار اور نوافل وغیرہ جو کہ مجموعی طور پر دین کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں یعنی ایک حصہ عبادات اور بقیہ تین حصے اسلام معاملات پر مشتمل ہے ۔اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
اسلام ایک گھنے درخت کی مانند ہے جس کی بیشمار شاخیں ہیں جس میں پانچ شاخیں اسلام کے پانچ رکن ہیں اور باقی تمام درخت معاملات پر مشتمل ہے ۔

آج کل ہماری تمام ترتوجہ عبادات پرمرکوز ہے اور معاملات کے بارے میں سوچاہی نہیں جاتا حالانکہ خاتم النبیین رسولِ کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں معاملات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ نماز، روزہ جیسی عبادات تو ہجرت کے بعد فرض ہوئی ہیں۔

اسلام نے کرۂ ارض پر ایک پرسکون اور پر امن معاشرے کی بنیاد رکھی  جس کی وجہ وہ تعلیمات تھیں جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے، ایک دوسرے کا بھلا چاہنے والے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے، ایک دوسرے کی غیبت سے بچنے والے۔۔ کیونکہ یہ عادت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دی گئی ہے۔
لیکن موجودہ دور میں اسلام محض چند عادات کی پابندی سمجھ لیا گیا ہے اور معاملات کے ضمن میں صرف فریب ہی فریب باقی رہ گیا ہے۔
نماز، روزہ،حج وعمرہ یہ اس اصلی عبادت کیلئے مشق ہیں جس کیلئے انسان تخلیق کیا گیا ہے یعنی معرفت و قربِ الٰہی۔

واصف علی واصفؒ نے کہا تھا کہ جس محلے کی مسجد میں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہو اس عبادت کا محلہ والوں کی صحت پر کوئی اثرنہ پڑے (یعنی وہ ان کے معاملات میں بہتری نہ لائے) تو وہ عبادت قابلِ غور ہے۔

رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بھی ہمارے طور اطوار نہیں بدلتے۔ ہم عبادات توبہت کرتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دنیا تبدیل نہیں ہوتی۔ اندر کی غلاظت صاف ہو گی تو پاکیزگی آئے گی لیکن یہ ہمارا ٹارگٹ ہی نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں دنیا تبدیل ہو جائے لیکن اپنے آپ کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ خود کو بدلنے سے تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے اور ایسے انسانوں پر خدا بھی مہربان ہو جاتا ہے لیکن جو خود کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوں انہیں اُن کی حالتِ زار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔بقول شاعر :

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا 

سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس کے متعلق فرماتے ہیں:
اسلام حکمرانوں سے نافذ نہیں ہو سکتا۔ اسلام تب تک نافذ نہیں ہوتا جب تک قوم اس کے لیے تیار نہ ہو۔ پہلے ہمیشہ تہہ اور بنیاد سے درستی اور تعمیر کاکام شروع ہوتا ہے پھر اوپر کا حصہ ٹھیک کیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔
اسلام ایک قوت بن کر تب ہی ابھرے گا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق قوم ٹھیک ہو کر قوت بن جائے گی تو غلط حکمرانوں کو خود ہی نکال باہر کرے گی۔ 

بدگمانی

ہمارے معاملات کی خرابی کی ایک بہت بڑی بلکہ بنیادی وجہ ہمارا گمان ہے کیونکہ گمان کی بنیاد پر ہی ہم دوسروں سے معاملات بناتے یا بگاڑتے ہیں۔گمان عربی کے لفظ ’’الظن‘‘ کا ترجمہ ہے۔’’ظن‘‘ (گمان) اچھے اور برُے دونوں معنی میں آتا ہے۔ 

قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:
اے ایمان والو! کثرتِ گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (سورۃ الحجرات۔ 12)
یہاں صرف بدگمانی ہی نہیں بلکہ کثرتِ گمان سے روکا گیا ہے ۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس کے متعلق دو عادل گواہ موجودہوں۔
گمانوں کی کثرت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ اگر ہمارا گمان درست ہے تب بھی اس میں خرابی ضرور موجود ہوگی کہ وہ گمان کسی ٹھوس شواہد و دلائل پر مبنی نہیں ہے۔
لوگوں کے بارے میں ہماری رائے سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی بے بنیاد خیالات پر جوکسی نہ کسی بغض، کینہ یا حسد کی بنا پر ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہوں۔ جن خیالات کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: 
اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو (کیونکہ) کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ (سورۃبنی اسرائیل ۔36)

بدگمانی کے ممنوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نیتوں کو صرف ربّ کریم جانتا ہے لہٰذا ہمارے لیے کسی کے بارے میں برا گمان رکھنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کی برائی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں اور کانوں سے سن نہ لیں۔

بدگمانی سب سے بڑا فسق ہے

 ویسے توتمام برے اخلاق نقصان دہ ہیں اور اسلام ان سے اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بد گمانی ایسی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑپیدا کر دیتی ہے۔حضور نبی اکرمؐ نے درج ذیل احادیث مبارکہ میں بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا
’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔  (صحیح مسلم۔6536)

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:   
جس نے اپنے بھائی سے بدگمانی کی، تو اس نے اپنے ربّ کے بارے میں بدگمانی کی، اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’بہت سے گمانوں سے بچا کرو‘‘۔ (کنزالعمال۔ 7587) 

ایک اور جگہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون، اس کی عزت اور اس کے متعلق بدگمانی کو حرام کر دیاہے۔

سیدّنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے سب امکانات ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود بقیہ اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ دو خیالات ہر انسانی دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ایک خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور سچائی کی طرف راغب کرتا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے ہے۔ یہ انسان کو حق اور بھلائی سے روکتا ہے۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہوتو شیطان ا س سے کینہ ، بغض اور ٹوہ یعنی تجسس جیسے گناہ سرزد کروانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔

بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود ھنستا چلا جاتا ہے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کے متعلق کوئی برا گمان آتاہے توپھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس کی باتیں (چھپ کر) سنتاہے اور اس کے حالات کامشاہدہ کرتاہے۔ بعض اوقات جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق جو براگمان آیا تھا، اس کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیؐ نے بدگمانی کے بعد تجسس کرنے یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے منع فرمایا ہے۔

قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
 اور ( کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔( سورۃ الحجرات۔ 12)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا:
جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اسکے گھر میں بھی ذلیل کرے گا۔(سنن ابنِ ماجہ2546)

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے طرزِعمل کاتعین کرتے ہیں، انہیں جب بھی کسی اُلجھن کا سامنا کرنا پڑے وہ اپنی نفسانی تدبیروں کی بجائے اس کا حل اللہ اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے طریقے میں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اللہ مددگار ہوجاتا ہے۔
یخرجھم من الظلمات الی النور (البقرہ۔ 257)
ترجمہ:انہیں وہ اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔

لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے نفس اور دماغ پر بھروسہ کرتے ہیں ، اپنے نفس کی تدبیروں کو بروئے کار لاتے ہیں اور مثبت کی بجائے منفی سوچ اور وسعت قلبی کی بجائے تنگ دلی اور غصہ و انتقام کی راہ اپناتے ہیں، ان کی حالتِ زار اللہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
اولیاھم الطاغوت یخرجونھم من النور الی الظلمات (البقرہ۔ 257)
ترجمہ: ہدایت کا انکار کرنے والوں کے دوست شیاطین ہوتے ہیں جو روشنی سے نکال کر انہیں اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔

جب گمان کو بے لگام چھوڑ دیا جاتاہے اور بدگمانیاں غالب آنے لگتی ہیں تو تجسس اور کرید کے ذریعے دوسروں کے پوشیدہ معاملات کی کھوج شروع ہوجاتی ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں کون کون سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بداخلاقی ہے جو فساد، بدامنی اور بے سکونی کی نہ صرف راہ ہموار کرتی ہے بلکہ خود اس شخص کی اپنی رسوائی کا بھی سامان ہونے لگتا ہے۔

ایک بزرگ کا قول ہے کہ سچے مومن کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ اس کا واسطہ کسی شخص سے پڑتا ہے تو وہ دوسرے کے حصے کی غلطیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کا سارا دھیان اپنے حصے کی خامیوں اور کوتاہیوں کی طرف رہتا ہے۔ اس کا مزاج مسئلہ ختم کرنے کا ہوتا ہے نہ کہ اسے مزید اُلجھانے کا۔
نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے اس لیے کسی کی نیت پر رائے قائم کرلینا بھی غلط ہے۔ اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ پیش آیا جب انہوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا۔ پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بات ہوئی تو آپؐ نے فرمایا’’ قال لا الہ الا اللّٰہ وقتلتہ  یعنی کیا اس نے لا الہ  پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا؟‘‘
حضرت اسامہؓ نے عرض کی ’’یا رسول اللہؐ انما قالہا خوف من السلاح  یعنی اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:
’’تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتاتاکہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمۂ اسلام دل سے کہا تھا یا نہیں۔‘‘ ( کنزالعمال۔ 1460)

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد شہر کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے کہ ایک جگہ جوان لڑکا لڑکی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے آگے ایک بوتل رکھی ہوئی تھی۔ حضرت نے سمجھا کہ یہ دونوں شام ڈھلنے کے انتظار میں ہیں اور بدکاری کرنے والے ہیں اور ان کے سامنے شراب رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ جاکر ذرا ان سے پوچھ لوں۔

جب لڑکے سے دریافت کیا تووہ کہنے لگا’’ یہ میری بہن ہے، ہم دونوں روزے سے ہیں اور سورج غروب ہونے کے انتظار میں ہیں بوتل میں زمزم ہے اور ہم سیدّ خاندان سے ہیں۔‘‘

شیخ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے آپ کو خوب ملامت کی پھر ان کو گھر لے جاکر خوب اکرام کیا۔

بدگمانیوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کرڈالتے ہیں جو گناہ ہوتے ہیں۔ ان اعمال میں سب سے بڑا عمل نا انصافی ہے۔ گمان،شیطانی وسوسے اور اِدھر اُدھر کے خیالات تو دل میں آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم انہی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا کر اس کی حق تلفی کر دی تو وہ گناہ کا باعث ہو گا۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اور اس کو رَدکردیا تو ہم گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ کسی کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے غلط رائے بنا لینا درحقیت اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔
بدگمانی کی طرح ہی کسی کے لیے حد سے زیادہ اچھا گمان بنا لینا بھی خرابی کا باعث ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم اس شخص کو عزت کے اس مقام پر کھڑا کر دیتے ہیں جس کے وہ لائق نہیں، اس سے ایسی امیدیں لگا لیتے ہیں جنہیں وہ پورا نہیں کر سکتا، اس کی خاطر لوگوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور پھر جب وہ ہماری امیدوں پر پورا نہیں اترتا تو اس سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔
بدگمانی کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
بدگمانی کی ایک وجہ جذباتیت اور حساسیت ہے۔
بعض اوقات ہمیں جن لوگوں سے بہت زیادہ دشمنی اور بہت زیادہ محبت ہوتی ہے ان کی ادنیٰ باتیں اور چھوٹے چھوٹے افعال سے بھی بدگمانی ہونے لگتی ہے اور اپنے دشمنوں اور دوستوں کے متعلق ایسے ایسے جھوٹے فرضی خیالات قائم کر لیتے ہیں جن کا حقیقت اور سچائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ (شمس الفقرا)

حسنِ ظن

ایسی بات یا خبر جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو نکل سکتے ہوں وہاں مسلمان کو حکم ہے کہ آپس میں حسنِ ظن سے کام لیا کرو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:
حسن ظن رکھنا بہترین عبادت ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے جب وہ دل سے یا زبان سے مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ پس اگر وہ اپنی ذات میں یعنی خفیہ طور پر اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنی ذات میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے جماعت میں (یعنی ظاہری طور پر) یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کا ذکر جماعت میں کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم) (مشکوٰۃ المصابیح 2283) 

میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ میری نسبت جو گمان و خیال رکھتا ہے میں اس کے لیے ویسا ہی ہوں اور اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جس کی وہ مجھ سے توقع رکھتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے معافی کی امید رکھتا ہے تو اس کو معافی دیتا ہوں اور اگر وہ میرے عذاب کا گمان رکھتا ہے تو پھر عذاب دیتا ہوں۔  اس ارشاد کے ذریعہ گویا ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کی امید اس کے عذاب کے خوف پر غالب ہونی چاہیے اور اس کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے کہ وہ مجھے اپنی بے پایاں بخشش اور لامحدود رحمت سے نوازے گا۔

 ایک روایت میں مذکور ہے :
 اللہ ایک شخص کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے گا۔ جب اسے کنارۂ دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا تو وہ عرض کرے گا’’ اے میرے ربّ!تیرے بارے میں میرا گمان اچھاتھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اس کو واپس لے آؤ میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے۔‘‘

 اچھے گمان کا مطلب اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ عمل کیا جائے اور پھر بندہ بخشش کاامیدوار رہے۔ بغیر عمل صرف امید ہی پر تکیہ کرلینا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے یعنی ایسی امید کا کوئی فائدہ نہیں۔
سوئے ظن سے بچنا اور حسنِ ظن کی عادت اپنانا تزکیۂ نفس کے بغیر ناممکن ہے اور تزکیۂ نفس کے لیے مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی صحبت ضروری ہے۔
آئیں!آج کے اس پرُفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی منازل طے کریں تاکہ معرفتِ الٰہی نصیب ہو۔ جو اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو اللہ ربّ العزت اس پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔

استفادہ کتب:
کیمیائے سعادت :  امام غزالیؒ
نفس کے ناسور:  سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
حسنِ ظن :  ڈاکٹر طاہرالقادری
بدگمانی:  مصدق گھمن
ایمان و سکون :  پروفیسر محمد نصر اللہ معینی

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک : بدگمانی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ |حسن ظن بہترین عبادت ہے | Bud-Gumani | Evil Thinking

 
 

24 تبصرے “حسنِ ظن سوئے ظن Husn-e-Zan Suu-e-Zan

  1. آج کے اس پرُفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی منازل طے کریں تاکہ معرفتِ الٰہی نصیب ہو۔

  2. سوئے ظن سے بچنا اور حسنِ ظن کی عادت اپنانا تزکیۂ نفس کے بغیر ناممکن ہے اور تزکیۂ نفس کے لیے مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی صحبت ضروری ہے

  3. نماز، روزہ،حج وعمرہ یہ اس اصلی عبادت کیلئے مشق ہیں جس کیلئے انسان تخلیق کیا گیا ہے یعنی معرفت و قربِ الٰہی۔

  4. آئیں!آج کے اس پرُفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی منازل طے کریں تاکہ معرفتِ الٰہی نصیب ہو۔ جو اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو اللہ ربّ العزت اس پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔

  5. خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

  6. اسلام دو چیزوں پر مشتمل ہے:
    ۱۔ عبادات
    ۲۔ معاملات
    عبادات مخصوص ہیں مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ،ذکرو اذکار اور نوافل وغیرہ جو کہ مجموعی طور پر دین کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں یعنی ایک حصہ عبادات اور بقیہ تین حصے اسلام معاملات پر مشتمل ہے ۔

  7. سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس کے متعلق فرماتے ہیں:
    اسلام حکمرانوں سے نافذ نہیں ہو سکتا۔ اسلام تب تک نافذ نہیں ہوتا جب تک قوم اس کے لیے تیار نہ ہو۔ پہلے ہمیشہ تہہ اور بنیاد سے درستی اور تعمیر کاکام شروع ہوتا ہے پھر اوپر کا حصہ ٹھیک کیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔

  8. سیدّنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے سب امکانات ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود بقیہ اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

  9. واصف علی واصفؒ نے کہا تھا کہ جس محلے کی مسجد میں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہو اس عبادت کا محلہ والوں کی صحت پر کوئی اثرنہ پڑے (یعنی وہ ان کے معاملات میں بہتری نہ لائے) تو وہ عبادت قابلِ غور ہے۔

  10. حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا:
    جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اسکے گھر میں بھی ذلیل کرے گا۔(سنن ابنِ ماجہ2546)

  11. انسان کو عبادات اور معاملات دونوں میں ﷲ کو یاد رکھنا چاہیے۔

  12. اسلام دو چیزوں پر مشتمل ہے:
    ۱۔ عبادات
    ۲۔ معاملات
    عبادات مخصوص ہیں مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ،ذکرو اذکار اور نوافل وغیرہ جو کہ مجموعی طور پر دین کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں یعنی ایک حصہ عبادات اور بقیہ تین حصے اسلام معاملات پر مشتمل ہے .

  13. حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا
    ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔ (صحیح مسلم۔6536)

  14. حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا
    ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔ (صحیح مسلم۔6536)

اپنا تبصرہ بھیجیں