Ameer ul kunain

امیر الکونین| Ameer Ul Konain


Rate this post

امیر الکونین

جو طالب مرشد سے اخلاص رکھتا ہے تو مرشد اسے علم ِ مطالعہ اور معرفت بخش دیتا ہے۔ ہر علم کے مطالعہ سے معرفت حاصل ہوتی ہے اور ہر علم اس معرفت کے علم میں شامل ہے۔ علم ِ موت، علم ِ محبت، علم ِ معرفت، علم ِ مشاہدہ، علم ِ مراقبہ، علم ِ مکاشفہ، علم ِ مطالب اور علم ِ معراج کے مطالعہ سے قرب و دیدارِ حق عطا ہوتا ہے اور ان علوم کے علاوہ دیگر تمام علوم بھی علم ِ یکدم میں شامل ہیں۔ علم ِ یکدم اسے کہتے ہیں کہ ازل، ابد، دنیا، عقبیٰ، جنت اور حور و قصور کا نظارہ اور معرفت کا نظارہ، مشاہدۂ انوارِ دیدار، غرق فنا فی اللہ اور بقا سب ایک دم میں طالب پر منکشف ہو جائیں اور وہ انہیں ایک دم میں طے کر لے۔ اسے استقامت بھی کہتے ہیں۔ علم ِ موت کس علم سے کھلتا ہے۔ وہ علم تصور اسم ِاللہ ذات کا علم ہے جس کے ساتھ توفیق ِ الٰہی، علم ِ تصرف اور علم ِ توجہ شامل ہیں جو حق تعالیٰ کی رفاقت عطا کرتے ہیں۔یہ سب مراتب حاصل کرنا صدیق عالم کا خاصہ ہے جس کا تمام علم اس کے قلب میں پوشیدہ ہوتا ہے اور اس علم سے دل میں غیب الغیب کا لطیفہ پیدا ہوتا ہے۔ جو علم ِ موت کا مطالعہ کرتا ہے اس سے کل و جز کا کوئی بھی علم پوشیدہ نہیں رہتا۔
ابیات: 

مرتبہ مردود منزل ناتمام
بر فقر ہر یک مقامے شد حرام

ترجمہ: راہِ فقر میں کسی مرتبہ پر رک جانا مردود ہے اور کسی مقام کو منزل سمجھ لینا ناتمامیت ہے۔ اس لیے کسی مقام کو منزل نہیں سمجھنا چاہیے۔ 

عین را باعین بیند عین بین
نیست آنجا آسمان و نی زمین

ترجمہ: طالب حقیقت ِ حق کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس مرتبہ پر نہ آسمان ہوتا ہے اور نہ زمین (یعنی زمین و آسمان کی حدود سے بھی بالاتر)۔

ہر کہ از خود بگذرد آن یافتہ
پیشوائے اسم اللہ ساختہ

ترجمہ: جو اسم ِاللہ ذات کو اپنا پیشوا بنا کر خودی سے نجات حاصل کر لیتا ہے وہ اللہ کی ذات کو پا لیتا ہے۔
اسم مسمّٰی (ذات) تک پہنچاتا ہے اور مسمّٰی کو پانا ایک حرف سے ممکن ہے جو کل و جز کی ہر مشکل کا حل ہے۔ کاملین اس ایک حرف سے واقف ہوتے ہیں جبکہ ناقص اس حرف سے واقف نہیں کیونکہ انہیں اسم و مسمّٰی کی حقیقت سے آگاہی نہیں۔ ناقص طریقت کے راستوں اور سلسلوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں جبکہ کامل قرب و حضوری بخشتے ہیں اور معبود کا دیدار عطا کرتے ہیں۔ بیت:

ہر کہ می بیند بداند آن کسی
شد بہ دیداری مرا اللہ بسی

ترجمہ: جو اللہ کو دیکھ لیتا ہے وہ اس کو پہچان لیتا ہے۔ میرے لیے اللہ کا دیدار ہی کافی ہے۔
ثواب کی طلب مکمل حجاب ہے اور جو بے حجاب دیدار کر لیتا ہے وہی اس کے لیے ثواب ہے۔ بیت:

حجتی بگذار رو بہ دیدار آر
جز بدیدارے مرا جنت چہ کار

ترجمہ: حجت کو چھوڑ اور اپنا رُخ دیدار کی طرف کر۔ اللہ کے دیدار کے بغیر جنت بھی میرے کس کام کی۔ 
جنت و دوزخ دونوں مقام مکمل طور پر اللہ کے اختیار میں ہیں۔ مجھے اپنے اختیار پر کیا بھروسہ اور اس کا کیا تذکرہ کروں۔ فقیر دونوں جہان پر حکمران ہوتا ہے۔
فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِط (الشوریٰ۔7)
ترجمہ: ایک گروہ جنت میں اور دوسرا گروہ دوزخ میں ہوگا۔
فقیر کی زبان علم ِ تفسیر کا مطالعہ کرتی ہے اور اس کی نظر تاثیر کا علم حاصل کرتی ہے اور اس کا قلب روشن ضمیری کا علم حاصل کرتا ہے اور اس کی روح لقا کا علم حاصل کرتی ہے اور ہر جگہ موجود ربّ کا دائمی دیدار کرتی ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
فقیر ِ کامل کو دعوت پڑھنے سے دو عمل حاصل ہوتے ہیں جو اُسے ہر شے سے لایحتاج اور بے فکر کر دیتے ہیں جس کے بعد اسے کچھ اور پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی اوّل اسم ِاللہ ذات کے تصور سے حضوری، دوم اہل ِ قبور کی ارواح سے ملاقات۔ ان دو عملوں (کی تاثیر) سے فقیر تمام عالم کو فنا کر سکتا ہے اور تمام عالم کو (فنا کے بعد) بقا عطا کر سکتا ہے۔ جان لو کہ نیک عمل سے اللہ ثواب عطا فرماتا ہے جبکہ اصل ثواب اور اللہ کی بے حساب بخشش اُس کا بے حجاب دیدار ہے۔ علم حاصل کرنے کا مقصود اس پر عمل کرنا ہے اور تصور اسمِ  ِاللہ ذات یہودی نفس کو قتل کرنے والی تلوار ہے۔ ابیات:

نماز و روزہ بسیار طاعت
ازان بہتر بدم دیدار ساعت

ترجمہ: نماز، روزہ اور بے حساب طاعت سے بہتر ایک گھڑی کا دیدارِ الٰہی ہے۔

دمی دیدار را دیدار بردہ
دلی مردہ دمی خطرات خوردہ

ترجمہ: دیدار کے وقت دیدار میں ہی غرق رہو (اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو)۔ جبکہ مردہ دل اس وقت خطرات کا شکار رہتا ہے۔

کلید علم از دیدار دارم
شریعت مصطفیٰؐ جان را سپارم

ترجمہ: میں نے علم کی کلید دیدار سے حاصل کی ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شریعت کے لیے جان وقف کر دی ہے۔
مراتب ِ دیدار اور علم ِ دیدار شریعت (کی پیروی) سے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ شریعت ہر علم کی روح، جان اور زندگی ہے جبکہ شریعت کی پیروی کے بغیر زندگی محض بے حیائی اور شرمندگی ہے۔ اصل شریعت (کی بنیاد) قرآن اور حدیث ہے۔ قرآن سے باہر کوئی بھی شے (علم و حکم) نہیں اور نہ ہوگی۔ جاننا چاہیے کہ طالب ِ صادق کو اللہ اور اس کے رسول کی قسم ہے اور قرآن اور کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کی قسم ہے کہ مرشد سے مراتب ِ نعم البدل طلب کرے جو حضوریٔ حق کا فیض و فضل ہے جسے اسم ِاللہ ذات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور طالب کو چاہیے کہ مرشد سے جملہ تصرف، جملہ خزانے، علم، حکمت اور تمام احکامات کی تلقین طلب کرے اور مرشد کو بھی اسی طرح سب کی قسم ہے کہ طالب ِ مولیٰ کو اللہ کا قرب، حضوری اور اہل ِ قبور کی ارواح سے رابطے کا عمل اور جمعیت عطا کرے۔ بیت:

مرشدے نامرد را نامی مگو
مرشدے نامرد را شیطان بگو

ترجمہ: نامرد مرشد کا نام بھی مت لو بلکہ نامرد مرشد کو شیطان کہو۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
 یَابَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ   (یٰسن۔60)
ترجمہ: اے بنی آدم! شیطان کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
مرشد سانپ پکڑنے والے جادوگر کی مثل ہے اور طالب سانپ کی مثل ہے جو تمام زندگی مرشد کی غلامی میں ادب اور اعتبار کے ساتھ فیض کی امید میں گزار دیتا ہے۔ طالب شہباز کی مثل ہے جو چیلوں (طالبانِ دنیا) کا ساتھ ہرگز اختیار نہیں کرتا اور خدا کی طلب میں ہر شے سے جدا ہو جاتا ہے۔ اگر طالب شیر کی مثل ہو اور اللہ کی معرفت و وصال کی طلب رکھتا ہو تو اسے گیدڑوں (اہل ِ دنیا) کی مجلس اختیار کرنے میں شرم آتی ہے۔ بیت:

ہر کہ طالب نام خوان سلطان بود
مرشد آنرا مرتبہ سلطان دہد

ترجمہ:ـ جو طالب سلطان (سلطان الاذکار ھُو) کا نام پکارتا ہے مرشد اسے مرتبہ سلطان (فقر کا انتہائی مرتبہ جہاں فقیر کو دونوں جہان پر تصرف عطا ہوتا ) سے نواز دیتا ہے۔
اگر طالب سلطان اور مرشد پریشان ہے یا مرشد پشیمان اور طالب احمق و حیوان ہے تو انہیں ایک دوسرے کی صحبت پسند نہیں آتی۔ ابیات:

باھوؒ منکہ طالب از بینم غنی
ہر کہ دمے حاضر مرا مجلس نبیؐ

ترجمہ: اے باھُوؒ! میں غنی مرشد کا طالب ہوں جو مجھے ہر لمحہ مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رکھتا ہے۔

احتیاج از کس ندارم مقام تر
طالبانرا میکنم عارف نظر

ترجمہ: میں جس اعلیٰ و بلند مقام پر ہوں مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ میں طالبوں کو ایک ہی نظر میں عارف بنا سکتا ہوں۔
وہ سب عجیب و احمق لوگ ہیں جو مرشد و طالب کہلواتے ہیں لیکن خود پسندی کے باعث ان کے دل کالے ہیں اور وہ اللہ کی معرفت و قرب سے بے خبر ہیں۔ ایسے بے شعور اور خام طالب صرف نام کے ہی طالب ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے طالب و مرشد عوام کے بھیس میں صرف تقلید کرنے والے ہیں۔ ابیات:

مرشدے مرد است طالب مرد تر
گنج بخشد طالبان را سیم و زر

ترجمہ: مرشد مرد ہوتا ہے اور اپنے طالب کو بھی مرد بنا دیتا ہے اور انہیں باطنی خزانوں اور طاقت سے نوازتا ہے۔

یا برد در معرفت وحدت حضور
مرشدے طالب چنین باید ضرور

ترجمہ: مرشد و طالب کو ایسا ضرور ہونا چاہیے کہ مرشد طالب کو معرفت ِ وحدت عطا کر کے حضوری میں لے جائے۔

خام مرشد زر طلب از طالبان
این چنین گمراہ شد در دو جہان

ترجمہ: خام مرشد طالبوں سے مال و دولت طلب کرتا ہے اور ایسا مرشد دونوں جہانوں میں گمراہ ہوتا ہے (اور اپنے مریدوں کو بھی گمراہ کرتا ہے)۔

ہر کہ گیرد میدہد بروے روا
مرشدے باشد چنین راہبر خدا

ترجمہ: مرشد جو کچھ طالبوں سے لیتا ہے اسے اللہ کی راہ میں دے دیتا ہے۔ جو مرشد ایسا کرے وہی اللہ کی طرف راہبر ہوتا ہے۔

باھُوؒ میشناسد طالبان را بانظر
ہمچو زرگر میشناسد سیم و زر

ترجمہ: باھُوؒ طالبانِ مولیٰ کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے جس طرح صراف سونا و چاندی کو پہچان لیتا ہے۔
طالب کو ہر طاقت و قوت مرشد کی توفیق سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر طالب کے ظاہر و باطن کی تحقیق ہو جائے تو مرشد کامل طالب کو پہلے ہی روز ہر تصرف سے نواز کر حق سے اپنی گردن آزاد کرا لیتا ہے لیکن اس کے لیے طالب کا حوصلہ بھی وسیع ہونا چاہیے۔ کم حوصلہ طالب کسی کام کے نہیں ہوتے۔ بیت:

ہم طالبم ہم مرشدم ہم راز بین
طالبان را میشناسم و ز چنین

ترجمہ: میں (اللہ کا) طالب بھی ہوں اور مرشد بھی اور اس کے اسرار کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ میں طالبوں کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔
اس راہ سے ناواقف لوگوں کے لیے یہ راستہ بہت طویل ہے اور وہ مرتے دم تک اپنی ساری عمر اس راہ پر چلنے میں گزار دیتے ہیں (لیکن کسی مقام و منزل تک نہیں پہنچتے)۔ مرشد اپنی نظر سے طالب ِ مولیٰ کو مرتبہ ٔ دیدار اور حضوری سے مشرف کر تا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر۔99)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم یقین تک پہنچ جاؤ۔
ابیات:

عبادتے دیدار را بادیدار بر
بالیقین و باایمان رو در قبر

ترجمہ: دیدارِ الٰہی کی خاطر کی جانے والی عبادت دیدار سے ہی مکمل ہوتی ہے اور قبر میں بھی وہ دیدار کی بدولت صاحب ِ یقین و ایمان ہوتاہے۔

این عبادت رحمت اللعالمینؐ
معرفت توحید اینست بالیقین

ترجمہ: یہی عبادت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی جو دونوں جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ یہی یقین معرفت ِ توحید حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

شد عبادت از فضل عفو و کرم
ہر کہ منکر از لقا اہل از صنم

ترجمہ: یہ عبادت اللہ کے فضل اور عفو و کرم سے ادا کی جاتی ہے۔ جو دیدارکا منکر ہو وہ بت پرست ہے۔

ہر عبادت از برائے دیدارِ حق
از برائے دیدار شد پیدا خلق

ترجمہ: ہر عبادت کا مقصد دیدارِ حق تعالیٰ ہے کیونکہ اللہ نے مخلوق کو اسی لیے پیدا کیا ہے۔

مرشدے تلقین بخشد از لقا
از علم حاضر رساند باخدا

ترجمہ: مرشد کامل طالب کو لقائے الٰہی تلقین کرتا ہے اور علم ِ باطن سے اللہ کے قرب اور حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔

این عبادت دائمی طاعت طلب
طاعتی باشد حضوری رازِ ربّ

ترجمہ: ایسی عبادت دائمی طاعت کی متقاضی ہے۔ اور یہ طاعت حضوری کا راز ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے: 
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات۔56) ’’اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ‘‘
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا یعنی اپنی معرفت کے لیے۔
بیت:

دل مرا بیدار از دیدار شد
دیدہ بہر از دیدنے نظار شد

ترجمہ: میرا دل اللہ کے دیدار کی بدولت زندہ ہے اور میری آنکھیں اسے دیکھنے کے لیے ہیں۔
جو بھی تصور اسم ِاللہ ذات سے عین دیدار کا علم جان لیتا ہے وہ صاحب ِ تصور بن جاتا ہے اور اللہ کے دیدار سے ایک لمحہ کے لیے بھی فارغ نہیں رہتا۔ سر کی آنکھیں مخلوق کو دیکھنے کے لیے ہیں اس لیے ظاہری آنکھیں اور ہیں۔ چشم ِ سرّ خالق کو دیکھنے کے لیے ہیں۔ اللہ کے اسرار اور قدرت کے نور کو بے حجاب دیکھنے والی آنکھ اور ہے۔ جو طالب اللہ کے دیدار کی خاطر ساری عمر جان فدا کرتا ہے اور اپنے سر پر ہمیشہ کفن باندھے رکھتا ہے اور اللہ کے قرب و دیدار کی حضوری اور معرفت ِ الٰہی کی پیاس میں مرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مرشد کامل کے لیے ایسے طالب کو ایک دم اور ایک قدم میں دیدار سے مشرف کرنا مشکل اور دشوار نہیں ہے۔
ابیات:

کس نیابم طالبے تشنہ طلب
معرفت دیدار چشم راز ربّ

ترجمہ: میں نے ایسا کوئی طالب نہیں پایا جو معرفت اور دیدار کے لیے تشنہ ہو اور جس کی آنکھ اللہ کے اسرار کا مشاہدہ چاہتی ہو۔

طالبان باخود مطالب خود نما
احمقان بے ادب باشند بے حیا

ترجمہ: اپنے مطالب کے طلبگار طالب خود پسند ہوتے ہیں۔ وہ احمق، بے ادب اور بے حیا ہوتے ہیں۔

طالبی گر مثل موسیٰؑ باخضرؑ
نیک بد را باتفکر در نظر

ترجمہ: طالب اگر ایسا ہو جیسے موسیٰ ؑ خضر ؑ کے ہمراہ تھے تو وہ (مرشد کے) نیک و بد اعمال کو ہی اپنی سوچ اور نظر میں رکھتا ہے۔

در نظر موسیٰؑ ہر ثوابی شد گناہ
کار حضرت خضرؑ بودند خاص راہ

ترجمہ: موسیٰ ؑ کی نظر میں ہر ثواب کا کام گناہ تھا جبکہ حضرت خضر ؑ کے کام (معاملات) خاص باطنی راہ سے تعلق رکھتے تھے۔

بر خضرؑ موسیٰؑ غالب است امت رسولؐ
عارفان دیدار و از اہل الوصول

ترجمہ: حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ پر امت ِ محمدیہ کے عارفین غالب ہیں جنہیں دیدار اور وصال نصیب ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْعُلَمَآئُ اُمَّتِیْ اَفْضَلٌ مِّنْ اَنْبِیَآئِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ
ترجمہ: میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا سے افضل ہیں۔
علما سے مراد فقیر عارف باللہ ولی اللہ ہیں۔ بیت:

عالم شدم از علم وحدت باخدا
علم بہر از وحدت است باطن صفا

ترجمہ: میں اللہ سے علم ِ وحدت حاصل کر کے عالم بن گیا ہوں۔ جو علم وحدت کی خاطر حاصل کیا جائے وہی باطن کو صاف کرتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْعُلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ    
ترجمہ: علما انبیا کے وارث ہیں۔

(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں